New Age Islam
Mon Apr 21 2025, 04:48 AM

Urdu Section ( 11 Jun 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Situation following the loss in the 2024 Election شکست کے بعد کے احوال

سعید نقوی

10 جون،2024

الیکشن 2024ء کے نتائج کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہندوستان کے رائے دہندگان نے تمام سیاسی جماعتو ں کو ایک واضح پیغام دے دیاہے یہی کہ: ہندوستانی عوام سیاستدانوں کے عوامی بیانات میں اختیار کئے گئے برے رویے کے لئے کبھی ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔ ہندوستانی ووٹرس نے ایک ایسا فیصلہ دے دیا ہے جس نے طاقت کے ڈھانچے کو جھٹکا دیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ جھٹکا بہت لطیف اور نفیس بھی ہے۔ جب اہم سیاسی مہم چلانے والے نریندر مودی مسلمانوں کو منگل سوتر چوری کرنے والے، گھس پیٹھیا (درانداز) کے طور پر بیان کرتے ہیں تو ان کا یہ بیان سیاسی گفتگو میں ایک زہر گھول دیتا ہے۔ یہ زہر فی الواقع انتہا پسندی کی کامیابی کے رجحان کو جنم دے دیتاہے۔ کھدور صاحب (پنجاب کاایک پارلیمانی حلقہ) سے ’وارث پنجاب دے‘ تنظیم کے سخت گیر سربراہ ’امرت پال سنگھ‘ نے جیل سے ہی انتخابی مہم چلائی او رکامیاب ہوگیا۔ آخر اس صورتحال کو او رکیا نام دیا جائے اور اس کو کیسے سمجھا جائے؟ آخر اس کی جیت کو کیا نام دیا جائے۔ اسی طرح انجینئر عبدالرشید کامعاملہ دیکھئے: وہ کشمیر میں بارہمولہ حلقہ میں نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو جیل سے ہی شکست دے دیتے ہیں۔ دوسری سرحدی ریاستوں میں یہ دوغیر معمولی کامیابیاں آخر کیا بتاتی ہیں۔

ہندوستانی عوام کے اندر صبر و برادشت او رضبط و تحمل دراصل ایک بھارتی خصوصیت ہے۔ کئی دہائیوں تک اس نے ’لو جہاد‘ ’لینڈ جہادی‘ سنا یہاں تک کہ ہندوستانی عوام کے صبر کا پیمانہ نفرت انگیز تقریروں سے بھر گیا۔ اب وہ پیمانہ مزید نفرت کو نہیں سما سکتا تھا۔ او ریہ اس تصویر کو مکمل طور پر غلط پڑھنا ہوگا کہ مسلمانوں کو گالیاں دینے سے صرف مسلمانوں یا اقلیتوں کو ہی ٹھیس پہنچی۔ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف زہریلی زبان کے استعمال نے اس ملک کے ہندوؤں کو بھی نہ صرف تکلیف پہنچائی بلکہ انہیں شرمندگی بھی ہوئی۔ اس طرح کی بے ہودہ گفتگو اس ملک کے ہندوؤں کو ناگوار گزرتی ہے۔ انتخابی تنائج عوامی زندگی میں غیر مہذب زبان کے استعمال کو بڑے پیمانے پر مسترد کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر نریندر مودی اپنے نفرت انگیز مسلم وقف میں تسلسل نہ رکھیں تو پھر ان کا سیاسی وجود ہی ختم ہوجائے گا۔ انہوں نے اپنی شبیہ اور جو مقبولیت بنائی ہے وہ مسلمانوں سے نفرت کے ہی سہارے بنائی ہے۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے،گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پربھی انہوں نے اپنی یہی شبیہ بنائی۔ انہوں نے ایک صوفی امام کی طرف سے پیش کی گئی ٹوپی پہننے سے انکا ر کردیا تھا۔ظاہر ہے کہ وہ اس سے یہی ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ انہیں نہ صرف مسلمانوں سے بلکہ اسلامی شعائر سے بھی نفرت ہے۔ گجرات اسمبلی کے انتخابات کی مہم کے دوران وہ کس طرح دانت پیس کر ’میاں شریف‘ کا استعمال کرتے تھے۔ ایسا کرکے دراصل وہ اپنی مسلم نفرت والی شبیہ کو او رمضبوط بنانا چاہتے تھے اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے۔

یاد کیجئے! مئی 2014 ء میں پارلیمنٹ میں اپنی پہلی ہی تقریر میں انہوں نے ہندوستانی جمہوریہ کے بانی کے ذریعہ قائم کردہ روایت کو توڑ دیا تھا۔ جنگ آزادی کے ہمارے اسلاف نے ہمیں سکھایا تھا کہ ہم سب ہندو، مسلمان اور تمام فرقوں نے مل کر انگریزوں سے آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ لیکن مودی کاپنا اسکرپٹ تھا۔ انہو ں نے ’غلامی‘ کے ’1200/ سال‘کی بات کی۔ انہوں نے واضح طور پر ایک پیغام دیا کہ ابھی ایک محکومی باقی ہے جس سے ملک کو آزاد ہوناہے۔ ان کے اس طرح کے نعروں کااصل مقصد مسلمانوں کو سبق سکھانا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ نریندر مودی کو ہندوستان کی صحیح تاریخ کا علم ہی نہیں ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخی داستان شروع ہوگئی تھی جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم باحیات تھے۔ اس تاریخ کو درست طور پر سمجھنے کے لئے آپ کو جغرافیہ کو کسی ذہن میں رکھناہوگا: بحیرہ عرب کا صرف ایک حصہ ہی عرب کو کیرالہ کے ساحل سے الگ کرتاہے۔ پیغمبر اسلام کی وفات 632/عیسوی میں ہوئی تھی لیکن 629 /عیسوی میں کوچی کے قریب کرینگنور کے ایک ہندو رئیس چیرومن پیرومل نے ایک مسجد قائم کردی تھی جہاں آج تک نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔ عرب او رکیرالہ کے درمیان تجارت کی تاریخ ظہور اسلام سے ایک ہزار سال پہلے کی ہے۔یہ مسجد عرب تاجروں کے لیے ایک سہولت تھی۔ صدیوں کے دوران ان تاجروں نے خود کو کوزی کوڈ کے اطراف میں آباد کرلیا۔قبیلے کی تمام خواتین نے جو فی الواقع مسلمان ہی تھیں، ہندو روایات کو برقرار رکھا جس میں ’تھالی‘ پہننا بھی شامل ہے جسے کیرالہ میں منگل سوتر کہاجاتا ہے۔  میں نے ’منگل سوتر‘ کا ذکر اس لیے بھی کیاہے کہ مودی نے اپنی انتخابی تقریروں میں منگل سوتر کاذکر غلط وجوہات سے کرکے اسے مشہور کیاہے۔ 200/ ریلیوں سے خطاب کرنے کے باوجود نریندرمودی کو ووٹرو ں نے تراش خراش کرکے چھوٹا کردیاہے۔ وہ ان ریلیوں میں جب گئے تھے تو ان کا قد بہت اونچا تھا لیکن جب وہ واپس آئے تو ان کا قد بہت چھوٹا ہوگیا تھا۔ اس ملک کا ووٹر بہت ہوشیار رہا ہے۔ اس نے بی جے پی کو بھی اندھیرے میں رکھا او راس سے کھیل کر اس کاکھیل ہی بگاڑ دیا۔ درست بات یہ ہے کہ مودی کو دروازہ دکھا دیا گیاہے۔ سوال یہی ہے کہ کیا مودی حاصل شدہ مینڈیٹ سے کچھ سبق حاصل کریں گے؟ ان کی نرگسیت اس راستے میں آڑے آسکتی ہے۔ او رپھر اس کے نتیجے میں کبھی بھی او رکچھ بھی ہوسکتا ہے۔

نریندر مودی کے مقابلے اگر کوئی او ران سے بھی کم سخت جان ہوتا تو اسے اب تک طبی امداد کی ضرورت پڑجاتی۔رائے بریلی میں راہل گاندھی کو 4/لاکھ ووٹوں کے فرق سے جیتتے ہوئے دیکھنا مودی کیلئے نہایت افسوسناک ہوگا، اس سے بھی زیادہ افسوسناک ان کے لئے یہ ہوگا کہ وہ خود وارانسی میں اتنے ووٹوں سے نہیں جیت سکے۔ وہ اپنی شخصیت او راپنی سابقہ دوروایات کے اعتبار سے بہت کم فرق سے جیتے ہیں۔ انہیں محض ڈیڑھ لاکھ ووٹوں سے ہی کامیابی مل سکی۔ ادھر امیٹھی میں گاندھی خاندان کے پرانے وفادار کشوری لال شرمانے مصیبت میں گھری بی جے پی کی خاتون امیداوار اسمرتی ایرانی کو بھاری ووٹوں سے شکست دی ہے۔ یہ کچھ ایسے نکات ہیں جو بی جے پی سے زیادہ خو د نریندر مودی کے لئے سخت تکلیف کا باعث ہوں گے۔ صحافیوں کیلئے گودی میڈیا کے برعکس جنہوں نے اپنی آزادی کی قدر اور حفاظت کی ہے، یہ نتائج ایک روشن صبح کی طرح ہیں لیکن صرف اس صورت میں جب ہم اپنی آزادی کو بحال کرنے او ربرقرار رکھنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ دہلی میں تمام سات سیٹوں پر بی جے پی کی جیت کچھ ناقابل فہم قسم کی بات ہے۔ یہاں دو بڑی جماعتوں کانگریس او رعام آدمی پارٹی کا اتحاد تھا۔دہلی میں عام آدمی پارٹی ایک دہائی سے برسر اقتدار ہے۔ اس کے پاس اسمبلی کی 70 /میں سے 62/ نشستیں ہیں۔ اس کے لیڈر وں پر عتاب بھی آیا ہوا ہے۔ایسے میں اس اتحاد کا ساتوں نشستیں ہار جانا کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔

یوگی آدتیہ ناتھ کو ذہنی او رجسمانی طور پر چاق وچوبند رکھنے کے لئے کچھ نمکیات کی دھونی دی جانی چاہئے۔ وہ ایک مقصد سے بھرپور او رلگن کے احساس کے ساتھ کس طرح بلڈوزر پر سوار ہوکر گھروں کو تباہ کرنے کے لئے نکلے او رکس طرح انہوں نے فرضی انکاؤنٹر س کا سلسلہ شروع کیا۔ کیا اب ان کی پرائیویٹ فوج کو بدلہ لینے کے لئے مجبور وں پرمسلط کیا جائے گا؟ ادھرکانگریس کو دیکھئے کہ اس نے صورتحال سے کتنا سیکھ لیا ہے۔ نمایاں طور پر گاندھی خاندان او رخاص طور پر راہل اور سونیا گاندھی کے ہونے کے باوجود نتائج آنے کے بعد ملکا رجن کھڑگے کو پہلی پریس کانفرنس کرنے کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ پارٹی کے صدر ہیں۔ راہل گاندھی نے ان کے بعد بات کی۔ یہ خوبصورت تحمل دوسری طرف نہیں تھا۔ بلکہ سچ پوچھئے تو کھڑگے کاپہلی پریس کانفرنس کو پہلے خطاب کرنا بی جے پی کے آداب کے خلاف تھا۔ دونوں میں یہی بڑا فرق ان دونوں کو الگ کرتاہے۔

10جون،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

----------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/situation-following-loss2024-election/d/132489

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..