ارشد عالم ، نیو ایج اسلام
17 ستمبر 2020
حال ہی میں پاکستان میں
ایک بہت بڑا مظاہرہ دیکھا گیا۔جسے توہین
مذہب کے قوانین کے حوالے سے پاکستان میں ہونے والی قانون سازی کی تبدیلیوں
کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
ایک دفعہ کے مطابق اگر کوئی صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کی
توہین کرتا ہے تو اسے توہین رسالت سمجھا
جائے گا اور اس دفعہ کے تحت اس پر بھی کاروائ
ہوگی ۔اس دفعہ سے شیعہ کی ایک اہم عاشورہ رسوم کو براہ راست خطرہ لاحق
ہوتا ہے جسے تبرا کہا جاتا ہے ۔ جس میں وہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کےکچھ صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم کے بارے میں اچھی لعن و
طعن کرتے ہیں ۔ خاص طور سے تین خلفاء
راشدین حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر
اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کے
ساتھ شیعہ توہین آمیز سلوک کرتے ہیں
کیونکہ وہ انہیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پہلا خلیفہ
ہونے کے جائز حق کو غاصب سمجھتے ہیں۔
شیعہ مخالف گروپ جگہ جگہ دیواروں پر " شیعہ کافر " لکھتے ہیں جس کی خبر
کراچی سے دی گئ ہے
-----------
اسی لئے یوم عاشورہ کو جہاں ایک طرف شیعہ علماء کی ایک بڑی تعداد نے مذکورہ
بالا تین خلفاء کے بارے میں روایت سے ہٹ کر
ناپسندیدہ تبصرے کیے اور جزوی طور پر نئے قانون کے خلاف احتجاج کیا ۔
وہیں دوسری طرف کچھ سنی تنظیمیں ہیں جنہوں
نے شیعہ کو کافر قرار دیا ہے اس طرح
انہیں اسلام سے باہر کیا اور ان کے خلاف دشمنی کا رویہ اختیار کرنے کے
قائل ہیں ۔
بد نام زمانہ سپاہ صحابہ
جیسی جماعت میں شیعہ مخالف ہلاکتوں کے لیے سنی بریلوی کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں
نے شیعہ مخالف نعرے لگائے اور ان شیعہ علماء کی گرفتاری کا مطالبہ کیا
جنہوں نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں توہین آمیز تبصرے کیے تھے ۔
اگر عمران خان کی حکومت دنیا کو یہ دکھانا چاہتی تھی کہ اس نے دہشت
گرد گروہوں پر قبضہ کرلیا ہے تو اس کی ساری کوششیں بےکار ہیں ۔
کیونکہ سپاہ صحابہ جیسی دہشت گرد تنظیم کو کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں مارچ کرنے کی اجازت دینا پاکستانی ریاست کے سراسر ناکامی کا اعتراف ہے ۔حادثاتی طور پر شیعوں کے خلاف آگ بھڑکانے والی تقریر محمد علی روڈ پر کی گئی بعد میں جسکا نام بانی پاکستان دیا گیاجوکہ خود ایک شیعہ تھا ۔
جبکہ کچھ شیعہ علماء نے
اس طرح کے رسومات سے پرہیز کرنے کا مطالبہ کیا ہے دوسروں نے اتنا عمل نہیں کیا حتی
کہ انہوں نے اعتدال پر تنقید بھی کی ہے۔
دوسری طرف سنیوں نے مدح
صحابہ ریلیوں کے ساتھ اس طرح کے مبینہ اشتعال انگیزی کا جواب دیا ہے جو پہلے تین
خلفاء کی خلافت کی وضاحت کرتا ہے ۔ دراصل
روز اول سے متحدہ ریاستوں میں یہ
شیعہ ہی تھے جنہوں نے اسطرح کے سنی مدح صحابہ ریلی نکالنے پر اعتراض
کیا تھا اس لئے کہ انہوں نے اپنے تبرا کے حقوق کو محدود کر دیا تھا۔
اب زمانہ بدل گیا ہے اور پاکستان میں شیعوں کا خاتمہ ہو رہا ہے پاکستان میں سنی جو کہ اکثریت رکھتے ہیں اب ان قوا نین پر اپنا تاثر چاہتے ہیں جو ملک پر حکومت کرتے ہیں ۔ جذبے میں آکر شیعہ سے نفرت کا اظہار کر کے درحقیقت کچھ مسلمانوں نے حضرت امام حسین اور ان کے اہل خانہ کے قاتل یزید کی تعریف کی ہے ۔شیعوں سے اندھی نفرتوں میں کچھ مسلمان یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کنبہ کے قاتلوں کی تسبیح کر رہے ہیں۔ اس وقت کے سنیوں کے لئے شیعوں کی یہ نفرت بھی ان کے اعتقادی نظام کا حصہ بنتی جا رہی ہے ۔ بچپن سے ہی انہیں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ شیعہ ایک '' دیمک "جیسے ہیں جو اندر سے اسلام کو کمزور کر رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے نفرت کرنا شیعہ سنی شناخت کا ایک مستقل حصہ بن گیا ہے۔
بنگلہ دیش سے علیحدگی
اختیار کرنے کے بعد اس نے احمدیوں کے لیے داخلی خطرہ پیدا کیا اور اسلام کے حقیقی
ورژن کی حفاظت کے نام پر غیر قانونی طور سے ان پر دباؤ ڈالا ۔ہمیں یہ
نہیں بھولنا چاہیے کہ احمدیوں کے اس
معاملے میں شیعہ جوش و خروش کے ساتھ شریک کار تھے ۔
اب انہیں یہ معلوم
ہونا چاہیے کہ وہ اقلیت میں ہیں انہیں
جمہوریت اور اقلیتوں کے حقوق کے ساتھ
ساتھ احمدیوں ، پریشان کن ہندوؤں اور
عیسائیوں کے حقوق کے بارے میں تذکرہ کرنا چاہیے تب ہی وہ موجودہ اکثریتی سنی جماعت سے ایک مؤثر
چیلنج کا مقابلہ کرپائیں گے ۔
اسلام کی تفہیم کو کچھ
طریقے سے پیش کیا گیا ہے ۔ ماضی قریب میں
وہ گروہ جو شیعوں کے خون کے پیاسے تھے ایک
دوسرے کے ساتھ نہیں تھے بلکہ ایک دوسرے کو منحرف قرار دے رہے تھے ۔ اور القاعدہ اور طالبان کے نظریات پر
قائم رہنے والوں نے دراصل داتا دربار کے مزار سمیت بریلوی مزار کو اڑا دیا ۔
دیوبندی اسلام سے قانونی حیثیت حاصل کرنے والے موسیقی اور ہزاروں صوفیا کے طریقوں
کو نشانہ بنا رہے تھے اور واقعتا ان میں سے بہت سے افراد کو ہلاک بھی کر دیا گیا۔
چنانچہ دیوبندی اور
بریلوی دونوں شیعوں کو کافر قرار دے رہے ہیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے
کہ انکے مابین خود عقائد میں بہت ہی
گہرا نظریاتی اختلاف ہے اور
انہوں نے بھی ایک دوسرے کو کافر
قرار دیا ہے۔
تکفیری نظریہ کی وجہ سے پاکستان نے بہت زیادہ خونریزی
دیکھی ہے۔ اگر حکام موجودہ شیعہ مخالف آب و ہوا کی تشکیل پر ہنگامی توجہ نہیں دیتے
ہیں تو ایک بار پھر ملک خون کے ننگا ناچ میں گر جائے گا۔ اس صورتحال کے علاج کا واحد طریقہ یہی ہے کہ عوامی سطح پر کثرتیت کی خوبیوں کا اعلان کیا جائے؛ کہ
اسلام کی ہر ایک ترجمانی دوسرے کی طرح جائز ہے۔ تب ہی اس طرح کے بے ہودہ
اور متعصبانہ تکفیری علماء کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
کالم نگار ارشد عالم
URL for
English article:
URL:https://www.newageislam.com/urdu-section/shia-sunni-hardliners-again-each/d/123170
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism