نیو ایج اسلام اسٹاف
رائٹر
21 نومبر 2022
مسجدیں اللہ کا گھر ہیں
اور ان کی حرمت اور تقدس کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے۔ مسجدوں میں دنیاوی بات
کرنا اور بلند آواز سے بولنا بھی حد ادب ہے۔ مسجدوں میں بحث تکرار، لڑائی جھگڑا
اور گالی گلوچ کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دیگر مذاہب میں بھی عبادت گاہوں
کے تقدس کا خیال رکھا جاتا ہے اور وہاں غیر اخلاقی افعال اور بد سلوکی و بدتہذیبی
کا ارتکاب کرنا,خلاف مذہب اور گناہ سمجھا جاتا ہے۔
لیکن بد قسمتی سے مسجدوں
میں کبھی کبھی ایسے ناخوشگوار واقعات پیش آجاتے ہیں جن سے مسجدوں کا تقدس پامال ہو
تا ہے۔ کبھی کبھی مسلکی تنازع اتنا بڑھ جاتا ہے کہ نوبت مار پیٹ اور خون خرابہ تک
آجاتی ہے۔ کبھی کبھی کسی مسجد پر دو مسلک کے کارکن مسجد پر قبضے کے لئے لڑ پڑتے
ہیں۔ اور یہ لڑائی اکثر جمعہ کی نماز سے قب یا بعد ہوتا ہے کیونکہ جمعہ کی نماز کے
لئے ہی عام مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مسجد میں موجود ہوتی ہے۔ اس موقع کو مسلکی
تنازع کے حل کے لئے مناسب سمجھا جاتا ہے۔ کبھی کبھی مسجد کمیٹی کے اراکین بھی اس
میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی امام کو رکھنے یا ہٹانے پر مسجد میں مار پیٹ
اور خون خرابہ ہوتا ہے۔ غرض مسجدوں کے تقدس کی پامالی کے واقعات ہندوستان میں گاہے
بہ گاہے ہورے رہتے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کو مسجد سے متعلق اپنے تمام اختلافات پرامن
طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
مسجد میں مارپیٹ اور گالی
گلوچ کا ایک ایسا ہی ناخوشگوار واقعہ کلکتہ کی قدیم مسجد ناخدا مسجد میں پیش آیا۔
اس واقعہ نے ہمارے ملی قائدین کے طرزعمل پر سنگین سوالات کھڑے کر دیے۔ اس مسجد میں
ایک لمبے عرصے سے نائب امام مولانا محمد شفیق اور موذن اور متولیان کے درمیان
اختیارات اور نکاح و طلاق کی فیس کی حصہ داری کو لیکر تنازع چل رہاتھا جو ستمبر کے
ماہ میں مارپیٹ اور گالی گلوچ تک پہنچ گیا اور پوری قوم اس واقعے سے شرم سار ہو
گئی۔ اس سے قبل مئی کے مہینے میں فجر کی نماز کے بعد دعا کے وقت نائب امام نے مؤذن
کی طرف مائیک پھینک دیا۔ ان کا غصہ اس بات پر تھا کہ مؤذن ان کی امامت کے وقت
مائیک کی آواز کم کردیتے ہیں۔ امام کی اس حرکت سے نمازی سکرے میں آگئے اور اس کا
چرچا باہربھی ہوا۔
اگست کے مہینے میں
متولیان اور مؤذن نے نائب امام اور متولیان کے دفتر کے بیچ کی دیوار گرادی۔ انہوں
نے نایب امام کے دفتر کی تزئین و آرائش کے بہانے یہ کام کیا۔ نائب امام نے کہا کہ
میں نے صرف تزئین وآرائش کی اجازت دی تھی۔ دیوار گرانے کی نہیں۔ کیونکہ دفتر کے
ایک حصے کو میں کپڑے بدلنے کے لئے بھی استعمال کرتا ہوں۔ انہوں نے متولیان سے کہا
کہ وہ دیوار کو دوبارہ بحال کردیں مگر انہوں نے بات نہیں مانی۔ لہذا، نائب امام نے
2 ستمبر کو خود ہی مزدور بلاکر اس دیوار کو دوبارہ تعمیر کروانے لگے۔ متولیان و
مؤذن نے اس کی مخالفت کی تو نائب امام نے طاقت کا استعمال کیا اور گالی گلوچ بھی
کی۔ اس واقعے کاویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا اور مسجد کی حرمت کی پامالی کا
منظر پوری ریاست کے مسلمانوں نے دیکھا۔
اس واقعے کے بعد کلکتے کے
کچھ سرکردہ شخصیات نے ایک مصالحتی کمیٹی بنائی اور فریقین سے بات چیت کرکے ان کے
مؤقف کو جاننے کی کوشش کی۔ اس میں تنازع کی وجہ یہ سامنے آئی کہ نکاح کی جو فیس
پہلے لی جاتی تھی اس میں اضافہ کردیا گیا تھا لیکن متولیان اور مؤذن کو اضافہ شدہ
رقم کے حساب سے حصہ نہیں دیا جارہا تھا۔ انہوں نے حصے کی رقم میں اضافے کا مطالبہ
کیا جو دونوں نائب ائمہ کرام نے مسترد کردیا۔ احتجاجاً متولیان و مؤذن نے حصہ وصول
کرنا بند کردیا۔ نائب امام نے یہ بھی کہا کہ جو رقم ان لوگوں نے وصول نہیں کی ہے
وہ اب نہیں ملے گی کیونکہ وہ ان کے پاس محفوظ نہیں ہے
اسی جانچ پڑتال کے دوران
کچھ لوگوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ مؤذن نے ایک عورت کو مسجد کی چھت پر لے جاکر
اس کی عصمت دری کی تھی۔ اور متولی اقبال اسے چھت سے نیچے لیکر آئے تھے۔ مگر متولی
نے اس الزام کی تردید کی اور گواہوں اور ثبوتوں کی غیر موجودگی میں اس الزام کو
مسترد کردیا گیا۔ متولی نے کہا کہ چھت کی کنجی مؤذن کے پاس نہیں ہوتی اس کے پاس
ہوتی ہے اس لئے یہ الزام بے بنیاد ہے۔
اگرچہ نائب مولانا
محمدشفیق نے متولیان سے عافی مانگ لی ہے اور معاملہ رفع دفع ہوچکا ہے لیکن ملت کے
افراد کے لئے اس میں غوروفکر کا مقام ہے۔ہمارے ملی قائدین جن کے ذمے قوم کی
رہنمائی اور اصلاح ہے وہ خود کس قدر اخلاقی پستی میں چلے گئے ہیں کہ مسجدوں میں
روپیوں کے لئے اور اپنی انا کے لئے مار پیٹ اور گالی گلوچ پر اتر آرے ہیں۔ نیز
حقوق العباد کی ادائیگی کی تعلیم دینے والے ائمہ کرام خود اپنے ماتحتوں کی حق تلفی
کرتے ہیں۔ حتی کہ مسجد میں عصمت دری کا الزام تک لگ جاتا ہے۔
نائب امام مولانا شفیق کے
متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ بنگال کی حکمراں سیاسی پارٹی ترنمول سے قربت رکھتے ہیں
اور اپنے سیاسی اثرورسوخ کا استعمال کرکے لوگوں کو پریشان کرتے ہیں اگر ایسا ہے تو
یہ قوم کے لئے بد نصیبی کی بات ہے کہ ان کا قائد سیاسی اثر ورسوخ کی وجہ سے کسی پر
ہاتھ اٹھادے اور فحش کلامی کرے۔
مسلمانوں کا عمومی مزاج
متشدد ہوگیا ہے۔ وہ عام طور پر معمولی سے تنازع میں تشدد پر اتر آتا ہے۔ حتی کہ
مساجد میں بھی بد تہذیبی اور بداخلاقی پر اترآتا ہے۔ اور اس معاملے میں عام
مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ائمہ اور مؤذن ایک صف میں کھڑے ہیں۔
English Article: Sanctity of Mosques and Muslims
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism