New Age Islam
Tue Apr 29 2025, 08:32 PM

Urdu Section ( 14 Feb 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Add Some Fresh Roses to Your Tone تم اپنے لہجہ میں تازہ گلاب رکھ لینا

حافظ محفوظ محمد

11 فروری،2023

پہلے پڑوسی ملک کے کسی مفکر ِ ملّت کا سوشل میڈیا کے ذریعہ موصول یہ پیغام ملاحظہ فرمائیں: ‘‘جاپان میں پچھلے تیس سال میں چوری نہیں ہوئی، قتل نہیں ہوا، کوئی بھوکا نہیں سوتا، زلزلے کے وقت کیمپوں میں سب کچھ رکھ دیا جاتا ہے ، کوئی ایک چھٹانک ضرورت سے زیادہ نہیں لیتا۔ دیانتداری میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔ سڑک پر ایک کروڑ پھینک دیں کوئی نہیں اٹھاتا ، آپ کندھا ماریں سامنے والا معذرت کرتا دکھائی دے گا۔ ترقی اور ٹیکنولوجی میں دنیا سے دس سال آگے جیتے ہیں۔ کام اتنا کرتے ہیں کہ وزیر اعظم ہاتھ جوڑ کر آرام کے مشورے دیتا ہے۔ سگریٹ کی راکھ جھاڑ نے کی ڈبیا جیب میں رکھتے ہیں۔ صفائی اتنی سڑکوں پر منھ نظر آئے۔ پابندی وقت اتنی کہ پانچ منٹ ٹریٹ لیٹ ہوئی تو پوری کمپنی بند کردی۔ اخلاق اتنا بلند آپ حیرت سے منھ تکتے رہ جائیں۔اخلاص، مہمان نوازی اور ثقافت کمال محبت وفا اتنی کہ جاپانی بیوی پوجا کرنے لگ جائے اور آپ کو اتنا کھلائے کہ موٹا ہونے کا خوف طاری ہوجائے۔ چاول کی فصل مرغوب غذا ۔ ایک دفعہ قحط پڑا تو تیس سال کا ایسا ذخیرہ کرلیا کہ دنیا سے چاول نایاب ہوگیا لیکن وہاں سے ختم نہ ہوا۔ جاپانی جس کے ہوگئے بس پتھر پر لکیر۔ نظام صحت ایسا کہ ٹوائلٹ آپ کو جسم کی پوری ڈیٹیل دے دے۔ دونمبر اور بے ایمانی کا تصور محال ۔ اور جن ممالک میں لاکھوں لوگ تبلیغی اجتماعات میں جاتے ہوں، جہاں لاکھوں لوگ دعوت دین کے لئے سفر کرتے ہوں۔ جہاں سے لاکھوں لوگ بیت اللہ، عمرہ اور حج کے لئے جاتے ہوں، میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر ہر شہر میں جلوسوں میں لاکھوں لوگ شامل ہوتے ہوں، جس ملک میں ہر رات لاکھوں محافل میلاد اور دروسِ قرآنی ہوتے ہوں۔ جس ملک میں یوم عاشورہ والے دن لاکھوں لوگ غم حسین میں عزاداری کرتے ہوں، جس ملک میں عیدین او رجمعہ کے بڑے بڑے اجتماعات ہوتے ہوں، جس ملک میں تسبیحات پڑھنے والے لاکھوں اور درود وسلام کی تعداد اربوں میں ہو، وہ ممالک ایمانداری میں دنیا میں سیکڑوں نمبر پیچھے آئیں اور جاپان ایمانداری میں نمبر ون ملک قرار پائے تو سوال تو اٹھے گا کہ ہم کس کو دھوکا دے رہے ہیں۔ اللہ کو، رسول کو،ملک وقوم کو یا خود کو؟؟؟’’

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مندرجہ بالا پیغام کے نکات سے متفق یا غیر مفتق ہونے کی بحث سے صرف نظر جو اخلاقی نکات اس میں دیئے گئے ہیں ان پر غور و خوض کرنا یا ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنا مفید ہی ثابت ہوگا۔یہ پیغام تو ازراہِ اطلاع آپ کو پیش کردیا گیا ہے ،احقر کی کوشش ہے کہ آج کی سطور میں اپنے لوگوں کے انداز بیان، طرز تخاطب اور آپسی بول چال کی زبان پر بات کی جائے۔

اللہ پاک نے انسان کو حیوان ناطق بنایا ہے اور قوت گویائی کے ساتھ ساتھ غور وفکر کی اہلیت بھی عطا فرمائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے ناطے ہمیں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں قوت گویائی کے استعمال کی رہنمائی وافر مقدار میں ملتی ہے۔ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کافردہونے کے ناطے ہم پر یہ فرض خاص طور پر عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنی زبان او رلہجہ کا استعمال اسی لحاظ او رمناسبت سے کریں جس سے معلوم ہو کہ ایک مومن کی زبان او رلہجہ ہے۔

تقریباً پندرہ بیس سال پہلے تک تو ہمارے یہاں مساجد کے اندر، مذہبی اور دینی مجلسوں میں او رعلمائے کرام کی محفلوں میں اس بات کا لحاظ رکھا جاتا تھا کہ آپسی گفتگو کے دوران لہجہ اور آواز کنٹرول میں رہے۔ لیکن پچھلے کچھ دنوں سے اس بات کا مشاہدہ کیا جارہا ہے کہ اب ان سب باتوں کا خیال کافی حد تک متروک ہوچکا ہے ۔ اس معاملہ میں اب عمر کی بھی کوئی قید نہیں رہی۔ ہر عمر کے لوگ خواہ نوجوان ہوں،بچے ہوں یا بڑے بوڑھے۔ ماڈرن تعلیم یافتہ یا دینی ومذہبی والے، نوّے فیصد لوگ زبان و لہجہ کے استعمال میں اس روایت کا لحاظ نہیں رکھ پارہے ہیں جو ہماری روشن روایات کے امین ہوا کرتے تھے۔ احقر کو اس بات کی اجازت دیجئے تو یہاں آپ کے ساتھ صرف تین واقعات بطور مثال شیئر کروں گا جس سے اس بات کا اندازہ ہوجائے گا کہ ہم اب زبان و بیان او رلہجہ کے استعمال میں کس قدر غیر محتاط ہو گئے ہیں کہ ہمیں اس بات کابھی خیال نہیں رہاکہ ہم اپنے جذبات و احساسات کو بیان کرتے ہوئے اپنے آس پاس کے ماحول اور مواقع کو بھی بھول جاتے ہیں۔

پہلا واقعہ صحافی عامر سلیم صاحب کی نماز جنازہ کے دوران پیش آیا۔ ہوا یہ کہ قبرستان مہندیان کے ایک خالی میدان میں عامر سلیم صاحب کے جنازے کو برائے نماز جنازہ لایا گیا۔ صف بندی شروع ہوگئی کچھ لوگوں کی آواز آئی کہ کچھ لوگ ابھی وضو کررہے ہیں ، تھوڑا انتظار کرلیا جائے۔ اسّی فیصد صف بندی ہوچکی تھی۔ عامر سلیم صاحب کے وارثین کے ذریعہ نماز جنازہ کی امامت کے لئے مقرر کئے گئے مولانانے انتظار کے اس وقت کو utilize کرنے کے لئے جنازے کے مسائل اور دیگر رسو مات پر بیان شروع کردیا۔ شاید ان کی منشاء یہ ہوکہ جو لوگ وضو کررہے ہیں، اتنی دیر میں فارغ ہوکر وہ بھی نماز میں شامل ہوجائیں ۔ ان کے بیان کے دویاتین منٹ کے بعد ہی پہلے تو چہ مگوئیوں کی آوازیں آنی شروع ہوئیں اس کے بعد اچانک پچھلی صف سے کافی تیز تیز آواز اور انتہائی خراب لہجہ میں کسی صاحب کے چیخنے کی آواز آئی ‘‘ آپ نماز پڑھائیے ، بیان بند کیجئے’’۔ راقم نے یہ جاننے کے لئے پیچھے گھوم کر دیکھا کہ کون صاحب چلارہے ہیں تو معلوم ہوا کہ کرتہ پاجامے میں ملبوس ایک طالب علم نما شخص بہت غصہ میں اپنی عمر سے دوگنے امام کو لڑائی کے انداز میں تنبیہہ کررہے تھے کہ ‘‘ آپ نماز پڑھائیے ، بیان بند کیجئے’’۔

دوسرا واقعہ دریا گنج کی ایک مسجد کا ہے جہاں نماز جمعہ کے بعد کوئی صاحب مسند میں ہی اپنے موبائل فون سے کسی سے بات کررہے تھے حالانکہ وہ دھیمی آواز میں بات کررہے تھے لیکن دعا کے بعد ایک صاحب نے ان کو مسجد میں موبائل استعمال کرنے کے تعلق سے حڑش لہجے میں موبائل استعمال نہ کرنے کو کہا جس پر ان صاحب نے کہا کہ بہت ضروری بات تھی اس لئے کررہا تھا۔ دونوں طرف سے بحث شروع ہوگئی ۔ دونوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ مسجد کے کچھ اور مقتدی بھی ان کی حمایت و مخالفت میں تیز تیز آواز میں ایک دوسرے پر تندوتیز لہجے میں حملے و جوابی حملے کرنے لگے۔ ان سب حضرات کو اس بات کابھی خیال نہیں رہا کہ مسجد میں کافی لوگ ابھی سنت اور دعاؤں میں مشغول ہیں او ریہ مسجد اللہ کا گھر ہے جہاں شور وغل کرنا زیب نہیں دیتا۔ اس کے بعد یہ حضرات مسجد کے باہر چلے گئے اور ان میں سے جن صاحب نے نصیحت کی تھی انہوں نے فون کرکے اپنے حمایتی بلالئے ۔ مسجد کے دروازے پر گالی گفتاشروع ہوگئی او رمار پیٹ کی نوبت آگئی۔

تیسرا واقعہ قرأت قرآن کریم کے ایک پروگرام کا ہے جہاں مصر کے قاری شیخ محمد ناصر الحرک تشریف لائے ہوئے تھے ۔ راقم بھی وہاں موجود تھا۔ موجودہ زمانے کے تقاضو ں کے مطابق اس پروگرام کو نشر کرنے کے لئے تکنیکی ٹیم نے ایک چھتری نما لائٹ لگائی ہوئی تھی۔ اس پورے پروگرام میں مصری قاری کی آمد سے پہلے اس لائٹ پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ جیسے ہی شیخ ناصر الحرک تلاوت کے لئے اس مخصوص کرسی پر آئے تو ہال میں بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں نے اس بات پر اعتراض کیا کہ لائٹ ہٹا دی جائے ، ہمیں قاری صاحب نظر نہیں آرہے ۔بڑے بے ہنگم اور پھوہڑ انداز بیان میں اس لائٹ کو ہٹانے کے لئے آوازیں آنے لگیں۔ جواباً منتظمین سے قاری فضل الرحمن نے ہنگامہ کرنے والوں کو بتایا کہ یہ لائٹ پروگرام کو براہ راست نشر کرنے کیلئے انتہائی ضروری ہے۔ اس پر آوازیں اور زیادہ تیز ہوگئیں او رماحول ایسا ہوگیا جیسے کسی مشاعرے میں ہوٹنگ ہورہی ہو۔ حالانکہ قرأت قرآن کریم کے پروگرام میں قاری کو سنا جاتا ہے دیکھا نہیں جاتا۔ بمشکل تمام ہنگامہ کرنے والے لوگ خاموش ہوئے او رپروگرام آگے بڑھا ۔

مندرجہ بالا تینوں مثالیں اس لئے پیش کی گئی ہیں کہ ان تینوں موقعوں پر جو حاضر ین تھے وہ تمام کے تمام دینی و مذہبی اجتماع میں شامل ہونے کیلئے آئے تھے۔ یہ مذکورہ تینوں پروگرام نہ تو تفریحی تھے او رنہ ہی کوئی کھیل تماشہ۔ یہاں ان واقعات کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ اب ہم لوگوں کی قوت برداشت ایسی ہوگئی ہے کہ ہم اپنی ذرا سی تن آسانی ، وقتی خوشی یا وقتی خواہش کے زیر اثر اپنے مذہبی تقاضوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مجھے یہاں تبلیغی جماعت سے منسلک صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ پٹھان کی نصیحت یاد آرہی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو نصیحت کی درخواست پر دوباتیں یاد رکھنے کو کہا ایک یہ کہ کبھی وقتی خوشی یا معمولی سے مزے اور تن آسانی کے لئے کوئی گناہ نہیں کرنا۔ وہ تن آسانی اور مزہ تو ختم ہوجائے گا لیکن گناہ جاری رہے گا اور دوسرے یہ کہ کبھی ذرا سی پریشانی اور سستی کے لئے کوئی ثواب کا کام نہیں چھوڑنا۔ وہ وقتی تکلیف او ردکھ تو ختم ہوجائے گا لیکن ثواب جاری رہے گا۔

اب آپ اول الذ کر سوشل میڈیا کے اس پیغام کو دوبارہ پڑھیں اور دوبارہ سوچیں کہ ہم اپنے سماجی رابطوں میں اپنی بول چال میں اپنے معاملات میں مذہبی اعتبار سے کہاں کھڑے ہیں۔ موجودہ حالات میں اگر ہم صرف بات چیت کاانداز اور لہجہ ٹھیک کرلیں تو ہمارے نوّے فیصد مسائل حل ہوجائیں۔ اسی سلسلہ میں متحرک کا ایک شعر ہے:

تم اپنے لہجہ میں تازہ گلاب رکھ لینا

پھر اس کے بعد سارا چمن تمہارا ہے

11 فروری،2023 ، بشکریہ: انقلاب ، نئی دہلی

----------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/some-fresh-roses-tone/d/129101

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..