جمال رحمان، نیو ایج
اسلام
7 جون 2021
روحانی ریاضت ہماری روح
کی پرورش کرتی ہے، ہمیں خدا کے قریب لاتی ہے، اور ہمارے وجود کی تکمیل میں ہماری
مدد کرتی ہے۔
اہم نکات:
· ہمیں اپنی روح کو
بھی غذا فراہم کرنا چاہیے تاکہ اس کی ضروریات پوری ہو سکیں۔
· ایک حقیقی انسان
وہ ہے جو مسلسل الوہیت کو اپنے شعور کے مرکز میں رکھتے ہوئے زندگی کے بازار میں مکمل
طور پر حصہ لیتا ہو۔
-----
ہمیں روحانی ریاضت میں
مشغول ہونے کی ضرورت کیوں ہے؟ لیکن پہلے ہم یہ طے کر لیں کہ روحانی ریاضت کی تعریف
کیا ہے؟ میری سمجھ میں، روحانی ریاضت کسی بھی ایسی باقاعدہ سرگرمی کو کہا جا سکتا
ہے جو ہماری روح کی پرورش کرتی ہے، ہمیں خدا کے قریب لاتی ہے، اور ہمارے وجود کی
تکمیل میں ہماری مدد کرتی ہے۔ ہمیں اپنے شعور کی تعمیر کے لیے روحانی ریاضت کی
ضرورت ہے۔ اور روحانی معمولات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے!
ہمارا جسم مادی ہے اور
ہماری ضروریات بھی مادی ہیں۔ ہم اپنے مادی جسم کو کھانا کھلانے اسے پروان چڑھانے
اور اپنی مادی ضروریات کا خیال رکھنے کے لیے تجارت سیکھنے اور روزی کمانے میں
زیادہ تر وقت صرف کرتے ہیں۔ یقیناً ہمیں اپنے جسم اور اپنی جسمانی ضروریات کا خیال
رکھنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ ضروری بھی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ "ہم اپنی روح کو
غذا فراہم کرنے کے لیے اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے
کیا کر رہے ہیں؟ ہم اپنے اعلیٰ نفس کی پرورش کرنے اور اسے پروان چڑھانے کے لیے کیا
کر رہے ہیں؟‘‘
اور روح کس چیز سے ‘‘غذائیت حاصل کرتی ہے’’؟ اسے خاموش مراقبہ،
ہمدردانہ آگاہی اور اعمال، یاد خدا، معاف کرنے کی صلاحیت میں اضافہ، دعا، اور ایسے
ہی دیگر معمولات سے 'غذائیت حاصل ہوتی ہے'۔ اپنی روح کو صحت مند رکھنے کے لیے ان
باتوں کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں شامل کرنا بہت ضروری ہے۔
صوفی اور سنت سادھو ہمیں بتاتے ہیں کہ اگر ہم واقعی
زندگی میں خوشی اور آسودگی چاہتے ہیں تو ہمیں مادی دنیا اور غیر مادی دنیا دونوں
پر یکساں توجہ دینا چاہیے۔ اگر میں کہوں، "میں ایک حقیقت پسند ہوں اور صرف
نظر آنے والی دنیا میں کام کرتا ہوں"، تو صوفی اور سنت کہیں گے، "اچھا، تو تم ایک بدبخت
ملازم سے زیادہ کچھ نہیں ہو۔" اور اگر آپ صرف روحانی دنیا کو سنوارنے میں لگے
رہتے ہیں اور اپنا سارا وقت روزے، نماز اور مراقبہ میں صرف کرتے ہیں، تو صوفی و
سنت کہیں گے، "تم یہاں کیوں ہو، زمین پر؟ اور تمہارا یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟"
لہذا، ہمیں دونوں جہانوں،
یعنی مادی دنیا اور غیر مادی دنیا کو سنوارنے کی ضرورت ہے۔
مجھے 13ویں صدی کے صوفی
مولانا جلال الدین رومی کا استعارہ پسند ہے، جو کہتے ہیں کہ ہم اس مانوس گھوڑے پر
سوار ہیں یعنی مادی دنیا کا گھوڑا۔ ہمیں لمبا سفر طے کرنے اور دشوار گزار گھاٹیوں
کو عبور کرنے کے لیے اس گھوڑے کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا ہوگا اگر ہم پانی کے کسی ایسے
خطے کے پاس پہنچیں جو اتنا بڑا اور اتنا گہرا ہے کہ اس گھوڑے کے لئے تیر کر پار
کرنا ممکن نہیں؟ اب ہمیں اس دوسرے سفر کے لیے ایک مختلف قسم کے گھوڑے کی ضرورت ہے،
ایک خاموش، لکڑی کا، صوفیانہ گھوڑا۔ اس خاموش گھوڑے سے محبت، ہمدردی، انا کو ختم
کرنے اور دل کو کشادہ کرنے کی مشق مراد ہے۔
مجھے رومی کا یہ دوسرا
قول بھی بہت پسند ہے، جو ہمیں بتاتا ہے- "غیر مادی دنیا سے بھاگو نہیں،
کیونکہ یہ کمائی کی جگہ ہے۔ اور یہ نظر آنے والی دنیا، کم اور زیادہ کی جگہ، خرچ
کرنے کی جگہ ہے۔"
جب یہ سوال کیا گیا کہ
ایک مکمل، ترقی یافتہ انسان کون ہے، تو متعدد صوفی سنتوں نے ہمیں یہی بتایا ہے کہ
سچا انسان وہ ہے جو زندگی کے بازار میں پوری طرح حصہ لے اور ایک لمحے کے لیے بھی
خدا کو نہ بھولے۔خدا کو مسلسل اپنے شعور کے مرکز میں رکھے۔
English
Article: Why Engage in Spiritual Practices?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism