نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر
6 اگست 2024
اگست 5 2024ء کو بنگلہ دیش
کی وزیراعظم شیخ حسینہ کے شاندار سیاسی کیریر کا عبرتناک اختتام ہوگیا۔ لگاتار تیسری
بار اقتدار میں آنے والی اور پندرہ برسوں تک بنگلہ دیش کے سیاسی افق پر موجود رہنے
والی شیخ حسینہ کو عوامی بغاوت کے نتیجے میں استعفی دے کر ملک چھوڑنا پڑا اور اس کے
ساتھ ہی انہوں نے سیاست کوبھی خیر باد کہہ دیا۔ ان کے سیاسی کریئر کے اختتام کی فوری
وجہ تو طلبہ کے ذریعے 30 فی صد ریزرویشن کی مخالفت اور اس کے خلاف ملک گیر تحریک تھی
جو رفتہ رفتہ عوامی تحریک میں تبدیل ہوگئی اور اس تحریک کو کچلنا یا دبانا ان کی حکومت
اور فوج کے لئے ناممکن ہوگیا۔ لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس عوامی بغاوت
کے پیچھے حسینہ کی حکومت کے خلاف کوئی گہری سازش تھی اور سازش کے پیچھے پاکستان اور
چین کا ہاتھ تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش میں 1971ء کے بعد سے ہی دو طبقے ہیں
۔ ایک طبقہ ہندوستان کو اپنا محسن مانتا ہے کیونکہ ہندوستان نے بنگلہ دیش کی آزادی
میں اہم کردار ادا کیا تھا اور دوسرا طبقہ پاکستان نواز ہے جو بنگلہ دیش کو پاکستان
کی راہ پر لے جانا چاہتا ہے۔ شیخ حسینہ اور ان کی پارٹی عوامی لیگ ہندوستان نواز ہے
جبکہ خالدہ ضیاء اور ان کی پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی پاکستان نواز ہے۔ ہندوستان
چونکہ اپنے سیکیوریٹی مفادات کے پیش نظر شیخ حسینہ کی حکومت کا حامی رہا ہے اس لئے
شیخ حسینہ کی حکومت پاکستان نواز طبقے کی نظر میں کھٹکتی رہی تھی۔ بنگلہ دیش کے نہ
صرف معاشی اور سماجی مفادات ہندوستان کے ساتھ وابستہ ہیں بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان
ثقافتی اور تہذیبی رشتے بھی کافی مضبوط ہیں۔
بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ
حسینہ
-----------
ہندوستان کا صوبہ مغربی بنگال
بنگلہ دیش کی سرحد سے لگا ہوا ہے اور دونوں خطے کی زبان اور ثقافت ایک ہونے کی وجہ
سے دونوں ملکوں کے عوام میں بھی جذباتی ہم آہنگی ہے۔ بنگلہ دیش کے لوگ علاج ، تعلیم
اور مذہبی سیاحت (اجمیر شریف وغیرہ کی زیارت ) کے لئے ہندوستان آتے ہیں۔ لہذا ، ہندوستان
اور بنگلہ دیش کے درمیان معاشی اور سیاسی تعلقات بھی شیخ حسینہ کے دور حکومت میں پروان
چڑھے۔ لیکن یہ تعلقات پاکستان نواز لابی کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے۔اس درمیان چین نے
اس خطے کے ممالک جیسے سری لنکا ، نیپال اوربنگلہ دیش میں اپنا اثر ورسوخ بڑھایا ۔ سری
لنکا کو اس نے قرض کے جال میں پھنسایا اور اس کے ایک پورٹ پر قبضہ کرلیا۔ اس نے نیپال
کو بھی ہندوستان کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان پہلے سے ہی اس کے چنگل میں
پھنسا ہوا تھا ۔ اس کے بعد اس نے بنگلہ دیش میں بھی سرمایہ کاری اور دیگرشہری پروجیکٹ
میں اپنی موجودگی بڑھائی۔اس نے بنگلہ دیش میں سات ریلوے پروجیکٹ ، 12شاہراہیں ، 21
برج اور 31 پاور اسٹیشن تعمیر کئے۔اس بنگلہ دیش کو فوجی اسلحے ، ٹینک اور پن ڈبیاں
فروخت کیں۔ 2015 سے 2019 تک بنگلہ دیش کی فوجی درآمدات کا 74 فی صد حصہ چین سے آیا۔
اس سے بنگلہ دیش کی معیشت پر چین کی بڑھتی ہوئی گرفت کا انداز لگایا جاسکتا ہے۔تیستا
بیرج پروجیکٹ بھی بنگلہ دیش کا ایک اہم پروجیکٹ ہے جس کو لے کر چین اور ہندوستان میں
رسہ کشی چل رہی تھی۔چین کی کوشش تھی کہ اس پروجیکٹ کی ذمہ داری اسے مل جائے جبکہ اس
پروجیکٹ کا چین کے ہاتھ میں چلے جانا ہندوستان کے مفاد میں نہیں تھا۔ تیستاندی سکم
اور مغربی بنگال سے ہوتی ہوئی بنگلہ دیش میں داخل ہوتی ہے۔ہندوستان اوربنگلہ دیش کے
درمیان تیستا ندی کے پانی کی حصہ داری کو لے کر اختلافات ہیں۔ چین نے اس پروجیکٹ کے
لئے بنگلہ دیش کو ایک بلین ڈالر کا آفر دیا تھا۔ لہذا، ہندوستان نے چین کو پروجیکٹ
سے دور رکھنے کے لئے بنگلہ دیش کو ایک بلین ڈالر کی پیشکش کی۔ گزشتہ 24 جون کو شیخ
حسینہ ہندوستان آئیں اور دوسرے موضوعات کے علاوہ اس پروجیکٹ کے تعلق سے بھی بات ہوئی۔اس
کے بعد 10 جولائی کو شیخ حسینہ چین گئیں اور وزیراعظم چین سے بات کی۔چین نے پروجیکٹ
لینے کے لئے شیخ حسینہ کو 5 بلین ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہاں پہنچنے پر صرف
ایک بلین ڈالر ہی دینے کی بات کی۔ اس کے علاوہ انہیں جو سرکاری پروٹوکول ملنا چاہئے
تھا وہ انہیں نہیں دیا گیا جس سے ناراض ہوکر وہ بیجنگ سے مقررہ وقت سے پیلے ہی لوٹ
آئیں اور یہ اعلان کردیا کہ تیستا بیراج پروجیکٹ ہندوستان کو ہی دیا جائے گا۔
اس دوران جون کے پہلے ہفتے
سے بنگلہ دیش میں مجاہدین آزادی کے وارثین کے لئے نوکریوں میں 30 فی صد ریزرویشن کے
خلاف طلبہ نے ملک گیر تحریک چلارکھی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ تحریک شدت پکڑتی گئی ۔ شیخ حسینہ
نے اسے پچھلی تحریکوں ہی کی طرح طاقت کے بل پر دبانے کی کوشش کی۔ عوامی لیگ کی طلبہ
تنظیم کے کارکنوں نے احتجاج کاروں کے خلاف تشدد کیا جس سے تحریک اور زیادہ شدید ہوگئی۔
اس کے بعد پولیس اور فوج نے احتجاج کار طلبہ پر اندھادھند گولیاں چلانی شروع کردیں
۔ فوج نے ہیلی کاپٹر سے بھی طلبہ پر فائرنگ کی۔ کئی جگہ پر پولیس اور فوج نے نہتے طلبہ
اورنوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا ۔ حتی کہ گھروں کی کھڑکیوں سے باہر دیکھ رہے
بچوں کو بھی قصداً گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق کم از
کم 30 بچے پولیس اور فوج کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق 300 سے
زیادہ افراد پولیس اور فوج کی گولیوں سے ہلاک ہوئے اور ہزاروں زخمی ہیں۔ ان ہلاکتوں
نے شیخ حسینہ کے خلاف عوامی غصے میں شدت پیدا کردی اور کوٹہ مخالف تحریک ایک عوامی
بغاوت میں تبدیل ہوگئی۔ جب تک حکومت کو حالات کی سنگینی کا علم ہوا تب تک دیر ہو چکی
تھی۔ 21ء جولائی کو سپریم کورٹ نے ایک اپیل پر سماعت کرتے ہوئے 30 فی صد کوٹہ اور دیگر
کوٹہ کو ختم کرکے کل 7 فی صد کوٹہ بحال کیا اور 93 فی صد نشستوں کو آزاد کردیا۔ لیکن
اب احتجاج کاروں نے تحریک واپس لینے کے بجائے شیخ حسینہ کے استعفے اور تمام سیاسی محروسین
بشمول خالدہ ضیاء کی رہائی کا مطالبہ بھی کرنے لگے۔ 3 اگست کو چٹ گاؤں میں حکومت کے
خلاف جو ریلی نکالی گئی اس میں عوام کا جم غفیر دیکھ کر شیخ حسینہ نے استعفی دینے کا
ارادہ کرلیا۔ 5 اگست کو تحریک نے ڈھاکہ میں بنگ بھون تک لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا
توشیخ حسینہ کے پاس استعفی دے کر ملک چھوڑ دینے کے سوا اور کوئی متبادل نہیں بچا تھا۔
5 اگست کو ہجوم کے بنگ بھون پہنچنے سے قبل ہی وہ کار سے فوجی بیس پر آئیں اور وہاں
سے فوج کے ہیلی کاپٹر پر ہندوستان کے اگرتلہ کے لئے روانہ ہوگئیں۔
فوج نے یہ اعلان کردیا تھا
کہ وہ لانگ مارچ کو نہیں روکے گی اور احتجاجیوں پر گولی نہیں چلائے گی۔ اس کے قول وفعل
میں پراسرار تضاد ہے۔۔ایک طرف اس نے طلبہ ، نوجوانوں اور بچوں پر اندھا دھند گولیاں
چلاکر عوام کو شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف بھڑکادیا اور اسے عوام کا دشمن بنا کر پیش
کردیا اور دوسری طرف اس نے کھلے عام یہ کہہ کر کہ وہ احتجاجیوں پر گولی نہیں چلائیگی
عوام کو یہ اشارہ دے دیا کہ وہ اس کے ساتھ ہیں۔ اگر اس نے شروع ہی میں نہتے طلبہ ،
پرامن راہ گیروں اور بچوں پر اندھادھند گولیاں نہ چلائی ہوتیں تو شاید یہ طلبہ تحریک
عوامی بغاوت میں تبدیل نہ ہوتی۔
تحریک کے اتنی جلدی اتنی بھیانک
صورت اختیار کرلینے پر ہی سیاسی تجزیہ کار اس تختہ پلٹ کے پیچھے چین اور پاکستان کے
خفیہ ادارے آئی ایس آی کا ہاتھ ہونے کا قیاس لگارہے ہیں اوربنگلہ دیش کی خفیہ ایجنسی
ڈی جی ایف آئی اور آئ ایس آئی کے رول کو مسترد نہیں کررہے ہیں۔1910ء میں بھی بنگلہ
دیش کے ایک وزیر نے یہ انکشاف کیا تھا کہ ڈی جی ایف آئی اور آئی ایس آئی نے ملکر ڈھاکہ
کے ایک ہوٹل۔میں الفا کے دہشت گرد انوپ چیتیا سے پاکستان کے صدر پرویزمشرف کی ملاقات
کرائی تھی۔ لہذا ، بنگلہ دیش کی فوج میں پاکستان نواز عناصر کا عمل دخل کوئی نئی بات
نہیں ہے۔ چونکہ چین اس خطے کے چھوٹے ممالک میں اپنا فوجی اور سیاسی اثرورسوخ بڑھا کر
ہندوستان کو چاروں طرف سے گھیرنا چاہتا ہے اس لئے اس تختہ پلٹ میں چین اور پاکستان
کا رول بعید,از قیاس نہیں ہے۔ یہ پاکستان نواز لابی کچھ عرصے سے بنگلہ دیش میں ہندوستان
مخالف مہم چلارہی تھی اور عوام سے ہندوستانی مصنوعات کے بائکاٹ کی اپیل کررہی تھی۔
وہ شیخ حسینہ خکومت پر بنگلہ دیش کو ہندوستان کو بیچ دینے کا بھی الزام لگارہی تھی۔
اس عوامی تحریک کو حزب مخالف بی این پی نے ہائی جیک کرلیا اور شیخ حسینہ کی حکومت کو
اکھاڑ پھینکنے کا خواب پورا کرلیا۔
یہ بات بھی عجیب ہے کہ شیخ
حسینہ کے ہندوستان آنے پر ایک طبقہ حکومت ہند سے شیخ حسینہ کو پناہ نہ دینے کا مشورہ
دے رہا ہے اور اس کے لئے یہ دلیل دے رہا ہے کہ اسے یہاں پناہ دینے پر بنگلہ دیش کے
عوام میں ہندوستان کے خلاف نفرت پھیلے گی۔ جبکہ یہی طبقہ تسلیمہ نسرین کو ہندوستان
میں پناہ دینے پر حکومت ہند کی ستائش کرتا رہا ہے ۔ شیخ حسینہ کو سیاسی پناہ دینے کا
فیصلہ ہندوستان اپنے سیاسی مفادات اور سیکیوریٹی کے پہلوؤں کو مدنظر ہی کرے گا نہ کہ
چین یا پاکستان یا بنگلہ دیش میں موجود پاکستانی لابی کے مفادات یا منصوبوں کی تکمیل
کے لئے راہ آسان کرے گا۔بنگلہ دیش میں چین یا پاکستان کے اثرورسوخ میں اضافہ ہندوستان
کے مفاد میں نہیں ہے اور 2009ء سے قبل ہندوستان کو اس کا تجربہ ہوچکا ہے۔بنگلہ دیش
میں فوج کی نگرانی میں جو عبوری حکومت بنے گی اس میں سامنے تو نوبل انعام یافتہ ماہر
معاشیات محمد ہونس کو رکھا جائے گا لیکن ملک کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ پاکستان نواز
سیاسی تنظیمیں کرینگی اور وہ ملک میں چینی سرمایہ کاری اور فوجی مداخلت کی راہ ہموار
کریں گی۔
اگلے کچھ دنوں میں بنگلہ دیش
میں تیزی سے حالات بدلیں گے لیکن یہ طئے ہے کہ حالات بہتری کی طرف نہیں جائیں گے بلکہ
بنگلہ دیش ایک بار پھر مذہبی اور مسلکی منافرت اور تشدد ، انتہا پسندی اور دہشت گردی
کی سمت بڑھے گا۔ شیخ حسینہ کے دور حکومت میں بنگلہ دیش معاشی طور پر ترقی کرکے ایشیا
کا ٹائیگر کہلانے لگا تھا اور ملک میں سائنسی طرز فکر کو فروغ ہواتھا۔ملک دہشت گری
سے پاک ہوچکا تھا۔شیخ حسینہ نے 1971ء کے مجرموں کو سزا دلواکر عوام میں جو مقبولیت
حاصل کی تھی وہ انکی چند غلطیوں کی وجہ سے خاک میں مل گئی۔ انہوں نے خالدہ ضیاء کو
دس برسوں تک جیل میں ڈالے رکھا اور اپوزیشن کے لیڈران کو جیل میں ڈال کر ملک کو اپوزیشن
سے محروم کردیا ۔ اس طرح انہوں نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ۔ انہوں نے مخالفین کو
دبانے کے لئے پولیس کو زیادہ اختیارات دے دئیے۔ کووڈ کے لاک ڈاؤن نے رہی سہی کسر پوری
کردی۔معاشی مندی نے افلاس میں اضافہ کیا تو عوام میں اضطراب بڑھنے لگا اور عوام اپنی
ساری پریشانیوں کے لئے انہیں ذمہ د دار سمجھنے لگے۔ بنگلہ دیش میں 1971ء بعد سے ہی
سیاسی عدم استحکام رہا اور فوجی جرنیلوں نے بنگلہ دیش کو یرغمال بنائے رکھا۔ شیخ حسینہ
اور خالدہ ضیاء نے ملک میں جمہوری حکومت کو مضبوط بنایا لیکن دو دہائیوں کے بعدبنگلہ
دیش ایک بار پھر فوج کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ آگے کیا ہوگا کچھ کہنا مشکل ہے۔
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism