New Age Islam
Sun Sep 08 2024, 07:06 PM

Urdu Section ( 12 Jan 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Shakeel Badayuni Was Adept At Writing Songs On The Demand Of The Situation شکیل بدایونی کو کہانی کی سچویشن پر نغمہ لکھنے میں مہارت حاصل تھی

انیس امروہوی

10 جنوری ، 2021

کبھی کبھی کچھ ایسا ہوجاتا ہے جو انسان اپنے لئے نہیں سوچتا ہے۔کچھ ایسا ہی ہوا ہندوستانی سنیما کے مقبول، کامیاب اور مشہور نغمہ نگار شکیل بدایونی کے ساتھ۔ اُس زمانے میں جب فلموں سے وابستہ ہونا معیوب سمجھا جاتا تھا، ایک مذہبی خاندان اور ایک مسجد  کےپیش امام کے چشم و چراغ شکیل بدایونی فلموں سے وابستہ ہوئے۔بدایوں (اُتر پردیش) میں سوختہ خاندان کے ایک بزرگ تھے، جن کا نام تھا منشی ہدایت اللہ۔ ان کے دو صاحبزادے تھے، ایک کا نام منشی حضور احمد تھا اور دوسرے مولوی جمیل احمد قادری سوختہؔ۔ جمیل احمد قادری کے یہاں ۳؍اگست ۱۹۱۶ء کو ایک لڑکے کا جنم ہوا جس کا نام شکیل احمد رکھا گیا۔یہی شکیل فلمی اور ادبی دنیا میں شکیل بدایونی کے نام سے مشہور ہوئے۔

شکیل بدایونی

-------

شکیل بدایونی کے والد ممبئی میں خوجہ سنی مسجد کے پیش امام تھے۔ شکیل کی ابتدائی تعلیم خاندانی روایات کے مطابق اردو اور فارسی کے ساتھ عربی میں بھی شروع ہوئی۔ انہوں نے ایک دو سال باپ کے پاس رہ کر ممبئی کے مختلف اسکولوں میں بھی پڑھائی جاری رکھی مگر بعد میں ۱۹۳۶ء میں ہائی اسکول کا امتحان اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں کے طالب علم کی حیثیت سے الٰہ آباد بورڈ سے پاس کیا۔ ان کی شادی یکم اکتوبر ۱۹۳۶ء کو قیصر حسین قادری کی بڑی صاحبزادی سلمیٰ سے ہوئی۔ ان کا ذوق شاعرانہ اور مزاج عاشقانہ تھا لہٰذا یہ لگام بھی اسفند تخئیل کی ڈور کو نہ روک سکی۔ شکیل بدایونی کے پانچ اولادیں ہوئیں۔ دو لڑکے اور تین لڑکیاں۔ ان کی سب سے بڑی لڑکی رضیہ شکیل کراچی میں ہیں اور صفیہ شکیل ممبئی میں ہیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی نجمہ شکیل خود شکیل بدایونی کے انتقال کے کچھ ہی عرصہ بعد خدا کو پیاری ہو گئی تھیں۔ اُن کے دو لڑکے جاوید شکیل اور طارق شکیل ممبئی میں ہی اپنا اپنا کاروبار سنبھالتے ہیں۔

مولانا ضیا القادری شکیل کے والد کے بے حد عزیز اور قریبی دوست تھے اور انہی کے پڑوس میں رہتے تھے۔ بہت سے لوگ ان کو شکیل کے والد کا سگا بھائی تصور کرتے تھے۔ شکیل ابتدائی تعلیم کے زمانے سے ہی غزلیں کہتے تھے اور مولانا ضیاالقادری سے مشورۂ سخن کرتے تھے۔ ابتدائی غزلوں پر مولانا کی اصلاحیں بہت کام آئیں اور شکیل کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ مولانا خود بھی پائے کے شاعر تھے اور ان کے پاس شعرا، ادباء اور علماء کا مجمع لگا رہتا تھا۔ ۱۹۳۹ء میں شکیل  کے والد مولانا جمیل احمد قادری کا انتقال ہو گیا۔

شکیل بدایونی کی ادبی شاعری میں انقلاب اس وقت آیا جب وہ علم و فن کے مرکز، بدایوں کو چھوڑکر علی گڑھ پہنچے۔ یہ ۱۹۳۶ء کا زمانہ تھا۔  شکیل بدایونی ڈے اسکالر کی حیثیت سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مقیم تھے۔ یہاں انہیں ہر مکتبۂ خیال کے ادباء، شعراء اور علماء سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ جگرؔ مرادآبادی سے ملنے اور اُن کی فکر ونظر سے فیض یاب ہونے کا موقع بھی یہیں شکیل بدایونی کو حاصل ہوا۔ جگرؔ مرادآبادی سے ان کی قربت بڑھتی گئی، جس سے ان کا ذوق تغزل اور نکھر گیا اور وہ اسی میدان کے مرد بن گئے، شکیل کے ذوق شاعری میں یہیں سے ایک انقلاب پیدا ہوا۔ ان کی شاعری میں زندگی اور محبت کا تصور بہت سادہ، پاکیزہ اور خوبصورت ہے۔ اس تصور میں ان کی رومانیت جلوہ گر ہے۔۱۹۴۲ء میں علی گڑھ سے بی اے کرکے شکیلؔ دہلی آگئے اور حکومت ہند کے محکمۂ سپلائی میں ملازمت اختیار کر لی۔ یہاں آکر  انہیں ادبی مشاغل کا اور وسیع میدان ملا۔ دہلی میں ان دنوں امرناتھ ساحرؔ، بے خودؔ، سائلؔ، زارؔ اورامنؔ جیسے بزرگ شعراء تھے تو دوسری طرف جوشؔ، مجازؔ، تاثیرؔ، فیضؔ اور جعفریؔ جیسے جدید شاعری کے علمبرداروں کی نبرد آزمائی کا میدان بھی تھا۔ انہوں نے اپنے لئے قدیم اور جدید شاعری کے درمیان ایک نئی راہ نکالی، جس میں بیک وقت پراناپن بھی تھا اور نیاپن بھی۔ قدیم اور جدید شاعری کے امتزاج نے شکیلؔ کو انفرادیت بخشی اور وہ بہت جلد مقبول ہو گئے۔دہلی میں ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’رعنائیاں‘ کے نام سے شائع ہوا اور ۱۹۴۶ء تک شکیل بدایونی کا شمار ہندوستان کے مشہور شعراء میں ہونے لگا اور شکیل متواتر دہلی اور لاہور کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔

شاعری اور نوکری دو متضاد چیزیں ہیں مگر ان دونوں تضادوں کو ایک ساتھ لے کر ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۶ء تک شکیل بدایونی حکومت کے محکمہ سپلائی میں کام کرتے رہے۔ وہاں وقت کی پابندی تھی اور شکیل کے مزاج میں آزادی کا رنگ تھا۔ وہاں افسروں کی سختیاں اور شکیل کی فطرت میں خودداری کا عنصر، وہاں میز اور فائلوں کا انبار اور شکیل کی طبیعت تخلیق فن کی طرف مائل۔ غرض یہ کہ شکیل کی روح کو ایسے ماحول کی تلاش تھی جہاں پابندی بھی نہ ہو، عزت بھی ملے اور دولت بھی۔

۱۹۴۶ء میں پہلی بار شکیل بدایونی ممبئی کے بائیکلہ میں صدیق انسٹی ٹیوٹ کی دعوت پر مشاعرہ پڑھنے گئے تھے۔ اسی مشاعرہ میں جگر مرادآبادی، ماہرالقادری اور نوح ناروی جیسے شاعر بھی موجود تھے اور مجروحؔ سلطانپوری اور خمار بارہ بنکوی بھی تھے۔

اسی مشاعرے میںمشہور فلمساز وہدایتکار اے آر کاردار بھی موجود تھے۔ کاردار صاحب شاعری سننے کے بڑے شوقین تھے۔ وہیں انہوںنے شکیل کو کلام پڑھتے ہوئے سنا۔ شکیل بدایونی کی شہرت اس وقت تک دہلی اور لاہور کے علاوہ ممبئی کے ادبی حلقوں تک بھی پہنچ چکی تھی۔ کاردار صاحب اس مشاعرے میں شکیل کے کلام سے بہت متاثر ہوئے۔ مشاعرے کے بعد کاردار صاحب نے شکیل سے ملاقات کی اور فلم میں نغمہ نگاری کی پیشکش کی جو  انہوں نے منظور کر لی۔ اگلے ہی دن سارے معاملات طے ہو گئے اور شکیل نے دہلی آکر سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔اس طرح شکیل بدایونی اگست ۱۹۴۶ء میں دہلی سے مستقل طور پر ممبئی آگئے۔

ممبئی میں رہ کر شکیل بدایونی نے کافی جدوجہد کی مگر خوش قسمتی سے جلد ہی کاردار اسٹوڈیو میں ہی ان کی دوستی ہندوستان کے مشہور موسیقار نوشاد علی سے ہو گئی، اور پھریہ دوستی ہمیشہ کا ساتھ بن گئی۔ شکیل بدایونی نے سب سے پہلے کاردار صاحب کی فلم’درد‘ کے نغمے لکھے۔

ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے

ہر دل میں محبت کی اک آگ لگا دیں گے

فلم ’درد‘ کے گانوں نے ہی شکیل بدایونی کو فلمی دنیا میں بام شہرت تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد تو جس طرح نوشاد صاحب موسیقار اعظم بن گئے، اسی طرح شکیل نے بھی اتنی ہی اونچی شہرت حاصل کی۔فلموں میں حضرت آرزوؔ لکھنوی نے معیاری اور ادبی گیتوں کے لکھنے کی بنیاد ڈالی تھی۔ اُن کے بعد جن شعراء نے اس معیار کو فروغ دیا، ان میں شکیل بدایونی کا نام سرفہرست ہے۔شکیل بدایونی نہایت سادہ سی طبیعت کے مالک تھے۔ وہ فلمی دنیا کی چمک دمک سے زیادہ متاثر نہ ہوئے تھے۔ انہوں نے فلمی دنیا میں بڑی عزت اور احترام سے بھرپور زندگی گزاری۔ شکیل بدایونی کی شرافت اور سادگی کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔

ایک بار کا ذکر ہے کہ بیگم اختر بمبئی سے لکھنؤ کیلئے ٹرین سے روانہ ہونے والی تھیں، اچانک وی ٹی اسٹیشن پر نغمہ نگار شکیل بدایونی اُن سے ملنے آگئے اور چلتے وقت انہوںنے ایک پرچے پر اپنی غزل لکھ کر بیگم اختر کو دے دی۔ سرسری طور پر دیکھ کر اور بعد میں پڑھنے کے خیال سے انہوں نے پرچہ اپنے بٹوے میں رکھ لیا۔ اُسی ٹرین کے ڈبہ میں بیگم اختر نے شکیل بدایونی کی غزل کی دھن بنائی اور گنگنائی، جو آگے چل کر دونوں کی پہچان بن گئی۔ لکھنو پہنچ کر جب بیگم اختر نے پہلی بار یہ غزل آل انڈیا ریڈیو سے پڑھی تو پورے برصغیر میں سریلی غزل گائیکی کا ایک طوفان برپا ہو گیا۔ غزل تھی۔

اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا

بیگم اختر کی آواز میں گائی ہوئی شکیل بدایونی کی یہ غزل نہ صرف برصغیر ہند و پاک میں بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہوئی۔

فلمی دُنیا میں ایک شاندار مقام حاصل کرنے کے ساتھ ہی شکیل بدایونی نے دنیائے ادب میں بھی اپنا وہی مقام بنائے رکھا اور وہ ادبی حلقوں میں بھی اتنے ہی مقبول رہے، جتنے فلمی حلقوں میں۔ ان کی بعض غزلیں جو ادبی حیثیت رکھتی ہیں، ان کے فلمی گیتوں سے بھی زیادہ ملک بھر میں مقبول ہو چکی ہیں۔

شکیل بدایونی ہر قسم کی سچویشن پر گیت لکھنے میں مہارت رکھتے تھے۔ یاد کیجیے فلم ’گنگا جمنا‘ کے تمام نغمے انہوں نے بھوجپوری زبان کی چاشنی میں لپیٹ کر نہایت عمدہ طریقے سے پیش کئے ہیں۔ فلم’مغل اعظم‘ کے نغمے شکیل بدایونی  ہی نے لکھے تھے اور اس فلم کا تقریباً ہر گانا مقبول ہوا تھا۔ انٹرنیٹ کی ایک حالیہ ریسرچ کے مطابق فلم ’مغل اعظم‘ کا نغمہ ’’جب پیار کیا تو ڈرنا کیا‘‘ اب تک کے سب سے زیادہ بار سنے گئے نغموں میں سرفہرست ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ نغمہ شکیل بدایونی  سےموسیقار نوشاد علی بار بار لکھواتے رہے اور ناپسند کرتے رہے۔ آخرکار ایک سو پانچ بار شکیل بدایونی نے الگ الگ طرح سے اس نغمے کو لکھا اور تب جاکر ایک سو پانچویں بار کے لکھے گانے سے نوشاد صاحب مطمئن ہوئے اور گانا ریکارڈ ہوا۔ یہی وہ نغمہ ہے جو دُنیا بھر میں سب سے زیادہ مقبول ہوا۔

ایک طویل عرصہ تک شکیل بدایونی نے ہماری فلموں کو اچھے، صاف ستھرے اور صحت مند نغمے فراہم کئے ہیں۔ فلم ’دلاری، میلہ، بابل، دیدار، اڑن کھٹولہ، آن، امر، آدمی، کوہ نور، گنگا جمنا، چودھویں کا چاند، مدر انڈیا، بیجو باورا، پالکی، دو بدن، سوہنی مہیوال، شباب، دل ناداں، دل لگی اور مغل اعظم جیسی بہترین فلموں میں لکھے ہوئے ان کے نغمے آج بھی کانوں کو سہانے لگتے ہیں۔

فلم کی کہانی کے مطابق سچویشن پر گیت لکھنا اور بنی بنائی دُھن پر الفاظ کا جال بچھانا اپنے آپ میں ایک مشکل فن ہے۔ ان تمام مشکلات کے ساتھ شکیل بدایونی نے فلمی نغموں میں بھی ادبی معیار کو برقرار رکھا ہے اور یہ بات کیفیؔ اعظمی، ساحرؔ لدھیانوی، مجروحؔ سلطانپوری اور شکیلؔ بدایونی جیسے صرف چند ہی فلمی نغمہ نگار کر پائے ہیں۔ ۱۹۶۱ء میں فلم ’چودھویں کا چاند‘ کے نغمے پر پہلی بار شکیل کو فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ مشہور ریڈیو پروگرام ’بناکا گیت مالا‘ میں شکیل کے گیت اکثر سرفہرست رہے ہیں۔ ان کے چار شعری مجموعے منظرعام پر آئے ہیں۔انہوں نے کل ملاکر ۸۹؍فلموں کے نغمے قلمبند کئے۔ان کا فلموں میں کامیاب ہونا اور ان کے گیتوں کی عوام میں بے پناہ مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی کہ انہوںنے فلمی نغمہ نگاری میں بھی شاعری کے معیار کو برقرار رکھا اور فلموں میں اپنی ایک حد تک قابل رشک کامیابی کے ساتھ بھی وہ شاعری اور غزل کے میدان سے روپوش ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے۔

۲۰؍اپریل ۱۹۷۰ء کو شام  چار بجے حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے شکیل اس جہان فانی سے رُخصت ہوگئے۔ اُسی رات باندرہ ممبئی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ 

qissey@rediffmail.com

10 جنوری ، 2021،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/shakeel-badayuni-adept-writing-songs/d/124045


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..