New Age Islam
Mon Mar 17 2025, 01:59 AM

Urdu Section ( 21 Dec 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

What is Right Hand Possession or Maa Malakat Ayimanukum in Quran? قرآن میں ما ملکت ایمانکم کا مفہوم؟ ایک ایسا غیر اخلاقی طرز عمل جو رسول اور مصلحین تبدیل کرنا چاہتے تھے

راشد سمناکے، نیو ایج اسلام

3 جولائی 2021

صحیفہ قرآن بالکل واضح طور پر انسانوں کو خود کو کسی دوسرے انسان، مرد یا عورت کا مولا قرار دینے سے منع کرتا ہے

اہم نکات:

ایک وقت میں ایک شریک حیات کے ساتھ ازدواجی رشتے کے اندر ہی جنسی تعلق محدود ہے، اور اس میں کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔

غلامی یعنی مرد اور عورت دونوں کا قید کیا جانا تاکہ وہ اپنے آقاؤں کی خدمت کریں، قدیم زمانے سے ہی ایک مروج عمل رہا ہے۔

"ما ملکت ایمانکم" کا معنی 'وہ جو تمہاری ملکیت میں ہے' ہے۔

غیر ازدواجی جنسی تعلق حرام ہے۔

 -----

جب کسی معاشرے کے مروج اور وحشیانہ طرز عمل کو اصلاح پسند چیلنج کرتے ہیں تو عالمی سطح پر اس کی مخالفت کی جاتی ہے کیونکہ اس معاشرے کا ایک بڑا طبقہ انہیں اپنی مراعات سمجھتا ہے جو ان کے آباؤ اجداد نے انہیں عطا کئے تھے کیونکہ وہ اس وقت رائج تھے۔ اس کی طرف بارہا قرآن مجید نے بھی اشارہ کیا ہے مثال کے طور پر آیت 7:28 وغیرہ کو ہی دیکھ لیں۔ نتیجۃ یہ ذہنیت ہر دور میں اصلاح پسندوں کے لئے درد سر رہی ہے جنہوں نے اپنے معاشرے کے اندر بہتری لانے کی کوششیں کیں۔

غلامی یعنی مرد اور عورت دونوں کا قید کیا جانا تاکہ وہ اپنے آقاؤں کی خدمت کریں، قدیم زمانے سے ہی ایک مروج عمل رہا ہے، اور غلام قدیم زمانے سے ہیں اور تھے، جنہیں محض 'ملکیت' سمجھا جاتا تھا۔

غلاموں کی خدمات میں یہ بھی ہے کہ مرد مالکان خواتین غلاموں کو بطور لونڈی اور جنسی اشیاء کے استعمال کرتے ہیں جو بغیر کسی اخلاقی دباؤ کے ان کا استعمال اپنی جنسی تسکین کے لیے کرتے ہیں۔ ماضی کے زیادہ تر مہذب معاشروں میں بھی ایسا ہی تھا۔

اس گھٹیا، غیر اخلاقی اور غیر انسانی عمل کو ختم کرنے کے لیے پوری انسانی تاریخ میں کوششیں کی گئی ہیں، یہاں تک کہ اس کے لئے عام مخلص مصلحین نے بھی کوششیں کی ہیں۔ اس کے باوجود غلامی ہمیشہ اپنے تمام تر قدیمی معنوں اور شکلوں میں واپس ہوتی رہی ہے۔

مسلمانوں میں عورتوں کی جنسی غلامی اور آزادانہ طور پر ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے ما ملکت ایمانکم کا استعمال کیا جاتا ہے – اور یہ ایک ایسا جملہ ہے جسے جواز کے طور پر اکثر قرآن کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے حق میں اور خلاف میں صدیوں سے بحث ہوتی رہی ہے، اور اب اس فورم پر بہترین مضامین اور دلکش تبصروں اور سوالات میں بھی یہ موضوع محل گفتگو بنا ہوا ہے۔

لیکن وہ پختہ اور قدیم ذہنیت "ما ملکت ایمانکم" کا معنی "تمہاری ذاتی ملکیت" متعین کرتی ہے اور انسانوں کے خود ساختہ الفاظ ترک کرنے سے نکار کرتی ہے جو کہ نام نہاد عقلمند مسلمانوں کا عقیدہ ہے۔ ; جیسا کہ دنیا کے بیشتر مذاہب میں ہوتا ہے۔

چونکہ زیادہ تر انسان دائیں ہاتھ کا استعمال کرتے ہیں، یہاں تک کہ کچھ ثقافتوں میں بائیں ہاتھ سے لکھنا یا کھانا غلط سمجھا جاتا ہے۔ لہذا، 'ایمانکم' یعنی دائیں ہاتھ کا جملہ فریقین کے درمیان تحریری، دستخط شدہ اور مہر بند معاہدے کو ظاہر کرتا ہے نہ کہ جائداد کے کاغذات کو!

جنسی تسکین کو عقد نکاح کا ایک لازمی اور "ضروری" حصہ سمجھا جاتا ہے اور اس کا مطالبہ کرنے کا حق مردوں کو حاصل ہے۔ یہ تصور اتنا مضبوط ہے کہ مسلمانوں کے درمیان متعدد ازدواجی تعلقات میں اس کا سہارا لیا جاتا ہے اور جنسی تسکین کے لیے چار بیویوں اور غلام اور قیدی عورتوں کے بھی بطور ملکیت رکھا جاتا ہے۔

تاہم، قرآن مجید کے متن اور سیاق و سباق میں، خواہ ازدواجی دائرہ میں ہو یا باہر؛ درست دماغی کیفیت کے ساتھ، شادی اور جنسیت کے پورے موضوع کا ایک مجموعی جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بہت سے دوسرے احکام کی طرح قرآن میں اس حوالہ کو اس کے قدیم اور عمومی مفہوم سے الگ کر کے پیش کیا گیا ہے، اور ان کے برعکس دولت مندوں پر یہ اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے کہ وہ مومنین دکھیاروں مثلا بیواؤں، جنگی قیدیوں اور غلاموں کی حفاظتی ذمہ داریاں ادا کریں۔ لیکن قرآن اسے عملی طور پر ممکن بنانے کے لیے ان کی تعداد زیادہ سے زیادہ صرف چار تک محدود کرتا ہے، بشمول پہلی شادی شدہ بیوی کے۔ لہٰذا 'چار' کا مطلب ہے چار بیویاں!

خواتین سے جنسی خدمت کا گٹھ جوڑ، جیسا کہ تعلیم یافتہ مردوں کا دعوٰی ہے، وہ موروثی ذہنیت ہے جو تاریخی طور پر مردانہ جنسیت اور بالادستی کے لیے قائم کی گئی ہے۔ اس کی ایک مثال قرآن کے اس کلام میں ہے، اَلرجَالُ قَوامُونَ علی النسَاء۔۔۔۔4:34، یعنی مرد عورتوں کے محافظ ہیں...اس کلام کو عورتوں پر مردوں کے حقوق کی بنیاد مانا جاتا ہے، جیسا کہ لفظ قوامون قائم سے مشتق ہے جس کا مطلب ہے ایک حاکم کے طور پر "مردوں کا خواتین پر غلبہ"۔ جبکہ اس کا مکمل سیاق و سباق بالکل برعکس نظریہ پیش کرتا ہے جس کے مطابق عورتوں کے مساوی تحفظ کے لیے مردوں پر اضافی ذمہ داری ڈالی گئی ہے تاکہ ان کی فطری، جسمانی، حیاتیاتی اور معاشی کمزوریوں کی تلافی کی جا سکے نہ کہ انہیں جنسی تسکین کے لیے اضافی مراعات حاصل ہیں۔

لہٰذا مردوں کا عورتوں سے جنسی تسکین حاصل کرنے کے لیے ما ملکت ایمانکم کا استعمال مردانہ طاقت کا استعمال ہے کیونکہ زیادہ تر مذاہب اور ثقافتوں میں مردوں اور عورتوں کا تعلق جنسی مفہوم کے بغیر تصور نہیں کیا جا سکتا۔

یہ غیر ازدواجی تعلق حرام ہے۔ اور قرآن نے اسے شادی کے ساتھ مشروط کر رکھا ہے اور وہ بھی کسی ایک کی نگرانی میں صرف ایک شریک حیات کے ساتھ چار کے انتخاب سے۔ ملکت ایمانکم چار بیویوں کے ساتھ کثیر ازدواجی شادی کا جواز نہیں ہے جس کی مذہبی طور پر جھوٹی تشہیر کی جاتی ہے اور عالمی سطح پر مسلمان جس پر عمل پیرا ہیں۔ ایک مزاح نگار نے حال ہی میں مزاحیہ انداز میں اس عمل پر "ایک ہاتھ کی چار انگلیاں اور ایک انگوٹھا" کہہ کر ایک موزوں جملہ تیار کیا ہے! یہاں انگوٹھا کا حوالہ قابل ذکر ہے!

نکاح اور ملکت ایمانکم یعنی دائیں ہاتھ کی ملکیت دو مختلف اور الگ چیزیں ہیں؛ ایک کا تعلق ازدواجی رشتہ سے ہے اور دوسرے کا ہنگامی حالات میں معاشرتی ذمہ داریوں سے، جو کہ مجموعی طور پر بنی نوع انسان کے لیے ایک مضبوط اخلاقی، حفاظتی اور معاشی بنیاد ہے۔

بدقسمتی سے نکاح/شادی کو قدیم زمانے سے ہمیشہ ہی ایک خصوصی معنی دیا جاتا رہا ہے، جس کا مطلب بنیادی طور پر جنسی تعلق کا حق اور مرد کی جنسی خواہشات کی تسکین ہے، اور بطور مرد اس کی جبلت کو مطمئن کرنے کے حق کے طور پر اس کا اہم کام پیدائش کا مقاصد بھی پورا کرنا ہے۔ جبکہ انسانی عقل کے لحاظ سے اسے باہمی فائدے کے لیے سوچ سمجھ کر انجام دیاجانا چاہیے۔

ایک مرد اور رہنما کی یک زوجیت اور حفاظتی ذمہ داری کا اظہار محمد رسول اللہ کی دو مختلف عورتوں سے عقد نکاح، سالوں کے فرق، اور صرف دو سے آپ کے بچوں کی پیدائش سے ہوتا ہے۔ بہت سی جوان اور عمر دراز "بیویوں" اور لونڈیوں کے باوجود، کیونکہ بہت سی عورتیں آپ کی "ملکیت" میں تھیں۔

غلامی کا مسئلہ جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے اس موضوع کے ساتھ متعلق ہے اور آج اس پر عمل کرنے کے لیے جو بھی جواز پیش کیا جاتا ہے وہ بہتان، غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہے، اسلاف کے قدیم معمولات سے قطع نظر۔

اس کے اندر جنس کی مزید تقسیم اسے انسانی 'استدلال' سے باہر لے جاتی ہے۔ خاص طور پر اس زمانے اور روشن خیالی کے دور میں۔

مزید یہ کہ صحیفہ قرآن بالکل واضح طور پر انسانوں کو خود کو کسی دوسرے انسان، مرد یا عورت کا مولا قرار دینے سے منع کرتا ہے۔ یہ خالق کائنات کا اختیار ہے 6:62، 10:30 وغیرہ۔

خلاصہ یہ کہ:

۱) ایک وقت میں صرف ایک شریک حیات ک ساتھ عقد نکاح میں جنسی تعلق محدود ہے، اور اس میں کوئی استثنیٰ نہیں... ۲) انسانوں کا دوسرے انسانوں کو بطوع غلام/جائیداد رکھنا منع ہے۔ اور) لہٰذا دو، تین یا چار سے مراد ازدواجی حقوق کے بغیر، مرد کے تحفظ میں تین اضافی خواتین کی زیادہ سے زیادہ حد ہے۔

 English Article: What is Right Hand Possession or Maa Malakat Ayimanukum in Quran? Wanton Practices That Apostles And Reformers Wanted Changed Were Considered Confronting Paradigms By Practitioners

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/sex-slaves-maa-malakat-ayimanukum-right-hand-possession-quran/d/126000

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..