ڈاکٹر قطب الدین
11 دسمبر،2022
29 نومبر، 2022 کو نئی دہلی میں واقع انڈیا اسلامک کلچر سینٹر کے
زیر اہتمام ہندوستان اور انڈونیشیا میں بین المذاہب رواداری اور سماجی ہم آہنگی کے
فروغ میں علماء کا کردار کے موضوع پر ایک روزہ پروگرام منعقد ہوا۔ اس مذاکراتی
پروگرام میں ہندوستان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور انڈونیشیا کے ان کے
ہم منصب او رنائب وزیر اعظم پروفیسر ڈاکٹر ایم محفوظ ایم ڈی نے مہمان خصوصی کے طور
پر شرکت کی۔ دونوں ملکوں کے مذکورہ دونوں اہم عہدے داروں نے جامع اور مغز افتتاحی
کلمات پیش کئے،ساتھ ہی مذاکرہ میں شرکت کرنے والے مقررین نے دونو ں ملکوں میں قیام
امن و سلامتی میں علمائے کرام کے کلیدی رول کو اجاگر کیا۔ انڈیا اسلامک کلچر سینٹر
کے صدر اور مذاکرہ کے روح رواں سراج الدین قریشی قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے
وقت کی اہم ضرورت پر مذاکرہ کی پیش قدمی کی۔
دراصل کسی بھی مذہب کے
پیشوا کاعوام الناس سے براہ راست تعلق ہوتا ہے اوروہ اپنے عقیدت مندوں کے لیے ایک
نمونہ ہوتے ہیں جو سماج میں اصلاح کا کام کرتے ہیں اور اپنے ارد گرد پھیلی برائیوں
اور غیر انسانی اعمال کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
مذہب اسلام نے تو علماء
کو بڑامقام عطا کیا ہے اور ایک حدیث کے مطابق وہ انبیائے کرام کے وارث ہیں،یعنی
انبیاء کا وارث ہونے کی حیثیت سے علماء کاکام نبیوں اور رسولوں کے مشن کو آگے
بڑھانا اور پیغام خداوندی کو اولاد آدم کے بیچ پھیلانا ہے۔ جہاں تک ہندوستانی
علمائے اسلام کا تعلق ہے توانہوں نے تاریخ کے ہردور میں اپنا فرض منصبی ادا
کیا او راپنے اپنے طریقوں سے خدا کے بندوں
کو محبت ورد اداری،آپسی بھائی چارہ اورانسانیت کادرس دیا۔ خواہ وہ دینی مدارس کی
مسنددرس سے ہو یا مساجد کے منبر سے، خانقاہوں کی مجالس سے ہو یا اولیا اللہ کی وعظ
ونصیحت سے، یا صاحب تصنیفات و تالیفات علماء کی اکیڈمیوں سے۔الغرض علوم اسلامیہ کی
سمجھ رکھنے والے افراد نے اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق معاشرہ سے نفرت و تشدد کو
مٹا کر ملک وسماج میں امن و سلامتی اور معاشرتی ہم آہنگی کو پروان چڑھانے میں اہم
کردار اداکیا نیز انبیائے کرام کے دعوتی، اصلاحی اورتعمیری مشن لوگوں میں عام کرنے
کا فریضہ بخوبی انجام دیا۔
دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ
حقیقت ہے کہ علماء معاشرہ کی اصلاح اور نوجوان نسل کی مثبت تربیت و رہنمائی اسی
وقت تک کامیابی کے ساتھ کرتے رہے جب تک وہ زمانے کے نبض شناس رہے۔ معاصر نسل اور
سماج کی ضرورتوں اور ان کی زبان کو سمجھتے رہے۔ کیونکہ تمام رسولوں اور پیغمبر وں
نے بھی تبلیغ وتلقین کا کام اسی زبان میں کیا جوان کی قوم کی تھی، جیسا کہ اللہ رب
العزت نے خود سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر4 میں فرمایا: ’ہم نے اپنا پیغام دینے کے
لیے جب بھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے، تاکہ
وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے۔ پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکادیتا ہے اور
جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے، وہ بالادست او رحکیم ہے۔ اسی لیے اسلامی علوم میں
مہارت رکھنے والے علمائے سابقین نے اس اہم نکتہ کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا
اور زمانے کی نفسیات و ضروریات کا پورا پورا لحاظ رکھا۔چنانچہ ان کے پیغام کو
معاصر نسلوں کو سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ اس سلسلے میں مفکر اسلام
مولاناابوالحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں: ’علمائے اسلام کی ذہانت اور جذبہ خدمت نے
کبھی کسی منزل پر اور کبھی کسی لکیر کافقیر بنناگوارا نہیں کیا، انہوں نے علم کے
چلتے پھرتے قافلہ کاساتھ دیا، ان کاہاتھ زمانے کی نبض سے کبھی جدا نہیں ہوا، ان کی
نگاہ زندگی کے بدلتے ہوئے تیوروں سے کبھی ہٹی نہیں، انہوں نے اسلام کی خدمت کے لیے
جس زمانے میں جس چیز جس طرز اور جس اسلوب کی ضرورت سمجھی، بلاتکلیف اختیار
کرلیا۔۔۔۔۔علماء کی اس بیدار مغزی او رزمانہ شناسی کانتیجہ یہ ہوا کہ علماء پر اس
ملک کی تعمیر وترقی سے علیحدگی او راس کے رجحانات و جذبات سے بے خبری کاالزام نہیں
لگایا جاسکا۔ انہوں نے اس ملک میں کبھی جزیرہ بننے کی کوشش نہیں کی، بعض دوسرے
اسلامی ملکوں کی طرح وہ زمانے کے کارواں سے بچھڑے نہیں، انہوں نے اپنی دعوت اور
دینی مقاصد کے لیے وہی زبان اختیار کی جو اس ملک میں رائج تھی اور جو ادبی حلقوں
میں اثر رکھتی تھی۔ ہمیں ان روایات کو قائم رکھنا چاہئے او راس مقدس ترکہ کی حفاظت
کرنی چاہئے،۔(پاجاسراغ زندگی۔ ص: 103۔98)
اس کے برعکس سماج کے اس
اہم طبقہ نے جب زمانہ کی رفتار کے ساتھ چلناچھوڑ دیا اوراس کے تقاضوں کو نظرانداز
کیاتو ان کی اصلاحی وتربیتی کوششیں بھی مدھم پڑگئی۔ بقول اسلامی اسکالر مولانا
وحید الدین خاں ؒ: تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام کے ظہور کے بعد علماء تقریباً ایک ہزار
سال تک یہ کام بخوبی انجام دیتے رہے، اس کا ایک بنیادی سبب یہ تھاکہ پچھلے زمانوں
میں علماء کی زبان بھی ہوتی تھی جو وقت کے سربرآوردوہ طبقہ کی ہوتی تھی۔۔۔۔اس طرح
دونوں طبقوں کے درمیان کوئی لسانی بعد نہیں پایا جاتا تھا،برطانوی اقتدار سے پہلے
ہندوستان میں بھی یہ صورت حال باقی رہی۔ اس زمانے میں مسلم ارباب اقتدار عام طور
پر فارسی زبان بولتے یاسمجھتے تھے او رعلما ئے اسلام کی زبان بھی اس زمانے میں فارسی
تھی۔ اس بنا پر علما ء کے لیے ممکن ہوگیا کہ وہ وقت کے سربرآوردہ طبقہ کو براہ
راست مخاطب کرسکیں اوراپنے قائدانہ رول کو کامیابی کے ساتھ اداکرسکیں۔۔۔۔ مگر
ہندوستان میں برطانوی اقتدار قائم ہونے کے بعد صورت حال بدل گئی۔ اب یہاں کے
حاکموں اور لیڈروں اور تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان انگریزی بن گئی، اب نہ صرف حکام
سے ربط کے لیے بلکہ عوامی سطح پر کوئی بڑی تحریک چلانے کے لئے بھی انگریزی زبان
لازمی طور پر ضروری ہوگئی۔ لسانی تبدیلی کے بعد ملکی تاریخ دوسرا منظر دیکھتی ہے۔
علمائے اسلام جو تقریباً ہزار سال سے ملی اور سیاسی معاملات میں قائدانہ رول ادا
کرتے چلے آرہے تھے انہوں نے اچانک اپنے آپ کو اس میدان میں حاشیہ پر پایا۔“(دین و
شریعت۔ص: 100۔99)
بہر حال، حالات حاضرہ کے
مد نظر تربیت واصلاح کے میدان میں کام کرنے والوں کے لیے صرف کسی زبان کاسیکھ لینا
اور اس میں مہارت حاصل کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ زبان کے ساتھ ساتھ افہمام و تفہیم
کے عصری اسلوب اور تربیت و اصلاح کے تمام جدید و سائل سے واقفیت اور ان سے ہم
آہنگی بھی ضروری ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار
نہیں کیا جاسکتا کہ دور حاضر میں ہندوستان میں کچھ ایسے علماء موجود ہیں جو زمانے
کے نبض شناس ہیں اور معاصر زبان و ابیان پر پورا عبور رکھتے ہوئے سماجی اصلاح
وتربیت کے کام میں مشغول ہیں اور بہت حد تک کامیاب بھی ہیں مگر ان کی تعداد کم ہے
جنہیں انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا ہے۔
علماء مسلم سماج کو اٹوٹ
حصہ ہیں اور عوام الناس سے ان کاگہرا رشتہ ہے۔پیدائش سے لے کر موت تک مسلمان اپنے
تمام تر معاشرتی مسائل میں ان سے رجوع کرتے ہیں۔ سماج میں ان کی باتوں کا ایک وزن
ہے۔ اسی لیے سماج کو ان سے بہت ساری امیدیں بھی وابستہ ہیں۔لہٰذاضروری ہے کہ
پیغمبر وں کے انسانیت،اخوت و بھائی چارہ اور مساوات وہمدردی کے پیغام کو بنی نوع
انسانی تک پہنچانے کے لئے وقت کے مطابق زبان و بیان اورتربیت و اصلاح کے تمام
وسائل کو اپنایا جائے او رعلماء کے ساتھ ساتھ سماج کا ہرفرد بھی اس کار خیر میں
اپنی شراکت درج کرائے تاکہ انسانی معاشرہ تشدد دہشت گردی، نفرت و حقارت اور سمای
نابرابری سے نجات پاکر امن و سلامتی، محبت و رواداری اور سماجی انصاف کی
آزادفضامیں سانس لے سکے۔
11 دسمبر،2022، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
---------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism