عادل فاروق، نیو ایج اسلام
17 نومبر 2021
روحانیت باطنی تطہیر کا عمل
اور خدا کی معرفت کی جستجو سے عبارت ہے۔
اہم نکات
1. عالم مغرب میں روحانیت اکثر یوگا، مراقبہ اور اس طرح کے دیگر معمولات
کو مان لیا گیا ہے
2. اس دنیا میں زندگی کا واحد مقصد خدا کی معرفت حاصل کرنا ہے
3. روحانیت درحقیقت صرف خدا کے منتخب بندوں کے لیے ہے جنہیں وہ خاص
طور پر اپنے راستے کے لیے چن لیتا ہے
------
جب آپ روحانیت کے بارے میں
سنتے ہیں تو آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟ عالم مغرب میں روحانیت اکثر یوگا، مراقبہ اور
ذہنی سکون حاصل کرنے والے ایسے ہی دیگر معمولات کو مان لیا گیا ہے۔ میں اس سے انکار
نہیں کرتا کہ داخلی سکون روحانیت کا ثمر ہے، لیکن یہ روحانیت نہیں ہے۔ اسلام میں روحانیت
کی اِنتہائی جامع اور وسیع تفہیم پائی جاتی ہے۔ کسی بھی چیز کے روحانی ہونے کا معیار
پہت اعلی ہے۔
روحانیت باطن کی تطہیر، خدا
کی معرفت، باطل علم سے پردہ کشائی، حکمت کے حصول، اخلاق کی بلندی، اخلاقیات میں کمال
اور اصلاح نفس سے عبارت ہے۔ یہ ایک ایسا سفر ہے جس میں آپ آہستہ آہستہ حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کی قربت حاصل کرتے ہیں۔ روحانیت کا اصل مقصد اپنے ارادوں کو اس حد تک پاک
کرنا ہے کہ آپ کا ہر عمل صرف اپنے خالق کو خوش کرنے کے لیے ہو۔ یہ دنیاوی، انا پرست،
خود غرض اور مادی خواہشات سے نجات کا نتیجہ ہے۔ مذہب تو یہ کہتا ہے کہ اگر نیت میں
اخلاص نہ ہو تو کسی ملک کو جنم دینے جیسا بڑا عمل بھی بے سود ہے۔ آپ کو اپنی آخری سانس
تک مسلسل نفس کے مضبوط حملوں سے لڑنا اور اسے زیر کرنا ہے۔
روحانیت کسی روحانی استاد،
سرپرست، رہنما کے بغیر تقریباً ناممکن ہے۔ کیوں؟ کیونکہ انسانوں کے پاس نفس ہے جو کہ
ایک ایسا پر فریب، طاقتور اور پیچیدہ وجود ہے کہ انسان تعصب، تنگ نظری اور رواداری
کے بغیر اپنے عمل کا معروضی تجزیہ اور فیصلہ نہیں کر سکتا۔ جو شخص روحانیت میں بہت
آگے نکل چکا ہو وہی خود کو بجا طور پر بتا سکتا ہے کہ اس نے کوئی بھی کام کیا تو کیوں
کیا اور اس کی وجہ کیا تھی۔ صرف وہی شخص جو اس نازک راہ پر میلوں فاصلے طے کر چکا ہو
وہی اس بات کا تعین کر سکتا ہے کہ آیا اس کا دل، دماغ اور روح روحانیت کے مطابق ہے
یا نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ شیطانی چال اتنا شاندار اور دلفریب ہوتا ہے کہ کوئی عظیم
روحانی شخص ہی بتا سکتا ہے کہ اس نے دھوکہ کھایا ہے یا نہیں۔
مذہب کے بغیر کوئی روحانیت
نہیں ہے۔ عالم مغرب میں بے شمار لوگ خود کو "روحانی مگر لا مذہب" قرار دیتے
ہیں۔ جبکہ آپ مذہبی تو ہو سکتے ہیں لیکن یہ کوئی ضروری نہیں کہ روحانی بھی ہوں۔ تاہم،
آپ مذہبیت کے بغیر روحانی نہیں ہو سکتے۔ یہ غلط فہمی اس لیے پیدا ہوئی کہ لوگوں نے
کچھ مثبت خصلتوں کو روحانیت کی علامت سمجھ لیا۔ محبت، عفو و درگزر، ہمدردی، دیانتداری،
عاجزی، سخاوت، صبر، انکساری، سادگی، رواداری، خلوص، قربانی، استقامت اور بے خوفی روحانی
صفات ہیں اگر یہ سب درست عقیدے کے ساتھ ہوں۔ یہ صفات صرف از خود روحانیت کی اہل نہیں
ہیں کیونکہ ایک ملحد بھی ان کا حامل ہوسکتا ہے۔ مزاج اور روحانیت میں بہت بڑا فرق ہے۔
ایک انسانیت نواز مرد جو مومن نہیں ہے اس کا مقصد، نفسیات اور اس کی ترغیب ہو سکتی
ہے کہ دوسروں کے لئے حقیقی ہمدردی پر مبنی ہو، جو کہ قابل تعریف ہے۔ تاہم، اس کا موازنہ
کسی صوفی کی انسانیت نواز کوششوں سے نہیں کیا جا سکتا جو صرف اور صرف خدا کی خوشنودی
حاصل کرنے کے خالص ارادے پر مبنی ہے۔
روحانیت اس وقت حاصل ہوتی
ہے جب آپ اپنی خواہشات، چاہت، عزائم، اہداف، خواب، اور جذبے کو ایک اعلیٰ مقصد، اعلیٰ
ہستی اور اعلیٰ منصوبہ کے لیے قربان کر دیں۔ اس سلسلے میں آپ کے پاس تین راستے ہیں۔
آپ اپنے مقاصد سے باز نہیں آتے اور روحانیت سے دور رہتے ہیں۔ انہیں چھوڑ دیں اور روحانیت
کی طرف متوجہ ہو جائیں، خدا خود ہی آپ کے تمام منصوبوں کو تباہ کر دے گا اور آپ مجبورا
روحانیت کے راستے پر چل پڑیں گے۔ زیادہ تر لوگ روحانیت کے راستے پر اس لئے بھی نہیں
چلتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے پر انہیں "اپنی مرضی، فیصلے، رائے،
پسند و ناپسند کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی اور مرضی صرف اللہ کی ہی ہوگی۔"
آسان لفظوں میں کہا جائے تو آپ اہم نہیں ہیں؛ صرف وہی (اللہ) سب سے زیادہ اہم ہے۔
روحانیت کے غیر مقبول ہونے
کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے بے شمار مصائب، سانحات، ناکامیاں، مایوسیاں اور حسرتیں
ہاتھ آ سکتی ہیں، اور ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا نہیں چاہتا۔ اس میں
درد ہی درد کیوں ہے؟ ایک عظیم روحانی پیشوا رومی کا کہنا ہے، "زخم وہ ہے جہاں
سے روشنی داخل ہوتی ہے۔" ہم نہیں چاہتے کہ ہماری انا کو ٹھیس پہنچے کیونکہ نفسیاتی
اور جذباتی طور پر یہ ایک تکلیف دہ تجربہ ہوتا ہے۔ روحانیت اس وقت تک حاصل نہیں ہو
سکتی جب تک کہ آپ کی انا تباہ نہ ہو جائے - ایک بار نہیں، دو بار نہیں، تین بار نہیں
- حقیقت میں ہزار بار۔ چونکہ انسان فطرتاً انتہائی انا پرست مخلوق ہے، اس لیے آپ کوئی
ایسا نظریہ نہیں بانٹ سکتے جو انا سے خالی ہو۔
اب کسی بھی عقلمند انسان کے
ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے اس راہ میں اتنی تکلیفیں اور اس قدر جانفشانیاں کیوں
اٹھانی پڑتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں خود زندگی کے اصل مقصد اور حقیقی معنی کو
سمجھنا ضروری ہے۔ مذہب یہ سکھاتا ہے کہ اس دنیا میں ہماری زندگی کا واحد مقصد خدا کی
حقیقی معرفت حاصل کرنا ہے۔ انسان اور خدا کے درمیان بے شمار حجابات ہیں۔ ان حجابات
کو چاک کرنے کی ضرورت ہے اس سے قبل کہ ہم کسی بھی چیز کی حقیقت جان سکیں۔ یہ پردے اس
غلط علم کی وجہ سے موجود ہیں جو ہم بچپن سے ہی تعلیم، والدین، معاشرے، موٹیویشنل اسپیکرز
اور بڑے پیمانے پر فروخت ہونے والے مصنفین کی کتابوں سے سیکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں
ایسے نقطہ نظر، تصورات، تعریفات، نظریات اور آراء دی ہیں جو روحانی حکمت کے خلاف ہیں۔
ہم آنکھیں بند کرکے ان کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ وہ ہماری خواہشات کی تکمیل اور تائید
کرتے ہیں۔ ہم انہیں تنقیدی نظر سے کبھی نہیں دیکھتے کہ وہ حقیقت میں مذہب کی روح کے
مطابق ہیں یا نہیں۔
سچائی کے متلاشیوں کو کیوں
تکلیف ہوتی ہے؟ ہر چیز کے گہرے، پوشیدہ، صوفیانہ اور خفیہ معانی انہیں اس وقت عطا کیے
جاتے ہیں جب ایک ایک کر کے ان کے غلط معتقدات حقیقی زندگی کے تجربات کی زد سے بکھر
جاتے ہیں اور ان پر یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ جو کچھ انہوں نے اس سے سوچا اور سمجھا تھا
وہ غلط تھا۔ بلکہ قرآن و سنت جو کہتی ہے وہی اصل چیز ہے۔ ایک متوسط مومن قرآن حدیث
کی باتوں کو صرف زبانی طور پر مانتا ہے، جبکہ ایک روحانی شخصیت حالات، معاملات اور
واقعات کے تسلسل سے گزرتا ہے جن کی وجہ سے اس کے پاس اس بات کی تصدیق کرنے کے سوا کوئی
چارہ نہیں بچتا جو مذہب کئی صدیوں پہلے بیان کر چکا ہے۔ اسے ہی حقیقی معنوں میں ایمان
کہتے ہیں۔ اس درجے کا ایمان کتابیں پڑھنے، خطبات سننے، علمی مطالعہ اور علمی مشاغل
سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ بلکہ یہ تب ہی ممکن ہے جب آپ کسی ایسی غیر معمولی چیز سے گزر
چکے ہوں جو دنیاوی حکمت کے خلاف ہو اور جو اسباب و علل کے رجحان کو چیلنج کرتا ہو۔
اکثر لوگوں کا یہی خیال ہے کہ ہر چیز کے پیچھے سبب و علت ہے۔ تاہم، ایک روحانی شخصیت
اس کا انکار کرتی ہے اور اسے اس بات کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ ایک پتی بھی خدا کی مرضی
کے بغیر نہیں ہلتی۔
یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے
کہ جس پر ڈرائنگ روم میں بحث و مباحثہ کیا جائے۔ اسے دل اور روح کی گہرائیوں سے تجربہ
کیا، چکھا، گزرا، اور سمجھا جاتا ہے۔ ایک عام آدمی کو روحانیت کا راز بتانا حماقت ہے
کیونکہ وہ اپنے دماغ کے تابع ہے جو منطق، سائنس اور فلسفے کے ذریعے روحانیت کو نہیں
سمجھ سکتا۔ صرف اپنے خالق کے ساتھ ایک حقیقی تعلق اور نسبت کی بنیاد پر آپ اسے صحیح
طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بہت غیر مقبول ہے کیونکہ دور جدید میں بہت
سے لوگوں کا اللہ تعالیٰ سے اس قدر خالص اور قوی تعلق نہیں ہے۔ یہ تعلق کسی بھی یوگا،
مراقبہ، یا فلاح و بہبود کے کاموں سے بہت بلند و برتر ہے۔ یہ آپ کو بغیر کسی یوگا،
مراقبہ یا صحت مند ورزش کے داخلی سکون فراہم کرے گا۔ عالم مغرب والی روحانیت صرف اسی
مادی دنیا میں اچھی زندگی کی ضمانت دے سکتی ہے۔ یہ آپ کو موت کے بعد کی ابدی زندگی
میں کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا، جو مذہب کا کام ہے۔ جہان مغربی روحانیت دم توڑ دیتی
ہے وہاں سے اسلامی روحانیت کی ابتداء ہوتی ہے۔
روحانیت کے اس قدر غیر مقبول
ہونے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہم ساری زندگی کامیابی،
کامرانی، کارنامے، گلیمر، رونق، خوشحالی، چمک دمک، پیسہ، طاقت، غلبہ، شہرت اور پہچان
کے بارے میں ہی سنتے رہتے ہیں۔ یہ تمام الفاظ سراسر دنیاوی اصطلاحات ہیں۔ ہم ایک ایسے
معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ہماری پوری قدر، قیمت، اہمیت، ذہانت، قابلیت، علم اور احترام
کا فیصلہ زندگی کے ان نام نہاد مثبت پہلوؤں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، کیونکہ اس سے
ہماری انا کو پوری طرح تسکین حاصل ہوتی ہے۔ کوئی بھی دوسرے کی نظروں میں ناکام نہیں
ہونا چاہتا۔ روحانیت میں اس کے برعکس ہے۔ ہماری دنیاوی ناکامیاں ایک اثاثہ ہیں کیونکہ
اسی سے ہماری انا کمزور ہوتی ہے۔ ان ناکامیوں سے ہمارا جھوٹا غرور ٹوٹ جاتا ہے۔ لہذا،
روحانی نقطہ نظر سے یہ ایک نعمت ہے؛ یہ حقیقی کامیابی کی نشانی ہے جس کا احساس ہمیں
قیامت کے دن ہی ہوگا۔ تاہم، یہ خیال کسی کو بھی پسند نہیں ہے کیونکہ ہم کسی بھی قیمت
پر اپنی انا کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا آپ روحانیت کی طرف دوسروں کو متوجہ نہیں
کر سکتے۔
روحانیت درحقیقت صرف خدا کے
چنے ہوئے لوگوں کے لیے ہے جنہیں وہ خاص طور پر اپنے راستے پر چلنے کے لیے منتخب کر
لیتا ہے۔ صرف قسمت والے ہی خلوص کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔ صرف اس کی صوابدید پر، بہت
کم لوگوں کی روح اتنی بہتر اور عمدہ ہوتی ہے۔ اس تلاش میں انسان لوگوں کی نظروں سے
غائب خدا پر اپنا مکمل انحصار دیکھتا ہے۔ چونکہ یہ عقل کی بجائے محبت کا کھیل ہے اس
لیے یہ صرف محبوب کے لیے ہے۔ یہ بے لوث عقیدت، دل شکستگی، غیر مشروط خوبی، اور نہ ختم
ہونے والی لچک کا سفر ہے۔ یہ ہوشیاری کے بجائے سچائی کا امتحان ہے۔ یہ ایک ایسے شخص
کی کہانی ہے جو فرشتوں کی پہنچ سے باہر کی خصوصیات کو اپناتا ہے۔ ایک کہانی ہے کہ جب
فرشتوں نے انسان کی تخلیق کی مخالفت کی تو خدا نے ان کی بات کیوں نہیں سنی۔ جب آپ اللہ
کی محبت کو جان لیں گے، تو آپ کے پاس اس سے بہتر کام کچھ بھی نہیں ہو گی!
English
Article: "What Is Spirituality? Why Is It So
Unpopular?"
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism