New Age Islam
Wed Feb 12 2025, 02:09 AM

Urdu Section ( 3 Jul 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Our Speech is the Mirror of Our Good Manners اخلاق حسنہ کا گفتگو اور طرز کلام سے بڑا گہرا تعلق ہے

طارق اسعد

2 جولائی 2021

کسی بھی شخص کے افکار اور خیالات کی معرفت کے لئے گفتگواور طرز تکلم سب سے بڑا ذریعہ ہے، یہ ایک ایسا وسیلہ ہے جو انسان کے باطنی خدو خال کی وضاحت کرتا ہے، اس کے اندر چھپے ہوئے جوہر کو اجاگر کرتا ہے، دوسری طرف افراد کے اخلاق و آداب کی معرفت بھی اسی ذریعہ سے ہوتی ہے، عربی کا ایک شعر ہے :

لسان الفتی نصف و نصف فؤادہ

فلم یبق إلا صورۃ اللحم و الدم

یعنی آدمی کی زبان اس کا نصف حصہ ہے اور نصف اس کا دل ہے، پھر اس کے بعدتو وہ صرف خون اور گوشت کی شکل میں باقی رہ جاتا ہے۔

چنانچہ خالق کائنات نے جب انسان کو قوت گفتار سے سرفراز کیا تو اس کے ساتھ ہی اس کے استعمال کے کچھ آداب و قواعد بھی ودیعت فرمائے، ایک شخص جب دوسرے سے ہم کلام ہو تو کس طرح سے بات شروع کرے، کیسا لب ولہجہ اختیار کرے، انداز تخاطب کیسا ہو؟ بڑوں سے مخاطب ہونے کے کیا آداب ہیں؟ چھوٹوں سے کیسے بات چیت کرے؟ اسلام نے ان سب جزئیات پر تفصیلاً روشنی ڈالی ہے، نیز نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ اس سلسلے کی عملی تفسیر اور جیتا جاگتا نمونہ ہے جس کی روشنی میں ایک مسلمان اپنے طرز تخاطب کو حسین سے حسین تر بنا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ملحوظ رکھنی چاہئے کہ اسلام نے جس اخلاق حسنہ کی بار بار تلقین کی ہے اس کا گفتگو اور طرز کلام سے بڑا گہرا تعلق ہے، اس لئے کہ طرز تکلم ہی ایک شخص کے اخلاقی حدود اربعہ کا تعین کرتا ہے اور اس کے تعلق سے مخاطب کو اچھا یا برا تاثر پیش کرتا ہے، اللہ تبارک  و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ لوگوں سے بھلی بات کہو۔‘‘ (البقرۃ:۸۳) امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ یہ چیزیں مکارم اخلاق پر ابھارتی ہیں، انسان کے لئے بہتر ہے کہ لوگوں سے اس کی گفتگو نرم انداز کی ہو، اور اس کا چہرہ نیک و بد ہر شخص کے لئے (بغیر مداہنت کے) ہشاش بشاش اور خوشگوار ہو۔‘‘ (جامع البیان:۱؍۳۹۲)

آداب گفتگو کا اہم ترین عنصر یہ ہے کہ انسان بد گوئی ، فحش کلامی، لعن طعن، تلخ کلامی اور گالی گلوچ سے بالکلیہ پرہیز کرے، اس کی زبان سے ایسا کلمہ نہ نکلے جو مخاطب کی دلآزاری کا سبب بنے اور  اس کے دل کو ٹھیس پہنچے۔

 نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

’’قیامت کے دن مومن کے میزان میں حسن اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوگی، اور حق  تعالیٰ بد گو اور بد زبان شخص سے نفرت کرتا ہے۔‘‘

(ترمذی، صحیح الجامع :۵۶۳۲)

بات چیت اور گفتگو کے دوران مخاطب کی شخصیت، مکان و مرتبہ اور حیثیت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ہم کس سے بات کر رہے ہیں؟ وہ کس مقام و مرتبہ کا شخص ہے؟ کس عہدے اور منصب کا حامل ہے؟ ان تمام امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے گفتگو کرنا ضروری ہے، غور کریں کہ نبی کریم ﷺ نے وقت کے بادشاہوں، وزراء اور اہل  منصب کو جو خطوط بھیجے تھے اور انہیں اسلام کی دعوت دی تھی ان میں ان کے مقام و مرتبہ کا پورا خیال رکھا گیا تھا اور ان کے شایان شان کلام کیا گیا تھا،چنانچہ رومی بادشاہ ہرقل کو آپ ﷺ نے بایں الفاظ مخاطب کیا تھا: ’’ من محمد عبد اللہ و رسولہ إلی ھرقل عظیم الروم‘‘(صحیح الجامع :۱۲۹۴) یعنی محمد رسول اللہ کی جانب سے روم کی عظیم شخصیت ہرقل کے لئے۔  امام نووی فرماتے ہیں: ’’ آپ ﷺ نے فقط ہرقل نہیں کہا بلکہ لطافت کا اظہار کرتے ہوئے عظیم روم کے وصف سے خطاب کیا، یعنی وہ ہرقل جس کی لوگ تعظیم و توقیر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ساتھ نرمی برتنے کا حکم دیا ہے جنہیں اسلام کی دعوت دی جاری ہو، فرمان الٰہی ہے:’’اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔‘‘ (سورہ النحل:۱۲۵)

وفد بنی عبدالقیس جب آپؐ کے پاس آیا تو آپ نے ان الفاظ کے ساتھ ان کا استقبال کیا ، ترجمہ: ’’وفد کی آمد مبارک ہواور ہرعار و پشیمانی سے محفوظ رہے۔‘‘ (بخاری:۴۳۶۸)

یہ تمام امور اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ گفتگو کے دوران جہاں آداب و اسالیب کا خیال رکھا جائے وہیں مخاطب کے مقام ومرتبہ اور اس کے احوال کی بھی رعایت ہونی چاہئے، ہاں یہ درست ہے کہ اظہار حق کی راہ میں کسی لومۃ لائم کی پروا نہیں ہو گی، محرمات کے ارتکاب کو دیکھ کر مداہنت اور سستی نہیں برتی جائے گی، احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ ڈنکے کی چوٹ پر کیا جائے گا، مگر ان سب سے یہ لازم نہیں آتا کہ گفتگو کے آداب کو بالائے طاق رکھ دیا جائے، مخاطب کی شخصیت اور مقام و مرتبہ کی پروا کئے بغیر اسے کھری کھوٹی سنا دی جائے اور سلیقہ اختلاف کو پس پشت ڈال کر عزتیں اچھالی جائیں۔ سیدنا ابراہیم  علیہ السلام کے والد  بت پرست و بت گر تھے اور اپنے بیٹے کی دعوت کے شدید مخالف تھے، مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام بایں مخالفت ان کی شخصیت کا پورا لحاظ رکھتے ہیں، انہیں مکمل احترام دیتے ہیں اور ’’ یا أبت‘‘ (مریم: ۴۲-۴۵) اے ابا جان! کے الفاظ سے بار بار مخاطب ہوتے ہیں۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے فرعون کے پاس بھیجتے ہوئے تاکید کی کہ ’’اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔‘‘ (طٰہٰ: ۴۴) یہ تمام تر نصوص اس بات پر دال ہیں کہ دوران گفتگو مخاطب کے رتبے اور مرتبے کا لحاظ رکھا جائے گا۔

آداب گفتگو کا یہ تقاضہ ہے کہ بندہ عمدہ اور بہترین الفاظ کا انتخاب کرے، شیریں بیانی اور حلاوت لسانی کا اہتمام کرے۔ واضح رہے کہ الفاظ کے انتخاب میں حد درجہ احتیاط کرنا چاہئے، کیوں کہ یہ بڑا ہی نازک اور حساس معاملہ ہوتا ہے،  زبان و بیان کی ذرا سی غلطی، تعبیر کی خامی ، الفاظ کا سوئے انتخاب مخاطب کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہو جاتے ہیں، بسا اوقات انسان اندازہ نہیں لگا پاتا اور اس کی زبان سے نکلنے والا کوئی کلمہ یا جملہ مدتوں مخاطب کو بیقرار رکھتا ہے۔

ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا گزر ایسے قافلہ کے پاس سے ہوا جو آگ روشن کر کے براجمان تھے، حضرت عمرؓ نے انہیں مخاطب کرنے کے لئے جو الفاظ ادا کئے اس سے آپ کی بصارت و بصیرت کے ساتھ فصاحت و زبان دانی کا بھی اندازہ لگائیے، فرمایا :’’ السلام علیکم یا أھل الضوء‘‘ (الاذکیاء للجوزی :۲۴) کہ اے روشنی والو! تم پر سلامتی ہو۔ غور کیجئے کہ آگ ہی روشنی ہے اور روشنی آگ ہی سے پیدا ہوئی ہے ، مگر اہل النار کے بجائے اہل الضوء کی تعبیر نے خطاب کے حسن کو دوبالا کر دیا۔

اسی طرح سے اونچی آواز میں گفتگو کرنا، چیخ چیخ کر باتیں کرنا، بے ڈھب اور بے ہنگم انداز میں کلام کرنا جہاں اسلامی نقطہ نظر سے معیوب ہے وہیں اخلاقی اور سماجی اعتبار سے بھی اس طریقہ ٔ عمل کو سخت نا پسند کیا جاتا ہے، بعض لوگ یہ عذر تراشتے ہیں کہ ہماری آواز ہی اونچی ہے اور ہم فطری طور پر تیز بولنے کے عادی ہیں، حالاں کہ اس عادت سے پیچھا چھڑانا کچھ مشکل نہیں ہے، جہاں بہت ساری قبیح عادتیں انسان مشق کر کے ترک کردیتا ہے وہاں اس چھوٹے سے عیب پر بھی قابو پاسکتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اپنی آواز کو پست کرو، یقیناً آوازوں میں سب سے بدتر آواز گدھوں کی ہے۔‘‘   (لقمان:۱۹)

انسان جب گفتگو کرتا ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ سامنے والا اس کی بات بغور سنے، یہ تبھی ہوگا جب متکلم خود مخاطب کی بات بغور سنے، یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ہم خواہش رکھیں کہ دوسرے تو ہماری باتیں توجہ  سے سنیں لیکن ہم ان کی باتیں سنتے وقت بے توجہی  کا مظاہرہ کریں؟

گفتگو کرتے وقت چوں کہ انسان افکار کا تبادلہ کرتا ہے، اخذ و عطا کا ماحول ہوتا ہے ، نیز یہ کہ انداز تکلم ہی اس کی شخصیت کے خد وخال کو واضح کرتا ہے، اس کی علمیت کا رقبہ بتاتا ہے، حسن تربیت اور حسن اخلاق کی عکاسی کرتا ہے اس لئے الفاظ کے انتخاب میں، انداز گفتگو میں، اسلوب بیان میں، طریقہ تخاطب میں اور لہجہ کے نشیب و فراز میں اسے حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی بنی بنائی شخصیت اورعلمی شناخت ذرا سی غلطی سے پارہ پارہ ہو جائے اور وہ مخاطب جو اس سے قبل بڑا اچھا تاثر لے کر اس کے پاس آیا تھا اس کا بنایا ہوا ڈھانچہ یکلخت چکنا چور ہو جائے۔ ارسطو کے پاس ایک شخص بڑے زرق برق اور عمدہ لباس میں آیا، ارسطو نے اس سے کہا ’’ذرا تم گفتگو تو کرو تاکہ ہم تمہیں دیکھ سکیں۔‘‘

2 جولائی 2021 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/speech-mirror-good-manners/d/125043

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..