New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 12:35 PM

Urdu Section ( 28 Sept 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Golden rays from Prophet Mohammad's Biography گوشہ سیرت ﷺ کے سنہریں شعاعیں

بلال احمد پرے، نیو ایج اسلام

28 ستمبر،2023

ماہِ ربیع الاول کا چاند نظر آتے ہی دنیا بھر کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ پڑتی ہیں ۔ اس مقدس ماہ کو آمد مصطفٰی ﷺ سے نسبت حاصل ہیں ۔ سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو اُجاگر کر کے بے چین دلوں کو قرار، آنکھوں کو ٹھنڈک اور بے اضطرار جسم کو سکون پہنچایا جاتا ہے - غرض اس طرح اپنے محبوب نبی حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی سے غیر معمولی محبت کی عکاسی کی جاتی ہے ۔

حقیقت یہی ہے کہ آپ ﷺ کی مبارک زندگی کا کوئی بھی پہلو پوشیدہ نہیں ہے - آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ میں زندگی کے تمام پہلوؤں کی رہ نمائی حاصل ہوتی ہے چہ جائیکہ یہ دینی، اخلاقی، روحانی، سماجی، سیاسی، معاشی یا تعلیمی ہو - یہاں تک کہ آئے روز جدید سائنس کی تحقیقات سے بھی خاتم النبیین ﷺ کے قول و فعل اور سنہری شعائیں کی تصدیق ہوتی رہتی ہے ۔

اِس لئے اس ماہ تمام مسلمان نہایت ہی عقیدت، احترام اور محبت سے "عید میلاد النبی" مناتے ہیں ۔ عیدِ میلاد کا لفظی مطلب یہ ہے کہ عظیم الشان، عظیم المرتبت، رہبرِ اِنسانیت، کمالِ سیرت، بے مثالِ صورت، سراپائے رحمت، جمالِ عظمت، خلقِ عظیم، نورِ چشم، درفشان زبان سرچشمہ آیات و مخزن معجزات، اعجازِ فصاحت و بلاغت، لعابِ دہن شفاء العین، کامل نبی رحمت حضرت محمد مصطفٰی ﷺ، احمد مجتبٰی، ھادی عالم، شمعِ رسالت، مُحسنِ انسانیت، خاتم النبيين، امام الانبیاء، سرورکونین، تاجدار حرم ﷺ کی ولادت باسعادت پہ خوشیاں منائیں جائے ۔

 چونکہ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی کیلنڈر کے مطابق تیسرے مہینے (ربیع الاول) کو پیر کے روز 570 عیسوی شہرِ مکہ، عرب میں پیدا ہوئے ہیں ۔ تاہم مختلف اسلامی مورخین نے اپنی اپنی سیرت کی کتابوں میں آپ ﷺ کی مختلف تاریخ پیدائش کا حوالہ دیا ہے ۔ جب کہ جمہوری علماء ۱۲ ربیع الاول (حیات طیبہ ص/۲۳، حیات رسول امیﷺ) کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح تاریخ پیدائش مانتے ہیں ۔

عرب کی اسلامی تاریخ میں، وہ سال جس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی اسے "عام الفیل" (The year of the Elephant) کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ مشہور ظالم حبشی بادشاہ ابرہہ نے اسی سال کعبہ پہ حملہ کرنے کے غرض سے داخل ہوا تھا، جس کے لئے اللہ پاک نے ابابیلیں بیجھیں اور اس سے اپنے اس ناپاک ارادے میں ناکام و نامراد کیا ۔

حضرت نبی اکرم ﷺ کے والد گرامی عبداللہ کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا، ان کا شجرہ نسب حضرت اسماعیل بن ابراہیم علیہ السلام سے جا ملتا ہے ۔ کیونکہ نبی پاک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دُعا کا ثمرہ ہیں ۔ اور آپﷺ کی والدہ آمنہ زہرہ خاندان کے وہب بن عبد مناف کی بیٹی تھیں ۔

پیغمبر اسلام کے والد ان کی ولادت سے پہلے اور والدہ کا انتقال پانچ سال کی عمر میں ہونے کے بعد ہوا ۔ اور سیدہ حلیمہ چھ سال تک ان کی پرورش اور نگرانی کرتی رہی ۔ آپ ﷺ کا آپ کے دادا جان عبدالمطلب سب سے زیادہ خیال رکھا کرتے تھے ۔ لیکن ان کی وفات کے فوراً بعد یہ زمہ داری دُرِیتیم ﷺ کے چچا جان ابو طالب نے سنبھالی تھی ۔

قارئین کرام! ہمیں یہاں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے سماج میں جب کوئی بچہ ماں یا باپ کے سایہ سے محروم ہو جاتا ہے یا بعض اوقات دونوں ہی والدین اس سے جُدائی کا داغ مفارت دے کر چلے جاتے ہیں ۔ تو کیا ہمارے یہاں بھی دادا یا چچا جان یا دیگر اقارب اس کی پرورش و سرپرستی کے لئے اسی طرح کھڑا ہو جاتے ہیں ؟ وہ شفقت و محبت کہاں جو جاہلانہ عرب میں اس وقت ملتی تھی جب نورِ ہدایت کو نبوت کے تاج سے ابھی سرفراز نہیں فرمایا گیا تھا۔

کاش ہمارے یہاں ایسا ہوتا تو شاید ہمارے یہاں اتنی بڑی تعداد میں یتیم خانے نہیں ہوتے ۔ ہمارے یہاں اکثر و بیشتر یہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ اس یتیم بچے کو جلد از جلد کسی یتیم خانے میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس کی ساری جائیداد کو ہڑپ کرکے غیر قانونی اور غیر شرعی طور پر قبضہ جمایا جاتا ہے ۔ ہم ایسے بچوں کے ساتھ حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائیوں کی طرح ظالمانہ سلوک کے روادار ہیں ۔ جس سے سیرت کے اس ابتدائی گوشے کے آئینے میں بدلنے کی سخت ضرورت ہیں ۔

ابو طالب ایک بار اپنے بھتیجے حضرت نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ شام کے تجارتی سفر پر نکل پڑے تھے تو ایک عیسائی راہب بہیرہ سے ان کی ملاقات بصرہ کے شہر میں رونما ہوئی ۔ اُس راہب نے حضرت محمدﷺ کی مبارک زندگی کو بچپن میں ہی نبوت کے بارے میں پیشین گوئیاں کی اور کہا کہ اس لڑکے کے ساتھ واپس جاؤ اور اسے یہودیوں کی نفرت سے بچاؤ ۔ آگے اس پر ایک عظیم ذمہ داری (یعنی نبوت) عائد ہونے والی ہے ۔" (الرحیق المختوم ص/100)

صحرائے عرب میں آپﷺ کو اپنے منصفانہ کردار سے مکہ کے پورے شہر میں لوگوں کی پذیرائی حاصل ہوئی اور *'الامین'* کا خطاب ملا ۔ آپﷺ کی سچائی ہر کونے میں پھیل گئی، ہر طرف اس کے چرچے ہونے لگی اور مشہور و معروف ہوگئے ۔ اس طرح آپ ﷺ کو بے انتہا عزت و اکرام حاصل ہوا ۔

آپ ﷺ نے اپنے آپ کو امیر قریشی بیوہ خدیجہ کے تجارتی کاروبار میں ایک شریف، دیانتدار، وفادار، بھروسہ مند، پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے بھرے اوصاف حمیدہ کا مظاہرہ کیا ۔ اس کے بعد حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپﷺ سے اپنی شادی کی پیشکش بیجھ دی ۔ اس وقت آپ ﷺ صرف ۲۵ سال کے تھے اور خدیجہ ۴۰ سال کی بیوہ تھی ۔ جس کی دو شادیاں ہو چکی تھی ۔

سیرت کے اس پہلو میں بھی یہاں ہمیں جھانک کر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ کہ اگر کوئی کنوارا لڑکا کسی بیوہ سے نکاح کرتا ہے تو کیا اس سے سماج میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ یا اس سے سماج اس طرح کی شادی کرنے کی اجازت دے دیتا ہے ۔ نہیں صرف Rare of the Rarest cases میں جہاں لڑکے کو دینی علم و فہم، شرعیت کا پاس و لحاظ اور سماج کو سمجھانے کا سلیقہ موجود ہو ۔ نہیں تو یہ سنت بھی ہم سے بہ آسانی چھوٹ جاتی ہے ۔

بالآخر ابو طالب محمد مصطفٰی ﷺ اور خدیجہ ؓ کا خطبہ نکاح پڑھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت 500 درہم بطور مہر ادا کیے (حیات طیبہ؛ صفحہ 29) جو ابو طالب نے بحثیت سرپرست موقع پر ہی ہی نکاح کی مجلس میں کیش (cash) کی صورت میں ادا کر دئے تھے ۔

 حضرت خدیجہ کے ہاں محمد مصطفٰی ﷺ کے تین بیٹے (قاسم، عبداللہ اور ابراہیم) پیدا ہوئے، جو سب بچپن کے ابتدائی ایام میں ہی اللہ پاک کو پیارے ہو گئے اور چار بیٹیاں (زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ) ہوئی ۔ جن سے نسل نبیﷺ آگے چلتا گیا ۔ اور ان سب کی نسل کٹتی گئی جو آپ ﷺ کو بیٹوں کی وفات ہونے پر خوشیاں مناتے اور طعنے دیں دیتے تھے ۔

آپﷺ نے ہمیشہ ضرورت مندوں، غریبوں، یتیموں، بیواؤں کی مدد کی اور انسانیت کے لئے احسان کی ایک عظیم مثال قائم کی۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے تین میل دور غارِ حرا میں اللہ تعالٰی کا قرب حاصل کرنے جاتے تھے ۔

جب چالیسویں (40) سال کے قریب پہنچ گئے، اور حسبِ معمول اللہ تعالٰی کی عبادت کر رہے تھے، تو اللہ کا ایک عظیم فرشتہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آسمان سے وحی لائی ، جو اللہ کی طرف سے نازل کردہ تھی ۔ فرشتے نے آپ ﷺ کو زور سے پکڑا اور کہا:

*" اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّـذِىْ خَلَقَ ۔"*

پڑھو! اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔

آپ ﷺ نے فرمایا میں تو اُمی (پڑھا ہوا نہیں) ہوں ۔ اس طرح یہ مکالمہ تین مرتبہ ہوا اور پھر اللہ تعالٰی کا ارشاد ہوا کہ

*" اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّـذِىْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْـرَمُ ۔ اَلَّذِىْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ۔"* (العلق؛ ۱ تا ۵)

ترجمہ ۔ "پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، تو پڑھتا رہ اور تیرا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم (لکھنا) سے علم سکھایا اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا ۔ (العلق ؛ ۱ تا ۵)

حضرت محمد مصطفٰی ﷺ نے لرزتے دل کے ساتھ الفاظ دہرائے ۔ یہ قرآن کریم کی پہلی وحی الٰہی تھی جس نے غارِ حرا میں محمد مصطفٰی ﷺ کو اللہ کا آخری نبی *"خاتم النبيين"* کے تاج سے سرفراز فرمایا اور جہاں کو نورِ ہدایت نصیب ہوئی ۔ یہ امت مسلمہ کو اللہ کی طرف سے وہ مرہون منت تھی جس کی ذکر قرآن نے آگے کیں اور حضرت نبی اکرم ﷺ کی بعثت کا مقصد بھی بیان فرمایا ۔

حضرت نبی اکرم ﷺ جب غارِ حرا سے خدیجہ کے پاس گھر واپس لوٹ آئے تو سردی سے کانپنے کی طرح جسم اطہر کو محسوس ہوتا گیا ۔ اور اپنی نیک سیرت شریک حیات کو فرمایا "مجھے کمبل لپیٹ دو! مجھے کمبل لپیٹ دو!" ۔ (محمدﷺ ، ص/45 از مارٹن لنگس @ ابوبکر سراج الدین)

حضرت خدیجہ ؓ نے آپﷺ کو کپڑے میں لپیٹ لیا یہاں تک کہ خوف زدگی کی وجہ سے کانپنے کی وہ کیفیت دور ہو گئی اور جو کچھ آپ ﷺ نے وہاں دیکھا، وہ سب بیان کر دیا ۔ اس واقع کو سماعت کے بعد حضرت خدیجہؓ نے حضور اکرم ﷺ کے چند نیک اعمال کی تعریف کر کے دلاسہ دے دیا اور ان کا شمار اس طرح کرنے لگی؛

 "اللہ تعالٰی آپ کو کبھی رسوا نہ کرے گا! وہ یقیناً ایسا نہیں ہونے دے گا، کیونکہ آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں، امانتیں ادا کرتے ہیں، بے سہارا لوگوں کا بار برداشت کرتے ہیں، ناداروں کو کما کر دیتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، نیک کاموں میں مدد کرتے ہیں اور اپنے ہم وطنوں کی مدد کرتے ہیں، تجارت میں جو کچھ حاصل کرتے ہیں، وہ اچھے کاموں میں خرچ کرتے ہیں ۔" (الرحيق المختوم ص/114)

سبحان اللہ! اُمتِ مسلمہ کی روحانی والدہ، پہلی مسلم خاتون، نبی اکرم ﷺ کی پہلی زوجہ مطہرہ یعنی حضرت خدیجہ ؓ کس قدر مخلصانہ محبت و شفقت اور ہمدردی و شریک غم بن کر آپﷺ کو دلاسہ دے رہی ہے ۔ اور ساتھ ہی زبان مبارک پر نبی آخرالزمان ﷺ کے انمول اوصاف جو قبل از بعثت نبوت آپﷺ کے اندر موجود تھیں کو ایک ایک کر کے گِنوا رہی ہے ۔

بقول شاعر ؂

*خوش خصال و خوش خیال و خوش خبر، خیرالبشرﷺ*

*خوش نژاد و خوش نہاد و خوش نظر، خیرالبشرﷺ*

 *صاحبِ خلقِ عظیم و صاحبِ لطفِ عمیم*

*صاحبِ حق، صاحبِ شق القمر، خیرالبشرﷺ*

قارئین کرام! دیکھئے نبوت سے قبل بھی حضرت خدیجہ ؓکس قدر آپﷺ کے نیک کام گنوا رہی ہیں ۔ نبوت ملنے کے بعد بھی اسلام اسی طرح کی تعلیمات دینے کا قائل رہا ہے ۔ اور یہی اوصاف انسانیت کی سب سے بڑی فلاسفی کی بنیاد بھی ہے ۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہمیں بھی اپنے اندر اس طرح کے اوصاف پیدا کرنے چاہیے تاکہ ہم بھی نبی اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ کے اس سنہرے گوشہ کی طرح سماج کے خیر خواہ، مددگار اور امن و بھائی چارگی کے سفیر بنے رہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سیرت کو منانے کے بجائے اپنانے اور عملانے کی ضرورت ہے ۔

اس کے بعد حضرت خدیجہ ؓ اپنے محبوب شوہر حضور اکرم ﷺ کی اس حالت گھبراہٹ کے لئے فوراً اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل، جو بوڑھے، نابینا، عربی، عبرانی اور انجیل جاننے والے تھے کے پاس اپنی دوڑ لے جاتی ہے اور انہیں یہ سب رونما ہونے والا واقع بتا دیں دیتی ہے ۔ وہاں ورقہ اس سب کا تذکرہ سنتے ہی حیران ہو جاتا ہے اور اس سے ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ دیکھنے والا اس کی آنکھوں کو بہ آسانی پڑھ لیتا کہ وہ اس نورِ ہدایت کی سچائی کی تصدیق کرتے ہیں ، زبان اس کی گواہی دے رہی ہے اور اب بس تصدیق بالقلب باقی ہے ۔

بالآخر وہ بھی تو مخلص تھا اور اپنے مذہب کا صحیح پیروکار تھا جس نے بلا لالچ، بلا حسد، بلا دشمنی اور بلا جھجک آپ ﷺ کے متعلق ایسی پیشن گوئی کیں کہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ کی خوشیوں کی انتہا نہ رہی ۔ (الرحيق المختوم ص/115)

ورقہ نے انہیں صاف صاف انداز میں بتایا کہ بے شک یہ وہی روح القدس وحی لانے والا فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ کے پاس بھی آیا تھا ۔ اس طرح ورقہ نے بھی اپنے علم کی بنیاد پر ایک ایسی پیشن گوئی کی کہ " وہ اپنی امت کے نبی ہوں گے، قبل از وقت بتائی ۔

اس طرح کی خوشخبری سنتے ہی نبی کریم ﷺ فوراً کعبۃ اللہ میں تشریف لے جا کر وہاں طواف کر لیتے ہے ۔ اس کے بعد وہاں ہی قریب ورقہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ یہاں ورقہ اپنے دل کی پیاس بجھانے کے لئے پھر سے آپ ﷺ کو وہ واقع دہرانے کی درخواست کرتے ہیں ۔ ورقہ اطمینان سے سننے کے بعد نبی اکرم ﷺ کو براہ راست مخاطب ہو کر یہ بھی بتاتے ہیں کہ قوم آپﷺ کی دشمن بن کر آپ کو اپنے وطن سے بے دخل کر دیں گی، وہ آپ ﷺ کے مخالف کھڑی ہوں گی ۔ (محمدﷺ ۔ دی پروفٹ آف آور ٹائم، ص/48 از کیرن آرمسٹرانگ)

اس کے فورً بعد ورقہ نے خود یہ تمنا کی کہ کاش وہ اس وقت تک زندہ رہتا تو وہ آپﷺ کی نصرت کے لئے ضرور کھڑا ہوں گے ۔ ورقہ نے آپ ﷺ کو گلے لگایا، آپ کی پیشانی مبارک کو چوما ۔" (محمدﷺ ، ص/45 از مارٹن لنگس @ ابوبکر سراج الدین)

جب ہم سیرت کے اس ابتدائی گوشہ میں یہاں جھانک کر دیکھتے ہیں کہ کس طرح ایک عیسائی راہب نے سرورکونین ﷺ کو نبی ہونے کی پیش گوئی کیں، اس پر بے حد خوش ہوئے اور خود اس سے نصرت کرنے کی تمنا بھی کیں ۔ لیکن وہ پھر زیادہ دیر تک زندہ نہ رہ سکے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

اس کے باوجود ہم شمع رسالت، محسنِ انسانیت، امام الانبیاء ﷺ کے اُمتی ہونے کے باوجود بھی اپنے پیارے نبیﷺ کی مبارک سنتوں پہ کس قدر عمل کرتے ہیں، اس سے اللہ سبحانہ و تعالٰی بخوبی جانتا ہے ۔ ہم نے آج غیروں کی طرف دیکھ کر اپنا لباس، اپنی چال و ڈھال، اپنا رہن و سہن، اپنا کلچر بدل دیا ہیں ۔ اور ہمیں اس بات کا زرا بھی احساس نہیں کہ ہم اپنے پیارے حبیب ﷺ کے کس طرح کی نصرت کرتے ہیں ۔

چونکہ ہر نبی کو ان کی اپنی قوم کی طرف ان کی رہ نمائی کے لیے بھیجا گیا، لیکن نبی اکرمﷺ کا پیغام عام طور پر تمام انسانوں اور جنوں کے لیے تھا جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے اپنے رسول کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ

*" قُلْ يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنِّـىْ رَسُوْلُ اللّـٰهِ اِلَيْكُمْ جَـمِيْعَا ِۨ۔۔۔"* (الاعراف؛ 158)

ترجمہ ۔ "(اے محمد ﷺ ) کہو کہ اے انسانو! بے شک میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں ۔" (الاعراف؛ 158)

پہلی وحی نازل ہونے کے ایک طویل عرصے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اب ایک کُھلا حُکم ملا ہے کہ پوری انسانیت کو اندھیری ڈِگر سے روشنی کی طرف لیں آئے اور عوامی طور پر ان کی اصلاح کی جائے ۔ انہیں اب اس برائی میں زیادہ دیر تک لت پت ہونے نہ دیں دیا جائے ۔

اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ اے میرے محبوب پیغمبر ﷺ ! اب اٹھو، تمہیں امت کو جگانے کا کام تفویض ہو چکا ہے ۔ اب آپﷺ کو داعی عظم بن کر بشیر (بشارت دینے والا) و نذیر (ڈرانے والا) بن کر امت کو ایک اللہ کی طرف بلانے کا داعیانہ کردار ادا کرنا ہے ۔

ارشاد باری تعالٰی ہے کہ

*" يَآ اَيُّـهَا الْمُدَّثِّرُ ۔ قُمْ فَاَنْذِرْ ۔ وَرَبَّكَ فَكَـبِّـرْ ۔ ...."* ( المدثر؛ ۱ تا ۳)

ترجمہ ۔ "اے (محمدﷺ) کپڑا اوڑھنے والے، اٹھو اور خبر دار کرو۔ اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو ۔۔۔۔" (المدثر؛ ۱ تا ۳)

یہاں محبوب پیغمبر اسلام ﷺ کو یا ایھا الرسول یا یا ایھا النبی کے بجائے براہ راست "یا ایھا المدثر ﷺ!" کے مقدس اور عظمت والے الفاظ سے مخاطب فرمایا گیا ہے کہ آپ ﷺ کمبل اوڑھے لپیٹ کر کہاں لیٹ گئے ۔ آپ ﷺ پر تو ایک کارِ عظیم، خیر دین کا بوجھ ڈالا گیا ہے جس سے انجام دینے کے لئے آپ ﷺ کو پورے عزم و استقامت کے ساتھ کھڑا ہونا ہیں ۔ (حیات رسول امی ﷺ ص/108)

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچانک جبرائیل فرشتہ کو آسمان و زمین کے درمیان ایک تخت پر بیٹھے ہوئے دیکھا تو گھبرا گئے تھے اور جلدی جلدی گھر لوٹ آئے تھے اور گھر والوں سے کہا کہ وہ اسے ڈھانپ لیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی ﷺ سے فرمایا کہ اب گھبرانے اور لیٹے رہنے سے کام بننے والا نہیں ۔ کیونکہ اب تو آپ ﷺ کو نبی آخرالزمان خاتم الرسل کے تاج سے سرفراز فرمایا گیا ہے ۔ جو حضرت ابراہیمؑ کی دعا تھی، جو حضرت عیسٰیؑ کا اعلان تھا اور جو حضرت آمنہ کا خواب تھا، وہ اب حقیقت میں پورا ہو چکا ہے ۔

اُس کے ساتھ ہی *" يَآ اَيُّـهَا الْمُدَّثِّرُ "* کا حکم نازل فرمایا گیا ہے ۔

یہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عظیم مشن کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے جس کے لئے سابقہ الانبیاء بھی تمنا کرتے رہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مشن کو عزم اور حوصلے کے ساتھ انجام دینے کے لیے اپنی تنہائی سے اٹھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ تاکہ اپنے اردگرد غفلت میں پڑے رہنے والے لوگوں کو کھڑے ہونے اور بیدار کرنے کے لئے دعوت دین دی جائے ۔

انہیں دین اسلام سے خبردار کر دیا جائے اور عذاب الٰہی سے ڈرایا جائے جو یقیناً ان پر آجائے گا اگر وہ اسی غفلت میں پڑے رہیں گے ۔

 یہ انسانیت کو متنبہ کرنے کے لیے ایک کُھلا حکم تھا کہ وہ کسی لاقانونیت کی بادشاہی میں نہیں رہ رہے ہیں جہاں وہ اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کے لیے آزاد ہیں بلکہ وحدۂ لاشریک کی عبدیت تسلیم کر کے اپنے اوپر شریعت اسلام کی پاسداری نافذ کریں ۔ اور اب ایسا نہیں ہے کہ ہم جہاں جہاں چاہیں، جو جو چاہیں کر سکتے ہیں ۔ اب تو اس سب کا اللہ کے سامنے جواب دہی ہوگی اور اس سب کا حساب لیا جائے گا ۔

یہ کارِ عظیم اب دراصل خیر الانام سرورکونین ختم الرسل ﷺ کے تمام امتیوں کو کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ اور اس کے لئے ہمیں تمام برائیوں اور ناپسندیدہ کاموں کو چھوڑ کر، اپنی من چاہی زندگی کو خیر باد کر کے رب چاہا زندگی کو اپنا کر ایک اللہ سبحانہ و تعالٰی کے دین کے داعی اور سپاہی بن کر حضرت نبی اکرم ﷺ کے لائے، بتائے اور سکھائے ہوئے دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت میں آپ ﷺ کی نصرت کرنے کے لئے کوشاں رہنا ہے ۔

پیغمبر اسلام، ہادی عالم ﷺ انسانیت کے لئے ایمان، اخلاقیات، امید کا پیغام لے کر آئے ۔ آپ ﷺ کا پیغام صرف جزیرۃ العرب کے لئے نہیں بلکہ عالمگیر سطح کا ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کرو، نماز قائم کرو، امن و بھائی چارگی پھیلاؤ، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، والدین سے حُسنِ سلوک کرو، عورتوں، بچوں، بزرگوں، یتیموں، بیواؤں، غریبوں، محتاجوں، مسکینوں، غلاموں کو ان کے حقوق ادا کرو، سچائی کی راہ لو، چھوٹوں پہ شفقت اور بڑوں کی عزت کرو، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو، عدل و انصاف کرو، سچ بولو، فرمانبرداری کرو، صبر سے کام لو ۔ یہ سب سبق سکھاتی ہے کہ سیرت کو منانے کے بجائے اپنانے اور عملانے کی ضرورت ہے ۔

چونکہ اس سب کا ثمرہ ہے کہ ہمیں رب الزوجلال کی قربت اور نبی اکرم ﷺ کی معرفت نصیب ہو جائے ۔ اور اس کے لئے صحیح معیار اور صحیح راہ یہی ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے بے پناہ محبت کر کے اللہ سبحانہ و تعالٰی کی محبت حاصل کیں جائے ۔

قرآن پاک میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ہے کہ

*" قُلۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوۡنِىۡ يُحۡبِبۡكُمُ اللّٰهُ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡؕ​ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ."* (آل عمران؛ ۳۱)

ترجمہ ۔ ’’ اے حبیب ﷺ، لوگوں سے) کہہ دو اگر تم واقعی اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو (قرآن و سنت پر عمل کرو) تب اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا۔‘‘ (آل عمران ؛ 31)

یہاں صاف اور واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ کی محبت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی سے حاصل ہوتی ہے ۔ بقول شاعر ؂

*یا صاحب جمال و یا سیّد البشر*

*من وجھک المُنیر لقد نوّر القمر*

*لا یُمکن الثناءُ کما کان حقّہ*

*بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر*

یہ مقدس آیت ان لوگوں کے خلاف فیصلہ کرتی ہے جو اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے پر عمل پیرا نہیں ہوتے ۔ اور اس طرح انہوں کے دعوے صرف چند مخصوص ایام یا صرف ۱۲ ربیع الاول کے لئے ہوتا ہے ۔ کہ جلسہ و جلوس سے دل کو مطمئن کیا اور پھر پورے سال بھر کے لئے سو گئے ۔

ایسے لوگ اپنے دعوے میں اس وقت تک سچے نہیں ہیں جب تک کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اور ان کے دین کی پیروی اپنے تمام اقوال، افعال، اعمال اور حالات میں ثابت نہ کریں ۔

یہ سب کچھ اس کے حقیقی معنوں میں صرف اور صرف حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم کے مطابق ہونا چاہئے ۔

حالانکہ حدیث کی کتابوں میں یہ بھی درج ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*"مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَد۔"* (ریاض الصالحین؛ کتاب المقدمات، 169)

ترجمہ ۔ یعنی جو کوئی ایسا کام کرے جو ہمارے معاملے (دین) کے موافق نہ ہو تو وہ اس سے مردود ہے ۔

لہذا یہاں واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی رضا، محبوب پیغمبر، محسن أعظم ﷺ کی رضا میں تلاش کی جائے ۔

اسی آیت مبارک کی تائید میں شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے شاعرانہ انداز میں یوں نقشہ کھینچا ہے  ؂

*کی محمدﷺ سے وفا تو نے، تو ہم تیرے ہیں*

*یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہے*

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بعد کسی کی پیروی کا حق نہیں مگر صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ۔ حضرت نبی اکرم ﷺ کا دامن تھامنے سے ہی اللہ رب العالمین کا دامن مل سکتا ہے نہیں تو انسان صحیح راہ سے بھٹک کر گہرے گھڑے میں گر کر تباہ و برباد ہو سکتا ہے ۔

قرآن کریم نے واضح انداز میں فرمایا ہے کہ انسانیت کو کسی بھی صورت میں اپنے اپنے زمانے میں موجود مختلف رول ماڈلز کی طرف قطعاً نہیں جانا چاہیے ۔ کیونکہ وہ دائمی اور کدی بھی طرح مکمل نہیں ہو سکتے ہیں ۔ جب کہ صرف اور صرف اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کو بہترین اور کامل نمونہ بنایا گیا ہیں ۔ جو قیامت تک آنے والے امتیوں کے لئے دائمی، کامل، رہبر، رہ نما، نمونہ ہیں ۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ

*" لَّقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِي رَسُولِ ٱللَّهِ أُسۡوَةٌ حَسَنَةٞ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّـٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَـرَ اللّـٰهَ كَثِيْـرًا ۔"* (الاحزاب؛ 21)

ترجمہ ۔ ’’ اور تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ان کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتے ہیں اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں ۔‘‘  (الاحزاب ؛ 21)

بقول اختر کاظمی ؂

*نبیؐ کے اسوہ حسنہ کو جب پیش نظر رکھیں*

*مکمل تب کہیں قرآن کی تفسیر ہوتی ہیں*

الغرض خلاصہ کلام یہی ہے کہ سیرت النبی ﷺ کوئی رستم و صحراب کی کہانی نہیں ہے نہ ہی یہ ایک ہزار ایک راتوں کی داستان ہے ۔ اور نہ ہی یہ کوئی افسانہ ہے ۔ یہ کسی عام شخص کا قصہ یا درویش صفت انسان کی داستان بھی نہیں ہے جو لوگوں سے دور کہیں تنہائی کا سہارا لیے بیٹھا ہو ۔ یہ کسی عظیم شخص کی کہانی بھی نہیں ہے جو ایک خاص مدت کے لئے آیا ہو ۔

بلکہ یہ اس سب سے بڑھ کر ہماری سوچ کی انتہا سے بھی بالاتر ہے ۔ یہ پاک سیرت ایسے خیر البشر، سید الانبیاء، نورِ چشم، نورِ نظر، نورِ بدر و اُحد، مدثر، مزمل، طحہ، یٰسین، محمد، احمد، محمود، بشیر، نذیر، غیاث، طاب کی ہے جس سے محبوب سبحانی نے امام الانبیاء، خاتم النبيين، خاتم الرسل اور اپنا محبوب پیغمبر آخرالزمان ﷺ بنا دیا ۔

یہ نیک اعمال، احسن کامیابیوں، پاکیزہ افکاروں، عظیم الشان خیالات، اجتماعی اور تعمیری کوششوں کے ساتھ انقلابی تحریک کا احاطہ کرتی ہے ۔ حضرت نبی اکرم ﷺ کی مبارک اور مقدس حیات طیبہ ننھے یتیم بچے سے لے کر غارِ حِرا تک، غارِ ثُور سے لے کر خانہ کعبہ تک، مکہ سے مدینہ اور طائف تک، اسلامی ریاست سے لے کر میدانِ جنگ تک، بدر سے لے کر فتح مکہ تک، دوستوں سے لے کر دشمنوں تک، امیروں سے لے کر غریبوں تک، مردوں سے لے کر عورتوں تک، شہر سے لے کر دیہات تک، مسجد سے کر بیت الخلاء تک، کھانے و پینے سے لے کر چلنے و پھرنے، سونے و جاگنے اور پہننے تک یہ سب کچھ دل میں گھر کرنے والی ہے اور اس پر دل و جان مر مٹنے اور قربان ہونے کو جی کرتا ہے ۔

لہذا ہمیں جشنِ عید میلاد النبی ﷺ کے مخصوص ایام کے دوران خوشیاں منانے سے بالاتر ہو کر صحیح معنوں میں قرآن اور سنت رسول کریم ﷺ کی تعلیمات کو نہ صرف اُجاگر کرنے کی ضرورت ہیں بلکہ اس سے اپنانے اور عملانے کی بھی ضرورت ہیں ۔ تاکہ ہماری زندگی قرآن کریم کے بتائے ہوئے اور نبی اکرم ﷺ کے سکھائے ہوئے طریقے کے مطابق سانچی جائیں ۔ یہی اصل میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت شعاری، وفاداری، فرمانبرداری اور جانثاری کا نام ہیں ۔

حضرت نبی آخرالزمان ﷺ سے محبت کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ہم قرآن و حدیث کی تعلیمات کو حرف بہ حروف مان کر، جاننے کی کوشش کریں اور اس پر من و عن عمل کرکے حقیقی مُحِبِینِ رسول ﷺ کا لقب حاصل کریں ۔

آئیے ہم سب ان مقدس اور عظمت والے ایام میں یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم بحثیت مسلمان نہ صرف اِس ماہِ ربیع الاول میں بلکہ ہر دن، ہر میدان اور زندگی کے ہر شعبے میں قرآن و حدیث اور سیرت رسول ﷺ کی تعلیمات پر مکمل طور عمل کریں گے ۔ تاکہ ہماری یہ فانی دُنیا اور لافانی آخرت بہتر بن سکیں ۔

------------------

English Article: From the Corner Of Seerah (Prophet's Biography)

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/seerah-prophet-biography/d/130776

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..