نیو ایج اسلام سٹاف رائٹر
18 نومبر 2022
"یوم غزالی"
- مدرسہ سے فارغ التحصیل طلباء اور عالمیت اور فضیلت کے طلباء کے درمیان ایک
سالانہ تعلیمی اور ثقافتی مقابلہ - جامعہ عارفیہ کی جمعیۃ الطلباء سید سراواں، کے
زیر اہتمام منعقد کیا گیا ہے۔ جو اتر پردیش میں الہ آباد (پریاگ راج) میں خانقاہ
عارفیہ کے شاہ صفی میموریل ٹرسٹ کے زیراہتمام چل رہا ہے۔ درس عالیہ نظامیہ اور
ایڈوانسڈ ڈپلومہ ان دعوہ اینڈ اسلامک اسٹڈیز (جامعہ عارفیہ میں خصوصی طور پر تیار
کیا گیا دو سالہ پروگرام) کے طلباء نے اس تین روزہ پروگرام (13-15 نومبر) میں
بھرپور شرکت کی جس میں ابو حامد الغزالی (1056–1111) جو ہندوستان میں امام غزالی
کے نام سے مشہور ہیں، ان کے کردار اور نقطہ نظر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔
امام غزالی سنی اسلام کے ایک سب سے ممتاز اور بااثر فلسفی، متکلم، فقیہ اور صوفی
تھے۔
اس موقع پر ایک انڈو
اسلامک اسکالر اور نیو ایج اسلام کے باقاعدہ کالم نگار جناب غلام رسول دہلوی
کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تاکہ وہ جامعہ عارفیہ الہ آباد میں چلنے
والے مختلف دینی کورسز اور پروگراموں میں داخلہ لینے والے طلباء سے خطاب کریں۔ آگے
بڑھنے سے پہلے خانقاہ عارفیہ کے وسیع تر ویژن اور جامعہ عارفیہ کے تعلیمی نصاب کا
تعارف اور اس کے آغاز کے پس منظر کا ذکر کرنا ضروری ہے:
تاریخی طور پر، برصغیر پاک
و ہند میں مدرسہ کا نصاب معقولات (علوم عقلیہ) کے ساتھ منقولات (اسلامی علوم
متداولہ) پر مبنی تھا۔ مغل بادشاہوں نے اسلامی تعلیمات میں اس قدر دلچسپی لی کہ
انہوں نے اس وقت کے ہندوستان کے مسلم مدارس کو قرون وسطیٰ کی اسلامی فکری روایت کے
مطابق اپنی نصابی کتابوں میں معقولات کو فروغ دینے کی ترغیب دی۔ لیکن بعد میں
سیاسی وجوہات کی بنا پر معقولات کو ایک طرف کر دیا گیا اور اس طرح آہستہ آہستہ اس
کی جگہ منقولات نے لے لیا جسے اب تمام مکاتب فکر کے ہندوستانی مدارس میں اسلامی
فقہ اور الہیات کے تمام عقلی مضامین پر فوقیت دی جاتی ہے۔ اس پس منظر میں، الہ
آباد میں قائم خانقاہ عارفیہ نے جو چشتی نظامی صوفی سلسلے پر عمل پیرا ہے، نے 1993
میں جامعہ عارفیہ کے نام سے ایک مثالی صوفی مدرسہ قائم کیا جو جدید اسلامی تعلیمی
ادارے کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے جو کہ ملک کے روایتی مدارس سے ممتاز ہے۔
جیسا کہ اس کے مقاصد میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، جامعہ عارفیہ کے مذہبی نصاب
کا مقصد راسخ العقیدہ اور جدیدیت، روحانیت اور دانشوری، عقلیت پسندی (معقولات) اور
روایت پسندی (منقولات) کے درمیان خلا کو پُر کرنا ہے۔ اس طرح الہ آباد میں گنگا کے
مضافات میں واقع یہ حیرت انگیز طور پر انوکھا جدید اسلامی تعلیمی ادارہ ایک ہم عصر
صوفی اور خانقاہ عارفیہ کے ناظم و متولی شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی
صفوی کے عظیم ویژن سے معرض وجود میں آیا۔
جناب غلام رسول دہلوی
نے اپنے خطاب میں جو انہوں نے جامعہ عارفیہ، سید سراواں میں "یوم غزالی"
کے موقع پر بطور مہمان خصوصی دیا، اس میں امام غزالی کی اصول الدین کی تعلیمات کے
خاص حوالے سے اسلام میں عصری سائنسی پیشرفت کے ساتھ روایتی فکر کی ہم آہنگی پر خاص
روشنی ڈالی۔ بالکل شروع میں، انہوں نے مسلم فکری روایت میں اصول الفقہ، علم کلام،
منطق اور دیگر معقولات پر امام غزالی کی تصانیف کی روشنی میں دین کے تصور کو واضح
کرنے کی کوشش کی۔ خانقاہ عارفیہ کے سماع خانہ میں علمائے کرام اور مدارس کے فارغین
پر مشتمل ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جناب دہلوی نے کہا:
"مسلم دنیا عربی علوم
کے سنہرے دور (800-1100) میں جدت کا مرکز رہی، جس نے یورپ میں نشاۃ ثانیہ اور روشن
خیالی کے لیے محرک کا کام کیا۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ جدید مسلم دنیا نے
سائنس میں بہت کم اور معمولی تعاون کیا ہے۔ ہندوستان اور اسپین میں تمام مسلم
ممالک سے کہیں زیادہ سائنسی ادب تخلیق کیا گیا ہے۔ عرب بہاریہ، عمان اعلامیہ،
مراکش کے چارٹر اور انڈونیشیا میں حالیہ R-20 کے تناظر میں ایک
بار پھر مذہب میں مسلم دنیا کے کردار کو اجاگر کرنے کے بعد، یہ سوال پیدا ہونا
کافی حد تک مناسب ہے کہ سائنس اور فلسفہ میں مسلم فکری روایت کے ساتھ غلط کیا ہوا؟
………… " انہوں نے کہا، اسلام کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کی روشنی میں اسلام کو
ایک تازہ سائنسی توانائی، فلسفیانہ قوت اور نئی تعبیر کی ضرورت ہے"۔ ایک صدی
سے زیادہ عرصے سے متعدد ماہرین بالخصوص مستشرقین کا خیال ہے کہ امام غزالی کی عربی
تصنیف "تھافۃ الفلاسفہ" مسلم دنیا کے اندر سائنسی زوال کا سبب بنی۔ وہ
اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ غزالی نے فلسفے کی عمارت اس طرح منہدم کر دی کہ
دوبارہ اسے کھڑا نہیں کیا جا سکا۔ اس طرح، آج کے بہت سے مسلم جدت پسند، جو مستشرقین
سے بہت زیادہ متاثر ہیں، دعویٰ کرتے ہیں کہ امام غزالی نے فلسفے کو اسلامی روایت
اور مذہب کے خلاف مان کر مسلمانوں کے ذہنوں میں سائنس اور فلسفے کے خلاف نفرت پیدا
کی۔ اور یہی بالآخر اسلامی تہذیب کے زوال کا سبب بنا۔
غلام رسول دہلوی نے کہا،
"لیکن میرا ماننا یہ غزالی کے خلاف ایک غلط اور ناقابل قبول الزام ہے"۔
اس طرح کے دلائل کی تردید میں، انہوں نے فلسفہ اور سائنس پر امام غزالی کی اصل
کتابوں کے ساتھ ساتھ مذہب پر جدید اسکالرز کی لکھی گئی کتابوں مثلاً ابراہیم موسی
کی "Ghazali and the Poetics of Imagination" سے بڑے پیمانے
پر حوالہ دیا جس میں وہ لکھتے ہیں، جس میں تخلیقیت، تخیل اور آزادیِ فکر پر بہت
زور دیا گیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے فرینک گریفل کی "Al-Ghazali's
Philosophical Theology" کا بھی حوالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ، درحقیقت، غزالی کا
فکری، نظریاتی اور فلسفیانہ نقطہ نظر آج کے مسلمانوں میں ایک آفاقی فکری تجدید کے
لیے ایک انتہائی ضروری نمونہ فراہم کرتا ہے۔
اس تقریب کے مہمان خصوصی
کا تعارف ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی نے کروایا، جو خود جامعہ عارفیہ، خانقاہ عارفیہ،
الٰہ آباد میں ایک کلاسیکی اسلامی عالم دین، فیکلٹی ممبر، تربیت ساز ہیں۔ ایک
ابھرتے ہوئے مذہب اسلام کے رہنما اور ماہر اسلامیات ڈاکٹر ذیشان مصباحی نے
اسلامیات میں عصری مسائل پر درجن بھر اہم کتابیں تصنیف کی ہیں مثلاً مسئلہ تکفیر
اور امام الغزالی کی تعلیمات وغیرہ۔ وہ تحقیق پر مبنی صوفی جریدے "الاحسان"
کے مدیر اور خانقاہ سے نکلنے والے خضر راہ (ایک اسلامی اردو ماہانہ رسالہ) کے
ادارتی بورڈ میں بھی شامل ہیں۔
اس تقریب میں جامعہ عارفیہ
کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ اور فیکلٹی ممبران نے شرکت کی جو اپنے طلباء کو مذہبی
اور سماجی علوم دونوں کی تعلیم دے کر انہیں روحانی تربیت، اخلاقی اقدار اور صوفی
جذبے کے ساتھ اسلام کی عالمگیر نمائندگی کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ غلام رسول دہلوی
نے کہا، یہ صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں ہے: بلکہ دور جدید کے تناظر میں ہندوستان
میں پرامن صوفی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی آواز ہے۔
----------
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism