نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
15 جون 2023
گزشتہ سال نومبر میں ایک ہم
جنس جوڑے سپریو جکرورتی اور ابھئے دانگ نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے ہم جنس
شادی کو قانونی منظوری دینے کی گزارش کی۔ان کا دعوی تھا کہ ہم جنس پرستوں کو شادی کی
اجازت نہ دینا ان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی تھی۔ان کا یہ بھی دعوی تھا کہ ہندوستان
میں ہم جنس پرستوں کی آبادی کل آبادی کا 8 فی صد ہے اور اتنی بڑی آبادی کو ان کے حق
سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔ چونکہ معاملہ مذہبی طور پر حساس تھا اس لئے سپریم کورٹ
نے اس معاملے کو ایک پانچ رکنی بنچ کے حوالے کردیا جس کے سامنے یہ کیس زیر سماعت ہے۔
حکومت ہند نے اس پٹیشن کی
مخالفت اس بنیاد پر کی کہ ہم جنس شادیاں ہندوستانی کلچر اور جنسی رشتے کے روایتی نوع
کے خلاف ہے۔ بار کاؤنسل آف انڈیا نے بھی ہم جنس شادی کو منظوری دینے کی مخالفت کی اور
سپریم کورٹ سے ان عرضیوں کی سماعت نہ کرنے کی درخواست کی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ ہندوستان
کے 99۔9 فی صد لوگ ہم جنس شادیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔بہرحال انہوں نے اپنے ذریعہ پیش
کئے گئے اعدادو شمار کے ثبوت میں کسی دستاویز یا طریقہء کار کا حوالہ نہیں دیا۔
اسی دوران مشہور تنظیم پیو
ریسرچ سینٹر نے اس موضوع پر اپنی ایک سروے رپورٹ پیش کی ۔ اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان
کے 53 فی صد لوگ ہم جنس شادی کو منظوری دینے کے حق میں ہیں اور 43 فی صد لوگ اس کے
خلاف ہیں۔
اس معاملے میں ایک اہم موڑ
اپریل میں آیا جب اسلامی تنظیم جمعیت علماء ہند نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے
یہ درخواست کی کہ ہم جنس شادیوں کو قانونی حیثیت نہ دی جائے کیونکہ یہ تمام مذاہب کے
پرسنل لاء کے خلاف ہے اور قرآن اور حدیث کے احکام کے بھی خلاف ہے۔
جمعیت نے اپنی عرضی میں کہا:
"۔اسلام میں ہم جنس پرستی کا امتناع مذہب
کے آغاز سے ہی صاف اور واضح ہے۔ اسلام کے بنیادی صحیفے قرآن اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات
اور تمام تفسیروں میں ہم جنس پرستی بلا اختلاف ممنوع ہے۔۔"۔۔
جمعیت نے اپنی عرضی میں مزید
کہا کہ گزشتہ برسوں میں ہم جنس پرستوں کے گروپ میں نئے نئے طبقے کو شامل کیا جاتا رہا
اور اس کے دائرے کو وسیع کردیا گیا۔ اور ایسا مذہبی بنیاد پر نہیں بلکہ غیرمذہبی بنیاد
پر کیا گیا۔
حکومت ہند کا بھی مؤقف یہ
ہے کہ ہم جنس پرستی صرف ایک شہری اشرافیہ کا نقطہء نظر ہے اور اس لئے ایک چھوٹے سے
گروپ کے لئے ایک نیا عدالتی نظام تخلیق کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ پارلیمنٹ
کرسکتا ہے عدالتیں نہیں کرسکتیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان
جیسے مذہبی ملک میں ہم جنس شادیوں کا تصور نہیں ہے اگرچہ سپریم کورٹ نے 2018 میں ہم
جنسی کو قانونی منظوری دے دی ہے۔ حکومت ہند اور ہندوستان کا ایک بڑا طبقہ یہ محسوس
کرتا ہے کہ ہم جنس شادیوں کو قانونی منظوری ملنے سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اور
معاشرے میں ہم جنس پرستی کو فروغ ہوگا۔جس کی اجازت اسلام اور دوسرے مذاہب نہیں دیتے۔
لیکن وہیں دوسرا طبقہ یہ دلیل بھی دیتا ہے کہ ہندوستان میں کوئی مذہبی نظام قائم نہیں
ہے بلکہ ایک جمہوری نظام ہے جہاں ہر طبقے کو مساوی حقوق حاصل ہیں اور ہر طبقے کے جذبات
کا خیال رکھا گیا ہے۔ یہاں جس طرح مذہبی فرقوں کو مذہبی حقوق حاصل ہیں وہیں لا مذہبوں
کو بھی اپنے نظریات پر قائم رہنے کا حق حاصل ہے۔ اس لئے جمعیت علماء ہند کا اس معاملے
میں ایک حریف بننا ایک غیر ضروری اقدام ہے۔
ہندوستان میں 2009 ء میں دہلی
ہائی کورٹ نے ہم جنسی کو قانونی منظوری دی اور پھر 2018 میں سپریم کورٹ نے بھی اس پر
اپنی مہر ثبت کرشی اس وقت بھی اسلامی تنظیموں نے اس کی مخالفت کی تھی اور اسے اسلامی
نقطہء نظر سے غلط قرار دیا تھا۔لیکن مسلمانوں اور اسلامی تنظیموں کو یہ بات ذہن میں
رکھنی ہوگی کہ ہندوستان ایک اسلامی ملک نہیں ہے اور ہندوستان کاقانون اسلامی شریعت
پر مبنی نہیں ہے۔ بلکہ یہاں کا قانون تمام مکتب فکر اور تمام مذہبی طبقوں کا احترام
کرتا ہے۔ بلکہ یہاں کا قانون ناستکوں کے بھی اعتقادات اور نظریات کا احترام کرتا ہے۔
ہم جنس پرستی اسلام اور دیگر مذاہب میں ممنوع ہے لیکن جو لوگ کسی مذہب اور خدا میں
ہی یقین نہیں رکھتے ان کے یہاں اخلاقی اور غیر اخلاقی طرز عمل اور گناہ اور نیکی کے
اپنے پیمانے ہیں۔ ان کے نظریات کو مذہب کی کسوٹی پر پرکھنا لایعنی ہے۔۔
جمعیت علماء کا اس معاملے
میں ایک حریف بننا اس یقین کی بنیاد پر ہے کہ ہندوستان کاقانون اسلامی شریعت کے مطابق
چلنا چاہئے اور ہندوستان کی عدالتیں یا قانون ساز ادارے وہی قانون بنائیں جو اسلامی
شریعت کے موافق ہوں۔ اسلامی تنظیموں اور ہندوستانی مسلمانوں کو اعتراض صرف اس وقت ہونا
چاہئے جب کوئی ایسا قانون ان پر تھوپا جائے جو ان کی شریعت کے خلاف ہو اور قرآن اور
حدیث کے احکام سے متصادم ہو۔ ہم جنس شادیوں کو اگر بالفرض محال عدالت جائز بھی قرار
دیدے تو اس سے اسلامی شریعت پر کوئی آنچ نہیں آنیوالی کیونکہ عدالت کا فیصلہ مسلمانوں
پر نافذ نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی دوسرے مذہبی طبقے پر جبرا نافذ ہوگا۔ اس قانون کا
مطلب صرف یہ ہوگا کہ جو لوگ ہم جنس پرست ہیں وہ ہم جنس شادیاں کرنے کے مجاز ہوں گے۔
جو لوگ ہم جنس شادیوں کو خلاف شریعت یا غیر اخلاقی عمل سمجھتے ہیں ان کو یہ آزادی ہوگی
کہ وہ اس سے باز رہیں۔۔
اس سے قبل بھی اسلامی تنظیموں
نے ہم جنسی کو عدالتوں کے ذریعہ قانوناً جائز قرار دینے پر واویلا مچایا تھا جبکہ اس
قانون کا اسلامی شریعت پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔ ہم جنسی قرآن اور سنت کی رو سے حرام
اور ممنوع ہے ۔اس لئے کسی ملک کے پارلیمنٹ یا کسی عدالت کے ذریعہ اسے جائز قرار دینے
کا مطلب صرف یہ ہے کہ عدالت اور حکومت نے اپنے جمہوری اصولوں کے تحت ملک کے ایک مخصوص
طبقے کو اپنے نظریات کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی دی ہے۔ مسلمانوں کو اس کا پابند
نہیں بنایا ہے۔اور نہ ہی قرآن اور سنت کے احکام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہاں ،
مسلمانوں اور اسلامی تنظیموں کا یہ مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اپنا مؤقف قرآن کی روشنی میں
دنیا کے سامنے رکھیں ۔اس کے لئے عدالت میں ایک فریق بننے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم جنس شادیوں کے حق میں پٹیشن قرآن اور حدیث کے احکام
میں تبدیلی کے لئے نہیں ہے۔
--------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism