ارشد عالم، نیو ایج اسلام
30 جون 2021
شریعت کی حرمت اور اس کے
تقدس پر سوال اٹھانا ہی واحد راستہ ہے
اہم نکات:
· شریعت فطری طور
سے جنسی اور مذہبی بنیاد پر بھید بھاؤ کرنے والی ہے۔
· مسلمانوں کو
چاہیے کہ ایسے بھد بھاؤ کا مقابلہ شریعت کی حرمت اور تقدس پر سوال کرنے کے بجائے
ان کی حسب ضرورت اصلاحات کریں
· قرآن و سنت میں
واضح ہدایت کے معاملات میں اجتہاد نہیں کیا جاسکتا۔
· ایک جامع اور
وسیع تر تبدیلی کے لئے مسلمانوں کو اس غلط عقیدے سے توبہ کرنا ہوگی کہ شریعت حکم
الٰہی ہے۔
شرعی قانون قرآن وحدیث سے
ماخوذ ہے۔ پوری دنیا کے مسلمان اس قانون کے تحت چلتے ہیں جو اس وقت تشکیل دیا گیا
تھا جب اسلامی سلطنت پھیل رہی تھی۔ چونکہ اس وقت مسلمان ایک غالب اکثریت تھے لہذا
شریعت میں بہت کم اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ جب وہ اقلیت میں ہوں تو ان کا
برتاؤ کیسا ہونا چاہئے۔ اس کے باوجود، مسلم اقلیتوں نے اپنی زندگی کو پرسنل لاء کے
مطابق منظم کرنے کی کوشش کی ہے جو شریعت سے ماخوذ ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ شریعت کے تحفظ کے مخصوص ارادے کے ساتھ قائم کیا گیا
تھا۔
خواہ اقلیت میں ہوں یا
اکثریت میں مسلمانوں کی شریعت کے ساتھ ہمیشہ ہی یہ کشمکش جاری رہی ہے کیوں کہ اس
میں تبدیلی پیدا نہیں کی جا سکتی ہے۔ پریشانی یہ ہے کہ مسلمان یہ مانتے ہیں کہ
شریعت ایک الہی قانون ہے جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم، تاریخی طور پر شریعت کی
بعض دفعات میں وقتا فوقتا ترمیم کی جاتی رہی ہے۔ بعض اوقات ایسا حکمرانوں کے کہنے
پر کیا گیا ہے جو اپنے ممالک کو جدت پسند بنانا چاہتے تھے۔ بعض اوقات یہ (پاکستان
اور انڈونیشیا جیسی) درمیانی طبقے کی تحریکوں کا نتیجہ تھا جو خواتین کے ساتھ واضح
طور پر امتیازی سلوک کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح کی مہمات میں اکثر یہ بات کی
جاتی ہے کہ ’اصل‘ اسلام میں کوئی بھید بھاؤ نہیں ہے لہذا ہمیں اسی کی طرف واپس
جانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، ہندوستان میں مسلم خواتین کے حقوق کے لئے چلائی
جانے والی مہم میں اکثر اسی طرح کے حربے استعمال کئے جاتے رہے۔ لہذا، خواہ کوئی
اصلاح پسند ہو یا تجدید پسند ہر ایک نے آگے بڑھ کر حل تلاش کرنے کے بجائے چودہ سو
سال پیچھے جانے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ممکنہ طور پر اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس
میں اصلاح اور تجدید و احیاء ایک ہی چیز ہے۔
یہ بات کہ شریعت جنسی اور
مذہبی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنے والی ہے اکثر بحث و مباحثے سے غائب ہوتی ہے۔ جو
کوئی بھی اصلاح پسند اس بنیادی مدعا پر سوال نہیں اٹھاتا جس پر اسلامی قانون عمارت
قائم ہے وہ صرف شریعت کا جواز پیش کرے گا یا اسے قانون کا ایک مثالی منبع و ماخذ
بنائے گا جس کا نفاذ مسلمانوں پر ہونا چاہئے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان یہ
سوال اٹھائیں کہ کیا آج جب کہ قانون کا ایک بہترین ضابطہ اخلاق موجود ہے تو شریعت
کے ذریعہ نظام حکومت چلانے کا مطالبہ کرنے کی کیا وجہ ہے؟
ایک مسلم اکثریتی ریاست
میں شریعت کے اندر مذہبی بھید بھاؤ اس حقیقت سے وابستہ ہے کہ اسلامی قانون لوگوں
کے مذہبی عقائد کے لحاظ سے ان کی درجہ بندی کرتا ہے اور اسی کے مطابق شہری اور
سیاسی حقوق عطا کرتا ہے۔ اس اسکیم کے تحت مسلمان بحیثیت شہری مکمل حقوق سے لطف
اندوز ہوتے ہیں جبکہ غیر مسلم اس سے محروم رکھے جاتے ہیں۔ کسی کافر کے پاس عارضی
اذن یا محفوظ طرز عمل (امان) کے علاوہ عملی طور پر کوئی حق نہیں ہے۔ غیر مسلم
مومنین اور خاص طور پر عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ ایک خصوصی ٹیکس (جزیہ) کی
ادائیگی کے عوض شخصی تحفظ، املاک کی سلامتی اور ذاتی معاملات میں فرقہ وارانہ
خودمختاری سے لطف اندوز ہونے کے سلسلے میں ایک معاہدہ (ذمہ) کیا جاسکتا ہے۔ ایسا
ذمی ہر طرح کے سرکاری عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ عدالتی کارروائی
میں گواہی دے سکتا ہے، اس طرح ان کی شہری شراکت داری پر مزید پابندیاں عائد ہوتی
ہیں۔ شریعت کی بے شمار تشریحات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ملبوسات کے
معاملات یا ان کے مذہبی مقامات کی تعمیر پر پابندی لگا کر ذمیوں کے ساتھ دوسرے
درجے کے شہریوں جیسا توہین آمیز سلوک کیا جانا چاہئے۔
جب اقلیت میں ہوتے ہیں تو
مسلمانوں کی خاص توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ اپنے پرسنل لاء کے مطابق زندگی
گزاریں گے۔ پرسنل لاء ایک مرد کو چار بیویوں سے شادی کرنے اور ساتھ ہی ساتھ ان میں
سے کسی کو بھی اپنی مرضی سے طلاق دینے کا حق دے کر جنسی بھید بھاؤ کی گنجائش پیدا
کرتا ہے۔ کیوں کہ ایسا کرنے کے لئے اسے کسی بھی ضابطے کی پابندی یا کسی قانون کی
تعمیل کرنے یا وجہ بھی ظاہر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے برعکس، ایک مسلمان
عورت صرف خلع (طلاق دینے کی اجازت حاصل) کرنے کا حق رکھتی ہے اور وہ بھی انتہائی
سخت اور محدود شرائط کے اندر عدالتی فرمان کے ذریعے۔ اسے اپنے شوہر کو ‘طلاق’ دینے
کا حق نہیں ہے کیونکہ یہ حق اسلامی قانون کے تحت صرف مردوں کے لئے مخصوص ہے۔ مزید
برآں، شرعی قانون کے تحت خواتین متعدد شہری قیود و پابندیوں کا بھی شکار ہیں،
مثلاً وہ بعض سرکاری عہدوں پر فائز نہیں ہو سکتیں اور بعض مخصوص عدالتی کارروائیوں
میں گواہی نہیں دے سکتیں۔
شریعت اسلامیہ کے حمایتی
بڑے پیمانے پر یہ دلیل دیتے ہیں کہ اجتہاد کے ذریعے چھوٹی موٹی اصلاحات لا کر
شریعت کے بھید بھاؤ کے اس رویہ کو درست کیا جاسکتا ہے۔ اب عام طور پر یہ بات کہی
جاتی ہے کہ مسلمانوں کو اجتہاد سے کام لینا ضروری ہے کیوں کہ اسی کے ذریعہ اصلاح
ممکن ہے۔ لیکن گہری نظر سے دیکھا جائے تو وہ یہ جانتے ہیں کہ اجتہاد کا مطلب آزادانہ
سوچ نہیں ہے بلکہ یہ خود کچھ قوانین اور ضابطوں کے تابع ہے۔ خاص طور پر ایسے
معاملات میں اجتہاد کی اجازت نہیں ہے جن کے قرآن و سنت میں واضح حوالے موجود ہوں۔
جس حدیث سے اجتہاد کا
تصور اخذ کیا گیا ہے وہ نذیر کے معاملے میں بالکل واضح ہے۔ روایت میں ہے کہ جب
پیغمبر اسلام ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجنے
کا ارادہ کیا تو ان سے پوچھا کہ جب تمہارے سامنے مسائل و مقدمات پیش کئے جائیں گے
تو تم کس طرح فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں اﷲ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ اگر تم اﷲ کی کتاب میں جواب نہ پا سکے تو
کیا کرو گے؟ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں سنت رسول ﷺ سے فیصلہ
کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم کتاب اللہ و سنت رسول ﷺ
دونوں میں جواب نہ پاؤ تو کیا کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا ’’میں اپنی رائے سے اجتہاد
کروں گا اور حقیقت تک پہنچنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ یہ جواب سن کر آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپکا اور فرمایا ’’اﷲ کا
شکر ہے جس نے رسول اﷲ کے بھیجے ہوئے نمائندہ کو اس بات کی توفیق بخشی جو ﷲ کے رسول
کو خوش کرے۔‘‘ [سنن ابو داؤد، 24:3585]۔
مذکورہ بالا حدیث سے یہ
بات واضح ہے کہ اجتہاد کا سہارا قرآن یا سنت میں واضح ہدایت کی عدم موجودگی میں ہی
لیا جا سکتا ہے۔ جنسی اور مذہبی بھید بھاؤ کا تذکرہ قرآن اور سنت دونوں میں واضح
طور پر موجود ہے لہذا انفرادی یا اجتماعی آراء کے ذریعہ اس میں ترمیم نہیں کی
جاسکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ اصلاح پسند علمائے کرام کے نیک ارادوں کے
باوجود شریعت کی اصلاح کے ان کے دعوے کھوکھلے ہیں۔ لہذا واحد راستہ یہی ہے کہ یہ
اعلان کر دیا جائے کہ شریعت متروک ہو چکی ہے۔ اور ایسا کرنے کے لئے مسلمانوں کو سب
سے پہلے شریعت کی حرمت اور تقدس کے بارے میں اپنے غلط عقیدے کو ترک کرنا ہوگا۔
----------
English Article: Should Muslims Be Following A Sharia Which Promotes Religious And Sexual Discrimination?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism