New Age Islam
Sat Mar 15 2025, 10:38 AM

Urdu Section ( 29 Nov 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Lack of Social and Literary Commitment in Contemporary Urdu Literature عصری اردو ادب میں سماجی اور ادبی عزم کا فقدان

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

26 نومبر 2021

اردو داں طبقے اور اردو تنظیموں کو اسے روکنے کے لیے انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

اہم نکات:

1. اردو میں پرعزم شاعر اور ادیب کم ہیں۔

2. گوپال متل، زبیر رضوی، ساجد رشید اور شمس الرحمن فاروقی جیسے ایڈیٹرز نہیں رہے۔

3. آج کے اردو ادیبوں میں سماجی اور ادبی عزم نہیں ہے۔

4. اردو ادب معاصر سماجی ماحول میں اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔

----

(Representational Photo from Files)

----

ادب کو معاشرے کا آئینہ کہا جاتا ہے۔ لیکن ادبی تخلیق کا مقصد محض معاشرے کی عکاسی نہیں بلکہ معاشرے کی فلاح و بہبود بھی ہے۔ اور انسانی معاشرہ اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب معاشرے کے افراد فکری، اخلاقی اور روحانی طور پر ترقی یافتہ ہوں۔ ادب نہ صرف قارئین کو فکری تفریح فراہم کرتا ہے بلکہ لوگوں کی فکری اور روحانی تربیت کے لیے ڈھکی چھپی کوشش بھی کرتا ہے۔

ادب کا مقصد 20ویں صدی کے آغاز سے ہی سامنے آنا شروع ہو گیا تھا اور ادب میں معاشرے کے بنیادی مسائل کو اہمیت حاصل ہو گئی۔ ترقی پسند تحریک نے ادب کو سماجی زندگی کا ایک اہم ستون بنا دیا جس پر سیاسی، سماجی اور معاشی انقلاب کی عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئی۔ تحریک آزادی نے ادب کی اہمیت و افادیت میں اہم کردار ادا کیا اور ادب غلامی، استحصال اور طبقاتی ظلم و جبر کے خلاف ایک موثر ہتھیار بن گیا۔ اس دور کے ادیب اور شاعر محب وطن تھے اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے قربانی دینے کے لیے ہمہ تن تیار تھے۔ ادب ان کے نزدیک محض نام و نمود اور شہرت کمانے کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ ان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا تھا۔ وہ صرف ادیب اور شاعر ہی نہیں تھے بلکہ سماجی کارکن بھی تھے اور ادب ان کی سرگرمیوں کا ایک اہم حصہ تھا۔ انہوں نے نہ صرف طاقت کے خلاف محاذ آرائی کی بلکہ سماجی برائیوں کے بارے میں لوگوں کے اندر بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنے سماجی اور ادبی مقاصد کی حصولیابی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ انہوں نے ذاتی مفادات کے لیے اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے تنگدستی کی زندگی گزاری لیکن لوگوں کی معاشی خوشحالی کے لیے جدوجہد کی۔ وہ خود جیل گئے لیکن اپنے ملک کے لوگوں کو آزادی کا تحفہ دے گئے۔ انہوں نے اپنے عہدوں اور ملازمتوں کو ترک کر دیا لیکن اظہار رائے کے حق پر پابندیاں قبول نہیں کیں۔ مشہور شاعر جوش ملیح آبادی نے کسانوں کے استحصال پر ایک نظم لکھی اور حیدرآباد کے نواب نے انہیں ملازمت سے ہٹا دیا۔ منشی پریم چند نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ برطانوی حکومت ان کی تحریروں کو قدغن لگانا چاہتی تھی۔ قاضی نذر اسلام نے بردھمان کے ڈپٹی رجسٹرار کی ملازمت میں شامل ہونے کا ارادہ ترک کر دیا کیونکہ سرکاری ملازمت کرتے ہوئے وہ انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی میں شامل نہیں ہو سکتے تھے۔ سینکڑوں دیگر شاعروں اور ادیبوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، حتیٰ کہ معاشرے کی بھلائی کے لیے پھانسی کا پھندا بھی قبول کیا۔

مولانا ابوالکلام آزاد کی نظر میں ادب سماجی اور اجتماعی مقاصد کے حصول کا ایک موثر ذریعہ تھا۔ اگر وہ چاہتے تو برطانوی حکومت کے تابع رہ کر عیش و عشرت کی زندگی گزار سکتے تھے۔ فیض احمد فیض، بسمل عظیم آبادی، اشفاق اللہ خان حسرت وارثی، حسرت موہانی اور دیگر سینکڑوں ادیبوں اور شاعروں نے ادب کو اپنے سماجی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور حکومت کے غیض و غضب کا شکار بنے۔

آزادی کے بعد بھی اردو کے شاعروں اور ادیبوں میں اپنے معاشرے کے حوالے سے اجتماعی ذمہ داری کا احساس تھا۔ انہوں نے اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا اور ہمیشہ حق کے علمبردار رہے۔ افسانہ نگار، ناول نگار اور صحافی خواجہ احمد عباس کمیونسٹ تھے لیکن رامانند ساگر کی کتاب ’’اور انسان مر گیا‘‘ کے دیباچے میں انہوں نے آزادی کے بعد ہونے والے فسادات کے لیے برطانوی حکومت اور مذہبی اور سیاسی تنظیموں کے ساتھ کمیونسٹوں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس کے لیے انہیں آئی پی ٹی اے اور دیگر تمام کمیونسٹ تنظیموں سے نکال دیا گیا لیکن وہ اپنے موقف پر قائم رہے۔ سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی نے سماجی برائیوں کی عکاسی کر کے بنیاد پرستوں کے غیض و غضب کو دعوت دی اور انہیں عدالت تک بھی گھسیٹا گیا لیکن انہوں نے اپنے ادبی نظریات سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔

تاہم رفتہ رفتہ اردو ادب سے سماجی اور ادبی وابستگی ختم ہوتی گئی۔ اور اردو کے ادیب حکومت کی گود بیٹھتے گئے۔ شاعر اور ادیب آسائشوں، سرکاری سہولتوں اور مراعات کے حریص ہو گئے۔ اگرچہ انہوں نے ان سیاسی جماعتوں کے کارناموں کی تعریف کی جن سے وہ وابستہ تھے، لیکن انہیں ان پارٹیوں کی غلط پالیسیوں اور خامیوں پر زبان کھولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ نتیجتاً ان کا ادب کھوکھلا اور بے وقعت ہو گیا۔ اس کی اہمیت و افادیت ختم ہو گئی۔ ان کے تحقیقی و تنقیدی اور تخلیقی ادب کا معیار کافی گر گیا۔ کتابیں صرف شہرت کمانے اور کتابوں کی تعداد بڑھانے کے لیے لکھی جانے لگیں۔ اردو کے جرائد و رسائل اردو ادب میں اصلاحات لانے کی کوشش کرنے کے بجائے اسی ادبی کرپشن کا حصہ بن کر نظریاتی دیوالیہ پن کا شکار ہو گئے۔

(Representational Photo from Files)

----

اب زبیر رضوی، شمس الرحمن فاروقی، محمود ایاز، گوپال متل، ساجد رشید جیسے ایڈیٹرز نہیں رہے۔ ان کے ادبی نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کی ادبی عزائم سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

ادب بنیادی طور پر ادیب کے تخلیقی شعور کی شاہکار ہے لیکن جب کتابوں کی تعداد کو علمی کاموں کا معیار بنا دیا جائے اور تحقیق و تخلیق کے معیارات کو نظر انداز کر دیا جائے تو ادب محض معاشی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اسی ناقص نظام کے تحت کتابیں بڑی تعداد میں شائع ہو رہی ہیں۔ جو مرد اور خواتین اچھا مضمون نہیں لکھ سکتے وہ پراسرار طور پر کتابوں کے مصنف بن جاتے ہیں۔ آج، ایک اچھا مضمون لکھنا مشکل ہے لیکن کتاب شائع کرنا آسان ہے۔ آج مخطوطات کی ایک بڑی زیر زمین مارکیٹ وجود میں آ چکی ہے۔ آج اردو کتابوں کے قارئین بہت کم ہیں لیکن اردو کتابیں تقریباً روزانہ شائع ہو رہی ہیں۔ کتابوں کی افتتاحی تقریب بہت دھوم دھام سے منعقد کی جاتی ہے اور پرانے اور تجربہ کار ادیب ان تقریبات میں شریک ہوتے ہیں اور ابھرتے ہوئے ادیبوں کی کتابوں پر تعریفوں کے پل باندھ کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ اس کتاب کی اشاعت ایک تاریخی کارنامہ ہے۔

آج اردو کے ادیبوں کے کوئی آئیڈیل یا سماجی نمونہ نہیں ہیں۔ سرسید، علامہ اقبال، مولانا آزاد، فیض اور حسرت موہانی جیسے عظیم نمونوں کو تو چھوڑیں، اردو کے ادیبوں کی عوام کے مشترکہ مسائل اور پریشانیوں سے کوئی وابستگی بھی نہیں۔ وہ ناانصافی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے کیونکہ حکومتی مراعات ان کے لیے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔

تقسیم سے پہلے بنگالی دانشور محمد نصیر الدین نے ایک بنگالی ادبی جریدہ سوغات شائع کیا۔ وہ خواتین کی تعلیم کے علمبردار تھے اور پردے کے خلاف اواز اٹھاتے تھے۔ اس سے مذہبی طبقے میں مخالفت کی آگ بھڑک اٹھی۔ انہوں نے پہلی مسلمان گریجویٹ خاتون فضیلۃ النساء کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے میں مدد کی۔ اس کی پاداش میں تعلیم نسواں کے مخالفین نے ان کے ساتھ سڑک پر مار پیٹ کی۔

آج کا اردو ادیب صرف مشاعروں کے لیے لڑ سکتا ہے اور سرکاری ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے اپنے تمام رابطوں کو استعمال کر سکتا ہے۔ معاشرے کے مسائل سے انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ وہ اپنے حال میں خوش ہیں۔

اردو ادب کو اس حالت زار اور نظریاتی دیوالیہ پن سے نجات دلانے کے لیے اردو داں طبقے کو انقلابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ علمی کمالات کا معیار تحقیقی کام کو بنایا جائے نہ کہ کتابوں کی تعداد کو۔ حقیقی قابلیت کو فروغ دیا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اردو زبان اور ادب کی خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے حکومت کے اردو محکمے کو مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

 English Article: Lack of Social and Literary Commitment in Contemporary Urdu Literature

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/social-liberty-urdu-literature/d/125861

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..