New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 06:25 AM

Urdu Section ( 9 Dec 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Secularism, Congress and Muslim Expectations سیکولرزم، کانگریس اور مسلمانوں کی توقعات

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

8 دسمبر 2023

لوک سبھا منتخب عوامی نمائندگان پرمشتمل مرکزی قانون ساز ایوان ہے۔ اس میں کانگریس سابقہ ایک دہائی سے حاشیے پر ہے اور دیگر علاقائی سیکولر جماعتیں وہاں اپنی منتشر موجودگی رکھتی ہیں۔ ۵۴۲؍کے ایوان میں دو سوکے قریب سیکولر نظریے سے تعلق رکھنے والی جماعتیں اور ان کے اراکین اگر ایماندارانہ اشتراک عمل کا مظاہرہ کریں تو یہ ایک بڑا نمبر ہے۔

  جس طرح بی جے پی کی سیاست میں دائیں بازو کے سیاسی نظریات میں یقین رکھنے والی ہندو اکثریت کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی ہے بالکل وہی حیثیت مسلم ووٹ بینک کی سیکولر سیاست میں ہے۔ بھاجپا کا رویہ اپنے ووٹر کےساتھ بڑی حد تک ایماندارانہ ہے جبکہ سیکولر سیاست ہمارے حوالے سے  ہچکولے کھاتی رہتی ہے اور اس حوالے سے داغدار ہے۔

 نوےکی دہائی سے وہ اپنی بنیاد سے ہٹی ہے، اس نے اپنے نظریات سے دانستہ انحراف کیا ہے، اپنی سیاست کی ریڑھ کی ہڈی ’مسلمانان ہند‘کو اس کے خلاف توقع سیاسی موقف اختیار کرکے متعدد بار بوقت ضرورت تنہا چھوڑا ہے۔ علاقائی سیکولر سیاسی جماعتوں کی طرف اس کے قدم بڑھنے کی بھی کانگریس اور اس کی قیادت ہی ذمہ دار ہے۔ اتر پردیش اور بہار جیسی ریاستیں کانگریس کے ہاتھ سے ایسی نکلیں کہ آج تک وہاں اس کا کچھ پتہ ہی نہیں۔ البتہ بیشتر ریاستوں میں یہ سیاست اور مزاج زندہ ہے۔

 ۱۴۰؍ کروڑ کے ملک میں بی جے پی لگ بھگ پونے ۲۴؍ کروڑ ووٹ لے کر بھاری اکثریت کے ساتھ ملک کی بر سر اقتدارقومی سیاسی جماعت ہے۔ ہماری جمہوریت کایہ عجب کرشمہ ہے کہ اکثریتی جماعت ملک کی کل آبادی کی ۲۵؍ فیصد آبادی کی بھی حمایت حاصل نہیں کرتی مگر وہ صاحب اقتدار اور صاحب مسند بن جاتی ہے اور وہ بھی اکثریت کے نام پر۔ ایسا پہلی بار نہیں ہو رہاہےبلکہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے !

سیکولر سیاست کی جب بھی بات ہوگی پہلے کانگریس کی بات ہوگی بقیہ تمام جماعتیں تو اس سے سیاسی اختلاف کے نتیجے میں وجود میں آئی ہیں۔ سابقہ دہائی میں جس جماعت اور نظریے ( بی جے پی اور ہندوتو) کو عوام نے بھاری اکثریت سے اقتدار سونپا وہ کانگریس، اس کے سیاسی نظریات، طرز سیاست، پالیسی سازی اور تصور تکثیریت کے ساتھ ایک صدی پر محیط بنیادی اختلافات رکھتی آئی ہےاور آج بھی ایسا ہی ہے۔

مسلمان آزادی سے قبل سے آج تک کانگریس اور سیکولر جماعتوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ آپ نے اسے چھوڑا اس نے نہیں! آج اس کوآپ نے لاکر کہاں کھڑا کر دیا؟ آپ اپنے کو ہندو ثابت کرنے میں لگ گئے ‘آپ توہندوستان اور ہندوستانی کی بات کرنے والے تھے؟ آپ کب سے اس رستے والے ہوگئے؟ یادرکھیں جو اپنی جڑ کو چھوڑتا ہے وہ کہیں کا نہیں رہتا!  آج کے حالات اس کے گواہ ہیں۔ آپ تو سب کو ساتھ لے کر چلنے کے داعی و دعویدار تھے، آپ کے یہاں تو ہندو مسلم نہیں تھا اب آپ بھی ہٹ بچ کر اور ’ادھر والا ناراض نہ ہوجائے اور ادھر والا ساتھ بھی رہے ‘کی پالیسی پرچل پڑے!  نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے!

آج کانگریس اور اس کی قیادت ایک بار پھر اپنی زمین تلاش کر رہی ہے تواس کو اپنی جڑ کو دوبارہ سے پکڑنا ہوگا، ہر طرح کی مصلحت سے اوپر اٹھناہوگا، تمام قومی وحدتوں کو اپنائیت کا احساس دینا ہوگا۔ اگر مگر کی سیاست کو طلاق دے کر ہی آگے بڑھنا ہوگا اور دوسری کوئی صورت معذرت کے ساتھ اب آپ کے لئے بچی نہیں ہے۔

ہندوستان اور ہندوستانی کی پچ پر کھیلئے ہندوتو کی پچ آپ کی نہیں ہے۔ راجیو گاندھی نے ایودھیا سے عام انتخابات کی مہم کا آغاز کرکے ایک ناکام تجربہ کیا تھا، اس مزاج کی پالیسیوں کے نتیجے میں بی جے پی کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور آپ کہاں سے کہاں آگئے؟ آج بی جے پی پوری اکثریت کے ساتھ بر سر اقتدار ہے اور آپ پوری طرح بر سر اختلاف بھی نہ رہے؟

آپ کی ’ٹالو‘ کی پالیسی نے کشمیر کو کہاں لے جاکر چھوڑا؟ بابری مسجد کیسے شہید ہوئی، ہزاروں مسجدیں آج تنازعات کا شکارہیں۔ ۱۹۹۱ء کا قانون بنا مگر وہ بھی ادھورا! جو عبادت گاہوں کی ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کی حیثیت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہے، یک طرفہ زیادتیوں پر مبنی فسادات، ٹاڈا کا بیجا استعمال، شاہ بانو کے کیس کی غلط ہینڈلنگ، ایک سکھ کو دو مرتبہ وزیراعظم بنانا جس پر کھل کر تو کچھ نہ کہا گیا مگر وہ ملک جس کی۸۰؍ فیصد آبادی ہندو ہے اس کی نفسیات کو زیادہ امتحان میں ڈالنا اپنے آپ کو امتحان میں ڈالنےسے کم نہیں!

خاموش احتجاج نےہندو جذبات کو ایک حکمت عملی کےتحت جاگنے اور جگانے میں مدد کی اور نتیجہ سامنے ہے۔ میں ایک پریکٹیکل شخص ہوں نہ خوابوں کی دنیا میں رہتا ہوں اور نہ ہی کسی خام خیالی میں! حقیقت یہ ہے کہ بھارت ایک ہندو اکثریتی دیش ہے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ ا س کے خون، خمیر اورروح میں تکثیریت ہزاروں سال سے بسی ہوئی ہے، آپ تو اپنے آپ کو اس خوبصورت چہرے کے محافظ اور امین کہتے تھے آپ کہاں بھٹک گئے؟ 

مسلمانان ہند نے سیکولر سیاست کو کیا نہ دیا؟ لیکن اس کے بدلے اسے ملا کیا؟ پھر اس سے ہم نے توقع بھی کیا رکھی؟ صرف اپنی جان کی امان، نہ کہ فسادات کا لا متناہی سلسلہ اور ان میں یکطرفہ زیادتیاں، وقف املاک کا تحفظ، ملی فلاح کے لئے اس کا استعمال، آثار قدیمہ کی مساجد اور ان کا تقدس، عدل پر مبنی معاشرہ، اداروں کاباوقار تحفظ، ایک پر امن فضا جس میں ہم روایتی طور پر ترقی کی دوڑ میں اپنا حصہ لےاور دےسکیں! لگ بھگ چھ دہائی اقتدار کےسامنے ہمارے مطالبات اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی تو نہ تھے! ہم نے اور تو کوئی شکایت آپ سے نہ کی، آپ نے ہر سطح پر ہم کو مواقع دیے، کمی آپ کی نہ رہی جن کو مواقع ملے، شکایت اس حوالے سے ان سے زیادہ رہی جو آج بھی ہے۔ دو مسلم یونیورسٹیاں اور ان کے اقلیتی کردار کے مسائل، شہریت کے معاملات کو درمیان میں چھوڑ دینا، آئے دن بنگلہ دیشی کے نام پرہراساں کیا جانا اور ہر آئینی بل کا بی جے پی اور ان کے حواریوں کے راجیہ سبھا میں اقلیت میں ہونے کے باوجود پاس ہو جانا، پوری سیکولرسیاست پر سوال کھڑا کرتا ہے۔ ۳۷۰؍ اور شہریت جیسے قوانین کی اگرآپ حمایت نہ کرتے تو کیا پاس ہوسکتے تھے ہر گز نہیں! بی جے پی تو اپنے ایجنڈے کے ساتھ ایماندار رہی لیکن آپ؟

آج آپ سے توقع ایک عام مسلمان یہ کرتا ہے کہ آپ وطن عزیز ہندوستان کو اس کی اصل کی طرف لائیں جس نے دوقومی نظریے کو قبول نہیں کیا، تمام وحدتوں نے مل کر آزادی کی جنگ لڑی اور جیتی، ایک ایسا آئین ملک کو ملا جس نے سب کو برابر مانا، برابری کا حق ہی نہیں دیا بلکہ اس کا زندہ احساس بھی دیا، اکثریت و اقلیت کی بنیاد پر ملک نہ چلایا بلکہ تکثیریت کو قومی اثاثہ بنا کر پیش کیا اور عوام و خواص سب نے اس کو دل سے قبول کیا۔

آئیے کچھ سیدھی بات کریں: ہم آپ کے بندھوا مزدور نہیں! آج ہم کو آپ سب سیکولر سیاسی جماعتیں اپنی دائیں جیب میں پڑا ہوا وہ ووٹ بینک سمجھتے ہیں۔ جو آپ سے ہٹ کر کچھ سوچ ہی نہیں سکتا۔ مسلمانان ہند فی الوقت فکری ہیجان میں مبتلا ہیں۔ آپ سے دل برداشتہ ہیں اور بی جے پی کے بارے میں بات بھی کرنے لگے ہیں۔ ایک فکر جو کئی حلقوں میں گشت کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ جس سے اختلاف دشمنی کی حد تک چلا، چلوایا اور چلایا گیا ہے اس کے فائدے تو سب نے لوٹ لئے خسارے میں ہم ہی رہے!

یہ سچ ہے کہ نظریاتی طور پر آئینی سیکولرزم کو ہندوستان کا مسلمان ہندوستان کی روح مانتا ہے اور تمام سیکولر جماعتوں سے بالعموم اور کانگریس سے بالخصوص یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ ایک ایسے قومی نظریے کے ساتھ سامنےآئے جس پر تمام وحدتیں بھروسہ کر سکیں۔ اب آپ کا سفر لمبا ہے، بڑی محنت درکار ہے موجودہ بنیادی سیاسی تبدیلی کو حقیقت بننے میں۱۹۲۵ء سے ۲۰۱۴ء تک۸۹؍ برس لگے ہیں۔ زمین بہت بکھری ہوئی ہے متعلقہ عناصر و عوامل منتشر ہیں، وزارت عظمی کے امیدوار بہت ہیں مگر اس قد کا قومی سطح پر سیدھے کوئی نظرآتا نہیں!

تبدیلی تب آتی ہے جب نظریہ اور ہدف ہر دیگر عنصر پر غالب آجائے۔ مسلمان بھی کسی غلط فہمی میں نہ رہے۔ آپ کیا چاہتے ہیں یہ اہم نہیں رہا ہندوستان کیا چاہتا ہے اب یہ اہم اور فیصلہ کن ہے۔ قومی سیاست کا حصہ بنئے! مسلم سیاست کا کوئی مستقبل نہیں! اس سے پیچیدگیاں بڑھی ہیں اور آگے مزید بڑھیںگی۔

آخر میں کانگریس اور دیگر سیکولر قیادت سے اتنا ہی کہوں گا کہ ہمیں جیب میں مت ڈالو، نہ معلوم کب مزاج کدھر نکل جائے۔ بڑے بڑے اب کمروں میں بہت کچھ بولنے لگے ہیں۔ فکر میں” کھسکاپن‘‘اب عام ہے ابھی کھل کر سامنے آنے سے گھبرا رہے ہیں مگر حالیہ انتخابی نتائج مزید فکری غذا فراہم کرتےہیں!

8 دسمبر 2023 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

--------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/secularism-congress-muslim-expectations/d/131281

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..