ثاقب سلیم، نیو ایج اسلام
22 مئی 2023
قدسیہ بانو نے ایک بار کہا
تھا کہ جس خاندان کی قیادت ایک بلند پایہ شخصیت سے ہو، باقی افراد کا قد ہمیشہ کم
ہی رہے گا۔ وہ یہ کہنا بھول گئیں کہ اگر خاندان کا وہ دوسرا فرد عورت ہے تو اس کا
قد مزید کم ہو جائے گا۔
Saadat
Bano Kitchlew with a foreigner (Courtesy Heritage Times)
------
یہ سعادت بانو سمیت بہت سی
خواتین کے حق میں سچ ہے، جو معروف مجاہد آزادی سیف الدین کچلو کی اہلیہ تھیں۔
انہیں کی گرفتاری کے خلاف لوگ امرتسر کے جالیانوالہ باغ میں احتجاج کر رہے تھے جب
ڈائر نے ان پر فائرنگ کر دی جس سے 379 افراد ہلاک اور 1200 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔
بہت سے لوگ سعادت بانو کو یاد نہیں کریں گے کیونکہ ہمارا پدرسرانہ معاشرہ ہمیں
سکھاتا ہے کہ "سعادت کی شادی سیف الدین سے ہوئی تھی" اور یہ نہیں کہ
"سیف الدین سعادت کا شوہر تھا"۔
ہماری تاریخ کی نصابی
کتابوں میں ایک آزاد خاتون کے طور پر یا ان کے کارناموں کے حوالے سے سعادت بانو کا
شاذ و نادر ہی کوئی ذکر ملتا ہے۔
کیا سعادت کو صرف ایک عظیم
انسان کی بیوی ہونے کے لیے ہی یاد کیا جائے؟ خاص طور پر جب کچلو سے شادی کرنے سے
پہلے ہی ان کی کتا ی شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی تھی اور حقوقِ خواتین کے کارکن
کی حیثیت سے انہیں کافی شہرت مل چکی تھی۔ وہ سماجی اور سیاسی موضوعات پر بہترین
مقرر بھی تھیں۔
1893 میں امرتسر میں پیدا
ہونے والی سعادت نے اردو، فارسی اور انگریزی کی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ بہت
چھوٹی عمر میں، انہوں نے 20ویں صدی کے اوائل کے معروف میگزینوں جیسے دکن ریویو،
تہزیب نسوان، اور خاتون میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ تہذیب نسوان میں 16 سال کی عمر
میں شائع ہونے والے حریت نسوان (خواتین کی آزادی) کے عنوان سے مضامین کی ایک سیریز
کے ساتھ، وہ ہندوستان کی سرکردہ خواتین مفکرین میں سے ایک بن گئیں۔ ان کی تحریریں
خواتین کے مسائل تک محدود نہیں تھیں۔ بلکہ انہوں نے سر سید احمد خان کی تعلیمی
اصلاحات، مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاست اور فیشن وغیرہ کے بارے میں بھی لکھا۔
1915 میں کیمبرج سے تعلیم
یافتہ سیف الدین کچلو سے شادی کرنے سے کئی سال پہلے، ان کا نام بطور ایک شاعرہ کے
بھی لیا جاتا تھا۔ انہوں نے قوم پرستی اور انسانیت پر نظمیں لکھیں۔ ان کے ایک نظم
کے اس شعر سے، "پیارے وطن کے نام پر جاؤں نثار میں، اُجڑے چمن میی دیکھوں
الٰہی بہار میں" ان کے جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔
22 سال کی عمر میں شادی کے
بعد وہ عوامی زندگی میں زیادہ سرگرم ہوگئیں۔ سیف الدین ایک ممتاز رہنما تھے۔ ایک
سرکردہ قوم پرست رہنما سے شادی کے بعد، سعادت اب بغیر کسی خوف کے لکھ سکتی تھیں۔
جب لالہ لاجپت رائے طویل جلاوطنی کے بعد پنجاب واپس آئے تو سعادت نے ایک جذباتی
نظم سے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے لکھا، ’’جب ہزاروں لوگ قومی فریضہ سے غافل
ہیں، تب بھی لاجپت نے قوم کی عزت کو سربلند کیا ہے‘‘۔
1919 میں سیف الدین کو
رولٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنے پر جیل بھیج دیا گیا۔ لوگوں نے اس کے خلاف احتجاج
درج کرانے کے لیے جالیانوالہ باغ میں ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا۔جالیانوالہ باغ
میں جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے، لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ سعادت کو
وہاں مظاہرین سے خطاب کرنا تھا۔ سعادت کو سننے کے لیے لوگ جمع تھے لیکن وہ وقت پر
پنڈال تک نہ پہنچ سکیں۔
جب سیف الدین جیل میں تھے،
سعادت نے اجلاسوں سے خطاب کیا، سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں، کانگریس کے اجلاسوں
میں شرکت کی، اخبارات میں لکھا، اور آل انڈیا ویمن کانفرنس کی سرگرمیوں میں حصہ
لیا۔ وہ ایک اچھی مقرر تھیں۔
سیف الدین کے ساتھ ساتھ سعادت
بھی جناح کے پاکستان کے مطالبے کے سخت خلاف تھیں۔ جب امرتسر سے زیادہ تر مسلمان
پاکستان فرار ہو گئے تو انہوں نے دہلی چھوڑ دیا۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد، سعادت
اپنے آخری دن یعنی 18 اگست 1970 تک خواتین کی تنظیموں اور امن کانفرنس میں سرگرم
رہیں۔
-----------
English
Article: Saadat Bano: One Of The Leading Women Thinkers In
India
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism