مدثر احمد قاسمی
28 جنوری،2022
انسانوں کے درمیان ذہنی
اور دلی دوریاں اس دور کا بڑا المیہ ہے ۔بظاہر زمانہ ماضی کے بالمقابل زمانہ حال
میں جسمانی طور پر ایک دوسرے سے قریب ہونے کے بے شمار ذرائع او رمواقع ہیں جن کا
لوگ استعمال بھی کرتے ہیں ،اس کے باوجود سماج کا شیرازہ بکھرا نظر آتاہے اور
ضرورت پڑنے پر لوگ اکیلے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ایسا آخر کیوں ہوتا ہے؟ یہ ایک بڑا
سوال ہے ، جس کا جواب سماج کے مصلحین کو ضرور ڈھونڈ نا اوردینا چاہئے تاکہ سماج کی
بہتری کے لئے انجام پانے والے مشترکہ امور احسن طریقے سے پایہ تکمیل کو پہنچیں اور
ہر فرد بشر مستفید ہو۔
اس حوالے سے اصحاب علم و
دانش جب ذہنی اور دلی فاصلے کی وجوہات پر غور و فکر کرتے ہیں تو وہ اس نتیجے پر
پہنچتے ہیں کہ انسانوں میں خود پسندی اور خود غرضی کی انتہانے ہمیں موجودہ حالت تک
پہنچایا ہے۔ چنانچہ صورت حال یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ صرف اپنے کام کو ہی کام
سمجھتے ہیں اور وہی کام کرتے ہیں جن سے صرف ذاتی مفاد وابستہ ہو، ایسے میں دوسروں
کے کام اور مفاد کی اہمیت نظروں میں کیا ہوگی ،ایک عام آدمی کے لئے بھی اس کا
اندازہ لگاناکچھ مشکل نہیں ہے۔
جب ہم مذہبی ،سماجی اور
سیاسی زندگی میں بے ترتیبی کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ پاتے ہیں کہ ہر شعبے سے تعلق
رکھنے والے اکثر افراد اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ عقلمند اور صائب الرائے سمجھتے
ہیں اور اپنی سوچ اور بات کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں۔ جب اکثر لوگوں کی یہ حالت
ہوجائے تو پھر درمیانی خلیج کو پاٹنا ایک مشکل عمل بن جاتا ہے ۔حالانکہ ہمیں یہ
سمجھنا چاہئے کہ دین اسلام میں صرف عقل کا گھوڑا دوڑانے سے کام نہیں چلتا بلکہ
اپنی عقل کو اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے تابع کرنے اور
قرآنی ونبوی اصولوں کا پابند بنانے سے ہی کام چلتا ہے ۔ اس کے بعد بھی اگر ہم صرف
اپنی بات پر اصرار کریں اگرچہ وہ اسلامی اصولوں کے خلاف ہی ہو اور دوسروں کی باتوں کی تردید کریں
اگرچہ وہ اسلامی اصولوں کے موافق ہوں، تو یہ ہماری بہت بڑی غلطی اور کج فہمی ہے۔
اللہ رب العزت کا ارشاد
ہے :’’ اللہ تم کو خوب جانتے ہیں ، جب تم کو زمین سے پیدا کیا اور جب تم اپنی
ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے، اس لئے اپنی پاکیزگی نہ جتاؤ ، جو شخص تقویٰ اختیار
کرتاہے، اللہ ہی اس سے بخوبی واقف ہیں۔‘‘( النجم :32)اس آیت کریمہ میں جہاں یہ
پیغام ہے کہ اگر تم سے کچھ اچھے کام انجام پاجائیں تو اپنے آپ کو بہت متقی
،پرہیزگار او رپارسانہ سمجھنے لگو بلکہ اللہ رب العزت کا شکر ادا کرو ، وہیں بین
السطور یہ تنبیہ بھی ہے کہ ہمیشہ اپنی حقیقت کو یاد رکھو او رخود پسندی کے جال میں
اس طرح مت پھنسو کہ دوسروں کو کچھ سمجھو ہی نہیں کیونکہ تمہاری اور دوسروں کی اصل
حقیقت اللہ رب العزت کی نظروں سے اوجھل ہے نہ ہوسکتی ہے۔
خود پسندی کی طرح خود
غرضی بھی ایک زبردست بُرائی ہے جس کی وجہ سے لوگ دوسروں کی باتوں اور آراء سے بلا
وجہ اختلاف کرتے ہیں ۔موجودہ منظر نامے میں ا س کی ایک عام فہم مثال یہ ہے کہ اگر
کوئی کسی خاص سیاسی جماعت کا وفادار ہے اوراس کے پیچھے اجتماعی نہیں بلکہ ذاتی
مفاد کا فرما ہے تو وہ دوسری جماعتوں کے وفاداروں کو صرف غلط ہی نہیں سمجھتا بلکہ
ناشائستہ زبان بھی ان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اگر کوئی شرعی رکاوٹ
نہ ہو تو کسی خاص جماعت سے وابستہ ہونا عیب کی بات نہیں ہے لیکن بلاوجہ دوسروں کے
خلاف غلط زبان استعمال کرنا صرف اخلاقی جرم ہی نہیں بلکہ ازروئے شریعت بھی قابل
مواخذہ عمل ہے۔ آخر ہماری سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ اگر ہمیں کوئی لفظاً
خود غرضی کہتاہے تو ہمیں کس قدر بُرا لگتا ہے ، اس کے باوجود جب ہم عملاً خود غرض
بنے رہتے ہیں تو اپنے آپ کو کبھی نہیں کوستے!
ہمیں یہ جان لینا چاہئے
کہ اگر خود پسندی اور خود غرضی کے جال سے باہر نکلنا ہے اورذہن ودل میں ہم آہنگی
پیدا کرنا ہے تو روح اسلامی کو اپنے اندر جگانا ہوگا۔ چنانچہ جہاں خود پسندی کے
جال سے نکلنے کے لئے اپنے آپ کو متواضع بنا کر دوسروں کو بھی رائے اور عقل کو
قابل قبول او رقابل اعتنا گرداننا ہوگا وہیں خود غرضی کے پھندے کو کاٹنے کے لئے
دوسروں کے تئیں بے لوث بننے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ اس کے لئے ہمیں قرآن مجید کی ان
دو آیتوں پر ضرور غور کرنا چاہئے:
’’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے
چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ)لوگ (ناپسندیدہ ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے
(ہوئے الگ ہوجاتے) ہیں ‘‘۔( الفرقان: 63)
’’اور اگر چہ خود فاقے سے دو چار ہوں، اپنے اوپر ان کو ترجیح دیتے
ہیں‘‘۔( الحشر:9)
ان دو آیتوں کا لب لباب
یہ ہے کہ ہمیں عاجزی اختیار کرنی چاہئے اور دوسروں کے تئیں بے لوث ہوناچاہئے، یہی
اسلام کی تعلیم ہے اور یہی سماج میں ہم آہنگی پیداکرنے کی معتبر ذرائع ہیں۔ ظاہر
ہے کہ جو تواضع اور عاجزی اختیار کریگا وہ خود پسندی کے مرض میں مبتلا نہیں ہوگا
حتیٰ کہ ناپسندیدہ کلام او رمد مقابل کی بے تکی باتیں بھی انہیں پریشان نہیں کریں
گی۔ اسی طرح جو دوسروں کے تئیں بے لوث ہوگا وہ خود غرضی کی بیماری سے از خود بچ
جائے گا اور اس کے ذریعے خیر کے کام وجود میں آئیں گے۔
اللہ رب العزت ہمیں اپنی
اور قوم ملت کی بھلائی کے لئے خود پسندی اور خود غرضی کی بیماریوں سے نجات عطا
فرمائے او رہمارے دلوں کو جوڑ کر ہر فرد کو دوسرے کیلئے نافع بنائے !(آمین)
28 جنوری،2022 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism