سیدجلال الدین عمری
(حصہ اول)
4 اگست 2023
کسی نظام کو جو نظریات
وجود میں لاتے ہیں، ان کو جانے بغیر اس نظام کی تفصیلات کا سمجھنا دشوار ہے۔ وجہ
یہ ہے کہ ان ہی سے اس نظام کی ہیئت متعین
ہوتی ہے، اس کا مزاج بنتا ہے ، معاشرتی و سماجی اور تہذیبی و تمدنی حقوق مقرر ہوتے
ہیں۔ غرض یہ کہ ان ہی کی بنیاد پر زندگی کا سارا ڈھانچہ تیار ہوتا ہے اور افراد کے
ساتھ سلوک کیا جاتا ہے۔ اسلئے اسلامی معاشرہ میں عورت کی حیثیت، مرتبہ و مقام ،
اسکے حقوق و اختیارات اور فرائض و واجبات کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلےعورت کے
بارے میں اسلام کے تصورات سے واقفیت حاصل کی جائے تاکہ ان کی روشنی میں تفصیلات کا
مطالعہ کیا جاسکے۔ اس ضمن میں درج ذیل نکات غور طلب ہیں:
(1) انسان
محترم ہے
اگر آپ اسلام کی تعلیمات
کا لب لباب دریافت کرنا چاہیں تو اس کا جواب ایک جملہ میں دیا جاسکتا ہے کہ ’’وہ
انسان کی عظمت و سربلندی کی دعوت ہے۔‘‘ وہ انسان کو زوال و اِدبار کی پستیوں سے
اٹھا کر رفعت و بلندی کے ایک ایسے اعلیٰ مقام پر پہنچانا چاہتا ہےجو حد ِ ادراک سے
بھی بہت آگے ہے۔
وہ عزت ِ نفس اور عظمت ِ
آدمیت کا درس دیتا ہے۔ وہ خدائے واحد کی بندگی کی طرف بھی اس لئے بلاتا ہے تاکہ
انسان ایک در پر اپنا سر ِ نیاز جھکا کر کائنات کی تمام مخلوق کے مقابلہ میں
سربلند ہوجائے۔ اسلام کی نگاہ میں انسان من حیث الانسان اپنی خلقت اور صفات کے لحاظ سے خامۂ فطرت کا ایک عظیم
شاہکار ہے۔ وہ اپنی ظاہری صورت اور باطنی خصوصیات دونوں کے اعتبار سے کائنات کی
ایک مکرم و محترم ہستی ہے جس کے شرف و مجد اور فضیلت و بزرگی کا مقابلہ دنیا کی
کوئی مخلوق اور کوئی قوت نہیں کرسکتی:
’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں
خشکی و تری میں (قطع ِ مسافت کے لئے) سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے
رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی۔‘‘ ( سورہ بنی اسرائیل:۷۰)
’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔‘‘ (سورہ التین:۴)
’’جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا : میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا
ہوں ،پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے
آگے سجدے میں گر جاؤ۔اس حکم کے مطابق فرشتے سب کے سب سجدے میں گر گئے مگر ابلیس
نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا ، تو اللہ نے فرمایا :اے
ابلیس، تجھے کیا چیز اُس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے
بنایا ہے؟ تو نے گھمنڈ کیا یا تو بہت بڑے درجہ والا ہے؟‘‘ (سورہ ص:۷۱؍تا
۷۵)
یہ اور اس قسم کی بہت سی
آیات نے صحیح معنوں میں دنیا کو انسان کی حقیقی عظمت کا احساس دلایا اور بتایا کہ
وہ اپنے مقصد ِ وجود اور جبلّی خصوصیات کے
لحاظ سے اس سے کہیں ارفع و اعلیٰ ہے کہ اس کی طرف حقارت کی نگاہ اٹھائی جائے اور
اس کے ساتھ کوئی ایسا سلوک روا رکھا جائے جس سے اس کے تفوق و برتری کو دھکا لگے۔
اگر کوئی شخص اس ضابطہ کے خلاف قدم اٹھاتا ہے تو وہ خدا کے عطاکردہ احترام و عزت
کو چیلنج کرتا ہے اور ایک ایسے قانون پر حرف گیری کا مرتکب ہوتا ہے جس کا ایک ایک
شوشہ تنقید سے بالاتر ہے اور جس کے ہر ہر حرف پر صحت و صداقت کی مہر ثبت ہوچکی ہے۔
(2) معیار
ِ بزرگی: ایمان و عمل
اس تصور کو تسلیم کرنے کے
بعد انسان (خواہ مرد ہو یا عورت) کی عظمت فرش ِ خاک سے بلند ہو کر کائنات ِ مہ و
انجم سے بھی کہیں آگے نکل جاتی ہے اور اسے قدرتی طور پر ایک ایسا اونچا مقام حاصل
ہوجاتا ہے کہ فکر و نظر کیلئے جس سے بڑھ کر بلندی کا تصور ممکن نہیں ہے، الّا یہ
کہ وہ اپنے فکر و عمل سے خود کو اس بلندی کا نااہل ثابت کر دے، پھر تو دنیا کی
کوئی قوت اسے عزت و رفعت نہیں دے سکتی۔
اسلام کے نزدیک انسان کی
فلاح و خسران، سلامتی ٔ فکر اور درستی
ٔ عمل کے
ساتھ وابستہ ہے۔ وہ ان نظریات کو جاہلانہ نظریات سمجھتا ہے جو عورت کو محض
عورت ہونے کی وجہ سے ذلیل تصور کرکے انسانیت کی بلند ترین سطح سے دور پھینک دیتے
ہیں اور مرد کو محض اس لئے ’’عرش بریں‘‘ کا حقدار خیال کرتے ہیں کہ وہ مرد
ہے۔اسلام نے صاف اور غیرمبہم الفاظ میں واضح کردیا کہ عزت و ذلت اور سربلندی و
نگوں بختی کا معیار صلاح و تقویٰ اور سیرت و اخلاق ہے ، جو اس کسوٹی پر جتنا کھرا
ثابت ہوگا اتنا ہی خدا کی نگاہ میں قابل ِ قدر اور مستحق اکرام ہوگا:’’جو شخص بھی
نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشر طیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں
پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کا اجر ان کے بہترین
اعمال کے مطابق بخشیں گے ۔‘‘ (سورہ النحل:۹۷)
’’بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان
ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں،
روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے
یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کیلئےمغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے ۔‘‘ (سورہ
الاحزاب:۳۵)
’’پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول کی کہ میں تم میں سے کسی کا عمل
ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو لہٰذا
جن لوگوں نے میری خاطر اپنے وطن چھوڑے اور جو میر ی راہ میں اپنے گھروں سے نکالے
گئے اور ستائے گئے اور میرے لیے لڑے اور مارے گئے اُن کے سب قصور میں معاف کر دوں
گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ اُن کی
جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہترین جزا اللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘ (سورہ آل عمران: ۱۹۵)
یعنی نوع ِ انسانی کے
دونوں اصناف میں سے جو صنف بھی اپنے نامہ ٔ اعمال کو پاکیزگی ٔ کردار سے جلایاب
کرلے، سرخروئی اور کامیابی اس کے لئے مقدر ہوچکی ہے۔ خالق کائنات کی جانب سے یہ
سوال نہیں کیا جائے گا کہ تمہارا تعلق کس طبقہ اور کس صنف ِ انسانی سے تھا،
لیکن اگر کوئی اپنی کتاب ِ زندگی کو اعمال
ِ بد سے سیاہ کرچکا ہے تو سربلندی و بامرادی کی اسے توقع نہیں رکھنی چاہئے، خواہ
وہ مرد ہو یا عورت۔
’’وہ اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے، اُس کی بندگی بجا لانے والے، اُس کی تعریف کے گن گانے
والے، اُس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اُس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے،
نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے، اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے،
اور اے نبیؐ ان مومنوں کو خوش خبری دے دو ۔‘‘ (سورہ التوبہ:۱۱۲)
ایک دوسرے مقام پر ازواجِ
مطہرات کو اپنے اندر بعیٖنہ ان ہی صفات کے پیدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور کہا
گیا ہے کہ ان صفات کے بغیر وہ نبی کے حبالۂ عقد میں نہیں رہ سکتیں اور نبی کو بڑی
آسانی سے ایسی بیویاں مل جائیں گی جو ان اوصاف سے متصف ہوں گی ۔ ارشاد ہوا:’’اگر
وہ تمہیں طلاق دے دیں تو عجب نہیں کہ اُن کا رب انہیں تم سے بہتر ازواج بدلہ میں
عطا فرما دے (جو) فرمانبردار، ایماندار، اطاعت گزار، توبہ شعار، عبادت گزار، روزہ
دار ہوں گی جو بیاہی ہوئی اور دوشیزہ دونوں طرح کی ہوسکتی ہیں۔‘‘ (سورہ التحریم:۵)
4 اگست 2023 ،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism