ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
10نومبر،2023
جب ہم کسی لائحہ عمل کی
طرف بڑھتے ہیں تو بسا اوقات فطرت انسانی تنقیدوتنقیص کاسہارا لیکر آگے بڑھتی ہے۔
یہ روش و رجحان کوئی خاطر خواہ نتیجہ دے پائے ایسا دیکھا نہیں گیا ہے۔آئیے ماضی کے
تلخ اور خوشگوار تجربوں سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھنے کا عزم کریں۔ جس مفروضے کی بنیاد
پر میں آگے بڑھنا چاہتا ہوں وہ باہمی احترام اور خود احتسابی کا متقاضی ہے۔ غلطیاں
سب سے ہوئی ہیں، الزامات کی بجائے اجتماعی اعتراف سے آگے بڑھیں گے تو اصلاح اور
درستگی کو زمین ملے گی اور وہ انفرادیت پر مبنی اجتماعیت جس کے مسلمانان
ہنددہائیوں سے منتظر ہیں۔ اس کے ثمرات سب کو میسر آسکیں گے۔انشاء اللہ!
آگے بڑھنے کے لئے چند
گزارشات پر عمل ضروری ہے۔
(1) اپنی بات اور اپنا موقف پورے دلائل کے ساتھ رکھیں مگر دوسرے کے
دلائل کو ذاتی اناد عناد کی وجہ سے رد کرنے کے روایتی طریقے ومزاج کو ترک کرنا
ہوگا۔ قومی وملی مفاد مشترک ہوتے ہیں۔ ذاتی وجماعتی اہداف کو پس پشت ڈال کر ہی
راستہ ملے گا۔
(2)کوئی ہمارا دشمن نہیں او رنہ ہی ہم کسی کے دشمن! اختلاف رائے کی
بنیاد نظریہ یا ترجیحات ہوتی ہیں۔ اس صورتحال سے نبرد آزما ہونے میں منفی مزاج
اجتماعی منفعت کے لئے کھلے دریچے ودروازوں کو بند کردیتا ہے۔
(3)جو آپ کے موقف کے حامی و حلیف ہیں ان کی حمایت ومواقفت کو جہاں
مزید استحکام ودوام دینا لازم ہے وہیں مخالف رویوں میں اعتدال پیدا کیا جانا کم
ضرور ی نہیں! متعلقہ حواریوں کے ساتھ مفاہمت ومکالمہ برائے مفاہمت علمی، جمہوری
واخلاقی تقاضہ ہے۔
(4) غصہ کے مزاج،شعلہ بیانی،مخالف کو دشمن مان کر اسکی ذاتیات کو
نشانہ بنانا، فتوی سازی کر نا، دھمکی دینا، قد کو بونا کرنا،اپنے کو عقل کل سمجھ
لینا، دوسرے کو عقل سے پیدل سمجھ کر بدکلامی وبدزبانی کو بدتمیزی وبدتہذیبی کے
حدوحدود کو دانستہ پھلانگنا، اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اور آپ کا موقف مستحکم دلائل
سے محروم ہے۔ اس رجحان نے من حیث القوم ہم کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
(5) قومی قیادت،صدر جمہوریہ،وزیراعظم،گورنر،وزرائے اعلیٰ،وزراء یا
دیگر کسی قومی وملی وحدت کو مخاطب کرنے میں زبان کو بے لگامی سے پاک رکھنا اخلاقی
فریضہ ہے جس کا لحاظ ہر معیار کے مطابق ناگریز ہے۔
(6)میرا یہ پختہ مانناہے کہ وہ طبقہ جس نے اخلاق اور شاستگی کو
طلاق دے دی ہو اس کے اکسانے کو اس کی کمزوری سمجھاجائے نہ کہ اپنے لئے دھمکی! جو
اپنے آپ سے او راپنے موقف سے خود مطمئن نہیں ہوتا وہ اس حرکت بیجا کو اختیار
کرتاہے۔ اس پر رد عمل اسکی طاقت اورخاموشی اس کی شکست فاش کی ضامن و ضمانت! ذرا
عمل کرکے دیکھئے تو سہی!
(7)آئین کی زبان کتنی ہی مساوات او ربرابری کی بات کیوں نہ کرتی ہو
اقلیت کے حوالے سے اکثریت کے ساتھ اس کے رشتے،بھروسہ اور اعتماد جو کام کرجاتے ہیں
اورآئین کی شقیں نہیں کرپاتیں،آج ہم نے رشتے خراب کرلئے ہیں یا وہ ہوگئے ہیں،
اعتماد اٹھ چکا ہے اور نفرتیں عام ہیں، اعتراض،دعوے او رالزامات اپنی منطق او
ردلیل کھو بیٹھے ہیں۔
(8) اقلیت محض اپنے مثبت وتعمیری کردار سے اکثریت کے برابر یا اس
سے بھی آگے نکل سکتی ہے خلش، چپقلش،مخاصمت،دشمنی یا براہ راست ٹکراؤ سے اس کے ہاتھ
کہیں کچھ نہیں لگتا۔ احساس،جذبہ اور جذباتیت سب کے ساتھ ہے مگر باتیں کچھ بھی
کرلیں او رکروالیں چلتی اکثریت کی ہے، تمام دنیا میں ایسا ہی ہے۔
(9) اقلیت کو حکمت وحکمت عملی سے اپنی جگہ بنانی ہوتی ہے۔ اکثریت
کی لگام او ربے لگامی دونوں میں اقلیت کا سیدھا کردار ہے۔ یہ مفروضہ نہیں تجربہ
ہے۔ غلط فہمی خوش فہمی کانتیجہ ہوتی ہے او ریہ ایک ایسا گڑھا ہے جس میں آپ کا
گرناطے ہے۔
(10) ماضی میں بیجا جینا اور ضرورت سے زیادہ اس سے چمٹے رہنا مسائل
کو بڑھاتا ہے حل نہیں کرتا! اس جملے کی گہرائی کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
آپ سب دانا بینا ہیں کبھی کبھی بین السطور پڑھنا بہتر اور زیادہ سود مند ہوتاہے۔
اگر جمود حکمت عملی ہے،
ضد او رہٹ دھرمی شعار رہنا ہے اور مخالفت برائے مخاصمت کے راستے پر چلنا ہے تو بد
سے بدتر او ربدتر سے بدترین کو برملا پیشن گوئی نہیں بلکہ دیوار پر کچھ ایسا ہی
لکھا ہے پڑھنا نہ پڑھنا آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔ اس اعتراض سے خیر کی توقع کہیں
زیادہ ہے۔ میں متعدد بار یہ لکھ چکا ہوں کہ آج کی زمین،اس کے مزاج اوراس مزاج کے
رخ، سمت و ترجیحات کے حوالے سے اب دیوار پر جو لکھا ہے ابھی بھی وقت ہے پڑھ لیجئے۔
مکالمے،مفاہمت اور رواداری کا دریچہ اب بھی کھلا ہے۔دروازے بند ہوچکے ہیں آپ کی
عقل تماشہ نہ بن جائے مجھے اس کی فکر ہے۔
(1) اب ہندوستان او رانڈیا فارغ ہے۔ یہ بھارت ہے اور صرف بھارت جس
کامطلب ہے ’سناتن پر مپرا‘ میں رچا بسا اور اسکا جشن مناتا ہوا ایک ملک جس کے ہر
شہر ی کو ہند وماناجارہاہے۔ایک وہ جس نے سناتن کونہیں چھوڑا اور دوسرا وہ جس نے
اپناطریقہ عبادت بدل لیا۔
(2) وہ تمام حکمران جو اس وطن عزیز پر قابض ہوئے ان کی حیثیت اب
صرف حملہ آوروں کی ہے۔ ان کے اچھے برے کام اس اصطلاح کے تابع ہیں اور ان سے کسی
بھی طرح کا اظہار یکجہتی،دعویٰ یا الحاق غداری کے زمرے میں شامل ہے۔
(3) احیائے سناتن او راس کی بالادستی آج کے بھارت کاپہلا اور آخری
فخر ہے آپ کو اچھا لگے یا برا حقیقت ایسی ہی ہے،مجھے کوئی ابہام نہیں۔
(4) ہر وہ چیز جو مندرجہ بالاترجیحات سے ٹکرائے گی اس کو پیچھے
ہٹنا ہوگا اور اس کے ساتھ ہی جینے کوجینا تسلیم کرناہوگا!
(5)باتیں تلخ ہیں مگر حقائق ایسے ہی ہیں اور یہ بدلنے والے نہیں
ہیں۔ جوکل تک اس کے خلاف تھے اور اب لیپا پوتی کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔مخالف ان
نظریات کا عملاً کوئی اب رہا نہیں! کچھ برملا موافق تو کچھ باطن میں قائل۔قبول سب
کرچکے۔ ایک دو الیکشن او رکچھ چکنی چپڑی باتیں ادھر ادھر کرتے دکھائی دینگے اور اس
سے اگلے مرحلے میں کون کہا ں ہوگا یہ سمجھنا اب مشکل نہیں۔
(6)کانگریس کو چھوڑ کر سب کبھی نہ کبھی سنگھ او ربی جے پی سے ہاتھ
ملا چکے ہیں۔حتیٰ کہ آپ کا ووٹ لے کر بھی ایسا کرچکے ہیں آپ کس بدگمانی میں جی رہے
ہیں۔ کم از کم میری عقل تو سمجھنے سے قاصر ہے۔
مندرجہ بالانکات کا حوالہ
تنبیہات کی شکل میں بھی ہے اوربروقت آگاہی کی صورت میں بھی! کسی کو تو یہ کام
کرنالازم تھا۔ میں کررہا ہوں اورفرض کفایہ سمجھ کر کررہا ہوں۔ عمر کی سات دہائیاں
پوری ہوچکیں اب اپنا کچھ سامنے نہیں۔ آئندہ کی نسل اور اس کے محفوظ مستقبل کے
علاوہ کچھ درکار بھی نہیں! یہ سب ریکارڈ
پہ لانے کا بنیادی مقصد عوام وخواص میں موجود فکری ہیجان کو دور کرنا ہے،ان کی فکر
ی سمت کی درستگی پیش نظر ہے۔ ہوش وحواس کو حقیقت کی زمین دکھا کر آئندہ تمام ہی وہ
حساس مسائل جو کہیں نہ کہیں مسلمانان ہندو اور دائیں بازو کی ہندو ذہنیت رکھنے
والی واضح اکثریت کی نفسیات میں گھر کر گئے ہیں۔ ان کو ایک ایسا درمیانی راستہ
دینا ہے جس میں ایک طرف عقیدے اورعاقبت پر کوئی آنچ نہ آئے تو دوسری طرف مفاہمت
اور رواداری کو وہ زمین مل جائے جو کہیں فی الوقت گم ہے۔ ایک نکتہ یہاں اور واضح
کرتا چلوں کہ میرے پیش نظر سیاست، انتخابات، کسی کی جیت یا کسی کی ہار،ذاتی سیاسی
اہداف یا کسی سیاسی عہدے کا حصول نہیں ہے۔جو لوگ مجھ سے واقف ہیں وہ اس حقیقت سے
بخوبی واقف ہیں۔ یہ سب تو کب کا او رکب سے بہت آسان ہے۔ میرے سامنے جو بنیادی سوال ہے وہ یہ
ہے ہی نہیں۔ مسلمانان ہند کے حوالے سے اکثریت کی اکثریت میں جوبدگمانیاں نفرت کی
انتہائی کیفیات میں تبدیل ہوچکی ہیں اس ربڑ کو ہم کتنا اور کہاں تک کھنچنا چاہتے
ہیں۔ جمہوریت میں اختلاف اور مخالفت کا ہر حربہ آپ آزما چکے، پسپائی کی انتہائی
کیفیت کو آپ پہنچ چکے، بڑے بڑے کہاں کہاں طبع آزمائی کررہے ہیں مجھ سے کچھ پوشیدہ
نہیں۔
کمرے کے اندر ہر حد پار
ہوتی ہوئی اورنجی مجلسوں وعوامی حلقوں میں لیگی مزاج کی گفتگو یہ منافقت آخر کب
تک! جو جتنا بڑھ کر اوراونچا بول رہا ہے اس کی تہ اور تحقیق میں جائیں گے تو حقیقت
جان کر سر پیٹنے کے علاوہ کچھ سوجھے گا نہیں۔ میرا تو جس سے تعلق رہا برملا رہا
اور آج بھی ایسا ہی ہے دل، دماغ، نفس اور ظرف سے سنگھ پریوار اورمسلمانان ہند کے
مابین مکالمے، مفاہمت اور رواداری کے رشتے قائم ہوں، میں اس کا کھلا حامی و حمایتی
ہوں، نظریاتی اور عقیدہ کے اختلافات اپنی جگہ! بنا ایک دوسرے کو براہ راست او
رکھلے ذہن سے پرھے اور سمجھے راستے نکلتے نہیں۔ سیاست یہ کام کرنہیں ں سکتی۔ بچتی
ہے معاشرت یہ چیلنج وہاں ہے!
10 نومبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism