پرویز امیر علی ہود بھائی
3جولائی، 2021
نصابی کمیٹی پر تعینات
کیے جانے والے علما کی جانب سے پچھلے دنوں ایک بیان جاری ہواہے، جس سے ظاہر ہوتاہے
کہ وہ اپنے کردار کو صرف اسلامیات ،سماجیات اور اردو تک محدود نہیں ہونے دیں گے
بلکہ اپنا دائرہ اثر کو سائنسی مضامین کی نگرانی تک بھی پھیلائیں گے۔ تیار رہیں ،
اب توپاکستان سائنس کی نئی منزلیں طے کرنے والا ہے۔ کمیٹی کی جانب سے نصابی کتب کے
ناشروں کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ آئندہ انسانی جسم کے کسی اندرونی اعضا کی
اشکال یا تصاویر نہیں چھاپ سکیں گے۔ اس کا مطلب یہ بنا کہ ہمارے اسکولوں میں نظام
تولید اور نظام انہضام حیاتیات کی کتابوں سے حذف کیے جائیں گے ۔ گویا کہ شرم و حیا
کی بنا پر اب یہ ممکن نہیں ہوسکے گا کہ استاد یہ بتا سکے کہ خوراک جسم میں کیسے
داخل ہوتی ہے، پھر کیسے ہضم کی جاتی ہے اور اس کا اخراج کہاں سے ہوتا ہے ۔ اسی طرح
یہ سوال کہ انسانی نسل کیسے اور کن جسمانی اعضا کی بدولت آگے بڑھتی ہے پہلے بھی
ایک بھید تھا، جس کا ذکر سرگوشیوں میں ہی کیا جاتاہے، لیکن اب تو یہ ایک ایٹم بم
کے راز کے برابر ہوجائے گا۔
پھر بھی شاید ہمیں اس بات
پر خوش ہونا چاہئے کہ بیشتر علما نے یہ مان لیا ہے کہ زمین چپٹی نہیں ہے اور نہ یہ
ساکن ہے ، بلکہ یہ ایک کرّہ ہے جو سورج کے گرد گھومتا ہے ۔ چلیے دیر آید، درست
آید، لیکن یہاں جو آبادی کا بم پھٹ رہا ہے، اس جانب بھی توجہ کی ضرورت ہے۔
پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جس میں فی کس آبادی اس تیز رفتارسے بڑھ رہی
ہے کہ ہم دوسرے اسلامی ملکوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ
شرم و حیا کے سبب ہم اپنے عوام کو یہ نہیں بتا سکتے کہ بچوں کی پیدائش روکنے کی
ترکیبیں کیا کیا ہیں اور جس وزارت کا یہ کام تھا،ہم نے اس کا وجود ختم کردیا ہے۔
اس شرم و حیا کا بوجھ سب
سے زیادہ تو خواتین کا اٹھانا پڑتاہے۔ مثلاً عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ
پاکستان میں چھاتی کا سرطان سب سے زیادہ عام ہے اور ہر سال اس کے سبب 40 ہزار
اموات ہوتی ہیں۔ لیکن چونکہ عورت کی چھاتی کا ذکر معیوب ہے، اس لیے چھاتی کے سرطان
کی بات بھی نہیں ہوسکتی اسی شرم و حیا کے نام پر خواتین کو اکثر اوقات بنیادی طبی
سہولیات سے محروم کردیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مولانا گل نصیب خان، جو کبھی
متحدہ مجلس عمل کے سیکریٹری ہوتے تھے، انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ کوئی خاتون
کسی مرد ڈاکٹر یا ٹیکنیشین سے اپنا الٹرا سائونڈ ، ایکسرے یا ای سی جی نہیں
کراسکتی ۔ چونکہ خیبر پختونخوا میں خواتین ڈاکٹر اور ٹیکنیشینز نہ ہونے کے برابر
ہیں، نتیجے میں ہزاروں عورتوں کی شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا کا استدلال
تھا کہ اگر طبی آلات سے کسی عورت کے جسم کے اندرونی اعضا دیکھے جائیں تو اس کے
مردوں کی جنسی ہوس بھڑک اٹھے گی۔
ہمارے علما بے پردگی کو
تمام سماجی خرابیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں، لیکن مدارس میں بچوں اور نوجوانوں کے
جنسی استحصال پر مکمل چپ سادھ لیتے ہیں۔ حال میں مفتی عزیز الرحمٰن کا واقعہ منظر
عام پر آیا ہے ، جسے دبانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ، لیکن چونکہ وہ ویڈیو وائرل
ہوچکی تھی، اس لیے پردہ پوشی ناممکن ہوگئی۔ منہ بولتا ثبوت موجود ہونے کے باوجود
علمائے کرام کی اکثریت نے جانے کس مصلحت سے خاموشی اختیار کی۔ کسی مذہبی جماعت کے
قائد نے اس پر تبصرہ کیا او رنہ یہ تقاضہ کیا کہ اس مفتی کو مثال سزا دی جائے۔
وقتاً فوقتاً اس موضوع پر
بات ہوتی رہتی ہے کہ بچوں کے جنسی استحصال سے بچاؤ کا سب سے موثرطریقہ یہ ہے کہ
ان میں آگہی اور اعتماد پیدا کیا جائے یعنی وہ یہ جانیں کہ کون سا فعل ٹھیک ہے
اور کون سا غلط ، اور یہ کہ کس صورت حال میں انہیں اپنا تحفظ کیسے کرناہے۔ اس کے
لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بنیادی جسمانی حقائق سے واقف ہوں مگر یکساں قومی نصاب اس
آگاہی کی اجازت نہیں دیتا۔ علما کی نگرانی میں جو تعلیم اسکولوں میں دی جائے گی،
یہ ہمارے بچوں کو اس فہم سے لاعلم رکھے گی او ریوں آگہی ممکن نہ ہوسکے گی۔
دنیا کے دوسرے مسلمان
ممالک، بشمول سعودی عرب، مستقبل پر اپنی نظریں رکھے ہوئے ہیں، لیکن ’ نیا پاکستان‘
آج بھی ماضی کی سمت سفر میں ہے۔ یہ ہمارے لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا لمیہ ہے۔
3جولائی،2021، بشکریہ : روز نامہ چٹان ، سری نگر
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism