سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
11 اگست 2023
تعلیم نسواں مسلموں کے دانشوروں
اور ماہرین تعلیم کے حلقوں میں ایک لمبے عرصے سے موضوع بحث رہا ہے۔ اسلام نے ہر مسلمان
مرد اور عورت پر تعلیم کے حصول کو فرض قرار دیا ہے اور اس میں کسی قسم کی تخصیص و امتیاز
روا نہیں رکھا ہے۔رسول اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی درخواست پر ان کی تعلیم
کے لئے ایک مخصوص دن اور وقت مقرد کردیا تھا ۔ وہ زندگی کے ہر شعبے میں اسلامی معاشرے
میں فعال اور متحرک کردار ادا کرتی تھیں حتی کہ وہ جنگوں میں بھی شریک ہوتی تھیں۔ اور
مسجدوں میں بھی باجماعت نماز ادا کرتی تھیں۔ لیکن جیسے جیسے اسلامی حکومت کی توسیع
ہوتی گئی اور سماجی اور سیاسی حالات بدلتے گئے مسلم مردوں کے عورتوں کے متعلق تحفظات
بڑھتے گئے اور تعلیم نسواں کے متعلق بھی ان کا تصور بدلتا گیا۔اس کی وجہ بدلتے ہوئے
حالات میں عورتوں کی عصمت و عفت کا تحفظ سے متعلق فکر مندی بھی تھی۔ لیکن بہت سے ممالک۔میں
قبائلی تصورات اور عورتوں کے متعلق قبائلی مردوں کا تحقیر آمیز,رویہ بھی ان کی تعلیمی
ترقی میں مانع تھا۔ اسلام سے ان قبائلی تصورات کا کوئی تعلق نہ تھا۔ مثال کے طور پر
, افغانستان کے قبائلیوں میں لڑکیوں کو بارہ برس کی عمر کے بعد باہر نہیں نکلنے دیا
جاتا کیونکہ ان کا خیال ہے کہ وہ اس عمر میں بالغ ہو جاتی ہیں اور وضع حمل کے قابل
ہوجاتی ہیں ۔ اس لئے اسے بدکاری سے محفوظ رکھنے کے لئے اس عمر کو پہنچنے پر شادی ہونے
تک محصور رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور ہندوستان کے جاگیردارانہ سماج کے پڑھے
لکھے افراد کے ذہن میں بھی پرورش پارہا تھا۔ اس لئے اس سماج کے افراد تعلیم حاصل کرنے
اور مغربی ممالک میں زندگی کا ایک حصہ گزارنے کے باوجود عورتوں کے تئیں اس تنگ اور
محدود فکری دائرے سے باہر نہ آسکے اور اپنی شعری اور نثری تحریروں اور تقریروں میں
اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ہندوستان میں انگریزوں کے
تسلط کے بعد جدید تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا تو مسلمانوں کے دانشور طبقے کو یہی فکر لاحق
ہوئی کہ اس جدید تعلیم کی لہر ان کے سماجی نظام کا شیرازہ بکھیردیگی۔جدید تعلیم کی
روشنی ان کی آنکھوں کو خیرہ اور ذہنوں کو تاریک کردیگی۔ جدید تعلیم کو وہ مغربی کلچر
سے الگ نہیں دیکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جدید تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کے بچے اور
بچیاں بے راہ روی کا شکار ہوجائینگی۔ اس لئے انہوں نے مغربی تعلیم کے خلاف ایک ادبی
اور علمی مہم چلائی۔ جو دانشوران کھل کر جدید تعلیم۔کی مخالفت نہیں کررہے تھے وہ دبی
زبان میں عورتوں کی تعلیم کو ایک خاص حد تک محدود رکھنے کی بات کررہے تھے۔ ان شخصیات
میں انیسویں صدی کے تین مسلم دانشور بھی تھے جو کھلے یا ڈھکے چھپے طور پر تعلیم نسواں
پر اپنے تحفظات کا اظہار کررہے تھے۔ وہ تین دانشور تھے سر سید، علامہ اقبال اور اکبر
الہ آبادی۔
شاید یہ جان کر کچھ لوگوں
کو تعجب ہو کہ سر سید جنہوں نے مسلمانوں میں جدید تعلیم۔کی اشاعت و فروغ کے لئے علی
گڈھ میں جدید تعلیم کا ایک ادارہ قائم کیا جو آگے چلکر علی گڈھ مسلم۔یونیورسٹی بنا
، وہ تعلیم نسواں یعنی مسلم عورتوں میں جدید تعلیم کے حامی نہیں تھے۔ وہ صرف مسلم مردوں
میں جدید تعلیم اور سائنٹفک مزاج کے فروغ کے حامی تھے۔ کئی موقعوں پر انہوں نے اپنے
اس نقطہء نظر کا زبانی اور تحریری طور پر اظہار کیا۔ وہ اپنے ایک لکچر میں کہتے ہیں۔
۔"میں اپنی قوم کی خاتونوں کی تعلیم سے بے پروا نہیں ہوں۔ میں
دل سے انکی تعلیم کا خواہاں ہوں ۔ مجھکو جہاں تک مخالفت ہے اس طریقہ تعلیم سے ہے جس
کے اختیار کرنے پر اس زمانے کے کوتاہ اندیش مائل ہیں۔"۔
اپنے ایک دوسرے لکچر میں وہ
کہتے ہیں۔۔
۔"جو جدید انتظام عورتوں کی تعلیم کا اس زمانے میں کیا جاتا ہے
خواہ وہ انتظام گورنمنٹ کا ہو اور خواہ اسی طرز کا کوئی انتظام کوئی مسلمان یا کوئی
انجمن اسلامی اختیار کرے اس کو میں پسند نہیں کرتا۔ عورتوں کے لئے مدرسوں کا قائم کرنا
اور یوروپ کے زنانہ مدرسوں کی تقلید کرنا ہندوستان کی موجودہ حالت کے کسی طرح مناسب
نہیں اور میں اس کا سخت مخالف ہوں۔۔"۔۔
سر سید ایک طرف تو یہ کہتے
ہیں کہ وہ عورتوں کی تعلیم سے بے پروا نہیں ہیں اور دل سے انکی تعلیم کے خواہاں ہیں
لیکن دعسری طرف وہ عورتوں کے کالج میں جدید تعلیم حاصل۔کرنا تو دور عورتوں کے لئے مدرسے
اور اسکول کھولنے کے بھی مخالف ہیں۔ اس زمانے میں کچھ مسلمانوں نے لاہور میں خالص عورتوں
کا مدرسہ کھولنے کی تجویز رکھی تھی جس کی سر سید نے سختی سے مخالفت کی تھی۔ سر سید
مسلمانوں کے ذریعہ بھی عورتوں کے لئے اسکول اور مدرسے کھولنے کی مخالفت کررہے تھے۔
عورتوں کی تعلیم کی اس درجہ
مخالفت پر نواب محسن الملک نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا۔۔
۔"ان کا تعصب تو اس مسئلہ۔میں یہاں تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ تعلیم۔نسواں
کو بھی اسی دائرہ کے اندر رکھنا چاہتے تھے جیسا کہ اگلے پرانے شرفاء کے خاندانوں کا
دستور تھا۔وہ اس جدید طریقہ کی تعلیم کو جس کا چرچا ہورہا ہے قوم۔کے حق میں نہایت مضر
خیال۔کرتے تھے۔۔"۔
ان اقتباسات سے یہ واضح ہوتا
ہے کہ مرودوں کی تعلیم کے معاملے میں روشن خیال سرسید تعلیم۔نسواں کے معاملے میں نواب
محسن الملک اور دیگر مسلم دانشوروں کے مقابلے میں متعصب تھے۔ وہ عورتوں کے لئے الگ
سے مدرسے قائم۔کرنے کے بھی مخالف تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورتوں کو اس دور کے
چلن کے مطابق گھر کے اندر ہی بنیادی تعلیم دینے کے حامی تھے۔ اس سے زیادہ کے نہیں۔
مسلمانوں کے دوسرے سب سے بڑے
دانشور جو فلسفی بھی کہلاتے تھے شاعر مشرق علامہ اقبال تھے جو سیاسی اور ملی معاملات
میں فعال اور سرگرم تھے۔ وہ مسلم لیگ کے ممبر اسمبلی بھی رہے اور دو قومی نظرئے کے
حامی تھے۔ انہوں نے بھی تعلیم نسواں سے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کیا ۔ وہ عورتوں
کے تعلیم کے حامی تھے لیکن تعلیم۔نسواں سے متعلق ان کا بھی تصور بہت واضح نہیں تھا۔
وہ کہتے ہیں۔۔
۔" میں مرد وعورت کی۔مساوات کا حامی نہیں ہوں۔ قدرت نے ان کو جدا
جدا خدمتیں تفویض کی ہیں۔ ۔".
اپنے ایک۔مضمون میں وہ لکھتے
ہیں۔۔
۔" عورت فاطرالسموات والارض کی مقدس ترین مخلوق ہے اور اس کا جنسی
وجود اس امر کا متقاضی ہے کہ اجنبی نگاہوں سے اسے محفوظ رکھا جائے۔۔"۔
اقبال بھی عورت کو تعلیم دینے
کے حامی تو ہیں لیکن اسے اجنبی نگاہوں سے محفوظ رکھنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ ایسے میں
عورتوں کے لئے تعلیم کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے گھر پر رکھ کر اسے تعلیم دلوانا
۔
ان کا ایک۔قطعہ بھی ان کے
نقطہء نظر کی وضاحت کرتا ہے۔
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
قوم نے ڈھونڈ لی فلاح کی راہ
یہ ڈراما دکھائےگا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
بیسویں صدی میں مسلمانوں میں
جدید تعلیم خصوصا عورتوں کی تعلیم کی مخالفت اپنی شاعری کے ذریعہ جتنی اکبرالہ آبادی
نے کی اتنی کسی دوسرے شاعر نے نہیں کی۔ تعلیم نسواں کا مذاق اڑاتے ہوئے انہوں نے جو
اشعار کہے وہ زباں زد عام ہوگئے اور تعلیم نسواں کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں
بہت بڑا کردار ادا کیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس دور میں جن لوگوں نے لڑکیوں کے لئے
اسکول کھولے یا کھولنے کی کوشش کی انہیں مسلمانوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا
پڑا۔ اکبر الہ آبادی نے اپنے اشعار میں نہ صرف جدید تعلیم کی مخالفت کی بلکہ لڑکیوں
کو اسکول اور کالج بھیجنے والے مردوں کو بے غیرت اور بے عقل۔تک کہا ان کے چند اشعار
ملاحظہ ہوں۔
حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے
جب بیگانہ تھی
اب ہے شمع انجمن پہلے چراغ
خانہ تھی
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند
بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے
گڑ گیا
میں نے جو پوچھا,آپ کا پردہ
وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں
کی پڑ گیا
میں بھی گریجویٹ ہوں تو بھی
گریجویٹ
علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آکے
لیٹ
دو اسے شوہر و اطفال۔کی خاطر
تعلیم
قوم کے واسطے تعلیم نہ دو
عورت کو
اکبر کے خیال میں ہر تعلیم
یافتہ عورت یا گریجویٹ عورت بدکردار ہوجاتی ہے اور کسی بھی مرد کے ساتھ کہیں بھی لیٹ
جاتی ہے۔ وہ بھی سرسید اور اقبال کی طرح چاہتے ہیں کہ انہیں صرف گھر میں تعلیم دی جائے
اور اس حد تک تعلیم دی جائے جو اس کے لئے امورخانہ داری میں معاون ہو۔ وہ ڈاکٹر انجینئر
، افسر، ٹیچر لکچرر نہ بنے۔
ان عظیم شخصیات کے تعلیم نسواں
اور عورتوں سے متعلق افکار واقوال آج کے تناظر میں کتنے دقیانوسی اور مضحکہ خیز لگتے
ہیں۔آج مسلم۔معاشرہ تعلیم نسواں اور عورتوں سے متعلق ان کے افکار کو نہیں مانتا اور
پردے اور حیاداری کا پاس کرتے ہوئے لڑکیاں اعلی تعلیم حاصل کررہی ہیں اور ان کے والدین
ان کی تعلیم میں ان کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں ۔لیکن دوسری طرف آج بھی مسلمانوں کا ایک
طبقہ تعلیم نسواں کا مخالف ہے ۔ طالبان اس طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اور آج بھی تعلیم
نسواں پر سرسید اقبال اور اکبرالہ آبادی کے نظریات پر عمل کرتے ہیں۔۔
--------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism