ارشد عالم، نیو ایج اسلام
23 نومبر 2022
غالباً نہیں؛ لیکن
مسلمانوں کے پاس بھی اپنی بات ثابت کرنے کے لیے کوئی حقیقی ڈیٹا نہیں ہے۔
اہم نکات:
1. حکومت نے مسلمانوں اور
عیسائیوں کو شیڈیولڈ کاسٹ میں شامل کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔
2. مسلم اشرافیہ کا کہنا
ہے کہ وہ اس میں شامل نہیں ہیں کیونکہ معاشرے میں ہمارے خلاف امتیازی سلوک کیا
جاتا ہے۔
3. تاہم، یہی وہ لوگ ہیں
جو منبروں سے یہ کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں میں کوئی ذات پات یا چھوا چھوت نہیں ہے۔
4. اگر وہ واقعی دلت
مسلمانوں کی مدد کرنے میں سنجیدہ ہیں، تو انہیں ان کی حالت زار پر ملک گیر ڈیٹا
اکٹھا کرنے کے لیے اپنی تنظیموں کا استعمال کرنا چاہیے۔
5. ہندو دلتوں کی تبدیلی مذہب کا بھی خوف ہے۔ مسلم
اور عیسائی گروہوں کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ اس خوف کو کیسے دور کریں گے۔
------------------------------------------------------------------
کیا پھر دلت مسلمانوں کو
پھر ایس سی میں شامل ہونے کی اپنی امیدوں کو ترک کر دینا چاہیے؟ شاید ہاں، کیونکہ
یہ خواب ابھی تو شرمندہ تعبیر ہونے والا نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ طبقے پہلے سے ہی
او بی سی کی فہرست میں شامل ہیں لیکن بہت سے ایسے گروپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ
او بی سی ریزرویشن کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ انہیں او بی سی کی فہرست
میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے اور اس طبقے کو ان کی ضروریات کے حوالے سے زیادہ
حساس بنانے کی طرف توجہ دی جائے۔
------------------------------------------------------------------
اکتوبر 2021 میں، مرکزی
حکومت نے مسلمانوں اور عیسائی دلتوں کے ایس سی میں شامل کرنے کے دعوؤں کی تفتیش کے
لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی نے ابھی تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کی ہے اور
اس کے نتائج پر کوئی قیاس آرائی کرنا قبل از وقت ہوگا۔ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ
ہندوستانی حکومت نے ابتدائی طور پر صرف ہندو دلتوں کو ایس سی کا درجہ دیا تھا،
جنھیں اچھوت مانا جاتا تھا۔ آخر کار اس دائرے میں دلت سکھوں اور نو بدھ مت کے
پیروکاروں کو بھی شامل کر لیا گیا۔ 1950 کے صدارتی آرڈیننس میں واضح طور پر کہا
گیا ہے کہ عیسائیوں اور مسلم دلتوں کو ایس سی میں شامل کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ کسی کمیونٹی کو ایس سی کا درجہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ریاست کی
مختلف پالیسیوں سے فائدہ اٹھانے کی اہل ہو جائے گی، خاص طور پر تعلیم، ملازمتوں
اور سیاسی نمائندگی میں فایدہ اٹھانے کی اہل ہو جائے گی۔
لیکن کیا ایس سی کا درجہ
مسلمانوں اور عیسائیوں کو بھی دیا جائے گا؟ رنگناتھ مشرا کمیٹی، جس نے مسلمانوں کی
حیثیت کا جائزہ لیا ہے، اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ایس سی کوٹہ کو مذہب سے
غیر جانبدار رکھا جائے۔ اس طرح رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ مسلم دلتوں کو
ایس سی کوٹہ میں شامل کیا جانا چاہئے۔ لیکن اس وقت کی یو پی اے حکومت نے اس رپورٹ
پر کوئی توجہ نہیں دی اور معاملہ سرد بستے میں چلا گیا۔ حال ہی میں حکومت ہند نے
سپریم کورٹ کی فہرست میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو شامل کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے
اس معاملے پر اپنا موقف بالکل واضح کیا ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں یہ دلیل دی کہ
چونکہ اسلام اور عیسائیت میں ذات پات کا نظام نہیں ہے، اور چونکہ چھوا چھوت کا
نظام ذات پات کی پیداوار ہے، اس لیے ان برادریوں کو ایس سی کا درجہ نہیں دیا جا
سکتا۔ حالانکہ یہ دلیل کمزور ہے۔ کیونکہ سکھ مذہب اور بدھ مت میں بھی ذات پات کا
نظام نہیں ہے، پھر انہیں ایس سی میں کیوں شامل کیا گیا؟ لہٰذا، مسلمانوں کو ایس سی
میں شامل نہ کرنے کی کیا وجہ ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مذاہب غیر ملکی ہیں؟
اس صورت میں ہمیں یہ سوال پوچھنا پڑے گا کہ کیا 1950 کی دہائی سے ہندوستان واقعی
ایک سیکولر ملک ہے؟ آخر مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کس حد تک جائز ہے، جبکہ
آئین واضح طور پر اس کی ممانعت کرتا ہے؟ کیا حکمران اشرافیہ کے اندر اس بات پر
اتفاق ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے؟ کیا وہ کسی چیز سے خوفزدہ ہیں؟ اور یہ خوف کہاں
سے آتا ہے؟
قابل اعتماد ڈیٹا کی عدم
موجودگی
کوئی یقیناً یہ دلیل دے
سکتا ہے کہ اسلامی صحیفہ چھوا چھوث کی اجازت نہیں دیتا لیکن نسلی اور سماجی حقیقت
بہت مختلف ہے۔ ہمارے ہاں مسلم برادری میں ایسی ذاتیں ہیں جنہیں چھوا چھوت کا سامنا
کرنا پڑا ہے، حالانکہ اس بارے میں دستاویزات تقریباً معدوم ہیں۔ یہاں تک کہ
رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کو اس وقت کی حکومت نے ملک گیر اعداد و شمار کی کمی
کی وجہ سے قبول نہیں کیا تھا۔ اس لیے مسلم تنظیموں پر فرض ہے کہ وہ اپنی برادریوں
کے اندر چھوا چھوت سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کریں۔ یہ ایک ملک گیر عمل ہوسکتا ہے اور
کچھ مذہبی تنظیموں کی طاقت کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں معلوم ہوتا۔
تاہم، ہمیں یہ پوچھنے کی ضرورت ہے کہ کیا مسلم تنظیموں میں واقعی ایسا کام کرنے کا
ارادہ ہے؟ ان کی زیادہ تر توانائی مذہبی اجتماعات کے انعقاد پر صرف ہوتی ہے۔
لاکھوں مسلمان تبلیغی کانفرنسوں کے لیے جمع ہوتے ہیں لیکن جب قوم کو درپیش حقیقی
مسائل کی بات آتی ہے تو ان تنظیموں کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ صرف
حکومت پر الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا۔ مزید برآں، قوم مسلم کی توانائی کو
حکومت کی ’مسلم دشمنی‘ کو بے نقاب کرنے پر صرف نہیں کیا جانا چاہیے۔ قابل اعتماد
ڈیٹا نہ ہونے کی وجہ سے یہ الزام نہیں ٹکتا۔ قوم کو تجرباتی اعداد و شمار جمع کرکے
زمینی سطح پر کام کرنا چاہئے اور پھر مسلمانوں کے اندر چھوا چھوت سے انکار کے اس
کے موقف پر حکومت کو گھیرنا چاہئے۔
مسلم اشرافیہ اور چھوا
چھوت
مسلمانوں کے اندر ذات پات
اور چھوا چھوت کو دستاویزی شکل میں جمع کرنے میں ایک اور ہے۔ کئی دہائیوں سے وہ
مسلمانوں کے اندر ذات پات کی موجودگی سے انکار کرتے رہے ہیں۔ وہ مسلسل یہ دلیل
دیتے رہے ہیں کہ اسلام ایک مساوات کا مذہب ہے اور اس لیے مسلمان ذات پات کے نظام
پر عمل نہیں کرتے۔ قومی مباحثے سے مسلمانوں میں ذات پات پر گفتگو کے خاتمے کی وجہ
مذہبی اور سیکولر قیادت دونوں ہے۔ اس طرح کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے، کس طرح مسلمان
ماحول بدلیں گے اور ہندوستانی ریاست کو بتانا شروع کریں گے کہ ہم اب تک جھوٹ بولتے
رہے تھے۔ مزید یہ کہ مسلم اشرافیہ کے اندر ایک ایسی نفسیات ہے جو ہندو سماج سے
انہیں ممتاز کرتی ہے۔ ذات پات ہندوؤں کے ساتھ جڑی ہوئی چیز ہے اور چونکہ مسلمان ان
سے بالا تر ہوتے ہیں، لہٰذا دلیل یہ ہے کہ ان میں ذات پات یا چھوا چھوت ہو ہی نہیں
سکتا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اسی مذہبی اشرافیہ نے مسلمانوں میں ذات پات کو
جائز قرار دیا تھا۔ اشرف علی تھانوی جیسے ممتاز عالم نے فتویٰ دیا کہ انصاری سید
سے شادی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ اسلام میں کفو (مساوات) کے اصول کے خلاف ہے۔ احمد
رضا بریلوی نے اسی طرح دلیل دی کہ ایک پڑھا لکھا انصاری بھی ناخواندہ سید سے کمتر
ہوتا ہے۔
اگر آج مسلمان اپنے
بھائیوں کے لیے ایس سی کا درجہ مانگ رہے ہیں، تو کیا وہ اپنے سماج میں ذات پات کی
موجودگی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا وہ یہ ماننے کے لیے تیار ہیں کہ اونچی
ذات کے مسلمانوں نے نچلی ذات کے مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی اور امتیازی سلوک کی ہے؟
یہ بھی حقیقت ہے کہ زیادہ تر مسلم تنظیمیں اعلیٰ ذات کے مسلمان ہی چلاتے ہیں۔ کیا
وہ اب اس میں ترمیم کرنے اور اپنی تنظیموں میں نچلی ذات کے مسلمانوں کو نمائندگی
دینے کے لیے تیار ہیں؟ کیا وہ اسے تسلیم کرنے اور اپنی تحریروں میں ذات پات کو
جائز قرار دینے والے علماء کی سرعام مذمت کرنے کے لیے تیار ہیں؟ جب تک ایسا نہیں
ہوتا، ہندوستانی حکومت مسلمانوں کے اندر ذات پات کے مسئلے پر کیوں توجہ دے؟
تبدیلی مذہب کا خوف
لیکن جب عوامی سطح پر اسے
تسلیم کر بھی لیا جائے گا تو کیا حکومت دلت مسلمانوں کو ایس سی کا درجہ دینے کے
لیے تیار ہو جائے گی؟ شاید نہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دلت ذاتوں کے لوگوں کا
اسلام اور عیسائیت میں داخل ہونے کا خوف ظاہر ہے۔ یہ دونوں مذاہب لوگوں کا مذہب
تبدیل کرتے ہیں اور اس میں لوگوں کا مذہب تبدیل کرنا ان کے مذہب کی ایک اہم بنیاد
ہے۔ انتخابی جمہوریت میں اس سے نمبر گیم میں خلل واقع ہو سکتا ہے۔ اور کوئی بھی یہ
خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہے اس حقیقت کے باوجود کہ ہندوستانی آئین تبدیلی مذہب
کی اجازت دیتا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی اختلافات کے باوجود، ان میں
شاید اس بات پر مضبوط اتفاق ہے اور اسی بنیاد پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایس سی
زمرے میں شامل کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اگر اس معاملے کو اکثریتی طبقے کے نقطہ نظر
سے دیکھا جائے تو شاید ایسا خوف بے بنیاد نہ ہو۔ اور اکثریتی طبقہ ہی ایک قومی
ریاست کی تشکیل کرتا ہے۔ اکثریتی طبقے کا خوف اسی طرح کے خوف کے مترادف ہے جس کا
اظہار قومی ریاست کرتی ہے۔
اس خوف کو دور کرنے کا ایک
ممکنہ طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ اسلام اور عیسائیت عوامی سطح پر یہ اعلان کرے کہ ہم
اب تبدیلی مذہب میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ لیکن اس کی توقع نہیں کی جا سکتی، خاص طور
پر اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ یہ ان کی مذہبی دعوت کا حصہ ہے۔ تبدیلی کی دعوت کے
بغیر نہ اسلام مکمل ہے اور نہ عیسائیت۔
کیا پھر دلت مسلمانوں کو
پھر ایس سی میں شامل ہونے کی اپنی امیدوں کو ترک کر دینا چاہیے؟ شاید ہاں، کیونکہ
یہ خواب ابھی تو شرمندہ تعبیر ہونے والا نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ طبقے پہلے سے ہی
او بی سی کی فہرست میں شامل ہیں لیکن بہت سے ایسے گروپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ
او بی سی ریزرویشن کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ قوم انہیں او بی سی کی
فہرست میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے اور اس طبقے کو ان کی ضروریات کے حوالے سے
زیادہ حساس بنانے کی طرف توجہ دی جائے۔
English Article: Will the Government Grant SC Status to Muslim Communities?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism