New Age Islam
Thu Jan 16 2025, 06:51 PM

Urdu Section ( 16 Jul 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sharia Courts: No One Knows How Will It Be Possible شرعی عدالتیں : جانتا کوئی نہیں ہے کہ یہ ہوگا کیسے

اے رحمان

13جولائی،2018

پورے ملک میں شرعی عدالتوں کے قیام کا اعلان ایک بے مغز (Unmindful) اور قطعی غلط وقتی (ill timed) فیصلہ تھا جس نے اسلام اور مسلمانوں کی تضحیک و تذلیل پر آمادہ سوشل میڈیا خصوصاً ٹی۔وی نیوز چینلوں کو ایک نیا مسلم مخالف طوفان کھڑا کرنے کا بہانہ فراہم کردیا۔ حالانکہ بعد میں آل انڈیا پرسنل لابورڈ کی جانب سے صراحت کی گئی کہ اعلان دارالقضا کی توسیع سے متعلق تھا، لیکن نقصان ہوچکا تھا۔ اور اب لکیر پیٹ پیٹ کر وقت اور قوت کا ضیاع کیا جارہا ہے۔ یہ بات عقل و منطق سے بالا تر ہے کہ ایسے نازک اور (مسلمانوں کے لیے ) معاندانہ سیاسی ماحول میں ایسا اعلان کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی، ۔ فرد ہو یا تنظیم اس درجہ فاش غلطیاں کم علمی یا لاعلمی کے سبب سرزد ہوتی ہیں۔ ٹی ۔وی پر جتنے بھی مباحث دیکھنے سننے میں آئے ان سے صاف ظاہر تھا کہ ایک نہایت غیر معلوماتی مناقشہ (uninformed debate) ہے جسے غیر ضروری طول دے کر سیاسی قضیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جموں کشمیر کے ایک مفتی اعظم نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’یا تو ہمیں شرعی عدالت دویا الگ ملک دو‘ ۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ ایک جاہلانہ بات تھی اور اس کی دیگر علما حضرات نے خاطر خواہ مذمت کی ، لیکن تمام قسم کے تبادلۂ دلائل اور جو شیلی تقاریر سے ثابت بس یہ ہوا کہ فریقین نہ تو ملک کے قوانین کی تواریخ (legel history) سے کما حقۂ واقفیت رکھتے ہیں اور نہ اطلاق شریعت سے ۔

ایک طرف سے دعویٰ تھا کہ مسلمانوں کے عائلی مسائل شریعت کی روشنی میں ہی طے کئے جائیں گے تومخالفت میں دھمکی دی جارہی تھی کہ ملک میں متوازی عدلیہ نظام قائم نہیں ہونے دیا جائے گا۔دونو ں ہی باتیں غلط ہیں ۔مسلمانوں کے عائلی معاملات شرعی احکا مات سے ہی طے ہوتے چلے آئے ہیں اور موجودہ آئین کی روشنی میں آئندہ بھی ہوتے رہیں گے ۔ سلطنت دور (1206-1526) میں تو خلافت اسلامیہ کی تقریباً پورے طور پر پیروی کی گئی،تمام مغربی مورخین نے اس زمانے کے ہندوستان کو مذہبی ریاست (theocratic state) سے موسوم کی ہے۔ 1526میں جب مغل آئے تو وہ بھی (کم از کم عقیدے کی حد تک) پکّے مسلمان تھے لہٰذا مسلمانوں کے دینی اور معاشرتی معاملات بر قرار ہے،حتیٰ کہ اکبرنے جب اپنے ’ دین الہٰی‘ کااعلان کیا تب بھی اسلامی شریعت سے کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی۔ اورنگ زیب نے تو پانچ سو علماء اور فقہا کو جمع کر کے تمام اسلامی قوانین کو نہ صرف مرتب او رمدون کرایا بلکہ پوری سلطنت مغلیہ میں نافذ کردیا۔ یہ تدوین آج بھی فتاوائے ہندیہ یا فتاوائے عالمگیر کے نام سے نہ صرف موجود ہے بلکہ فقہ حنفیہ کی اسناد کا حوالہ ہے۔ برطانوی نو آبادیاتی نظام کے پہلے گورنر جنرل وارن ہینسٹنگز ( 1773-1785) نے مسلمانوں کے عائلی قوانین اور ہندووں کے مذہبی رسم و رواج کے بنیادی فرق کو نہ صرف شناخت کیا بلکہ اس کو تسلیم کرتے ہوئے برطانوی حکومت سے وہ سفارشات کیں جن کی بنیاد پر 1880میں ’ قاضی ایکٹ‘ پاس کیا گیا جس کے تحت شہر قاضی مقرر کئے جانے لگے، حالانکہ ان کو کسی قسم کے انتظامیہ یا منصفانہ (Judicial) اختیارات تفویض نہیں کئے گئے تھے ۔وہ محض فریقین کے مابین تنازعات کاحل شریعت کی روشنی میں تلاش کر کے ثالثی کی کوشش کرتے تھے ۔

آج بھی ہندوستان کے کئی صوبوں جیسے تامل ناڈو، آندھرا پردیش ،اڑیسہ ، کرناٹک، مہاراشٹر اور لکشدیپ وغیرہ میں قاضیوں کا تقرر ہوتا ہے اور دارالقضابھی اسی طرح سرگرم ہیں ۔ 1937میں شریعت ایپلیکیشن ایکٹ پاس ہوا جس کے تحت مسلمانوں کو تقریباً تمام عائلی مسائل شریعت کی رو سے فیصلہ کرنے کی آزادی دے دی گئی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا وجود اسی قانون سے مستعار ہے۔ بورڈ اپنے بنیادی مقاصد میں کہاں تک کامیاب ہو ا اور کتنے متعینہ اہداف اسے حاصل ہوئے یہ ایک بحث طلب معاملہ ہے۔ 1993میں امارت شرعیہ (بہار) کا قیام عمل میں آیا جو ایک رجسٹرڈ ٹرسٹ ہے اور جس کے تحت دارالافتاء اور دارالقضا بھی موجود ہیں ۔ دہلی میں بھی پرسنل لابورڈ نے دارالقضا قائم کئے ہوئے ہیں جو نکاح، طلاق اور نان نفقہ سے متعلق مسائل کو اسلامی شرع کے مطابق حل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ۔مختصر یہ کہ مسلمانوں کو اپنے تمام عائلی مسائل او رسوالات پر اسلامی شریعت کااطلاق کرنے کی پوری آزادی ہے۔ اس پس منظر میں پورے و ثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں شرعی عدالتوں کاقیام ممکن ہے بشرطیکہ اس کے لئے صحیح راستہ اختیار کر کے مطلوبہ شرائط پوری کردی جائیں ۔ معاملہ نہایت تفصیلی طلب ہے لہٰذا اس مضمون میں صرف اشارے (pointers) ہی دیئے جاسکتے ہیں ۔ سب سے بنیادی شرط عدالت کے قیام کو تو وہ مستند،متفق علیہ اور منضبط قانون ہے جس کے نفاذ کے لئے عدالت درکار ہے ۔ یہ خیال رہے کہ موجودہ حالات میں بھی اگر کوئی مسلمان مرد عورت اپنے کسی عائلی مسئلے کو لے کر عدالت سے رجوع کرے تو عدالت شریعت اسلامی کی روشنی میں ہی فیصلہ دے گی( اگر مسئلہ کسی سیکولر ملکی قانون سے مشروط نہیں ہے) یہ دیگر بات ہے کہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی کوئی نظیر اس مسئلے پر مہیانہ ہونے کی صورت میں تفسیر ، تشریح اور فتووں پر ہی تکیہ کیا جائے گا۔ فتوے منضبط قانون کامتبادل نہیں ہوسکتے کیونکہ ایک ہی مسئلے پر دس مفتیان دس مختلف فتوے دے سکتے ہیں اور دیتے ہیں ۔

اس کی بدترین مثال 2005ء کو وہ گھناؤنا حادثہ تھا جب ایک خسرے نے اپنی بہو (عمرانہ) سے زنابالجبر کیا اور علما کے دو گروہ ہوگئے ۔ ایک نے عمرانہ کو اس کے شوہر کے لئے حرام قرار دیا اور دوسرے سے حلال جب کہ دونوں نے قرآن کی سورۃ نساء کی ایک ہی آیت سے جواز اور سندلی ۔ معاملہ سپریم کورٹ تک گیا اور عدالت نے بہت سخت الفاظ میں کہا فتوے کو قانونی سند یا تقدس حاصل نہیں ہے ۔ سنی فقہ میں اجتہاد کے دروازے بندہیں ( فقہ جعفریہ میں اجتہاد کو نہایت درجے کی اہمیت حاصل ہے اور شیعہ تواپنے عالم اور مولوی کو کہتے ہی مجتہد ہیں ) ۔اجماع اور قیاس جیسے زریں اصولہا ئے فقہ کا استعمال تقریباً متروک ہے۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ علمائے دین شریعت کی تدوین اورا نضباط (condification) کی بڑی شدت سے مخالفت کرتے آئے ہیں حالانکہ اسلامی عدالتیں صرف انہی اسلامی ممالک میں کامیاب رہی ہیں جہاں شریعت کو باضابطہ codify کرلیا گیا ۔ اگر مسلکی اختلافات بھول کر علمائے دین صرف شریعت ایپلیکیشن میں درج موضوعات پر قرآن و حدیث سے مشتق متفق علیہ قوانین ضابطۂ تحریر میں لے آئیں اور تمام ہندوستانی مسلمانوں پر ان قوانین کے یکساں اطلاق کا اعلان ہوجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پورے ملک میں حکومت ہند ان قوانین کے نفاذ کے لئے مخصوص عدالتوں کے قیام سے انکار کرے۔

13جولائی،20148 بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/sharia-courts-no-one-knows/d/115838


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..