مصباح الہدیٰ قادری ، نیو ایج اسلام
20 جولائی 2019
عملی طور پر ہدایت کے تقاضوں میں یہ بات شامل ہے کہ جسے ہدایت کی جا رہی ہے ہدایت کرنے والا اس سے زیادہ جانکار اور باخبر ہو، جسے اس بات کا قطعی اور حقیقی علم ہو کہ جسے ہدایت کی ضرورت ہے اس کی دنیوی اور دینی صلاح و فلاح کس امر میں پوشیدہ ہے ؟اس کی کون کونسی ایسی کمزوریاں اور خامیاں ہیں کہ طالب ہدایت کو اگر ان سے متنبہ نہ کیا گیا تو وہ اپنے مقصد حیات میں ناکام ہو جائے گا؟ لہٰذا ، اس کے لئے عالم الغیب و الشہادۃ اور علیم و خبیر رب سے بہتر کسی کی ذات نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ یہ ایک ایسا کام ہے کہ اگر ایک انسان دوسرے انسان کو ان باتوں کی نصیحت کرے اور اسے اس کی کمزوریوں ، خامیوں اور غلطیوں پر متنبہ کرے تو یہی کار خیر آپس میں شر و فساد اور بغض عناد کی وجہ بن جاتا ہے کیوں کہ ایسا کرنے سے انسان کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
تاریخ اس بات پر شاہد عدل ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ نے کفر و شرک کی آلودگی میں لپٹے ہوئے انسانوں کو حق کی دعوت دی اور انہیں یہ ہدایت دینے کی کوشش کی کہ تمہاری دنیوی و اخروی کامیابی کن امور سے وابستہ ہے تو وہی عمائدین مکہ اور سرداران قریش جو پوری زندگی ہمارے نبی ﷺ کی عفت و پارسائی اور صدق و امانت کی قسمیں کھاتے تھے اب آپ ﷺ کی ذات مقدسہ کو اپنی طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے لگے۔ انہوں نے کہا کہ یہ انسان ہمیں نصیحت کرتا ہے جو ہمارے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اور ہماری طرح کھاتا پیتا ہے!
ایسا کرنے والوں کی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے آپ ﷺ کی شخصیت کے صرف ایک پہلو پر نظر کیا اور دوسرے پہلوؤں سے صرف نظر کر لیا، انہوں نے صرف یہ دیکھا کہ آپ ﷺ کی سماجی اور معاشرتی زندگی ہماری ہی طرح ہے اور آپ ﷺ ہم ہی میں سے ایک فرد بشر ہیں اور یہ دیکھنے سے انکار کر دیا کہ ہم میں سے ہی نکلنے والا یہ فرد بشر اللہ کا نبی بن کر اٹھا ہے ، اس کی زبان سے اللہ کا کلام جاری ہوتا ہے اور اس کا ایک لفظ بھی اس کی اپنی مرضی سے نہیں ہوتا بلکہ وہ جب بھی لب کشا ہوتا ہے اس کے لبوں سے ہدایت کے پھول جھڑتے ہیں ، اس کی ہر ایک بات وحی الٰہی ہوتی ہے(قرآن)۔
الغرض ، انسان کی فطرت یہ رہی ہے کہ جب ایک انسان دوسرے انسان کو ہدایت کرتا ہے اور اس کی خامیاں اور کوتاہیاں اس کے سامنے بغرض اصلاح بھی بیان کرتا ہے تو اس صورت میں اکثر لوگ برہم ہو جاتے ہیں اور اگر کچھ بس چلے تو ہدایت کرنے والے کو سبق سکھانے کے بھی درپے ہو جاتے ہیں ۔ اسی انسانی فطرت کو خالق جن و انس نے ذیل کی آیت میں بیان کیا ہے، ارشاد ربانی ہے؛
خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ (16:4)
ترجمہ: اُسی نے انسان کو ایکتولیدی قطرہ سے پیدا فرمایا، پھر بھی وہ (اللہ کے حضور مطیع ہونے کی بجائے) کھلا جھگڑالو بن گیا۔ عرفان القرآن
اس انسانی ذہنیت کو جو کہ ایک امر واقعہ بھی ہے، بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اگلوں کی داستانوں سے کچھ سبق حاصل کریں اور جو غلطیاں انہوں نے کی ہیں ان کے ارتکاب سے بچیں ۔ لہٰذا، اگر ہم لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کے مدعی ہیں تو کم از کم یہ کر سکتے ہیں کہ ہم اللہ کی فراہم کردہ ہدایت کو تسلیم کریں اور بحیثیت انسان اس نے جو ہماری خامیاں اپنے کلام میں بیان کی ہیں انہیں جاننے کے بعد ان پر غور کریں اور ان کی اصلاح کی کوشش کریں ، اور اگر اس قرآنی تعلیم اور ہدایت کے بیچ میں نفس اور انانیت سر اٹھائے تو اسے فوراً وہیں کچل دیں ، ورنہ قرآن کی اس آیت کا مصداق ہم بن جائیں گے؛ اللہ فرماتا ہے:
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِن كُلِّ مَثَلٍ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا (18:54)
ترجمہ: اور بیشک ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے ہر طرح کی مثال کو (انداز بدل بدل کر) بار بار بیان کیا ہے، اور انسان جھگڑنے میں ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔عرفان القرآن
قرآنی آیات کا مذاق اڑانے والوں میں سے نہ بنیں؛
وَقِيلَ الْيَوْمَ نَنسَاكُمْ كَمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ (34) ذَٰلِكُم بِأَنَّكُمُ اتَّخَذْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَغَرَّتْكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ فَالْيَوْمَ لَا يُخْرَجُونَ مِنْهَا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ (35) فَلِلَّهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (36) وَلَهُ الْكِبْرِيَاءُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (45:37)
ترجمہ: اور (اُن سے) کہا جائے گا: آج ہم تمہیں بھلائے دیتے ہیںجِس طرح تم نے اپنے اِس دن کی پیشی کو بھلا دیا تھا اور تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے اور تمہارے لئے کوئی بھی مددگار نہ ہوگا یہ اس وجہ سے (ہے) کہ تم نے اللہ کی آیتوں کو مذاق بنا رکھا تھا اور دنیوی زندگی نے تمہیں دھوکہ میں ڈال دیا تھا، سو آج نہ تو وہ اُس (دوزخ) سے نکالے جائیں گے اور نہ اُن سے توبہ کے ذریعے (اللہ کی) رضاجوئی قبول کی جائے گی - پس اللہ ہی کے لئے ساری تعریفیں ہیں جو آسمانوں کا رب ہے اور زمین کا مالک ہے، سب جہانوں کا پروردگار (بھی) ہے - اور آسمانوں اور زمین میں ساری کبریائی (یعنی بڑائی) اسی کے لئے ہے اور وہی بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔عرفان القرآن
بخیلی ایک عیب ہے جسے اللہ نے ناپسند فرمایا ہے، ارشاد ربانی ہے:
قُل لَّوْ أَنتُمْ تَمْلِكُونَ خَزَائِنَ رَحْمَةِ رَبِّي إِذًا لَّأَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْإِنفَاقِ ۚ وَكَانَ الْإِنسَانُ قَتُورًا (17:100)
ترجمہ: فرما دیجئے: اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو تب بھی (سب) خرچ ہوجانے کے خوف سے تم (اپنے ہاتھ) روکے رکھتے، اور انسان بہت ہی تنگ دل اور بخیل واقع ہوا ہے۔عرفان القرآن
الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ۗ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (57:24)
ترجمہ: جو لوگ (خود بھی) بخل کرتے ہیں اور (دوسرے) لوگوں کو (بھی) بخل کی تلقین کرتے ہیں، اور جو شخص (احکامِ الٰہی سے) رُوگردانی کرتا ہے تو بیشک اللہ (بھی) بے پرواہ ہے بڑا قابلِ حمد و ستائِش ہے۔عرفان القرآن
ناشکری ، بے صبری اور فخر و مباہات غضب الٰہی کا باعث ہیں اس کے بجائے اگر ہم اللہ کی مغفرت چاہتے ہیں تو ہمیں صبر ، عجز و انکساری اور عمل صالح سے اپنی زندگی کو آراستہ کرنا چاہئے؛
وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَئُوسٌ كَفُورٌ (9) وَلَئِنْ أَذَقْنَاهُ نَعْمَاءَ بَعْدَ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُ لَيَقُولَنَّ ذَهَبَ السَّيِّئَاتُ عَنِّي ۚ إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ (10) إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ (11:11)
ترجمہ: اور اگر ہم انسان کو اپنی جانب سے رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں پھر ہم اسے (کسی وجہ سے) اس سے واپس لے لیتے ہیں تو وہ نہایت مایوس (اور) ناشکر گزار ہو جاتا ہے - اور اگر ہم اسے (کوئی) نعمت چکھاتے ہیں اس تکلیف کے بعد جو اسے پہنچ چکی تھی تو ضرور کہہ اٹھتا ہے کہ مجھ سے ساری تکلیفیں جاتی رہیں، بیشک وہ بڑا خوش ہونے والا (اور) فخر کرنے والا (بن جاتا) ہے - سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے صبر کیا اور نیک عمل کرتے رہے، (تو) ایسے لوگوں کے لئے مغفرت اور بڑا اجر ہے ۔عرفان القرآن
وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (12) وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِن قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا ۙ وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ وَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ (13) ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ مِن بَعْدِهِمْ لِنَنظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (10:14)
ترجمہ: اور جب (ایسے) انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ ہمیں اپنے پہلو پر لیٹےیا بیٹھےیا کھڑے پکارتا ہے، پھر جب ہم اس سے اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تو وہ (ہمیں بھلا کر اس طرح) چل دیتا ہے گویا اس نے کسی تکلیف میں جو اسے پہنچی تھی ہمیں (کبھی) پکارا ہی نہیں تھا۔ اسی طرح حد سے بڑھنے والوں کے لئے ان کے (غلط) اَعمال آراستہ کر کے دکھائے گئے ہیں جو وہ کرتے رہے تھے - اور بیشک ہم نے تم سے پہلے (بھی بہت سی) قوموں کو ہلاک کر دیا جب انہوں نے ظلم کیا، اور ان کے رسول ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے مگر وہ ایمان لاتے ہی نہ تھے، اسی طرح ہم مجرم قوم کو (ان کے عمل کی) سزا دیتے ہیں - پھر ہم نے ان کے بعد تمہیں زمین میں (ان کا) جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ (اب) تم کیسے عمل کرتے ہو۔عرفان القرآن
وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِيلِهِ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ (8) أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ (39:9)
ترجمہ: اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو اسی کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتا ہے، پھر جب (اللہ) اُسے اپنی جانب سے کوئی نعمت بخش دیتا ہے تو وہ اُس (تکلیف) کو بھول جاتا ہے جس کے لئے وہ پہلے دعا کیا کرتا تھا اور (پھر) اللہ کے لئے (بتوں کو) شریک ٹھہرانے لگتا ہے تاکہ (دوسرے لوگوں کو بھی) اس کی راہ سے بھٹکا دے، فرما دیجئے: (اے کافر!) تو اپنے کُفر کے ساتھ تھوڑا سا (ظاہری) فائدہ اٹھا لے، تو بے شک دوزخیوں میں سے ہے -بھلا (یہ مشرک بہتر ہے یا) وہ (مومن) جو رات کی گھڑیوں میں سجود اور قیام کی حالت میں عبادت کرنے والا ہے، آخرت سے ڈرتا رہتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے، فرما دیجئے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں؟ بس نصیحت تو عقل مند لوگ ہی قبول کرتے ہیں۔عرفان القرآن
فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (39:49)
ترجمہ: پھر جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت بخش دیتے ہیں تو کہنے لگتا ہے کہ یہ نعمت تو مجھے (میرے) علم و تدبیر (کی بنا) پر ملی ہے، بلکہ یہ آزمائش ہے مگر ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔عرفان القرآن
وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنسَانِ أَعْرَضَ وَنَأَىٰ بِجَانِبِهِ ۖ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ كَانَ يَئُوسًا (83) قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ أَهْدَىٰ سَبِيلًا (17:84)
ترجمہ: اور جب ہم انسان پر (کوئی) انعام فرماتے ہیں تو وہ (شکر سے) گریز کرتا اور پہلو تہی کر جاتا ہے اور جب اسے کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے (گویا نہ شاکر ہے نہ صابر) - فرما دیجئے: ہر کوئی (اپنے) اپنے طریقہ و فطرت پر عمل پیرا ہے، اور آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ سب سے زیادہ سیدھی راہ پر کون ہے۔عرفان القرآن
وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ (14:34)
ترجمہ: اور اس نے تمہیں ہر وہ چیز عطا فرما دی جو تم نے اس سے مانگی، اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو (تو) پورا شمار نہ کر سکو گے، بیشک انسان بڑا ہی ظالم بڑا ہیناشکر گزار ہے۔عرفان القرآن
وَيَدْعُ الْإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ ۖ وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا (17:11)
ترجمہ: اور انسان (کبھی تنگ دل اور پریشان ہو کر) برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے جس طرح (اپنے لئے) بھلائی کی دعا مانگتا ہے، اور انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔عرفان القرآن
إِنَّ الْإِنسَانَ لَكَفُورٌ مُّبِينٌ (43:15)
ترجمہ: بیشک انسان صریحاً بڑا ناشکر گزار ہے۔عرفان القرآن
بے صبری اور عجلت بھی ہمارے لئے مہلک ہے؛
خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ ۚ سَأُرِيكُمْ آيَاتِي فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ (21:37)
ترجمہ: انسان (فطرتًا) جلد بازی میں سے پیدا کیا گیا ہے، میں تمہیں جلد ہی اپنی نشانیاں دکھاؤں گا پس تم جلدی کا مطالبہ نہ کرو۔عرفان القرآن
تمرد و سرکشی
كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ (6) أَن رَّآهُ اسْتَغْنَىٰ (96:7)
ترجمہ: مگر) حقیقتیہ ہے کہ (نافرمان) انسان سر کشی کرتا ہے - اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو (دنیا میں ظاہراً) بے نیاز دیکھتا ہے۔عرفان القرآن
إِنَّ الْإِنسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ (6) وَإِنَّهُ عَلَىٰ ذَٰلِكَ لَشَهِيدٌ (100:7)
ترجمہ: بیشک انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے - اور یقیناً وہ اس (ناشکری) پر خود گواہ ہے۔عرفان القرآن
اللہ کی نشانیوں پر غور کیا جائے کیوں کہ اس سے غفلت ایمان سے محرومی کا سبب ہے
وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ (10:92)
ترجمہ: اور بیشک اکثر لوگ ہماری نشانیوں (کو سمجھنے) سے غافل ہیں۔عرفان القرآن
وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (19:39)
ترجمہ: اور آپ انہیں حسرت (و ندامت) کے دن سے ڈرائیے جب (ہر) بات کا فیصلہکردیا جائے گا، مگر وہ غفلت (کی حالت) میں پڑے ہیں اور ایمان لاتے ہی نہیں۔عرفان القرآن
اگر ہمارے گناہوں کا وبال ہمارے اوپر نازل نہیں ہو رہا ہ تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اللہ کو ہمارے کرتوتوں کی خبر نہیں ، بلکہ اس نے مصلحتاً مہلت دے رکھی ہے، اور ایک دن آنے والا ہے جب وہ مواخذہ کرے گا۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ (14:42)
ترجمہ: اور اللہ کو ان کاموں سے ہرگز بے خبر نہ سمجھنا جو ظالم انجام دے رہے ہیں، بس وہ تو ان (ظالموں) کو فقط اس دن کے لئے مہلت دے رہا ہے جس میں (خوف کے مارے) آنکھیں پھٹی رہ جائیں گی۔ عرفان القرآن
URL for Part-1: https://www.newageislam.com/urdu-section/source-divine-guidance-quran—part-1/d/119289
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/source-divine-guidance-quran-guide-part-2/d/119300
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism