New Age Islam
Sat May 24 2025, 04:59 AM

Urdu Section ( 25 Feb 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Scientific Knowledge Is Also a Means of Attaining Recognition [Maarifa] Of Allah – Part-1 سائنسی علوم بھی اللہ کی معرفت کا ذریعہ ہیں

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

(حصہ اول)

24 فروری 2023

قرآن مجید میں ایک بہت ہی بنیادی بات یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔‘‘  اس علم سے کون سا علم مراد ہے اور اس کے حصول کے طریقے یا ذرائع کیا ہیں؟ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ دنیا میں علم کی وہ کون کون سی شاخیں ہیں، جوخشیت الٰہی کے اس مقام تک پہنچنے میں معاون ہیں؟ ان باتوں کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اُس آیت قرآنی کے سیاق و سباق پر غور کیا جائے جس میں یہ بات کہی گئی ہے۔ قرآن کریم کی اُس آیت کا ترجمہ مع ماقبل آیت کے اس طرح ہے: ’’کیا تم نے نہیں دیکھاکہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس کے ذریعے کئی طرح کے پھل نکال دیئے، جن کے رنگ جداگانہ ہیں اور پہاڑوں میں بھی سفید اور سرخ قطعے ہیں جن کے رنگ مختلف ہیں اور کچھ گہرے سیاہ ہیں۔اور اسی طرح انسانوں، جانوروں اور مویشیوں میں بھی مختلف رنگ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔بے شک اللہ سب پر غالب اور بہت بخشنے والا ہے۔‘‘ (فاطر: ۲۷-۲۸)

ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہاں علم سے اللہ تعالیٰ، اس کی قدرت، اس کی تخلیقی عظمت اور اس کی عقل کو حیرت زدہ کرنے والی خلاقی فن کاری کی معرفت مراد ہے۔ اس علم کو حاصل کرنے کے لئے یا معرفت کے اس مقام تک پہنچنے کے لئے قرآن کریم نے یہاں چند چیزوںکی طرف انسان کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ ان میں سب سے اوّل بارش کا نظام ہے۔ قرآن نے انسان کو یہ ترغیب دی ہے کہ وہ بارش کے نظام پر غور کرے اور اس کے پیچھے کارفرما  اللہ کی قدرت کو سمجھے۔یہ خالصتاً سائنس بالخصوص جغرافیہ ، ماحولیاتی سائنس اور موسمیات  (میٹریولوجی) سے متعلق علم ہے۔ اگر پورے آبی چکر (Water Cycle) کا ہم گہرائی سے جائزہ لیں تو قدرت کے نظام کی عظمت اور ہیبت مانے بغیر نہیں رہیں گے۔ پانی کس طرح زمین کی سطح، دریاؤں، تالابوں اور سمندروں وغیرہ سے عمل تبخیر (ایوپوریشن) کے ذریعے اور درختوں،پیڑ پودوں سے اخراجِ بخارات کے عمل (Transpiration) کے ذریعے بخارات کی صورت میں اوپر اٹھتا ہے اور عمل تکثیف (Condensation) کے ذریعے بادلوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے، پھر ہوا ان بادلوں کو دُور دراز کے پہاڑوں، میدانی علاقوں، دریاؤں اور سمندروں کے اُوپر بکھیردیتی ہے جہاں بارش ہوتی ہے اور دریاؤں و سمندروں کے ساتھ تراوش اور رساؤ (Percolation) کے ذریعے زمین کے اندر پانی کی سطح بنی رہتی ہے اورہم جہاں چاہیں وہاں سے کنوؤں اور ٹیوب ویلوں کے ذریعے پاک و صاف پانی حاصل کرلیتے ہیں۔ صاف پانی بڑی مقدار میں برف کی شکل میں پہاڑوں پر بھی جمع کردیا جاتا ہے جو دھیرے دھیرے پگھل کر دریاؤں اور سمندروں کو زندہ رکھتا ہے اور زمینی سوتوں (Water Veins) کے ذریعے بھی دور دراز کے میدانی علاقوں تک پہنچ جاتا ہے۔ دنیا کی کوئی بھی حکومت اتنی بڑی مقدار میں سمندر کے پانی کو مکمل طور پر صاف کرکے پہاڑوں پر جمع کرنے یا میدانی علاقوں تک پہنچانے کا یہ انتظام نہیں کرسکتی اور نہ زمین ہی کے اندر پانی کی سطح کو برقرار رکھ سکتی ہے، جو قدرت کی منصوبہ بندی سے خود بخود جاری ہے۔

دوسری چیز جس کی طرف ان آیات نے ہماری توجہ مبذول کرائی ہے وہ یہ ہے کہ بارش کا یہ پانی جب مختلف ذرائع سے خشک اور مردہ زمینوں تک پہنچ جاتا ہے تو پیڑ پودوں، پھلوں اور پھولوں  سے وہ لہلہا اٹھتی ہیں۔ ایک ہی زمین اور ایک ہی قسم کے پانی سے سیراب ہونے کے باوجود اس میں مختلف رنگوں اور اقسام کے پھول اور پھل نکلتے ہیں، جن کی خوشبو اور ذائقہ بھی جدا جدا ہوا کرتا ہے۔ انسان کیا سمجھتا ہے کہ یہ سب خود بخود ہورہا ہے؟ نہیں! بلکہ اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی قدرت کام کررہی ہوتی ہے، جو ذرا بھی گہرائی سے سوچنے سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ علم، نباتیات (Botany) اور زراعت (Agriculture) کے شعبے سے متعلق ہے۔

تیسری چیز جس کی طرف قرآن کریم نے توجہ مبذول کرائی ہے، وہ پہاڑوں کی ساخت اور ان کی رنگت میں پایا جانے والا اختلاف ہے جو کہ جغرافیہ ، علم الارض (ارتھ سائنس) اور علم زمین شناسی  (جیولوجی)  کا موضوع ہے۔ بعض پہاڑ سفید، بعض سرخ اور بعض بہت گہرے سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض پہاڑ بالکل خشک، بنجر اور ویران ہوتے ہیں، جب کہ بعض پیڑ پودوں اور جنگلات سے سرسبزو شاداب۔ پھر اس پر بھی غور کیجئے کہ پہاڑوں سے کتنے اقسام کے نامیاتی (Biotic) اور غیرنامیاتی (Abiotic) قدرتی وسائل حاصل ہوتے ہیں۔انہیں کس نے پہاڑوں میں جڑ دیا ہے؟ یہ بھی اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی قدرت اور صناعی کا مظہرہیں۔

چوتھی چیز جس کی طرف قرآن کریم نے توجہ مبذول کرائی ہے وہ انسان کی خود اپنی صورت اور جانوروں و مویشیوں کی ساخت اور ان کارنگ و روپ ہے۔ ان میں اتنا تنوع (Diversity) اور پیچیدگی (Complexity) ہے کہ اگر ان پر غور کیا جائے تو ایک درجے کے بعد انسان کا ذہن یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ اللہ کی قدرت بہت بڑی ہے۔ بشریات (Anthroplogy) ، حیاتیات (Biology)  جینیات (Genetics) ، میڈیکل سائنس اور بیطاریات (Veterinary Science)  وغیرہ جن سے ان کا علم جڑا ہوا ہے، ان میں آئے دن نئے نئے انکشافات ہورہے ہیں۔ سائنس کی ہر تحقیق دراصل مخلوقات میں پنہاں اللہ کی قدرت کی نشانیوں کو ہی منظر عام پر لارہی ہے۔

قرآن کی سورۂ روم آیت ۲۱؍ میں انسانوں میں رنگوں کے اختلاف کے ساتھ بول چال اور زبانوں کے اختلاف کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ اتنی ساری زبانیں اور بولیاں (Dialects) انسان کو کس نے سکھائے؟ آج بھی ماہرین لسانیات (Linguists) بہت سی قدیم زبانوں کی تحریروں کو سمجھنے اور ان کی تشریح کرنے سے قاصر ہیں،جو تاریخی تحقیق کی بنا پر کتبے یا مخطوطے کی شکل میں منظر عام پر آئی ہیں۔ پھر انسانی رویے کو سمجھنے سے متعلق علوم کے شعبے جیسے نفسیات، عمرانیات، سیاسیات، اقتصادیات وغیرہ ان کے علاوہ ہیں۔

    تدبر اور غوروفکر کی دعوت

 علم کے ان تمام شعبوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد قرآن یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں، جو علم رکھنے والے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان علم کے ان میں سے کسی بھی شعبے میں جتنی گہرائی سے مطالعہ کرتا جائے گا اور جتنی زیادہ مہارت و درجہ  ٔ کمال کی طرف بڑھے گا، اتنا ہی اسے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوگی ، اتنا ہی وہ اس کی قدرت، حکمت اور عظمت کا قائل ہوگا۔ ان علوم کو حاصل کرنے کے بعد بھی اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچان سکا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ابھی تک سطحی علم کا مالک ہے، اس نے ان میں گہرائی سے غور و فکر ہی نہیں کیا۔

اسی طرح قرآن دیگر آیات (جیسے انعام: ۹۶، الاعراف: ۵۴، یونس: ۵، الرعد: ۲، النحل: ۱۲، الانبیاء: ۳۳، الحج: ۱۸، العنکبوت: ۶۱، لقمان: ۲۹، فاطر: ۱۳، یٰسین: ۴۰ وغیرہ) میں انسان کی توجہ سورج، چاند، ستاروں اور سیاروں کی طرف بھی مبذول کراتا ہے اور ان کی ساخت، ان کی حرکات و سکنات، ان کے مدار، مدار میں ان کی رفتار،اور ان کے درمیان قائم توازن پر بھی غور و فکر کرنے کی ترغیب دیتا ہے، تاکہ وہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حکمت و منصوبہ بندی کو سمجھ کر اس کو پہچانے۔ یہ پوری کائنات دراصل اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ اور قدرتِ کاملہ کی آئینہ دار ہے۔ اس کی تمام چیزیں پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے لیکن ان کی پکار سننے اور سمجھنے کے لئے کامل علم اور صحیح فکر چاہئے۔ آدھے ادھورے علم سے معرفت کا یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا!

قرآن نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے:

’’عنقریب ہم انہیں اپنی (قدرت کی) نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی۔ یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ (قرآن) بالکل حق ہے۔‘‘ (سورہ الفصلت:۵۳) (جاری)

24 فروری 2023، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

-------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/scientific-knowledge-recognition-maarifa-allah-part-1/d/129192

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..