سمت پال،
نیو ایج اسلام
22 اکتوبر 2022
'کھو نہ جا اس سحروشام میں
اے صاحبِ ہوش/ایک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردہ ہے نہ دوش/صاحبِ ساز کو لازم ہے کے
غافل نہ رہے/گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش
-ڈاکٹر محمد اقبال، بعل جبریل
- Enas
Emt Compreha Biblio Ne Enst Nous
ایک عظیم لائبریری بھی مکمل علم
و حکمت فراہم کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
(ایک یونانی کہاوت، یونانی
فلسفی ڈائیوجینس سے منسوب)
ہر لمحہ سیکھنے کا لمحہ ہے اور
بچے کا ہر قدم حکمت کے حصول کی طرف ایک بہت بڑا قدم ہے۔ یہ اس وقت تک جاری رہتا ہے
جب تک آپ اپنی آخری سانسیں نہ لے لیں۔
- پشکن
کچھ سال پہلے، میں نے ایک پبلک
اسکول کی تعلیم یافتہ لڑکی کو اس کی 20 ویں سالگرہ پر ایک کتاب 'ہاؤ ٹو رائٹ اینڈ سپیک
فلاؤلیس انگلش' تحفے میں دی تھی۔ اس نے بعد میں مجھے بتایا کہ میرے والدین اس بات پر
ناراض ہوئے کہ آپ نے مجھے بہتر انگریزی لکھنے اور بولنے پر ایک کتاب تحفے میں دی کیونکہ
برصغیر کے ایک سب سے اعلیٰ ترین پبلک اسکول کی طالبہ ہونے کی وجہ سے میرے والدین کا
خیال یہ تھا کہ میری بیٹی کو مزید انگریزی سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے!
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس طرح
کے ایک مشہور اور انگلائزڈ اسکول کی فخریہ پیداوار ہونے کے ناطے، طلباء اور ان کے والدین
کو یہ غلط فہمی ہے کہ ہمارے پاس انگریزی کا مکمل علم ہے اور ہمیں اس میں مزید بہتری
لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ خوش قسمتی سے وہ لڑکی اتنی مغرور نہیں تھی اور اس نے اس
حقیقت کو دل و جان سے قبول کیا کہ اس اسکول کی طالبہ ہونے کے باوجود اور اچھی انگریزی
جاننے کے باوجود میری کتاب نے اس کی انگریزی کو بہتر بنانے میں بہت مدد کی۔ اس نے شکر
کے ساتھ مجھے بتایا کہ اب یہ کتاب میرے لیے میگنا کارٹا ہے اور جب بھی انگریزی میں
اصول و قواعد کے حوالے سے کوئی تشویش لاحق ہوتی ہے تو میں اسی کتاب سے رجوع کرتی ہوں۔
حصول علم ایک عمل مسلسل ہے۔ اس
کی کوئی انتہا نہیں۔ کیا ہمیں حسرت موہانی کا وہ مصرعہ یاد نہیں ہے، ’’ہوتا ہے اضافہ
غائیت علم میں، ہر نئے دن کے ساتھ‘‘ اب یہ اقتباس عام بول چال کی اردو میں تکیہ کلام
بن چکا ہے۔ انسان زندگی کے آخری لمحے تک علم حاصل کرتا رہتا ہے۔ بیآموز تا زندئی (سیکھنے
کی کوئی انتہا نہیں ہے) یہ ایک فارسی کہاوت ہے جو ایک طالب علم کو زندگی بھر تحریک
دیتی رہتی ہے۔
اپنے محدود علم اور سمجھ میں، ہم
یہ مانتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ علم حاصل کیا ہے وہ کافی ہے اور ہمیں مزید علم حاصل کرنے
کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب سے بڑی گمراہی ہے۔ اقبال کو یہ عادت تھی کہ وہ جہاں بھی جاتے
الموزین کی فارسی عربی لغت کو ساتھ لے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
کے عربی کے پروفیسر نے اقبال سے پوچھا کہ دونوں زبانوں پر حیرت انگیز عبور رکھنے کے
باوجود وہ آپ اتنی بھاری بھرکم لغت لیکر کیوں پھرتے رہتے ہیں؟ اقبال نے مسکرا کر کہا،
'میں ہر روز پانچ نئے الفاظ سیکھتا ہوں اور انہیں اپنی اردو/فارسی اور عربی شاعری میں
استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔' یہ ایک سچے علم کے متلاشی کی شائستگی اور ہر روز،
بلکہ ہر لمحہ کچھ نیا سیکھنے کی خواہش ہے۔
ہیملاک کا پیالہ پینے سے ایک دن
پہلے سقراط ایک ایسا آلہ موسیقی بجانے کی کوشش کر رہا تھا جسے اس نے پہلی بار دیکھا
تھا! اس وقت علم میں اضافہ ہوتا ہے جب مسلسل اس پر محنت کی جاتی ہے۔ صرف وہ لوگ جو
سطحی علم رکھتے ہیں اور خودسر انانیت کا شکار ہیں، وہی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے سب کچھ
سیکھ لیا ہے اور ہمیں مزید کچھ بھی سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
لہذا، جب بھی ہمیں مزید سیکھنے
کی حوصلہ افزائی اور نصیحت کی جائے تو ہمیں کبھی بھی توہین محسوس نہیں کرنا چاہیے۔
کیونکہ، سیکھنا زندگی ہے اور زندگی سیکھنے سے عبارت ہے۔ زمین پر ہمارے وجود کا صرف
ایک مقصد ہے: ہم جتنا علم حاصل کر سکتے ہیں حاصل کریں، کیونکہ زندگی مختصر ہے لیکن
فن طویل ہے۔ اپنے علم میں اضافے کا کوئی موقع نہ جانے دیں، چاہے اس کا ذریعہ کچھ بھی
ہو۔ طالب علم کی شائستگی علم حاصل کرنے میں ہمیشہ اس کی معاون ہوتی ہے اور اس کے ذہن
میں وسعت پیدا کرتی ہے۔ میرا اپنا اردو کا شعر اسے اچھی طرح بیان کرتا ہے: پڑتا ہے
جھکنا حاصل علم کے لیے/پنداری سے ذہن کی پرواز نہیں ہوتی۔
English
Article: Be Submissive In Order To Acquire Knowledge
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism