معصوم مرادآبادی
11جولائی،2024
غزہ میں اسرائیلی درندگی
اور بربریت کا ننگا ناچ بلا روک ٹوک جاری ہے۔ ہر روز میڈیا میں اس کی دل دہلانے
والی خبریں شائع ہوتی ہیں، لیکن اب ہم ان خبروں کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ان پر
شاذ ونادر ہی نظر ڈالتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی چونکانے والی خبر منظر عام پر آتی ہے تو
اس پر ضرور چہ میگوئیاں ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک خبر گزشتہ 8 جولائی کو جدہ سے شائع
ہونے والے انگریزی اخبار ’عرب نیوز‘ نے شائع کی جس میں بتایا گیا کہ غزہ میں جاری
اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں اب تک ایک لاکھ 86 ہزار اموات ہوچکی ہیں۔ یہ خبر
درحقیقت لندن سے شائع ہونے والے بین الاقوامی طبی جریدے ’لانسٹ‘ کے حوالے سے شائع
ہوئی،جسے بعد کو بعض ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے بھی نقل کیا۔ یہ خبر اس لیے چونکانے
والی تھی کہ اب تک فلسطینی وزارت صحت کی طرف سے غزہ میں جاری بربریت کے نتیجے میں
جو ہلاکتیں ہوئی ہیں، ان کی تعداد 38ہزار کے آس پاس ہے۔ لیکن ’لانسٹ‘ نے جو اعداد
شمار شائع کئے وہ واقعی چونکانے والے اور تشویش ناک ہیں۔
’لانسٹ‘ عالمی سطح پر ایک معتبر طبی جریدہ ہے اور اس کے اعداد
وشمار کو کسی بھی طور پر جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ جریدے کاکہناہے کہ غزہ میں گزشتہ
9ماہ سے جاری اسرائیلی حملوں میں مرنے والوں کی حقیقی تعداد ایک لاکھ 86 ہزار سے
زیادہ ہے۔ ’لانسٹ‘ نے نشاندہی کی ہے کہ ’جنگ میں ہلاکتیں صرف وہ نہیں ہوتیں جو
حملوں کی زد میں آکر براہ راست ہوتی ہیں بلکہ ان اموات کو بھی شمار کیا جانا چاہئے
جو جنگ کی وجہ سے پیداشدہ صورتحال کی وجہ سے ہوتی ہیں‘۔دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ سال
اکتوبر میں اسرائیل نے غزہ پر جو آگ برسانی شروع کی تھی اس کے نتیجے میں 23لاکھ
آبادی کی وہ محصور پٹی انسانی بے بسی اور لاچاری کا ایک ایسا مرکز بن گئی ہے جہاں
زندہ رہنے کے تمام ذرائع ختم کردیئے گئے ہیں۔ بنیادی ڈھانچہ پوری طرح تباہ ہوچکا
ہے۔اسپتالوں سے لے کر، پناہ گزین کیمپوں تک ہر جگہ تباہی کے سواکچھ نہیں ہے۔ یوں
توغزہ میں پہلے ہی لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے تھے، لیکن اسرائیل کی
ننگی جارحیت کے نتیجے میں وہاں زندہ رہنے کے سارے اسباب ختم کردیئے گئے ہیں۔ وہاں
غذا ؤں اور دواؤں کا ہی بحران نہیں ہے بلکہ بودوباش کی تمام راہیں مسدود کردی گئی
ہیں۔ غزہ ایک کھنڈر کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے اور وہاں زندہ رہنا سب سے مشکل
کام ہے۔مرنے والوں میں ان ہی لوگوں کو شمار کیا جارہاہے جن کی لاشیں برآمد ہوئی
ہیں، لیکن جو لوگ ملبوں میں دفن ہیں انہیں ابھی تک گمشدہ لوگوں میں شامل کیا
گیاہے۔
غزہ کی وزارت صحت نے
7اکتوبر کے بعد سے پیر 8جون تک غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 38ہزار 193افراد کے جاں
بحق اور 10 ہزار سے زیادہ کے لاپتہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔اس کے مطابق حملوں میں
تقریباً 88ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں، تاہم ’لانسٹ‘ کی تحقیق کے مطابق اموات کی
حقیقی تعداد کئی گنا زیادہ ہے، کیونکہ اس میں وہ ہزاروں افراد شامل نہیں ہیں، جو
ملبے میں دب کر رہ گئے ہیں، جو طبی سہو لتوں کے تباہ ہوجانے کی وجہ سے مرگئے یا جن
کی موت غذا کی فراہمی متاثر ہونے یا عوامی ڈھانچے کے دیگر مسائل کی وجہ سے ہوئی
ہے۔ ’لانسٹ‘ کے مطالعہ میں کہا گیاہے کہ اس طرح
کے تنازعات میں تشدد کے اثر سے بالواسطہ اموات بھی بڑی تعداد میں ہوتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق غزہ جنگ اگر فوری طور پر بند بھی ہوجائے تب بھی اس کی وجہ سے ہونے
والی اموات کا سلسلہ آنے والے کئی مہینوں اور برسوں تک جاری رہے گا، جو جنگ کی وجہ
سے پھیلنے والی بیماریوں، وسائل کی قلت اور دیگر وجوہات کا نتیجہ ہوں گی۔’لانسٹ‘
نے غزہ میں بنیادی ڈھا نچے کو پہنچنے والے نقصان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ
’غزہ میں بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچہ تباہ ہواہے
جس کی بنا پر اموات کی تعداد کہیں زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ رپورٹ میں
نشاندہی کی گئی ہے کہ غذا کی قلت، پانی کی عدم دستیابی اور رہائش کی کمی کے ساتھ
ساتھ فلسطین کے لئے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے فنڈ میں کمی آرہی
ہے جس کا براہ راست اثر جنگ سے متاثر ہ عام شہریوں کی زندگیوں پر پڑے گا‘۔
غزہ جنگ پر اپنی تحقیقی
رپورٹ میں ’لانسٹ‘ نے نشاندہی کی ہے کہ ’حالیہ تنازعات میں دیکھا گیاہے کہ حملوں
کی وجہ سے براہ راست اموات کے مقابلے بالواسطہ اموات کی تعداد پندرہ گنا سے بھی
زیادہ ہوتی ہے۔ ’لانسٹ‘ نے غزہ کے معاملے میں صرف چار گنا بالواسطہ اموات کا
تخمینہ لگایاہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر براہ راست موت کے ساتھ چار بالواسطہ اموات کے قدامت پسند انہ تخمینہ کو بنیاد بنائیں تب
بھی یہ اندازہ ناقابل فہم نہیں ہے کہ غزہ جنگ سے ایک لاکھ 86ہزار یا اس سے بھی
زیادہ اموات ہوسکتی ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی حملے شروع ہونے سے پہلے وہاں کی آبادی 23 لاکھ تھی۔ اس
لحاظ سے ’لانسٹ‘ کی تحقیق کے مطابق اسرائیلی حملوں میں غزہ کے آٹھ فیصد شہری جاں
بحق ہوجائیں گے‘۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ
غزہ میں انسانی المیہ شدید ترین ہوتا چلا جارہا ہے۔ وہاں کا بحران اتناسنگین ہے کہ
اسے پوری طرح لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ سب سے بڑا المیہ شفاخانوں کے آس پاس
وقوع پذیر ہورہاہے۔ پیشتر اسپتال تباہ کردیئے گئے ہیں۔ طبی کارکنوں اور ڈاکٹروں کی
موت نے پورے نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی علاقائی
ڈائریکٹر ڈاکٹر حنان بلخی کا بیان ہے کہ ’غزہ کے نظام صحت کی تباہی اور وہاں کے
عوام نے جو شدید صدمے اٹھائے ہیں، وہ اس قدر پیچیدہ ہیں کہ امدادی کارکنوں کے لئے
ان کو سمجھنا ہی کافی مشکل ہے۔ حنان بلخی کاکہناہے کہ ان کے لئے المناک کہانیوں کو
سننا اور ان کے حوالے سے بات چیت کرنامشکل ہے۔ امدادی ٹرکوں کے داخلے اور محدود
رسائی کی وجہ سے غزہ کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو تباہ کن بھوک اور قحط کا سامنا
ہے۔غزہ کی 96فیصد آبادی مستقل بنیادوں پر شدید غذائی عدم تحفظ کاسامنا کررہی ہے او
راس کی نصف سے زیادہ آبادی کے پاس اپنے گھر میں کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے جب کہ
20فیصد افراد بغیر کچھ کھائے پئے دن اور راتیں گزار رہے ہیں۔ غزہ کی بھیانک
صورتحال پر وہاں کے مشہور صحافی جاد حلس کی پوسٹ ملاحظہ فرمائیں:
’خدا کی قسم! اگر آپ اہل غزہ پر ڈھائے جانے والے مظالم اور تکالیف
دیکھیں تو آپ دنگ رہ جائیں، ذہن اس بات کو تسلیم نہیں کرپائے گاکہ آیا ایک انسان
ان تمام مظالم اور تکالیف کو برداشت کرکے زندہ کیسے رہ سکتاہے؟ اور اس تکالیف کی
شدت سے اس کی موت کیسے واقع نہیں ہوئی؟!!
خدا کی قسم! اگر یہ
تکالیف اور مشقتیں کسی چٹان پرگزرتیں تو وہ تکلیف کی شدت سے پھٹ جاتی، سمندر پر
اتنا ظلم ڈھایا جاتا تو وہ بخارات بن جاتا، دیوہیکل پہاڑوں پر گر اتنا ستم ڈھایا
جاتاتو ان میں شگاف پڑجاتے،لوہے جیسی مضبوط دھات تک اس تکلیف کی شدت سے پگھل
جاتی!!
ہم نے جو آفتیں دیکھی ہیں
اس کے مقابلے میں آپ کی پریشانیا ں ہیچ ہیں،(باخدا یہ حقیقت)،ہم پر بیتنے والے
دلسوز مناظر کے عادی نہ بنیں، اسے ہماری معمول کی زندگی روٹین لائف نہ
سمجھیں،بلاشبہ ہمیں تنہا، بے یارو مددگار چھوڑنے والوں کو اللہ رب العزت دیکھ رہے
ہیں،اور ان کو اللہ رب العزت کے حضور جواب دہ ہونا ہے۔“
11جولائی،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism