مسلم پبلک افیئرز کونسل (MPAC) ، لاس اینجلس کے سلام المرایتی کا کہنا ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کو امریکی مسلمان ہونے کی حساسیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے، لیکن مساجد اس عمل میں رکاوٹ رہی ہیں۔ تنظیم امریکی مسلمانوں کے ساتھ کام کرتی ہے اور حکومتی اداروں، میڈیا، بین العقائد حلقوں اور ہالی وڈ کے اسٹوڈیو میں فیصلہ کن لوگوں کے سامنے امریکی مسلمانوں کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔ نیو ایج اسلام ڈاٹ کام کے سیف شاہین کو دئے ایک انٹرویو میں المریاتی کا کہنا ہے کہ امریکہ اور دنیا بھر میں رہنے والے مسلمانوں کو ‘تکثیریت اور سب کو شامل کرنے والے علم دین کی ضرورت ہے نہ کہ اخراج اور مقابلہ کرنے والے علم دین کی ضرورت ہے۔ انٹر ویو کےتصحیح شدہ اقتباسات :
سیف شاہین، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام
مسلمان امریکہ کی باقی آبادی
کے ساتھ کتنی اچھی طرح سے گھلے ملے ہیں؟
عام طور پر مسلمان امریکی سماج میں گھلے ملے ہیں، خاص طور سے کام کرنے والے لوگ۔ مسلمان صنعت کے تمام شعبوں میں پائے جاتے ہیں۔ چاہے وہ پیشہ ورانہ کام کا شعبہ ہی کیوں نہ ہو – جیسے میڈیسن (ادویات)، قانونی کام یا انجینئرنگ - یا مزدوری کا کام ، آپ کو مسلمان ہر جگہ ملیں گیں۔ آپ کو تعلیمی اداروں اور میڈیا میں بھی اب زیادہ مسلمان ملیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک انتہائی گھلنے ملنے والے طبقے کی علامت ہے۔
حقیقی چیلنج، تشخص اور جو رول مساجد
نبھا رہی ہیں، کے سلسلے میں ہے۔ امریکہ میں
کئی مساجد اپنے ہی طبقے میں اور عام طور سے پورے امریکی سماج میں گھل مل جانے کی جدو
جہد کر رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ نوجوان طبقے میں ایک امریکی مسلمان ہونے کا مطلب
کیا ہے، کے تعلق سے الھجن پیدا کر رہے ہیں۔
قومی مکالمہ کے معاملے میں،
مسلمانوں کی آواز نہ کے برابر ہے۔ اور اگر
میڈیا میں کسی مسلمان کی کوئی آواز ہے
بھی تو وہعام طور سے انتہا پسند تصور کی جاتی ہے جو جنوبی ایشیا، مشرق وسطی یا شمال مشرکی افریقہ سے
آتی ہے۔ اس لئے امریکی عوام کے درمیان مسلمانوں
کی شبیح کو لے کر مسئلہ ہےاور وہ کون ہیں اور
وہ خود کی کس طرح وضاحت کر رہے ہیں، کو لے کر خود مسلمانوں کے درمیان بھی مسائل ہیں۔
اور جہاں تک سیاسی اتحاد کا معاملہ ہے ، مجھے
لگتا ہے کہ یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ
پالیسی مرتب کرنے والی بات چیت میں
مسلمانوں کی کوئی آواز نہیں ہے۔
کیا آپ کہہ رہے ہیں مساجد اتحاد
کے عمل کو روکنے کا کام کر رہی ہیں؟
مساجد اتحاد کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے تر بیت سے آراستہ نہیں ہیں۔
مجھے نہیں لگتا کہ اتحاد کا تصور امریکہ میں
مساجد کا حصہ ہیں۔ یہ قومی گفتگو پر ہدایات
دیتی ہیں اور یہ عام طور پر منفی ہوتی ہیں۔ امریکی معاشرے میں کسی دوسرے کو شامل کرنے
اور نوجوان مسلمانوں کوایک شناخت فراہم کرنے کے سلسلے میں ماحول بہت مخالفت کرنے والا
ہو جاتا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ عام طور سے مساجداب
اسے قبول کر نے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ایسے میں تکثیریت اور سب کو شامل کرنے والے علم دین کی ضرورت ہے نہ کہ اخراج اور مقابلہ کرنے والے علم دین کی ضرورت ہے۔
اور مجھے لگتا ہے کہ عالمی سطح پر امت (مسلم برادری) کو یہی چیلنج درپیش ہے۔
کیا یہ وہابی اسلام کے اثر کی وجہ
سے ہے؟
مجھے نہیں لگتا کہ یہ وہابی
اسلام کے زیر اثر ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک مختلف ثقافت میں اسلام کےاطلاق کرنے کا خدشہ ہے۔ شیعہ لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی مسئلہ ہے۔امریکی ثقافت کے مطابق نہ ہونے
کی وجہ سے شیعہ لوگوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا مسئلہ ہے۔ اس لئے وہابی اسلام مسئلہ نہیں
ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ انتہا پسندی ایک
مسئلہ ہے۔امریکی لوگوں سے نسبت اور شناخت کے سلسلے میں اسلامی تفکر میں جمود ایک مسئلہ ہے۔
کیا یہ ایک نظریاتی مسئلہ کے بجائے سماجی مسئلہ زیادہ ہے؟
مجھے ایسا لگتا ہے۔ ایسے میں ایک ایسے نظریہ
کی ضرورت ہے جو کہ ترقی پسند ہو، جو ثقافت کے ساتھ جڑا ہوا ہو اورمصدقہ طور
پر اسلامی ہو۔بے شک اس طرح کے نظریے کی ضرورت
ہے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ یہ شیعہ نقطہ نظر یا وہابی نقطہ نظر سے آتا
ہے۔ یہ زیادہ معنی نہیں رکھتا ہے۔ اسے ایک مستند اسلامی نقطہ کی جانب سے آنا چاہیے
جو قرآن اور نبی کریم ﷺ کی توثیق شدہ غیر متنازع سنت پر مبنی ہونا چاہیے لیکن اسے امریکی تناظر کےتحت
بھی ہونا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں، اسے ہمارے
بڑھ رہےنوجوان امریکی مسلمانوں اور ہمارے امریکی ہم وطنوں کے لئے بامعنی ہونا
ضروری ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ بہت سی مساجد
میں اسلام عرب یا پاکستان کے زیر اثر ہے۔ اس میں یہ غیر ملکی پہلو ہے۔ اور ہمیں اسلام
کی امریکی تفہیم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔.
کیاآپ وضاحت کر سکتے ہیں کہ
کس طرح مساجد اتحاد میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہیں؟
آپ کسی بھی مسجد مین جائیں
وہاں خطبے میں صحابہ کی سرگزشت کو بیان کیا جاتا ہے۔ ہم صحابہ سے محبت کرتے ہیں لیکن
علم کے لئے انہیں ہی واحد ذریعہ کے طور پر استعمال کرنا خطبے کو محدود کرنا ہے۔ یا
خطبہ وضو بنانے کے قوائد و ضوابط پر ہوتا ہے یعنی چھوٹے معاملات پر جو ہمارے طبقے کے
معاشرتی حقائق کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا ہے۔
یا آپ ایک اجتماع میں جائیں تو وہ لوگ گھنٹوں اس بات پر گزار دیتے ہیں کہ خواتین
حیض کے دوران کیا کر سکتی ہیں اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر یہ ہمارے طبقے میں مذہبی
تعلیم کے موضوع ہوں گے تو یہ ان چیلنجیز کے مقابلے میں غیر متعلقہ ہیں جن
سے ہم دو چار ہیں۔
کیا اس کے بارے میں کچھ کیا
جا رہا ہے؟
اب اماموں کے لئے مزید تربیت
(نماز رہنماؤں) کا نظم کیا جا رہا ہے اور اب ان مسائل کے بارے میں مزید بات چیت کی
جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر، 20 اور30 سال کی عمر والی خواتین ہیں جو مسلم شوہر تلاش
نہیں کر سکتی ہیں، کیونکہ (ممکنہ) مسلم شوہر
غیر مسلم خواتین سے شادی کر رہے ہیں۔ اب ہم ان مسائل پر بات چیت کر رہے ہیں اور تشخص کے مسئلے پر بھی بات ہو رہی ہے۔
آپ کہہ رہے ہیں کہ انتہا
پسندی کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود ہم فورٹ ہڈ حملے یا ناکام ٹائمز اسکوائر بم دھماکے کے جیسے واقعات کے
بارے میں سنتے ہں؟
یقینا انتہا پسندی ہے ، لیکن یہ
تشخص کے مسئلے سے الگ ہے۔ اور جب آپ تشخص کے مسئلے کو بنیاد پرستی کے فریم ورک کے اندر دیکھتے ہیں تو
یہ پہلے سے ہی آپ کو معذور بنائے رکھتا
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں دونوں کو علیحدہ کرنا چاہتاہو ں۔ لیکن کیا ایسے افراد ہیں جو انتہا پسند بن جاتے ہیں؟ بالکل۔ اور کیا ایک مضبوط
مسلم تشخص کی غیر موجودگی ہے؟ بالکل۔ لیکن انتہا پسند، مستثنیٰ ہیں، قاعدہ نہیں ہیں۔
کس حد تک 9/11 نے مسلم طبقے کے
اندر خود احتسابی کو فروغ دیا ہے؟
اس نے کچھ وقت کے لئے کیا لیکن
مجھے لگتا ہے کہ مسجد کی قیادت کرنے والے زیادہ ترلوگ پرانے طریقے پر واپس چلے گئےہیں۔ صرف کچھ ہی اس سے مستثنیٰ ہیں
جہاں مساجد واقعی میں شناخت بنانے کے عمل میں
مصروف ہیں اور دوسروں کے ساتھ انسانی مساوات جو توحیدکا ایک اہم پہلو ہے- اسلام
کی تفہیم میں اصلاح کرنے کے سلسلے میں ، جس
سے یہ نوجوان لوگوں اور امریکی معاشرے
کے لئے با معنی اور قابل اطلاق ہو۔
مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا
کی طرح کیا امریکہ میں بھی ٹی وی چینلز یا دیگر میڈیا ہیں جو اسلامی exclusivism کی تبلیغ کرتے ہیں؟
وہ بڑے پیمانے پر دیکھے نہیں جاتے
ہیں۔ آپ عراقیوں کو عراقی چینلز، شامی کوشام کے چینلز ، مصری کو مصر کے چینلز اور پاکستانیوں
کو پاکستانی چینلز دیکھتے ہوئے پا سکتے ہیں۔
امریکہ میں شیعہ سنی کے تعلقات
کیسے ہیں؟
دونوں کے تعلقات خوشگوار ہں اور
اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ لیکن پھر بھی، وہاں ایک دوسرے سے تعلق کے معاملے میں بہت سے
مسائل ہیں اور میں کہتا ہوں کہ یہ سنیوں کے
ساتھ ہی ساتھ شیعہ لوگوں کے درمیان ایک جیسے ہی مسئلے ہیں۔ دونوں کے درمیان اچھی اور مؤثر بات چیت کا فقدان ہے۔
کس طرح کی سفارشات آپ کے
جیسی تنظیمیں حکومت کو پیش کرتی ہیں؟
ہم پالیسی معاملات پر سفارشات پیش
کرتے ہیں، چاہے یہ ہمارے طبقےکی صحت اور فلاح و بہبود کا معاملہ ہو، نوجوان لیڈر تیار
کرنے، شناخت یا دیگر عوامی پالیسی کے معاملات
جیسےقومی سلامتی، امریکہ اور مسلم اکثریت والے ممالک کے درمیان عالمی سطح پر تعلقات
ہوں۔
مثال کے طور پر 9/11 کے فوراً
بعد کے مقابلے آج اسلامو فوبیا (اسلام ہراسی) کو آپ کہاں پاتے ہیں؟
اب یہ بہت زیادہ شدید ہے۔ یہ 9/11 کے فوراً بعد کے مقابلے اب زیادہ منظم اور [بہتر] مالی امداد والی صورتحال میں ہے۔ اس
لئے یہ اسلام کے خلاف پہلے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک حملہ ہے۔ اور اسے پہلے کے مقابلے
2012 کے انتخابات میں سے زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ 23 ریاستوں
نے شریعت کے مخالف بیلٹ (ووٹ) کی پہل کا آغاز کیا ہے ، اور یہ صرف اس لئے ہے تاکہ دائیں
بازو کی جماعتیں ووٹران کو پولنگ بوتھ تک لا سکیں۔
کیا ابھی جاری ریپبلکن پرائمریز میں اسلام ہراسی کےرجحانات ہیں؟
جی ہاں۔ لیکن مجھے خوشی ہے
کہ مٹ رومنے (Mitt Romney) نے اس بات کی حمایت کرتے
ہوئے کہا کہ وہ ریپبلکن بحث میں اسلامو فوبیا
کی توثیق نہیں کرتے ہیں۔
سیف شاہین، آسٹن، میں
واقع ٹیکساس یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔
URL
for English article:
https://www.newageislam.com/interview/mosques-hindering-muslim-integration-in-the-us/d/6584
URL
for this article: