مشتاق الحق احمد سکندر،
نیو ایج اسلام
07 فروری 2023
وقت کے ساتھ ساتھ کیا بدلا
ہے: ملا یا اسلام؟
اہم نکات
1. بشیر احمد سلفی اور
رؤف مدخلی کے کچھ طلباء کے درمیان ایک نئی
ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔
2. اسلام کو ترقی
مخالف بنانے اور انسانیت کے ارتقاء کو روکنے کے ذمہ دار ملا ہیں۔
3. رؤف کہتے ہیں کہ
علماء ہی اسلام کے حقیقی وارث اور صحیح ترجمان ہیں۔
4. لیکن کال کرنے والا
بتاتا ہے کہ علماء کی دو قسمیں ہیں: علماء
حق اور علماء سو۔
5. کال کرنے والا
تکفیر کو جائز قرار دیتا ہے اور اسے اسلام کا ایک اہم ستون قرار دیتا ہے۔ رؤف اس
سے اختلاف کرتا ہے۔
6. مدارس تنقیدی سوچ
رکھنے والے اور رہنما پیدا نہیں کر رہے ہیں بلکہ فرقہ پرست رہنما پیدا کر رہے ہیں،
جو اپنے غصے میں سب کچھ تباہ کر دیتے ہیں اور ہر موقع پر زہر اگلتے ہیں۔
...
بشیر احمد سلفی اور رؤف
مدخلی کے کچھ طلباء کے درمیان ایک نئی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ ان
ملاؤں نے پہلے ہر نئی ایجاد کی مخالفت کی اور مسلمانوں کو تاریکی میں ڈھکیل دیا۔
پرنٹنگ پریس کی مخالفت ہو، فوٹو گرافی کی ہو، انگریزی تعلیم کی مخالفت ہو یا مواصلاتی
نظام کی، انہوں نے ان سب کی کچھ استثناء کے ساتھ مخالفت کی۔ انفرادی طور پر ان
باتوں کی مخالفت معمول کی بات تھی لیکن انہوں نے اپنے دعوؤں کو درست ثابت کرنے کے
لیے اسلام کا استحصال کیا۔ چنانچہ ملاؤں کے اسی موقف کی وجہ سے اسلام کو ترقی
مخالف قرار دیا گیا اور انسانیت کی توسیع و ترویج رک گئی۔ اسلام ترقی کا مخالف
نہیں تھا بلکہ ان ملاؤں نے اسلام کو لوگوں کے سامنے اسی انداز میں پیش کیا۔ لیکن
اب جب ٹیکنالوجی انسانیت پر چھا گئی ہے تو یہ ملا
اسے اپنی تمام تر خامیوں کے ساتھ قبول کرنے میں سب سے آگے ہیں۔ تو وقت کے
ساتھ ساتھ کیا بدلا ہے؟ ملا یا اسلام؟
کوئی اس کا بہت اچھی طرح
اندازہ لگا سکتا ہے۔ ان ’اسلام کے محافظین‘ اور خود ساختہ نمائندوں نے کبھی اپنی
غلطیوں کو تسلیم نہیں کیا اور مسلمانوں کی موجودہ مایوس کن صورتحال کے لیے خود کو
کبھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ اس خود پسند گروہ سے معافی کی توقع رکھنے کا تو سوال
ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ اب بھی اصل الزام سے بھاگ رہے ہیں کیونکہ صرف وہی اپنی
غلطیوں کو تسلیم کرتے ہیں جن کے پاس ہمت ہوتی ہے اور اپنی غلطیوں کو سدھارنا چاہتے
ہیں۔ انہوں نے اپنا قد انبیاء علیہم السلام سے بلند کر لیا ہے، اس لیے یہ سوچنا کہ
ان سے غلطیاں ہو سکتی ہیں، بذات خود ایک قسم کی توہین ہے۔
جب تک ملّا مسلم معاشروں
کی قیادت کرتے رہیں گے بہتری کی امید بھی بیکار ہے۔ چنانچہ اس وائرل کلپ میں، نام
نہاد طلباء مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی تعظیم کے حوالے سے جواب مانگ رہے ہیں، جنہیں
مرتد سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ گستاخ صحابہ (صحابہ کرام پر تنقید کرنے والے) تھے۔
بظاہر اس کی وجہ ان کی بہترین تصنیف خلافت و ملوکیت معلوم ہوتی ہے۔ جو چیز ان
سلفیوں کی نظر میں مودودی کو مرتد قرار دیتی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی
پہلی نسل میں ہونے والے اندرونی جھگڑوں، سازشوں اور سیاسی فتنوں کو بے نقاب کیا۔
مودودی کی یہ تصنیف اس فسانے کی حقیقت بیان کرتی ہے جو سلفی تمام صحابہ کے حوالے
سے گڑھتے ہیں یہ سمجھے بغیر کہ ان میں ایک درجہ بندی ہے جس کا احترام کرنے کی
ضرورت ہے۔ تمام صحابہ کو مقدس قرار دینا اسلام کے حقیقی امیج کو مجروح کرتا ہے۔
بہت سے صحابہ نے صراط مستقیم سے انحراف کیا کیونکہ وہ بھی انسان تھے۔ صحابہ میں
منافقین کی موجودگی بھی ایک واضح حقیقت ہے جیسا کہ قرآن نے بیان کیا ہے۔ اگرچہ نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے عام منافقوں کا نام نہیں لیا اور نہ ہی ان کو شرمندہ
کیا، وہ نئی امت مسلمہ کا حصہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قتل کا حکم
دیتے لیکن عملی وجوہات کی بنا پر ایسا نہیں کیا۔
امت مسلمہ کی بنیاد ابھی
رکھی ہی جا رہی تھی اور جیسا کہ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نہی چاہتے تھے کہ لوگ انہیں اپنے ہی ساتھیوں کا قتل کرنے والا نہ مانیں۔
چنانچہ آپ نے انہیں مسلمانوں کے درمیان ہی رہنے دیا۔ اس کے علاوہ جو شخص قانونی
طور پر مسلمان ہو اسے قتل نہیں کیا جا سکتا۔ منافقت دل اور نیتوں کی بیماری ہے اس
لیے کسی کو بھی اور یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے بارے میں فیصلہ
کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ یہ صرف خدا کا کام ہے۔ لیکن اللہ نے اور قرآن نے منافقوں
کی چند صفتیں بیان کی ہیں، اس لیے اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن کسی کو منافق
نہیں کہہ سکتے۔ اسلام میں سیاست اسلامی اقدار سے خالی تھی۔ اسی چیز کو مودودی منظر
عام پر لائے جس کی وجہ سے وہ بعض سلفیوں کی نظر میں مرتد اور گستاخ ٹھہرے۔
اس کے بعد کال کرنے والا
رؤف کو اسلام میں اپنے مقام کے بارے میں بتاتا ہے۔ اس کے بعد وہ اس سے اپنے استاد
مولانا بشیر سلفی کے بارے میں سوال کرتا ہے، جنہیں رؤف بشیر چوپن کہتا ہے، تاکہ اس
کی توہین کی جائے۔ چوپان لکڑہارے کی ذات ہے اور کشمیر ایک ذات پات کا شکار معاشرہ
ہے، ذات کے نام سے پکارنا طلباء کو یہ سمجھانے کے لیے ہے کہ ان کے استاد ایک نچلی
ذات سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے اسے کسی مذہبی گفتگو میں شامل ہونے کے بجائے اپنے
آبائی پیشے کو ہی اپنانا چاہیے تھا۔ پھر اقتدار کا بحران شروع ہوتا ہے۔ اسلام کی
بات کون کرتا ہے؟
رؤف کا کہنا ہے کہ علماء
ہی اسلام کے حقیقی محافظ اور صحیح ترجمان ہیں۔ لیکن کال کرنے والا بتاتا ہے کہ
علما کی دو قسمیں ہیں، علماء حق اور
علمائے سو۔ تو رؤف، اس کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ ناپنے کا پیمانہ کس کے پاس
ہے کہ کون علمائے حق ہیں اور کون علمائے سو؟ چنانچہ اس نے ان کے گروہ کے کچھ
سلفیوں کا نام لیا اور انہیں علمائے سو کہا، جس پر روف غصے میں آجاتا ہے اور دونوں
طرف سے تو تو میں میں ہوتی ہے اور کال منقطع ہو جاتی ہے۔
کال کرنے والا تکفیر کو
جائز قرار دیتا ہے اور اسے اسلام کا ایک اہم ستون قرار دیتا ہے۔ رؤف اس سے متفق
نہیں ہے۔ لیکن اب کیا کرے کہ اونٹ پہاڑ کے نیچے آ چکا تھا۔ سلفیوں نے ہی تکفیر کا
آغاز کیا، دوسرے فرقوں کو گمراہ اور مشرک کہا، لیکن اب ان کے درمیان چند فرقے پھوٹ
پڑے ہیں اور وہ ان ہی کی تکفیر کر رہے ہیں اور سلفیوں کو ہی علمائے سوء کہہ رہے
ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ سوائے اسلامی ریاست کے جسے بطور ریاست پالیسی بنانے کا
اختیار تھا خواہ وہ غیر اسلامی ہی کیوں نہ ہو، اب اس اختیار کو جمہوری بنا دیا گیا
ہے اور کسی بھی مسلک کا کوئی عالم یا ملا دوسرے کو گمراہ، مشرک، گستاخ اور مرتد تک
قرار دے سکتا ہے۔ مزید یہ کہ علماء کو ان کے فرقوں اور اندھے پیروکاروں نے اتنا
اختیار دے دیا ہے کہ وہ عام لوگوں کو اختلاف رائے کا حق نہیں دینے دیتے۔ ان کا
کہنا ہے کہ طالب علموں کو تجسس کا حق ہو سکتا ہے لیکن انہیں مختلف یا متبادل نقطہ
نظر رکھنے کا اختیار نہیں ہے، اس طرح کسی بھی تنقیدی سوچ کو اس کے آغاز میں ہی ختم
کر دیا جاتا ہے۔ اسی ذہنیت کی وجہ سے مدارس تنقیدی سوچ رکھنے والے رہنما پیدا نہیں
کر پاتے، بلکہ صرف فرمانبردار، پیروکار
اور مشتعل، زہریلے فرقہ پرست رہنما ہی پیدا کر پاتے ہیں، جو اپنے غصے میں سب کچھ
تباہ کر دیتے ہیں اور ہر موقع پر زہر اگلتے رہتے ہیں۔ علمائے کرام کے درمیان
اختیارات کا بحران جاری رہے گا اور اسے کبھی حل نہیں کیا جا سکتا، لیکن جمہوری،
رواداری اور کثیر الجہتی ماحول علماء کو بین المذاہب مکالمے کا موقع فراہم کر سکتا
ہے، جو انہیں اجنبی معلوم ہوتا ہے کیونکہ غصہ اور عدم برداشت انہیں موزوں ماحول
فراہم کرتا ہے کہ وہ بغیر کسی روک ٹوک کے آگے بڑھتے رہیں۔
----------
English
Article: Salafi Tussle
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism