شاہ عالم اصلاحی
29 اگست، 2023
اس وقت ملک میں جس طرح کی
سیاست کی جارہی ہے وہ ملک کے لئے انتہائی خطرناک اور سیکولرزم کے لئے کھلا چیلنج
ہے، ملک کے عوام روزمرہ کے مسائل سے بری طرح پریشان ہیں لیکن ایسے وقت میں صرف
الیکشن جیتنے کیلئے آئین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں،سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے
باوجود سماج دشمن عناصر کے باوجود سماج دشمن عناصر منظم ہوکر سڑکوں پر آئین مخالف
اور سماج دشمن نعرے لگاتے ہیں، خواتین پرکھلے عام مظالم ڈھاتے ہیں، مسلم نوجوانوں
اور دلتوں کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا جاتا ہے، دانشگاہوں میں طلبہ کے ساتھ امتیاز ی
سلوک کیا جارہا ہے اور حکمران جماعت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
گزشتہ کچھ سالوں سے فرقہ
وارانہ تشدد کے پے درپے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ اس سے قبل سرزمین ہند نے اس طرح
کے دردناک مناظر کبھی نہیں دیکھے تھے جو پہلے کبھی دبی آواز میں کہاجاتا تھا اور
اب سرعام فخر یہ انداز میں کیا جارہا ہے۔عمومی طور پر یہ ضرور کہا جاسکتاہے کہ
سیاسی شکل میں نفرت ان دنوں ہمارے ارد گرد بھی نظر آنے لگی ہے اور اس کا واحدمقصد
پورے ملک کو دو قطیوں میں تقسیم کرنا ہے۔ ہندوستان میں، ہندوؤ ں کے متوازی،اسلام
کے علاوہ اقلیت کا درجہ رکھنے والے دیگر مذاہب ہیں جیسے سکھ، عیسائی، بدھ،جین
وغیرہ۔لیکن پورے ملک کو ہندو اور مسلمانوں کے عالم میں تقسیم کرنے کے پیچھے تخریبی
ذہنیت پوری طرح سرگرم ہے۔کسی تنازعہ کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے بجائے جرائم
پیشہ گروہ کی طرح حملہ کرنے والوں کو یہ احساس کیسے او رکہاں سے مل رہاہے کہ دہشت
گردی کی ایسی کارروائیوں کے باوجود انہیں کچھ نہیں ہوگا۔یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی
مسلمان کو سڑکوں پر ماراپیٹا جائے یا گڑگاؤ ں میں کسی مسلمان کے گھر پر یا مسجد میں
امام کا قتل آر ایس ایس یا اس سے وابستہ کسی تنظیم نے منظم یا منصوبہ بند طور پر
نہ کیا ہو۔لیکن اگر منصوبہ بندی کے مطابق ایسا نہ ہوا او رکچھ شرپسندعناصر تلوار،
نیزے، لاٹھی ڈنڈے وغیرہ سے حملہ کردیں تو کیا یہ زیادہ پیچیدہ صورت حال نہیں؟ عام
شہریوں کی معمول کی زندگی گزارتے ہوئے لوگ ایسی پرتشدد اور نفرت سے بھری دہشت پیدا
کرنے میں کیسے ملوث ہورہے ہیں؟ دراصل فرقہ وارانہ تعصب کا جس طرح زہر حکمراں جماعت
کے سرکردہ لیڈروں کے بیانات میں کھل کر نظر آتاہے کیا وہ اثر کیے بغیر رہ سکتاہے؟
کیا یہ کہنا غلط ہوگا کہ شرپسندوں کے آقاؤں کا ایجنڈا ہی ہے کہ ایسے واقعات کو ہوا
دی جائے تاکہ خود بخود ایسے واقعات مختلف جگہوں پرہونے لگیں۔معاشرے کے اکثر افراد
کے سوچنے کے عمل میں ایسی رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہیں کہ نفرت کی ہوا بن جانے کے
بعد ان کے لئے کچھ سوچنا بھی ممکن نہیں رہا او ریہی وجہ ہے کہ کسی کو بھی پکڑ نے
میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، اسے ہجوم میں،معمولی بات پر یا بغیر کسی وجہ کے
مارڈالتے ہیں۔اس تہذیب کی تباہی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ جس میں عام لوگوں کو
اس طرح پالا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی جانور کے نام پر لوگو ں کو پیٹ پیٹ کر مارنے
سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ مگر افسوس میں سماجی نظام کو چلانے والے بخوبی جانتے ہیں
کہ شرپسندوں کے تحفظ کے لئے وقتاً فوقتاً براہ راست تقریبات کا انعقاد کیا
جاناچاہئے۔یہی وجہ ہے کہ کبھی لیڈر کے منہ سے اپنے جرائم کو جواز بنا کر بیانات
جاری ہوتے ہیں او رکبھی کسی جانور کے نام پر کسی کو مارنے والے قاتلوں کاکسی وزیر
سے استقبال کرایا جاتاہے۔ جس کی وجہ سے ایسے لوگوں کا حوصلہ برقرار رہتاہے اور
سماجی حکمراں اس کاحتمی نتیجہ حاصل کرتے رہتے ہیں۔بدتمیز ی اور بربریت کا یہ
کاروبار محض ا س لیے جاری ہے کہ سماج کے لوگ اپنے حقیقی حقوق کے بارے میں سوچنے کے
بھی حقدار نہ رہیں۔ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب نفرت اور تشدد کو سماج کے کردار کے طور
پر بلا خوف وخطر پیش کیا جارہاہے، اسی دور میں دلت محروم ذاتو ں کے وطبقات کی
شمولیت کیلئے آئینی طور پردیے گئے ریزرویشن کے نظام کی الگ سے بات کی جاتی ہے۔ مختلف
انداز سے کمزور کردیا گیا ہے۔ملازمتوں تک رسائی اور تعلیمی نظام کو اتنی مکاری سے
محدود کردیا گیا ہے تاکہ صرف اعلیٰ ذاتوں، امیروں وسرمایہ داروں کے لئے آرام وہ
جگہ کو یقینی بنایا جاسکے۔ ان تمام سوالوں کو دفن کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نفرت
اور زہر کو سیاسی نام دے دیا جائے تاکہ کسی کے ذہن میں کچھ سوچنے کی بات ہوتو وہ
بھی سامنے آجائے۔
اس سیاق میں مدھیہ پردیش
کے ساگر میں ایک دلت نوجوان کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنے کی انسانیت سوز واقعہ کو بہ
آسانی سمجھا جاسکتاہے۔کسی طرح دلت کو بچانے کے لئے پہنچی اس کی بوڑھی ماں کو
زدوکوب کرکے برہنہ کردیا گیا جس سے پورے ملک میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے۔ایسا لگ رہاہے
کہ بی جے پی نے مدھیہ پردیش کو دلت مظالم کی تجربہ گاہ بنا دیا اور جہاں بھی دلتوں
کے خلاف جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے وہاں بی جے پی برسراقتدار ہے جو ڈرا دھمکا کر
سماج کے محروم اور استحصال زدہ طبقات کو اپنے دام فریب میں لے کر ان کا منہ بند
رکھنا چاہتی ہے مگر وہ نہیں جانتی ہے کہ کرناٹک میں ریاستی حکومت نے اپنا قدم
بچانے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کیے مگر اسے کچھ کام نہیں آیا اور ریاست کے عوام نے
بتا دیا کہ دلوں کو پیار و محبت سے جیتا جاسکتاہے نفرت سے ہر گز نہیں۔ اس واقعہ کے
منظر عام پرآنے کے بعد پولیس نے 9 نامزد اور چار دیگر ملزمین کے قتل سمیت دیگر
دفعات میں مقدمہ درج کرلیا اور پولیس کے مطابق کلیدی ملزم سمیت دیگر 8 ملزمین اس
کی گرفت میں ہیں۔ کچھ دنوں پہلے مدھیہ پردیش کا وہ واقعہ بھی یاد ہوتا جس میں ایک
انسان ایک انسان کے اوپر پیشاب کرکے اپنی بدبودار ذہنیت کی تسکین کے لئے اس حد تک
گرجائے گا اس ترقی یافتہ دور میں اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا اور وہاں دلت اور
پسماندہ افراد پہ ظلم کرنے کو کچھ لوگوں نے اپنا شعار بنالیاہے۔ تو کہیں انتظامیہ
او رپولیس کی موجودگی میں کھلم کھلا دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ایک خاص فرقے کو نشانہ
بنا کر عرصہ حیات تنگ کیا جاتاہے او رنہ جانے کن کن القاب سے انہیں پکارا جاتاہے
او رکیسے کیسے نعرے لگائے جانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مہاپنچایت بلا کر خفیہ
میٹنگیں کرکے بائیکاٹ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح کامعاشرہ بناتے
وقت کیا کسی نے بھی ہندوستان کے آنے والے دنوں کی تصویر کے بارے میں سوچنا بھی
ضروری نہیں سمجھا،جب محرومی کی زندگی گزارنے والے لوگوں کو احساس ہوگاکہ کچھ عرصے
کے لئے ان کے جنون میں ان سے کیا چھین لیا گیاہے اور اب انہیں ایک بار پھر حاصل
کرنا ہے تو پھر شرپسندوں کی ساری محنت پرپانی پھر جائے گا۔ شرپسندوں کو ملی آزادی
کو دیکھ کر یہ کہنا برمحل ہوگا کہ ملک تیزی سے خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا اور
عدالتوں کے احکامات کو بے اثر کیا جارہاہے جس کے بعد لوگوں کے پاس مزاحمت کے علاوہ
دیگر راستے تنگ ہوتے نظر آرہے ہیں۔ایک طرف بھارت میں حکمراں ٹولہ فرقہ پسندعناصر،ان
کے اتحادی اور نام نہاد ثقافتی تنظیموں کی مدد سے ایساماحول بنایا جارہا ہے تاکہ
نفرت اور تشدد کی سیاست کی لپیٹ میں آکر اپنی روز مرہ کی ضروریات میں مصروف لوگ
بھی منفی ڈگر پر چلنے لگیں۔ حکمراں طبقہ کو نیوزی لینڈ سے سبق لیناچاہئے جہا ں
مسجد پر حملے میں 50 افراد کی ہلاکت کے بعد وزیر اعظم جیسنڈ آرڈرن نے تمام متاثرین
او رکمیونٹی کے تئیں عوامی سطح پر حساسیت کا مظاہرہ کرکے دنیا کو چونکا دیا جس کی
مثالیں نہیں ملتی۔
سوال یہ ہے کہ گاندھی جی
کے عدم تشدد کے ملک میں لوگ کب ہوش میں آئیں گے؟ اور وہ پھر سے نفرت کی سیاست کی
ٹھوکریں کھا کر عدم تشدد،محبت اوربھائی چارے کا راستہ اپنائیں گے۔ وہ راستہ جوملک
کے مجاہدین نے ہموا ر کیا تھا، جس پر چلتے ہوئے آج ہندوستان کا شمار دنیا کے
طاقتور ممالک میں کیا جارہا ہے۔نفرت کی سیاست کبھی کامیاب نہیں ہوئی او رنہ ہوگی۔
لیکن اس کیلئے ہرہندوستانی کو وہ طریقہ اختیار کرنا ہوگا جو مجاہدین آزادی نے ہمیں
دکھایا اور جس پرعمل کر کے ہم نے دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت کو شکست دی۔
29 اگست،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism