وحید الدین
احمد، نیو ایج اسلام
26 جنوری 2024
عقل، انسانی
شعور کے آغاز سے ہی دین و ایمان کو چیلنج کرتی رہی ہے۔ عقل و استدلال کا زمانہ آیا
اور چلا گیا۔ خدا پر ایمان لانے کی ضرورت میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی۔ الحاد کا زمانہ
سقراط اور دیموقراطیس کے ساتھ شروع ہوا۔ جرمنی میں فریڈریک نیچہ نے کہا کہ "خدا
مر چکا ہے"۔
-----
مذہب اور سائنس کے پاس وجود کے
اس بنیادی سوال کا کیا جواب ہے، یعنی اس سوال کا کہ ہر شئی کیسے وجود میں آئی؟ اس موضوع
پر مذہبی نقطہ نظر کی ایک مثال بائبل کا یہ اعلان ہے:
اس نے کہا ہو جا، اور ہو گیا۔
"ہم سمجھتے ہیں کہ یہ
پوری کائنات ہے، کیونکہ یہ ایک مخصوص ابتدائی شکل میں یکلخت وجود میں آئی ہے۔ چونکہ
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کائنات جامد نہیں بلکہ متحرک ہے، اس لیے اس کی ابتدائی شکل اس
سے بالکل مختلف رہی ہوگی، جو ہم اب ہمارے سامنے ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پوری کائنات
ایک درست اور ہم آہنگ نظام کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ اس لیے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں
کہ اس کائنات کا آغاز غیر منظم رہا ہوگا۔
نیز، بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے
جد اعلی: آدم اور حوا، سب سے پہلے باغِ عدن میں رہتے تھے، جہاں پانی کے چشمے جاری تھے،
رنگ برنگے باغات، پیڑ پودے اور انواع و اقسام کے چرند و پرند تھے۔ جب انہیں زمین پر
اتارا گیا تو اس وقت زمین کا ماحول بھی اسی طرح کا حیات بخش رہا ہوگا۔ اس لیے یہ فرض
کرنا بجا ہے کہ زمین پر زندگی کا آغاز بگ بینگ کے بہت بعد میں ہوا، کہ جب پیڑ پودوں
کی نشوونما ہوئی، اور حشرات الارض کا وجود جنگل جھاڑیوں میں پایا جانے لگا۔ اس کے بعد
بھی، حضرت آدم علیہ السلام کے اس دنیا میں اترنے اور قوس قزح کا مشاہدہ کرنے سے قبل
ایک اور طویل زمانہ گزرا ہوگا۔ پیدائش کی کہانی میں پہلا عمل، بائبل کے اندر بغیر کسی
تمہید اور منظر کشی کے وارد ہوا ہے۔
دوسری طرف سائنس کہتی ہے کہ یہ
کائنات، وقت کے آغاز سے قبل، طول و عرض سے خالی ایک نقطہ تھا، جو کسی چیز میں موجود،
ناقابل تصور دباؤ کے تحت تھا۔ پھر، اچانک، ایک "بگ بینگ" ہوا اور کائنات
وجود میں آ گئی۔ اس بڑے دھماکے سے تین چیزیں نکلیں: مادّہ، وقت اور خلا، جو اپنے بطن
میں طبیعیات کے ان قوانین کو سمیٹے ہوئے تھے، جو اس نظام پر مشتمل تھے، جس کے تحت ان
کا ایک دوسرے کے ساتھ تعامل تھا۔ یعنی، اسکرپٹ پہلے سے ہی لکھا جا چکا تھا اور مادے
کے ہر ذرے میں چھوٹی سے چھوٹی ہر تفصیل محفوظ تھی۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کائنات
ایک نامیاتی وجود تھی تو یہ اسکرپٹ اس کے جین کا ڈی این اے تھی۔ اس کے بعد، مادہ کثیف
ہو کر کہکشاں کی شکل اختیار کر گیا۔ اور اب کن اور بگ بینگ کے درمیان فرق دھندلا ہونا
شروع ہو گیا۔
قابل توجہ امر یہ ہے کہ خدا
اور سائنس دونوں کے بیانیے، درمیان سے شروع ہوتے ہیں، اور واقعے کے اصل کو چھپا دیا
گیا ہے، جس سے کوئی واقف نہیں۔ اس کے علاوہ، انسانی تاریخ کے لحاظ سے، ہم ماضی کو نہیں
سمجھ سکے ہیں، اور نہ ہی اس سلسلے میں ہمارے پاس کوئی فکر و نظر کا اصول ہے۔
سائنس نہ صرف ہم انسانوں کو تحقیق
و جستجو کا ایک وسیع میدان فراہم کرتی ہے بلکہ یہ ہمیں ہماری حد بھی یاد دلاتی ہے۔
ہمارے دماغ کے خلیات صرف اتنے ہی ہیں۔ اس لیے ہمارے دماغ کے اندر جمع کرنے کی صلاحیت
بھی محدود ہے۔ ہم اپنی مخصوص صلاحیتوں کی حدود میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ چاہے وہ ہماری
بصارت، سماعت، سوچ، سمجھ، عمر یا کوئی دوسری حسی صلاحیت ہو یا جسمانی نشوونما ہو، ہماری
زندگی ان حدود و قیود کی تابع ہے، جس کا پابند بنی نوع انسان کو رکھا گیا ہے۔ دوسری
مخلوقات کی اپنی حدود ہیں۔ لہٰذا، ہمیں اس حقیقت کو اچھی طرح سے قبول کر لینا ہوگا
کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہمارا علم ہر شئی کا احاطہ کر لے۔ لہٰذا، ہم یہ کیوں نہ مان
لیں کہ کائنات کی لامحدود وسعتوں میں، ایک نقطہ بے وقعت کے علاوہ، ایسے بے شمار حقائق
ہیں جن سے ہم ناآشنا ہیں۔
تمام سائنس دان بے خوابی کے مرض
میں مبتلا ہیں، جو صرف پہیلیاں حل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور اِنہیں پہیلیوں میں الجھے
الجھے وہ اپنی قبروں تک چلے جاتے ہیں۔ اگر زندگی کا مقصد اطمینان اور قلبی سکون حاصل
کرنا ہے، تو سائنسدان اس روئے زمین پر سب سے زیادہ دکھی انسان ہیں۔ دوسری طرف، مذہب
میں پہیلیاں نہیں ہیں، کیونکہ ایمان ہر خلا کو پر کرتا ہے۔ ایمان بھوک اور پیاس کی
طرح نامیاتی نوعیت کا ہے۔
تہذیبیں انسان کی سلامتی اور اطمینان
و سکون کے حصول کی جستجو میں وجود میں آئیں۔ قدیم ترین بستیوں کی کھدائی سے، ان کے
معبودوں کی عبادت کے لیے مختص ڈھانچوں کا انکشاف ہوا ہے۔ ان معبودان باطلہ کی ساخت
ایک طرف، ان تمام بتوں کی شکلوں اور بناوٹوں سے ایک صدائے مشترک اٹھتی ہے، جو چینخ
چینخ کر اپنے پرستاروں کے روحانی بھوک اور ان کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں سے محرومی
کی گواہی دیتی ہے۔ یہ آدمی پریکٹیکل ہے۔ یہ ان پہیلیوں کوحل کرنے کی کوشش میں اپنی
نیند قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، جن کا حل ہونا ممکن ہی نہیں۔ اس لیے وہ اس مشکل
ترین امر کو کسی دیوی یا دیوتا کے حوالے کر دیتا ہے، اور اپنی پوری توجہ روز مرہ کے
ان کاموں پر صرف کرتا ہے جو اس کی توجہ کے طالب ہیں۔ اسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا
کہ اس کا بت سونے کا ہے یا مٹی کا، مرد ہے یا عورت، اس کا ایک ہاتھ ہے یا کئی۔ اس کی
عبادت کا مقصد ماورائی ہے۔ یہ اس دیوتا کے مفروضہ احسان کا ذریعہ ہے، جس کی وہ عبادت
کر رہا ہے۔
اگر ایمان جسم ہے تو تقدیر
اس کی روح ہے۔ یہ ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ تقدیر کی بنیاد کسی دلیل پر نہیں ہوتی۔
یہ غیر اخلاقی اور بے رحم بھی ہے، اور پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوئے بھی۔ یہی اس کی
حقیقت و ماہیت ہے۔ ذرا ان دو منظرناموں پر غور کریں، جس سے ہم سب واقف ہیں: میں موسیقی
سنتے ہوئے تیز اور مصروف ترین سڑک پر گاڑی چلا رہا ہوں۔ ایک لمحے کی لاپرواہی اور میں
ایک سنگین حادثے کا شکار، لیکن خوش قسمتی کہ موت سے بال بال بچ نکلا، اور مجھےکچھ نہیں
ہوا۔ جبکہ مجھے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھ سے پہلے ایسے ہی حالات میں ہزاروں
افراد آن واحد میں اپنی جانیں گنواں بیٹھے ہیں۔ لیکن مجھ میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ
مجھے کچھ نہیں ہوا؟ بلاشبہ یہ ایک پہیلی ہے! خاندان میں ایک بچہ مر جاتا ہے، اور اپنے
جوان والدین اور بیمار دادا دادی کو داغ مفارقت دے جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ چھوٹے
دنیا چھوڑ دیتے ہیں اور بڑے بوڑھوں کی سانسیں چلتی رہتی ہیں؟ خدا کے اس انصاف کا مقصد
اور اس کے پیچھے کی حکمت کیا ہے؟ کتنی ہی راتیں اس پہیلی کو حل کرنے میں گزار دیں،
مگر حل نہ ہو سکی۔ اس مقام پر سائنس دم توڑتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ جبکہ میری نظر صرف
تقدیر پر ہے، کہ ایک قادر مطلق اور سمیع و بصیر خدا، پوری کائنات کی اچھی اور بری تقدیر
لکھ رہا ہے۔ اگر میرا تقدیر پر ایمان نہ ہوتا تو میں پاگل پن میں مبتلا ہو جاتا لیکن
یہی ایمان مجھے تسلی دیتا ہے اور میرے ذہن میں اٹھنے والے پریشان کن سوالات مٹتے چلے
جاتے ہیں۔
عقل، انسانی شعور کے آغاز
سے ہی دین و ایمان کو چیلنج کرتی رہی ہے۔ عقل و استدلال کا زمانہ آیا اور چلا گیا۔
خدا پر ایمان لانے کی ضرورت میں ذرہ برابر کمی نہیں آئی۔ الحاد کا زمانہ سقراط اور
دیموقراطیس کے ساتھ شروع ہوا۔ جرمنی میں فریڈریک نیچہ نے کہا کہ "خدا مر چکا ہے"۔
مارکس کا یہ نظریہ کہ: "مذہب دماغ کی افیون ہے"، برلن سے بیجنگ تک دنیا کے
بیشتر حصوں میں بڑی تیزی سے پھیلا، لیکن 1991 میں جیسے ہی سوویت یونین پارہ پارہ ہوئی،
اس نے بھی دم توڑ دیا۔ تقریباً تمام "روشن خیال" ملحد مفکرین مشرقی یورپ
کے آرتھوڈوکس چرچ کی طرف واپس چلے پڑے، مشرقی جرمنی میں مارٹن لوتھر کو یاد کیا جانے
لگا، اور ایک بار پھر سمرقند اور بخارا کے بازاروں میں قرآن نظر آنے لگا۔ اب مارکس
اور لینن کے چہرے ہمیشہ ہمیش کے لیے مسخ ہو چکے تھے۔ صرف ایک صدی کے اندر ہی عقلیت
پسندی اور روشن خیالی کا یہ انجام ہوا۔
لہٰذا، ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں
کہ زندگی میں غیر یقینی صورتحال سے زیادہ یقینی کچھ بھی نہیں ہے۔ پرتعیش طرز زندگی،
خوشحالی، خوشی کے لمحات، شہرت، طاقت، دولت --- یہ سب غیر مستحکم اور عارضی چیزیں ہیں۔
آج جو بالکل آب و تاب کے ساتھ موجود ہے، کل اس کا کوئی نام و نشان تک نہ ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ زندگی کا ایک مقصد
ہے لیکن میں نے اپنے ’’ہونے‘‘ میں کوئی آفاقی مقصد یا کوئی عظیم الشان منصوبہ نہیں
دیکھتا۔ میری پیدائش میری مرضی کے بغیر ہوئی۔ جیسا کہ اردو کے شاعر محمد ابراہیم ذوق
نے کہا تھا:
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوش نہ آئے نہ اپنی خوشی
چلے
لہٰذا، مندرجہ بالا افسانہ سے کیا
نتیجہ حاصل ہوتا ہے؟ یہی کہ، تجربات اس امر پر شاہد ہیں کہ خدا پر یقین ہی کائناتِ
انسانیت کا حقیقی اور طے شدہ نظریہ ہے۔ اور ایسا اس لیے نہیں ہے کہ انسان کی سوچ و
فکر میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی ہے، بلکہ ایسا اس لیے ہے کہ انسان ہمیشہ سے فطری طور
پر امن و سکون کا جویا رہا ہے۔
------------------
English Article: Science And God: Belief In God Is The Default
Position Of Humanity
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism