سردار ناصر عزیز خان
5 اگست 2024
سیکولرازم ایک کثیر
الجہتی تصور ہے جو فلسفہ، سیاست اور معاشرت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی بنیاد اس اصول
پر ہے کہ مذہب کو سرکاری اداروں سے الگ رکھا جائے۔ اور ریاستی اور عوامی پالیسیاں
مذہبی عقائد کے زیر اثر نہ ہوں۔ یعنی مذہب کا ریاستی امور میں کوئی عمل دخل نہیں
ہو گا۔ اس اصول کا مقصد ایک غیر جانبدار اور متنوع ماحول کو فروغ دینا ہے۔ جہاں
تمام افراد چاہے ان کے مذہبی عقائد کچھ بھی ہوں۔ امن اور برابری کے ساتھ رہ سکیں۔
دوسرے الفاظ میں مذہب انسان کا پرائیویٹ معاملہ ہے اور ریاست کو یہ اختیار نہیں
ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کو ان کے عقیدے سے ہٹائے یا من پسند یا اکثریتی عقیدے کے
ساتھ جڑنے پر مجبور کرے۔ یعنی جیو اور جینے دو کے اصول پر مبنی نظام ہونا چاہیے۔
ترقی پذیر ممالک میں اکثر لوگ فکری اور نظریاتی مغالطے کا شکار ہیں۔ کہ سیکولرازم
کے معنی مادر پدر آزاد معاشرے کے ہیں۔ جو کہ ایک بے بنیاد اور من گھڑت پروپیگنڈا
ہے۔ جس کا حقیقت سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اس میں عام آدمی کا اتنا قصور نہیں۔ البتہ
ان ممالک کے حکمرانوں اور مذہبی پیشواؤں نے اس طرح کے بے بنیاد پروپیگنڈے کو خوب
پروان چڑھایا ہے۔ چونکہ ان کی اکثریت ورلڈ آرڈر اور عالمی اسلحہ ساز کمپنیوں کے
ایجنڈے پر ہیں۔ جنگوں، تنازعات اور مذہبی تفریق اور تقسیم سے ان کے مفادات جڑے
ہیں۔ اور ان کی روزی روٹی لگی ہے۔ اگر معاشرتی تقیسم کم ہو گی، مذہبی منافرت اور
فرقہ واریت نہیں ہو گی تو تنازعات نہیں ہوں گے تو جنگ و جدل نہیں ہو گی۔ اگر جنگ و
جدل نہیں ہو گی تو متنوع سوچ پروان چڑھے گی اور معاشرے ترقی کریں گے۔ جو کہ ورلڈ
آرڈر اور اسلحہ ساز کمپنیوں اور ان کے مفادات کے لئے کام کرنے والوں کو قبول نہیں۔
سیکولرازم فلسفے کی روشنی
میں :
فلسفیانہ طور پر ، سیکولر
ازم روشن خیالی (Enlightenment) کے ان نظریات پر مبنی ہے جو عقل، دلیل، زیادہ سے زیادہ داخلی،
اور شخصی خودمختاری اور انسانی حقوق کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ سیکولرازم یا روشن
خیالی، 17 ویں اور 18 ویں صدی میں یورپ میں پھیلی ہوئی ایک ثقافتی اور فکری تحریک
تھی۔ جس نے عقل اور دلیل کو اختیار اور قانونی حیثیت کا بنیادی ذریعہ قرار دیا۔
فلسفیوں جیسے انگریز فلاسفر اور طبیب جان لاک، فرنچ فلاسفر والٹیئر، اور جرمن
فلاسفر ایمنوئل کانٹ نے ریاست اور چرچ کی علیحدگی کی حمایت کی تاکہ انفرادی
آزادیوں کی حفاظت کی جا سکے اور عقل، دلیل اور منطق کو فروغ دیا جا سکے۔ جان لاک
کی تحریریں، خاص طور پر ان کا ”خط برائے برداشت“ (Letter
Concerning Toleration) ، سیکولرازم کے حق میں ایک بنیادی دلیل پیش کرتا ہے۔ انہوں نے
کہا کہ ریاست یا حکومت کو افراد کے ضمیر اور عقیدے پر کوئی اختیار نہیں ہونا
چاہیے، کیونکہ مذہبی عقیدہ ذاتی اور ضمیر کا معاملہ ہے۔ ان کا یہ تصور شخصی
خودمختاری اور آزادی فکر اور سیکولر سوچ کا بنیادی ستون بن گیا۔ ایمنوئل کانٹ نے
ان نظریات کو مزید ترقی دی اور ایک ایسی عوامی جگہ کی وکالت کی جو عقل اور تنقیدی
استفسار کے تحت ہو، مذہبی تعصبات سے پاک ہو۔ کانٹ کے لیے سیکولر ازم کا مطلب مذہب
کی مخالفت کرنا نہیں تھا، بلکہ یہ یقین دہانی کرانا تھا کہ مذہبی عقائد دوسروں کے
حقوق اور آزادیوں کو محدود یا سلب نہ کریں۔ ان کے نزدیک، ایک عقل پر مبنی عوامی
گفتگو جو مذہبی تعصب سے پاک ہو، معاشرے میں اخلاقی اور شعوری ترقی کے لیے ضروری
ہے۔
تاریخی تعریف اور ارتقاء
تاریخی طور پر ،
”سیکولرازم“ کی اصطلاح 19 ویں صدی کے وسط میں برطانوی مصنف جارج جیکب ہولیوک نے
ایجاد کی تھی۔ ہولیوک نے سیکولرازم کو ایک ایسی معاشرتی دلیل یا سسٹم کے طور پر
بیان کیا جو مذہبی احکام کی بجائے عقل اور انسانی فلاح و بہبود کی بنیاد پر
پالیسیوں اور اخلاقیات اور کو فروغ دیتی ہے۔ جیسے جیسے معاشرے عوامی زندگی میں
مذہب کے کردار سے نمٹنے لگے تو یہ اصطلاح عام ہو گئی۔ خاص طور پر وہاں جہاں ریاست
اور مذہبی ادارے باہم مربوط تھے۔
جرمن فلاسفر اور ماہر
اقتصادیات کارل مارکس کے لیے سیکولرازم ان کے نظریے کی وسیع تر تنقید سے جڑا ہوا
تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ چرچ اور ریاست کی علیحدگی استحصال کو برقرار رکھنے والے
طاقت کے ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ایک حقیقی سیکولر معاشرے میں، مذہب
ایک ذاتی معاملہ ہو گا، جو مادی حقیقتوں پر توجہ مرکوز کرنے کی اجازت دے گا نہ کہ
موجودہ حالات کی الوہی یا ماورائی توجیہات پر ۔ یہ نقطہ نظر اس کے وسیع تر تصور کا
حصہ تھا کہ معاشرہ ہر قسم کی اجنبیت سے آزاد ہو، بشمول مذہبی اور ریاستی اداروں کی
مسلط کردہ بیگانگی کے۔
یورپ میں، سیکولر ازم کا
عروج مذہبی آزادی کی جدوجہد اور ریاستی امور پر چرچ کی طاقت میں کمی سے منسلک تھا۔
فرانسیسی انقلاب ( 1789۔ 1799 ) ایک اہم موڑ تھا، جہاں فرانسیسی ریاست نے باضابطہ
طور پر کیتھولک چرچ سے علیحدگی اختیار کی۔ جس کے نتیجے میں ایک سیکولر جمہوریہ
قائم ہوئی۔ اسے 1905 کے فرانسیسی قانون سے مزید مستحکم کیا گیا جو چرچ اور ریاست
کی علیحدگی پر مبنی تھا۔ اور سیکولرازم کو فرانسیسی حکومت کے ایک رہنما اصول کے
طور پر قائم کیا گیا۔
امریکہ نے آئین میں واضح
طور پر کسی بھی قومی مذہب کے قیام پر پابندی لگا کر اور مذہب کی آزادانہ مشق کو
تحفظ دے کر سیکولرازم کی ایک شکل قائم کی۔ اس علیحدگی کا مقصد کسی خاص مذہب کی
حکومتی توثیق یا حمایت سے روکنا تھا۔ تاکہ ایک کثیر الثقافتی اور برداشت پذیر
معاشرہ یقینی بنایا جا سکے۔
آج کے عالمی ماحول میں جو
کہ کثیر الثقافتی، کثیر المذہبی اور کثیر اللسانی ہے۔ سیکولرازم کی اہمیت بہت بڑھ
گئی ہے۔ ایک سیکولر ریاست متنوع معاشرے کے قیام میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جس کی
چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
مذہبی آزادی کا تحفظ:
سیکولر ازم اس بات کو
یقینی بناتا ہے۔ کہ افراد اپنی مرضی کے مطابق مذہب کی پیروی کر سکیں۔ بغیر کسی
ریاستی مداخلت کے۔ یہ تحفظ اقلیتی مذاہب کو بھی حاصل ہونا چاہیے۔ سیکولرازم
امتیازی سلوک سے بچاتا ہے اور اشتراکیت کو فروغ دیتا ہے۔
مساوات اور برابری کا
فروغ:
ریاست کو کسی خاص مذہب کی
حمایت سے دور رکھ کر یا روک کر سیکولرازم شہریوں میں برابری اور مساوات کو فروغ
دیتا ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ عوامی پالیسیاں مشترکہ انسانی اقدار اور
عقل کی بنیاد پر بنائی جائیں۔ نہ کہ مذہبی عقائد کی بنیاد پر جو ایک کسی ایک مخصوص
گروہ کو دوسرے پر ترجیح دے سکتی ہیں۔
مذہبی تنازعات کی روک
تھام:
کثیر المذہبی معاشرے میں
سیکولر ازم مذہب کو سیاسی شعبے سے علیحدہ رکھ کر تنازعات کو کم کرنے میں مدد کرتا
ہے۔ یہ ریاستی طاقت کا استعمال کر کے ایک خاص نظریے یا عقیدے کو دوسروں پر مسلط
کرنے کے امکانات کو کم کرتا ہے۔ جس سے معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے۔
مشترکہ شناخت کو فروغ
دینا:
ایک سیکولر ریاست میں
تمام شہری بلا امتیاز مذہب، عقیدہ، رنگ، جنس، نسل برابر ہوتے ہیں۔ ریاست اپنے
شہریوں کو مذہب اور عقیدے کی بنیاد کے بجائے۔ ان میں مشترکہ شہری اقدار کی بنیاد
پر ایک مشترکہ شناخت کو فروغ دینے میں مدد کرتی ہے۔ یہ خاص طور پر ان متنوع
معاشروں میں اہم ہے جہاں مختلف مذہبی شناختیں موجود ہیں۔
سوال کی اجازت یعنی
مکالمے کی حوصلہ افزائی:
سیکولرازم سوال کی اجازت
دیتا ہے۔ اور مکالمے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ریاستی یا عوامی پالیسی کو مذہبی
عقائد کے بجائے عقل، دلیل اور تجرباتی شواہد کی بنیاد مرتب کرنے پر زور دیتا ہے۔
جو جامع اور عقلی ہو۔ جس میں ہر ایک کی رائے لی جاتی ہو۔ ایسا طریقہ کار معاشرتی
مسائل کو بہتر انداز میں حل کرنے میں مدد کرتا ہے۔ جو معاشرے کے تمام افراد کے لیے
مساوی اور منصفانہ ہو۔
گلوبل ویلیج میں
سیکولرازم:
گلوبل ویلیج یا عالمی
گاؤں کے تناظر میں جہاں بین الثقافتی تعلقات تیزی سے فروغ پا رہے ہیں۔ ایسے میں
سیکولرازم بین الاقوامی تعلقات کی برابری کی بنیاد پر فروغ اور عالمی تنازعات کے
حل میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ ایک غیر جانبدارانہ فریم ورک فراہم کر
سکتا ہے۔ جو مختلف مذہبی، ثقافتی اور علاقائی نقطہ نظر کو ایڈجسٹ کر سکتا ہے۔ بات
چیت اور تعاون کو فروغ دے سکتا ہے۔ مزید برآں، سیکولر ازم عالمی انسانی حقوق کے
معیارات، جیسے مذہب اور عقیدے کی آزادی، کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ آزادی
اظہار رائے کی افادیت اور اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ جو کہ ایک عالمگیر دنیا میں امن
اور ترقی کے لئے انتہائی اہم ہیں۔
سیکولرازم ایک فلسفیانہ
اور عملی فریم ورک کے طور پر متنوع اور عالمی معاشروں میں امن، برابری اور عقلی
اور عملی اقدامات کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے۔ یہ یقینی بناتے ہوئے کہ ریاستی
امور میں مذہب کا کوئی کردار نہ ہو۔ اور نہ ہی ریاست لوگوں کے مذہب اور عقیدے میں
کوئی مداخلت کرے۔ اور نہ ہی مخصوص مذہبی عقائد عوامی زندگی پر حاوی ہوں، ۔
سیکولرازم انفرادی آزادیوں کا تحفظ کرتا ہے۔ اور ایک زیادہ متنوع اور ہم آہنگ
معاشرے کو فروغ دیتا ہے۔
ایسے ممالک اور معاشرے جو
کسی مخصوص عقیدے یا مذہب کو بزور ریاستی پالیسی، عسکری یا اکثریتی طاقت لوگوں پر
مسلط کرتے ہیں۔ وہ باہمی تنازعات، قتل و غارتگری، مذہبی جنونیت، افراتفری،
پسماندگی اور انارکی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور اکثر اپنا وجود تک بھی برقرار نہیں
رکھ پاتے۔ جیسے جیسے دنیا تیزی سے ایک دوسرے سے جڑتی جائے گی۔ سیکولرازم کے اصول
ثقافتی اور مذہبی تنوع کی پیچیدگیوں کو سمجھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتے رہیں
گے۔ اور عقل، دلیل اور شعور کو بیدار کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔ ایک دن
سیکولرازم کے بدترین ناقد بھی اس کی افادیت اور اہمیت کو تسلیم کریں گے۔
5 اگست 2024،
بشکریہ:ہم
سب،پاکستان
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism