New Age Islam
Sat May 24 2025, 05:54 AM

Urdu Section ( 7 March 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Shab-E-Bara'at In The Light Of Faith and Action شب براء ت عقیدہ و عمل کی روشنی میں

محمد ذکی اللہ مصباحی، نیو ایج اسلام

7 مارچ 2023

شب براء ت کیا ہے؟ :

براء ت کے لغوی معنی چھٹکارا اور نجات کے ہیں۔چونکہ اللہ تعالیٰ اس رات اپنے مومنین بندوں کو جہنم سے چھٹکارا اور نجات لکھتا ہے،اس لئے اس رات کو شب براء ت کہتے ہیں۔ چنانچہ تفسیر کشاف جلد چہارم ص۲۶۲ مطبوعہ المکتبۃ العلمیۃ ،بیروت، لبنان میں علامہ جاراللہ الزمخشری المتوفیٰ ۵۳۸ ھ تحریر فرماتے ہیں : پندرہویں شعبان کے چارنام ہیں (۱)اللیلۃ المبارکۃ (۲) لیلۃ البراء ۃ(۳)لیلۃ الصک (۴)لیلۃ الرحمۃ، اور اس رات کو لیلۃ البراء ۃ یا لیلۃ الصک اس لئے کہا جاتا ہے کہ... اللّٰہ عزوجل یکتب لعبادہ المؤمنین البراء ۃ في ہذہ اللیلۃ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے مومنین بندوں کے لئے اس رات میں جہنم سے نجات تحریرفرماتا ہے۔

شب براء ت کے اعمال سے متعلق احادیث:

احادیث صحیحہ : صحاح ستہ کی ایک مشہور کتاب سنن ابن ماجہ باب ماجاء فی لیلۃ النصف من شعبان ص۹۹میں ہے: الحسن بن علی الخلال ثنا عبد الرزاق انبأ ابن ابی سبرۃ عن ابراہیم بن محمد بن معاویۃ بن عبداللّٰہ بن جعفر بن ابیہ عن علی بن أبی طالب قال قال رسول اللّٰہ ﷺ: اذاکانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلھا وصوموا نہارہا فإن اللّٰہ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی سماء الدنیا فیقول ألا من مستغفرلی فاغفرلہ ،ألا مسترزق فارزقہ،ألا مبتلیً فأعافیہ، ألاکذا ألاکذاحتی یطلع الفجریعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے، نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں جب شعبان کی پندرہویں رات آجائے تو اس رات کو قیام کرو یعنی اس رات کونماز وعبادت میں گزارواور اس کے دن میں روزہ رکھو کہ رب تبارک وتعالیٰ غروب آفتاب سے آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا کہ اسے بخش دوں،ہے کو ئی روزی طلب کرنے والاکہ اسے روزی دوں،ہے کوئی مصیبت میں مبتلاکہ اسے عافیت دوں،ہے کوئی ایسا،ہے کوئی ایسا۔اور یہ اس وقت تک فرماتا ہے کہ فجر طلوع ہوجائے۔

ابن ماجہ کے اسی باب میں ایک اور حدیث اس طرح ہے:‘‘حدثنا راشد بن سعید بن راشد الرملی ثنا الولید عن ابن لھیعۃ عن الضحاک بن أیمن عن الضحاک بن عبدالرحمٰن بن عرزب عن أبي موسیٰ الأشعری عن رسول اللّٰہ ﷺ قال إن اللّٰہ لیطلع في لیلۃ النصف من شعبان فیغفر لجمیع خلقہ إلا لمشرک أو مشاحن’’ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ عزوجل اپنی تمام مخلوق کی طرف تجلی فرماتا ہے اور سب کو بخش دیتاہے مگر کافر اور عداوت والے کو ،اسی حدیث کومشہور محدث امام ابن حبان (متوفی۳۵۴)اورامام طبرانی (متوفی۳۶۰)نے حضرت معاذبن جبل سے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔

احادیث ضعیفہ (مرسل):

(۱)عن مکحول عن کثیر بن مرۃ عن رسول اللّٰہ ﷺ قال في لیلۃ النصف من شعبان یغفراللّٰہ عزوجلّ لأھل الأرض إلا لمشرک أومشاحن حضرت مکحو ل، کثیربن مرہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی پاک ﷺ سے کہ سرکارنے فرمایا،شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ زمین والوں کو معاف فرمادیتا ہے مگر مشرک اور کینہ پرور کو نہیں معاف فرماتا۔امام بیہقی نے اس حدیث کو مرسل اور جید فرمایاہے یعنی مرسل ہونے کے باوجود قابل اعتماد ہے۔

(۲)دیلمی کی روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے کہ ‘‘إن رسول اللّٰہ ﷺ قال:تقطع الآجال من شعبان إلی شعبان حتی أن الرجل لینکح ویولد لہ وقد خرج اسمہ في الموتی’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا موت کے پروانے ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک کے بانٹ دیے جاتے ہیں یہاں تک کہ آدمی نکاح کرتاہے، اس کے بچے ہوتے ہیں حالانکہ اس کانام مرنے والوں میں نکل چکا ہوتاہے۔علامہ ابن کثیر المتوفی ۲۳۴؁ھ نے اپنی کتاب تفسیر ابن کثیر میں اس حدیث کو مرسل کہا ہے۔اسی حدیث کو امام طبری (متوفی ۳۱۰ھ)نے اپنی تفسیر جامع البیان فی تفسیر القرآن میں دوسری سند سے بیان فرمایا ہے جو سند اس طرح ہے :حدثنی عبید بن آدم بن ابی ایاس ،قال: ثنا ابی ،قال :ثنا اللیث ،عن عقیل بن خالد ،عن ابن شھاب ،عن عثمان بن محمد بن المغیرۃ بن الاخنس،قال :قال رسول اللّٰہ ﷺ.....

حدیث صحیح کی تعریف :

لغت میں صحیح، تندرست یعنی بیمار کی ضد کو کہتے ہیں ۔اور اس کے اصطلاحی معنی کے متعلق حضرت علامہ نووی فرماتے ہیں :‘‘ھومااتصل سندہ بالعدول الضابطین من غیر شذوذ و لا علۃ،، یعنی جس حدیث کی سند متصل ہو( یعنی شروع سے اخیر تک درمیان میں کوئی راوی چھوٹا ہوا نہ ہو ) اور اس کے راوی عادل اور تام الضبط ہوں وہ حدیث غیر شاذ اور غیر معلل ہو ۔(بحوالہ علامہ یحییٰ بن شرف نووی ، متوفیٰ ۶۷۶ ھ، تقریب النووی مع تدریب الراوی جلد اول ، ص : ۶۳، مطبوعہ مکتبہ علمیہ مدینہ منورہ )

حدیث ضعیف کی تعریف :

لغت کے اعتبار سے ضعیف (کمزور)قوی کی ضد ہے۔ حدیث ضعیف کی تعریف یہ ہے‘‘ہروہ حدیث جس میں حدیث صحیح اور حدیث حسن کی ایک یا ایک سے زیادہ صفت نہ ہوں وہ حدیث ضعیف ہے۔ حدیث ضعیف کی مشہور اقسام یہ ہیں: (۱)موضوع (۲)مقلوب (۳)شاذ(۴)معلل(۵) مضطرب (۶) مرسل (۷)منقطع (۸)معضل (بحوالہ علوم الحدیث ص۳۷ تا۳۸ مطبوعہ مکتبہ علمیہ مدینہ منورہ)

حدیث ضعیف کے مراتب :

 علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں :‘‘ حدیث ضعیف کی بدترین قسم موضوع ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے ،پھر اس کے بعد متروک ہے، پھر منکر ہے، پھر مدرج، پھر مقلوب، پھر مضطرب ہے۔یہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی بیان کردہ ترتیب ہے ۔آگے مزید فرماتے ہیں:اور سند کے اعتبار سے حدیث ضعیف کے اقسام کی ترتیب اس طرح ہے :بدترین ضعیف ،معضل ہے،پھر منقطع ہے،پھر مدلس ہے ،پھر مرسل ہے ،اور یہ بالکل واضح ہے۔ (بحوالہ علامہ جلال الدین سیوطی متوفی ۹۱۱ھ تدریب الراوی جلد اول ص۲۹۵ مطبوعہ مکتبہ علمیہ مدینہ منورہ )

حدیث ضعیف پر عمل کرنے کی تحقیق:

علامہ خطیب بغدادی لکھتے ہیں:‘‘بے شمار علمائے سلف سے مروی ہے کہ جو احادیث حلال و حرام کرنے سے متعلق ہوں ان میں صرف ان لوگوں کی روایت جائز ہے جو تہمت سے بری ہوں اور بدگمانی سے دور ہوں اور جو احادیث ترغیب اور مواعظ سے متعلق ہوں ان کو تمام مشائخ سے لکھنا جائز ہے ۔جلیل القدر تابعی حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ حلال اور حرام میں اس علم کو صرف ان لوگوں سے حاصل کرو جو اس فن کے رئیس ہیں اور علم میں مشہور ہیں جو اس کی کمی اور زیادتی کی معرفت رکھتے ہیں اور اس کے ماسوا(علاوہ) میں باقی مشائخ سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔(بحوالہ حافظ ابو بکر احمد بن علی ثابت خطیب بغدادی متوفی ۴۶۳ھ،الکفایہ فی علم الروایہ ص:۱۳۳۔۱۳۴مطبوعہ مکتبہ علمیہ مدینہ منورہ )

علامہ یحییٰ بن شرف نووی لکھتے ہیں:‘‘محدثین وغیرہم کے نزدیک موضوع حدیث کے علاوہ حدیث ضعیف کی سند میں روایت کے وقت تساہل (آسانی کرنا)کرنا جائز ہے اور اس پر عمل کرنا بھی جائز ہے ،بشرطیکہ اس حدیث کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفات اور احکام شرعیہ مثلا حلال اور حرام سے نہ ہو اور اس حدیث کا عقائد اور احکام سے کوئی تعلق نہ ہو۔ (علامہ یحییٰ بن شرف نووی متوفی ۶۷۶ھ،تقریب النووی مع تدریب الراوی جلد اول ص:۲۹۸مطبوعہ مکتبہ علمیہ مدینہ منورہ )

حدیث منقطع کی تعریف اور اس کا حکم :

منقطع ،انقطاع سے ماخوذ ہے۔اور انقطاع ،اتصال کی ضد ہے۔اور اس کی اصطلاحی تعریف ہے:‘‘ان المنقطع مالم یتصل اسنادہ علی ای وجہ ،کان انقطاعہ ، واکثرما یستعمل فی روایۃ من دون التابعی’’یعنی منقطع وہ حدیث ہے جس میں کسی وجہ سے بھی عدم اتصال ہو،اور اس کا اکثراطلاق اس حدیث پر ہوتا ہے جس میں تابعی سے نیچے درجہ کا کوئی شخص صحابی سے روایت کرے۔(علامہ یحییٰ بن شرف نووی متوفی ۶۷۶ھ،تقریب النووی مع تدریب الراوی جلد اول ص:۲۰۸۔۲۰۷مطبوعہ مکتبہ علمیہ مدینہ منورہ )

حدیث منقطع کا حکم :یہ ہے کہ علما کے نزدیک یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے۔کیوں کہ جس راوی کو حذف کیا گیا ہے اس کا حال مجہول ہے۔

حدیث موضوع کی تعریف اور حکم :

لغت میں وضع کا معنی کسی چیز کو پست کرنا ،اس کا مرتبہ کم کرنا اور اس کی اصطلاحی تعریف یہ ہے:جو جھوٹی بات گھڑ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر دی گئی ہو اس حدیث کو موضوع کہتے ہیں (بحوالہ علوم الحدیث ص:۸۹مطبوعہ مکتبہ علمیہ مدینہ منورہ ) بالاتفاق حدیث موضوع باطل اور قابل حجت نہیں۔

حدیث مرسل کی تعریف:

لغت میں أَرْسَلَ کا معنی أَطْلَقَ ،یعنی کسی چیز کو بغیر کسی قید کے بیان کرنا اور اس کی اصطلاحی تعریف علامہ حافظ ابن حجرعسقلانی (م۸۵۲ھ)نے یہ کی ہے:‘‘جس حدیث کی سند کے آخر میں تابعی کے بعد راوی (صحابی)کو حذف کردیا جائے (چھوڑاجائے)وہ مرسل حدیث ہے۔(شرح نخبۃ الفکرص ۵۱)

حدیث مرسل کو قبول کرنے میں مذاہب ائمہ:

حافظ ابن حجر عسقلانی متوفیٰ ۸۵۲ھ تحریر فرماتے ہیں ‘‘فقہاء مالکیہ،فقہاء احناف اورامام احمد کا قول یہ ہے کہ حدیث مرسل مطلق مقبول ہوتی ہے،اور امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی اور سند سے اس کی تائید ہوجائے تو وہ مقبول ہے ورنہ نہیں ،خواہ وہ سند متصل ہو یا مرسل(شرح نخبۃ الفکرص ۵۲) اور علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ متوفی ۹۱۱ھ حدیث مرسل کے بارے میں فرماتے ہیں:امام ابن جریرنے فرمایا:تمام تابعین کا اس پر اجماع ہے کہ حدیث مرسل مقبول ہوتی ہے اور ان میں سے کسی کا اس سے انکار منقول نہیں اور ان کے بعد دوسوسال تک ائمہ میں کسی کا انکار منقول نہیں ہے، حافظ ابن عبدالبرنے کہا کہ امام شافعی پہلے وہ شخص ہیں جنھوں نے حدیث مرسل کو مستردکیا ہے(یعنی جب تک دوسری سند سے اس کی تائید نہ ہو قبول نہیں کیا) ۔اور بعض ائمہ نے تو حدیث مرسل کو متصل حدیث پر بھی ترجیح دی ہے ۔انہوں نے کہا جب کوئی راوی پوری حدیث بیان کردیتا ہے تو وہ اس کی تحقیق کو تم پر چھوڑدیتا ہے اور جب وہ حدیث کے کسی راوی کو چھوڑدیتا ہے تو وہ اس کی صحت اور ثقاہت کا ضامن ہو جاتا ہے (یعنی اس کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے، اس کا ضامن میں ہوں، اور سند میں باقی جو راوی میں نے ذکر کئے ہیں ان کی چھان بین تم خود کر لو)بحوالہ تدریب الراوی جلد اول ص:۱۹۸ مطبوعہ مکتبہ علمیہ ،مدینہ منورہ۔

تنبیہ: موجودہ زمانے میں کچھ لوگ حدیث مرسل و منقطع ( ضعیف)کو بلا تحقیق حدیث موضوع قرار دینے میں جلد بازی کرتے ہیں حالاں کہ جھوٹی بات گڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کردی گئی ہواس کو حدیث موضوع کہتے ہیں۔(بحوالہ علوم الحدیث ص ۸۹،مطبوعہ مکتبہ علمیہ ،مدینہ منورہ)جب کہ صحیح حدیث میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دوران خطبہ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ‘‘میری طرف جھوٹ منسوب نہ کرو کیونکہ جو شخص میری طرف جھوٹ منسوب کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا ’’(صحیح مسلم ج اول)

واضح ہو کہ صرف کوئی بات گھڑ کر آپ کی طرف منسوب کرنا ہی جھوٹ بات نہیں بلکہ آپ کی سچی زبان مبارک سے نکلی ہوئی کسی بات کو گھڑی ہوئی کہنا ،بھی آپ کی طرف جھوٹ منسوب کرناہے۔(العیاذ باللہ)

لیلۂ مبارکہ کی مختلف تفسیریں :

سورۂ دخان کی آیت: إنا أنزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ إنا کنا منذرین فیھا یفرق کل أمر حکیمکی تفسیرمیں لیلۂ مبارکہ سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلہ میں تفسیربغوی (متوفی ۵۱۶ھ)میں ہے کہ حضرت قتادہ اور ابن زیدرضی اللہ عنہما اس سے لیلۃ القدر مرادلیتے ہیں، جبکہ صحابی رسول حضرت عکرمہ (رضی اللہ عنہ)اس سے پندرہویں شعبان کی رات مراد لیتے ہیں اور اسی تفسیر بغوی میں مفسر اعظم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے حضرت ابو الضحی کی روایت ہے :‘‘ان اللّٰہ یقضی الاقضیۃ فی لیلۃ النصف من شعبان و یسلمھا الی اربابھا فی لیلۃ القدر’’ یعنی اللہ تعالی پندرہویں شعبان کی رات( تقدیر کے )فیصلے فرماتا ہے اور انہیں حقدار کو لیلۃالقدر میں سونپ دیتا ہے۔تفسیر جامع البیان فی تفسیر القرآن میں امام طبری (متوفی ۳۱۰ھ)نے ایک روایت نقل کی جو حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ‘‘ مرد لوگوں میں چلتا ہے حالاں کہ وہ مُردوں میں اٹھا دیا گیا ہوتا ہے ’’پھر آپ نے سورۂ دخان کی مذکورہ آیات پڑھی ۔راوی فرماتے ہیں:‘‘پھر آپ نے فرمایا :اس رات میں ایک سال سے دوسرے سال تک کے دنیوی امور (دنیا کے کام) بانٹ دیے جاتے ہیں اور تفسیر خازن(متوفی۷۲۵ھ) میں ہے کہ لیلۂ مبارکہ سے مراد ایک قول کے مطابق لیلۃ القدر ہے اور ایک قول کے مطابق شعبان کی پندرہویں رات ہے، اور تفسیر کشاف(متوفی۵۳۸ھ) میں ہے :لیلۂ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے یا شعبان کی پندرہویں رات، تفسیر کبیر میں علامہ امام رازی(متوفی۶۰۶ھ) فرماتے ہیں کہ لیلۂ مبارکہ کی تفسیر میں مفسرین کرام کا اختلاف ہے، اکثر کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد لیلۃ القدر ہے اور صحابی رسول حضرت عکرمہ (رضی اللہ عنہ) اور مفسرین کرام کی ایک جماعت اس سے مراد لیلۃ البراء ت لیتے ہیں جو شعبان کی پندرہویں رات ہے ۔

علامہ ابن العربی کا حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا )سے مروی روایت کے تعلق سے نظر یہ:

حضرت علامہ ابن العربی (متوفی ۳۴۵ھ)ترمذی کی اپنی شرح عارضۃ الاحوذی جلد سوم ص۲۷۵ باب لیلۃ النصف من شعبان کے تحت فرماتے ہیں کہ اس روایت میں حجاج بن أرطاۃ قابل اعتماد (ثقہ) نہیں ہیں جیساکہ امام ترمذی نے فرمایا کہ امام بخاری اس حدیث کو منقطع ہونے کی بنیاد پر ضعیف قراردیتے ہیں۔ ابن العربی تحریر فرماتے ہیں: بعض (چند)مفسرین کرام سورۂ دخان آیت نمبر ۳اور ۴ کی تفسیر نصف شعبان کی رات سے ثابت کرنے کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث:ــ‘‘میں اللہ کے رسول ﷺکو رات میں نہیں پائی ،ان کو بقیع میں پائی ،آپ نے فرمایا :کیا تمہیں اندیشہ ہے کہ اللہ و رسول ناانصافی کریں گے ؟ میں بولی :اے اللہ کے رسول!میں سمجھی کہ آپ کسی دوسری بیوی کے پاس گئے ہیں ۔آپ نے فرمایا:اللہ عزوجل دنیا کی جنت کی طرف شعبان کی آدھی رات کو نزول فرماتا ہے اور گناہوں کو بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی کہیں زیادہ بخش دیتا ہے’’ ۔(ترمذی حدیث ۷۳۹،سنن ابن ماجہ۱۳۸۹،احمدجلد۶،۲۳۸)کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں،جو قابل قبول نہیں۔کیوں کہ قرآن لیلۃ القدر میں نازل ہوا۔

وضاحت:

آپ نے احادیث کریمہ اور تفاسیر کی روشنی میں ملاحظہ کر لیا کہ پندرہویں شعبان کی رات کی اہمیت کیاہے !کسی نے اس رات کی اہمیت و فضیلت سے انکار نہیں کیا ۔رہی بات علامہ ابن العربی کی بات تو آپ نے صرف اس وجہ سے اس رات کی اہمیت میں وارد احادیث کی صحت کا انکار فرمایا ہے کہ آپ نزول قرآن اور صفات الٰہی پر بحث فرما رہے تھے ۔آپ ایک جلیل القدر متکلم (علم کلام اور عقیدہ جاننے والا)تھے اس وجہ سے آپ پر توحید(اللہ تعالی کو ایک جاننا)اور تنزیہہ(اللہ تعالی کو نا مناسب صفات سے پاک جاننا)کا پہلو غالب آگیا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے پاس دستیاب(موجود)کتب احادیث میں ایک بھی صحیح حدیث نہیں پائی کیوں کہ آپ اس بارے میں متواتر احادیث کے خواہاں تھے نہ کہ آحاد(غیرمتواتر احادیث)کے۔جب کہ ہماری گفتگو محض فضیلت کے ثبوت کے سلسلے میں چل رہی ہے نہ کہ خاص کر نزول قرآن کے مسئلے پر ۔لہذا امام ابن العربی کا نظریہ نزول قرآن اور صفات الٰہی کے باب میں تو مناسب ہے لیکن آپ کی بات کو جو لوگ فضائل کے مسئلے پرمحمول کرتے ہیں وہ صحیح نہیں ہے۔

قابل فکر اشارہ:

 واضح ہو کہ حضرت امام ترمذی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کے سلسلے میں اپنے استاد گرامی حضرت امام بخاری کا نظریہ پیش فرمایا۔اس کے باوجود آپ نے اسی سند سے اس حدیث پاک کو اپنی کتاب میں جگہ دی ۔اور فرمایا کہ یہ حدیث مجھے اسی سند سے ملی ہے ۔لہذا آپ کا اس حدیث پاک کو اپنی کتاب میں جگہ دینا اس بات کی طرف لطیف اشارہ مقصود تھا کہ یہ حدیث کسی اور سند سے دیگر محدثین کرام کے پاس محفوط ہونے کی صورت میں قوی (مضبوط )ہو جائے گی ۔بحمدہ تعالیٰ !اسی مفہوم کی ایک طویل حدیث حضرت امام بیہقی نے اپنی کتاب ‘‘شعب الایمان’’ باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان میں دوسری سند سے نقل فرمائی ہے ۔جو سند اس طرح ہے:اخبرنا ابو عبد اللّٰہ الحافظ و محمدبن موسیٰ قال:ا نا ابو العباس محمد بن یعقوب ، نا محمد بن عیسی بن حیان المدائنی ،نا سلام بن سلیمان، انا سلام الطویل ، عن وھیب المکی ، عن ابی رھم ان ابا سعید الخدری دخل علی عائشۃ فقالت لہ عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا :....۔۔

‘‘آپ نے اس حدیث پاک کو روایت کے اعتبار سے ضعیف بتایا ہے ۔’’مگر یہ حدیث دو الگ الگ سند سے مروی ہے ۔لہذا یہ حدیث قوی(مضبوط )ہو گئی۔اور حدیث کی قوت دو سند سے ہو جاتی ہے ۔مزید یہ کہ حدیث ضعیف فضائل اعمال میں معتبر ہے ۔علماے محدثین اورفقہاے اسلام بیان کرتے ہیں :‘‘ان الحدیث الضعیف معتبر فی فضائل الاعمال’’ یعنی فضائل اعمال میں حدیث ضعیف معتبر ہے ۔(مقدمۂ مشکوٰۃ للشیخ عبد الحق الدہلوی رحمہ اللّٰہ ص۶ )فیعمل بہ فی فضائل الاعمالیعنی فضائل اعمال میں حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے گا۔(در مختار جلد اول ص۹۴)اور ملا علی قاری رحمہ اللہ نے تو امام بخاری کو قول کو نقل کرنے اور حدیث کو ضعیف قرار دینے کے بعد اسی حدیث کے متعلق متصلاً تحریر فرماتے ہیں :‘‘لکن یعمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الاعمال’’یعنی لیکن حدیث ضعیف پر فضائل اعمال میں عمل کیا جاتا ہے(مرقاۃ المصابیح ص۱۷۲) بلکہ آپ نے تو مزیدایک بات بڑھا کے لکھی ۔باتفاق العلماء یعنی سارے علماء ایک راے اور ایک خیال ہیں کہ حدیث ضعیف قابل قبول اور معتبرہے۔

قوت حدیث کے لے دو ہی سند کافی ہے :

حدیث کی قوت کے لے دو ہی سند کافی ہے۔التیسیر بشرح الجامع الصغیرکے مصنف علامہ محمد عبد الرؤف المناوی(متوفی ۱۰۳۱ھ)لکھتے ہیں:‘‘یہ حدیث (کسی اور باب سے متعلق)تو عمرو بن واقد کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن دو سند سے مروی ہے اس لیے قوی ہے’’اسی میں ہے یہ حدیث ‘‘اکرموا المِعْزیٰ وامسحوا برغامھا فانھا من دواب الجنۃ’’کہ بکری کا احترام کرو اور اس سے مٹی جھاڑو کہ یہ جنتی جانور ہے،سلسلۂ سند میں یزید نوفلی کے ضعف کے سبب ضعیف ہے۔پھر ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک شاہد پیش کیااور کہا :‘‘اس کی اسناد ،ضعیف ہے لیکن اس سے قبل جو حدیث ہے،اس سے ہر ایک کی تائید ہو جاتی ہے۔ ’’

‘‘علما کی تعظیم کرو کہ وہ انبیا کے وارث ہیں۔’’اس حدیث کو دو سند وں سے روایت کرنے کے بعد صاحب التیسیراور مصنف سراج منیر نے پہلی سند پر کلام کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اپنے ما بعد یعنی دوسری سند سے منقول ہونے کی وجہ سے قوی ہے۔اسی طرح دوسری سند کے متعلق فرمایاـ:‘‘یہ حدیث ضحاک بن حجرہ سے مروی ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن اپنے ما بعد کی سند سے منقول ہونے کے سبب قوی ہے۔’’

اہل علم کے عمل سے حدیث ضعیف کے قوی ہونے کی تحقیق :

 حدیث ضعیف،اہل علم کے عمل سے قوی ہوجاتی ہے ۔ملا علی قاری ر حمۃاللہ علیہ ـــ ‘‘ مرقاۃ المصابیح’’اقتداے مقتدی کے فصل ثانی کے شروع میں بیان کرتے ہیں ‘‘اس حدیث کو امام تر مذی نے روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث غریب ہے ۔مگر اہل علم کااس پر عمل ہے ’’سید میرک نے امام نو وی سے نقل کیا کہ ‘‘اس کی سند ضعیف ہے ’’امام ترمذی نے جو یہ کہاہے ‘‘والعمل عند اہل العلم’’اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ حدیث ضعیف ،اہل علم کے عمل سے قوی ہو جا تی ہے ۔باقی حقیقت حال ، اللہ ہی جانتا ہے ۔

اسی طرح امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث پاک ‘‘جس نے بلا عذر، دو نمازوں کو جمع کیا اس نے گنا ہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ’’کے تحت لکھا ہے ‘‘امام ترمذی نے اس حدیث کی تخریج کی ہے اور کہا ہے کہ امام احمد وغیرہ نے سلسلۂ سند کے ایک راوی ‘‘حسین ’’ کو ضعیف قرار دیا ہے ۔مگر اس کے باوجو د اہل علم کے نزدیک اس حدیث پر عمل ہے ،گویا اس سے اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ اہل علم کے عمل سے حدیث،قوی ہوجاتی ہے ۔

زیارت قبور:

اس مبارک رات میں قبر ستان جانا اور وہاں مسلمان مرحومین کے لئے دعائیں کرنا بھی مسنون ہے، اس شب میں جس قدر ہوسکے قرآن پاک کی تلاوت اور درود شریف کا ورد کرے، استغفار اور توبہ میں مشغول رہے،۔جس کے اوپر فرض نمازیں قضا ہوں وہ قضا نمازیں اداکریں۔اور جس کے اوپر نمازیں قضانہ ہوں وہ نوافل اور صلاۃ التسبیح کا اہتمام کریں اور بے شمار خیرات وبرکات سے اپنے دامنوں کو پُرکریں۔قبروں کی زیارت کو جانا سنت ہے،۔سرکاردوعالم ﷺ نے قبروں کی زیارت کی ہے اور اس کا حکم بھی دیا ہے اور اس کے فوائد وبرکات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ چند حدیثیں ملاحظہ ہوں۔

(۱) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزوروھا فإ نھا تزھد فی الدنیا وتذکرالآخرۃ’’(سنن ابن ماجہ ص : ۱۱۲ ، مشکوٰۃ ص:۵۴ باب زیارۃ القبور ،کتاب الجنائز)ترجمہ: میں نے تم کو زیارت قبور سے منع کیا تھا اب قبروں کی زیارت کرو اس لئے کہ وہ دنیا سے بے رغبت کرتی ہیں اور آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔

(۲)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی امام مسلم کی ایک روایت میں ہے: فزوروا القبور فإنھاتذکر الموت(صحیح مسلم جلد۱،مشکوٰۃص: ۱۵۴ مجلس برکات مبارکپور)اب قبروں کی زیارت کرو،اس لئے کہ قبریں موت کو یاد دلاتی ہیں۔

شارح مشکوٰۃ ملاعلی قاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

‘‘وأجمعواعلی أن زیارتھا سنۃ لھم ،وھل تکرہ للنساء ؟وجھان: قطع الأکثرون بالکراھۃ ومنھم من قال لا یکرہ إذاأمنت الفتنۃ (مرقاۃ المفاتیح حاشیہ مشکوٰۃ ص۱۵۴)اس پر اجماع ہے کہ قبروں کی زیارت مردوں کے لئے سنت ہے، اب رہا یہ کہ عورتوں کے لئے مکروہ ہے؟تو اس میں دوقول ہیں: اکثر علماء نے کراہت کا حکم دیا ہے اور بعض نے فرمایا کہ مکروہ نہیں مگر یہ اس وقت ہے کہ فتنے کا خوف نہ ہو۔

اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان قدس سرہ فرماتے ہیں:

‘‘اصح یہ ہے کہ عورتوں کو قبروں پر جانے کی اجازت نہیں ۔(فتاویٰ رضویہ ۴؍۱۶۵،سنی دارالاشاعت مبارکپور) اور فرماتے ہیں عورتوں کو زیارت قبور منع ہے، حدیث میں ہے: لعن اللّٰہ زائرات القبور (ابن ماجہ :۱۹۳)اللہ کی لعنت ان عورتوں پر جو قبروں کی زیارت کو جائیں۔

زیارت قبور کا طریقہ :

یہ ہے کہ پائنتی کی جانب سے جاکرمیت کے منہ کے سامنے(چار ہاتھ کے فاصلے پر) کھڑاہو، سرہانے سے نہ آئے کہ میت کے لئے باعث تکلیف ہے یعنی گردن پھیرکر دیکھنا پڑے گا کہ کون آیا (بہار شریعت ۴؍۱۶۱مصنف خلیفۂ اعلیٰ حضرت)

تنبیہ: واضح ہو کہ یہ تو زیارت قبور کے فضائل ہم نے احادیث کریمہ سے ثابت کیے مگر کچھ لوگ ہر سال خاص کرشب براء ت میں زیارت قبور کرنے کو (بری)بدعت کہتے ہیں۔جب کہ تفسیر در منثور میں علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ اولٰئک لھم عقبی الدار . جنٰت عدن یدخلونھا الخ (رعد:۱۳؍۲۲۔۲۳) کے تحت ایک حدیث نقل فرماتے ہیں جس کو ابن جریر الطبری نے محمد بن ابراہیم رضی اللہ عنہ سے تخریج کرتے ہوئے فرمایا ہے:کان النبی ﷺ یأتی قبور الشہد اء علی راس کل حول یقول سلام علیکم بما صبرتم، فنعم عقبی الدار وأبوبکر وعمروعثمانیعنی رسول اللہ ہر سال کے شروع میں شہداکی قبروں کی زیارت کو تشریف لاتے تو فرماتے تم پر تمہارے صبرکرنے کی وجہ سے سلامتی ہواور آخرت کا انجام اچھا ہو، حضرت ابو بکر وعمر وعثمان بھی ایساکرتے تھے۔

اسی میں ہے کہ ابن منذر اور ابن مردویہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث تخریج فرمائی ہے جو اس طرح ہے: إن رسول اللّٰہ ﷺکان یأتی أحدا کل عام فإذا تفوہ الشعب سلم علی قبور الشھداء فقال سلام علیکم بماصبر تم فنعم عقبی الدار’’حضور ﷺ ہر سال احد آتے تھے توجب احد کی گھاٹی پر پہنچتے تو شہدا کی قبروں پر سلام پیش کرتے تو حضور فرماتے تمہارے صبر کی بنیاد پر تم پر سلامتی ہو، آخرت کا انجام بہتر ہو۔اسی حدیث کو علامہ فخر الدین رازی نے اپنی کتاب تفسیر کبیر میں اسی آیت کے تحت نقل فرمایاہے۔

خاص دن میں زیارت قبور کے بارے میں ایک اور حدیث مشکوٰۃ شریف ص۱۵۴ میں باب زیارۃ القبور کے تحت مذکور ہے :من زار قبرأبویہ او احد ہما في کل جمعۃ غفرلہ وکتب برّاً یعنی جو اپنے و الدین یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی قبر کی ہر جمعہ زیارت کرے تو اس کی بخشش ہوگی اور اسے فرمانبردارلکھ دیا جائے گا۔اس حدیث کو امام بیہقی نے مرسل کہا ہے۔

شب براء ت کے حلوے کی حکمت:

پیچھے ابن ماجہ کی مذکورہ بالا حدیث جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رات تمام مومنین کی مغفرت فرماتا ہے مگر وہ جو عداوت اور کینہ رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے مسلمانوں میں یہ بدعت حسنہ رائج ہوچکی ہے کہ وہ پندرہویں شب کی مغرب کے وقت حلوہ پکا کر فا تحہ دلاتے ہیں اور اسے رشتہ داروں، پڑوسیوں اور دوست واحباب میں بطور ہدیہ تقسیم کرتے ہیں تاکہ گذشتہ دنوں میں ہونے والی رنجش وعداوت دور ہوجائے اور مسلمانوں کے دل کینے سے پاک ہو جائیں اور اس مقدس رات میں وہ رب تعالیٰ کی بخشش کے حقدارہوجائیں۔

مگر چند حضرات حلوے نیزمسلمانوں میں صلح کے طریقے پر بھی اعتراض کرتے ہیں لہذا اس ضمن میں چند احادیث درج کی جاتی ہیں۔ چنانچہ بخاری شریف جلد دوم ص ۸۳۸ میں ہے: کان رسول اللّٰہ ﷺ یحب الحلویٰ والعسل یعنی حضور ﷺ حلویٰ (حلوہ؍شیرینی)اور شہد کو پسند فرماتے تھے۔حضور ﷺ کی پسندیدہ چیز کو ناپسند کر نا گمراہی ہے۔

امام بخاری نے الأدب المفردمیں ایک حدیث نقل فرمائی ہے‘‘تھادوا تحابّوا’’یعنی ایک دوسرے کو ہدیہ دو آپس میں محبت کرنے لگو گے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘‘تھادوا فإن الھدیۃ تذہب الضغائن’’ یعنی ایک دوسرے کو ہدیہ دو اس لئے کہ ہدیہ کینے کو دور کردیتا ہے۔

تنبیہ:بعض حضرات شب براء ت کی مقدس رات کو سیر وتفریح ،طنز ومزاح ،گپ شپ، خریداری ،آتش بازی اور کھیل کود میں گزار دیتے ہیں جو شرعاً ناجائزہے۔دوسری طرف قبور پر چلتے ہیں اور ان پرشمع بھی روشن کرتے اور ان پرا گر بتیاں جلاتے ہیں جو خلاف شرع ہے۔ان امور سے ہر مسلمان کو بچنا ضروری ہے۔

بدعت کی حقیقت:

لفظ بدعت کہہ کر بعض لوگوں کا یہ شیوہ (عادت)بن چکا ہے کہ وہ سادہ لوح نیک مسلمانوں کو بدعت حسنہ سے محروم رکھنا چاہتے ہیں، جبکہ احادیث میں اس کے اوپر ثواب کا وعدہ ہے۔چنانچہ مسلم شریف ثانی ص۳۴۱ باب من سن سنۃ حسنۃ أو سیئۃ میں ہے ‘‘من سن فی الإسلام سنۃ حسنۃ فلہ أجرھا وأجرمن عمل بھا من بعدہ من غیرأن ینقص من أجورہم شی ء ومن سن فی الإسلام سنۃ سیئۃ کان علیہ وزرھا ووزرمن عمل بھا من بعدہ من غیر أن ینقص من أوزارھم شي ء ’’یعنی جو اسلام میں اچھی سنت ایجاد کرے گا تو اس کو اس کا بھی ثواب ملے گا اور اس پر جو عمل کرے گا اس کا بھی ثواب ملے گا اور ان کے اجروں میں کچھ کمی نہیں کی جائے گی اور جس نے بری سنت ایجادکی تو اس کو اس کا گناہ ملے گا ساتھ ہی اس کے بعد جواس پر عمل کرے گا اس کا بھی گناہ ملے گا اور ان کے گناہوں میں کچھ کمی نہیں کی جائے گی اور سورہ ےٰسٓآیت نمبر ۱۲ ونکتب ماقدمواوآثارھم (ترجمہ)‘‘اور ہم لکھ رہے ہیں جو انہوں نے آگے بھیجا اور جو نشانیاں پیچھے چھوڑگئے’’، کی تفسیر میں تقریبا ًتمام مفسرین کرام نے آثارھم کی وضاحت سنت حسنہ(اچھی سنت) اور سنت سےۂ (بری سنت)سے کی ہے اور امام مسلم کی مذکورہ حدیث نقل فرمائی ہے۔ اس مقام پر ہم اس شبہ کا ازالہ بھی کردینا چاہتے ہیں کہ بعض حضرات صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم)میں رائج بدعات حسنہ کو بدعات نہیں شمار کرتے ہیں بلکہ انہیں اصل دین کا حصہ شمار کرتے ہیں حالانکہ بخاری شریف جلد ثانی ص۷۴۵ میں باب جمع القرآن کے تحت جو حدیث مذکور ہے، اس میں یہ ہے کہ جب جنگ یمامہ میں بہت سارے حفاظ قرآن شہیدکردئیے گئے تو قرآن کے اکثر حصہ کے ضائع ہونے کا خدشہ لاحق ہوا تو حضرت عمر نے قرآن کے جمع کرنے کا مشورہ دیا، اس وقت خلیفہ ٔاول حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا کیف تفعل شیئالم یفعلہ رسول اللّٰہ ﷺ( کہ تم وہ کام کیسے انجام دوگے جسے رسول اللہ نے نہیں کیا ہے )تو حضرت عمر نے فرمایا: ہذا واللّٰہ خیر، فلم یزل عمر یراجعنی حتی شرح اللّٰہ صدر ی لذلک ورأیت فی ذلک رأی عمرالخ ’’یہ خدا کی قسم بہتر کام ہے پھر (ابوبکر فرماتے ہیں)کہ حضرت عمر باربار مجھے کہتے رہے، جتی کہ اللہ تعالیٰ نے میرے سینہ کو اس کے لئے کھول دیا، اورمیں بھی حضرت عمر کی رائے سے متفق ہوگیا.....۔

مذکورہ حدیث میں امیرالمومنین کے طرز عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ دین میں نئی بات رائج کرنا ان کے نزدیک بھی بدعت تھا ،یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر کے اصرار کرنے پرہی حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)نے اس بدعت حسنہ پر رضا مندی ظاہر کی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ بدعت حسنہ کے کرنے پر ثواب کے حصول سے خود کو محروم کرنے اور دوسروں کو بھی اس سے بازرکھنے والوں کا سینہ اس بات کے لئے کھول دے کہ وہ بدعت حسنہ کو قبول کریں اور اس بات کی توفیق دے کہ اس پر عمل کرکے ثواب کے حقدار بنیں۔(آمین)

کیا ہر بدعت گمراہی ہے؟

بدعت کی بہت سی قسمیں ہیں مگر بنیادی طور پر اس کی دو قسمیں ہیں (۱) بدعت حسنہ یعنی سنت حسنہ (۲) بدعت سیئۃ یعنی سنت سیئۃ۔

اس لیے حدیث میں جو آیا ہے کہ ‘‘ أَلَا اِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ، وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، وَکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِیْ النَّارِ ’’ یعنی ہر نئی ایجاد کردہ چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔اس سے مراد یہی بدعت سیئۃ (بری بدعت)ہے۔

اس لیے کہ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:‘‘ مَنْ أَحْدَثَ فِیْ أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ عَلَیْہِ’’ یعنی جو ہمارے اس معاملہ میں کوئی نئی بات ایجاد کرے اور وہ دین کے موافق نہ ہو تو وہ مردود و باطل ہے اور مسلم کی ایک روایت کے مطابق حدیث یوں ہے: ‘‘مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَّیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ’’ جو ایسا کام کرے جو ہمارے دین کے مطابق نہ ہو تو وہ باطل و مردود ہے۔

ان دونوں حدیثوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ جو نئی چیز (بدعت) دین کے موافق ہو وہ گمراہی کا سبب نہیں بلکہ اس پر ثواب بھی ملتا ہے، جیسا کہ پچھلی حدیث ( مسلم شریف ثانی ص۳۴۱ باب من سن سنۃ حسنۃ أو سیئۃ)میں گذرا۔اگر ایسا نہ مانیں تو پوری امت گمراہی میں مبتلا ہو جائے گی۔کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قرآن کاتبان وحی کو املا کرایا تھا اس میں نقطے نہیں تھے۔ اس عظیم کام کو ایک جلیل القدر تابعی یحییٰ بن یعمر نے انجام دیا، اسی طرح قرآن میں اعراب (حرکات و سکنات) نہ تھا، اس کام کو حجاج بن یوسف الثقفی نے کیا۔جمعہ میں ا ذان ثانی کا اضافہ بعد میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کیا۔باجماعت نماز تراویح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں پڑھی جاتی تھی، خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں با جماعت نماز تراویح کی ابتدا ہوئی۔ آپ نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:‘‘ نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ہٰذِہِ! ’’ یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے! لہٰذا بدعت بھی اچھی ہوتی ہے اور اس کے ایجاد پر ثواب بھی ہوتا ہے۔

آج ہم کروڑوں مسلمان ایسے نئے اچھے امور و اعمال انجام دیتے ہیں جن کے کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اچھی نیت پر اس کام میں ثواب بھی مرتب ہوتا ہے، بخاری شریف میں ہے‘‘اِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ’’ یعنی اعمال کا ثواب نیتوں پر ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح سمجھ کی توفیق عطافرمائے اور صحیح عمل کی راہ دکھائے (آمین)

------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/shab-e-baraat-light-faith-action/d/129265

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..