New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 09:18 AM

Urdu Section ( 24 Jun 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Saad Ansari Must Be Saluted For His Courage to Stand Up Against the Fanatics Who Mock Islam In The Name Of Blasphemy توہین رسالت کے نام پر اسلام کا مذاق اڑانے والے انتہا پسندوں کے خلاف سعد انصاری کی جرات کو سلام

 ارشد عالم، نیو ایج اسلام

 22 جون 2022

 کیا مسلمان واقعی دوہرا معیار رکھتے ہیں؟ عوامی زندگی کے لیے ایک اعتدال پسند چہرہ اور ایک 'حقیقی چہرہ' جب وہ اکثریت میں ہوں؟

 اہم نکات:

1.      پیغمبر اسلام کے بارے میں پوسٹ کرنے پر مسلمانوں نے سعد انصاری کو جسمانی طور پپر اذیت دینے کی کوشش کی۔

2.      مسلم انتہاء پسند اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے عقلی دلائل کے بجائے دھمکیوں کا سہارا لے رہے ہیں۔

3.      ہندو آزاد خیالوں اور مسلم رہنماؤں کی خاموشی زور زور سے سنائی دے رہی ہے۔

4.      کیا مسلم معاشرے کے اندر موجود عدم برداشت کو نظر انداز کر کے اکثریتی فرقے کی بڑھتی ہوئی عدم برداشت کے خلاف کوئی بامعنی لڑائی لڑی جا سکتی ہے؟

 -------

Saad Ansari arrested for sharing post, supporting suspended BJP spokesperson Nupur Sharma. Twitter

-----

 اپنے آپ کو عاشقِ رسول کہنے والے ایک پرجوش ہجوم نے ممبئی کے مسلم اکثریتی مضافاتی علاقے، بھیونڈی میں ایک گھر کا خطرناک طریقے سے محاصرہ کر لیا۔ وہ اس پوسٹ سے ناراض ہیں جسے بالواسطہ طور پر بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کی حمایت میں ایک نوجوان نے شائع کیا تھا، جسے اب پیغمبر اسلام کے بارے میں اس کے غیر اخلاقی تبصروں کی وجہ سے پارٹی سے معطل کر دیا گیا ہے۔ سعد انصاری نامی یہ لڑکا یہ نوجوان لڑکا جو انجینئرنگ کا طالب علم ہے، جو مذہبی معاملات سے ناواقف ہے، اس نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ توہین رسالت کے معاملے پر نادان بچوں کی طرح برتاؤ کرنے کے بجائے عقلمندی سے کام لیں۔ اپنی پوسٹ میں، اس نے مسلمانوں سے مندرجہ ذیل سوال پوچھا: "ایک 50 سالہ آدمی کا 6-9 سال کی بچی سے شادی کرنا بچوں کے ساتھ زیادتی ہے….. مجھے نہیں معلوم کہ آپ لوگ اس فعل کی حمایت کیسے کرتے ہیں۔ کیا آپ اپنی 6 سالہ بیٹی کو کسی 50 سالہ شخص کے حوالے کر سکتے ہیں؟ (اس کے بارے میں سوچیں)"۔

مسلمان کے پاس اس نوجوان مسلم لڑکے کی ذہنی الجھن کا جواب دینے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ وہ اس کے سامنے وہ تاریخی حوالے پیش کر سکتے تھے جب ایسی شادیاں عام ہوتی تھیں یا وہ دلیل دے سکتے تھے (جیسا کہ بہت سے بریلوی کرتے ہیں) کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کیا وہ انسانی فہم وفراست سے بالاتر ہے اس لیے ان کے کسی بھی عمل پر بات کرنا فضول ہے۔ لیکن آج کل کسی بھی مسلمان سے عقل و دانائی اور تہذیب وتمدن کی بات کرنا بہت بڑی بات ہے۔ انہوں نے اس کے گھر کا گھیراؤ کیا، اس کے ساتھ بدزبانی کی، اسے تھپڑ مارے اور اسے کلمہ شہادت (خدا کی وحدانیت کا عقیدہ) پڑھنے پر مجبور کیا۔ انہیں اس پر بھی صبر نہیں ہوا اور انہوں نے باضابطہ طور پر اس کے خلاف شکایت درج کرائی جس کی بنیاد پر اسے ممبئی پولیس نے گرفتار کر لیا۔

 سعد انصاری ایک نوجوان لڑکا ہے جس کی جرات قابل داد ہے۔ لیکن اس ہجوم کے اخلاقی پستی کا تصور کریں جس نے اسے پہلا کلمہ پڑھنے پر مجبور کیا۔ یہ وہی مسلمان ہیں جو یہ رٹ لگاتے پھرتے ہیں کہ اسلام کسی پر زبردستی نہیں تھوپا جا سکتا۔ وہ کہتے پھرتے ہیں کہ اسلام تسلیم و رضا کا نام ہے اور یہ جبر و اکراہ کے بجائے عدل وانصاف کی اپنی تعلیمات کے ذریعے پھیلا ہے۔ اور پھر بھی، وہ بغیر کسی افسوس کے اپنے ہی مسلمان بھائی پر زبردستی نافذ کرتے ہیں جب وہ اسلام کی مروجہ تفہیم پر سوال اٹھانے کی جسارت کرتا ہے۔  کیا مسلمان واقعی دوہرا معیار رکھتے ہیں؟ عوامی زندگی کے لیے ایک اعتدال پسند چہرہ اور ایک 'حقیقی چہرہ' جب وہ اکثریت میں ہوں؟ بھیونڈی کے تناظر میں، اکثریتی مسلمانوں کا جذبہ یہ تھا کہ یہ پیغمبر یا اسلام کے بارے میں ان کے فہم سے کسی قسم کا انحراف نہیں کرے گا۔

 اعتدال پسند مسلمانوں نے مسلم معاشرے کے اندر موجود عدم برداشت پر ہمیشہ آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے، وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ اختلاف رائے کی گنجائش کے بغیر، ہمارا معاشرہ فرسودہ ذہنیت کا شکار ہو کر رہ جائے گی۔ اور ہمارا معاشرہ کبھی بھی اختلاف رائے اور آزادی اظہار جیسے جدید نظریات کو اپنانے جیسے جدید چیلنجوں کا سامنا نہیں کر سکے گا۔

جو کوئی بھی مسلمانوں کے اندر مروجہ نظریاتی انداز سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے ایک ایسا ملحد قرار دیا جاتا ہے جو قوم کو بدنام کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ یہ صرف سعد انصاری کی ہی کہانی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بہت سے لوگوں کی بھی کہانی یہی ہے جن میں حامد دلوائی اور اصغر علی انجینئر بھی شامل ہیں۔ انہیں بھی سماجی اور مذہبی اصلاحات کے لیے آواز اٹھانے کے جرم میں سماجی بائیکاٹ اور کس چیز کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

 جب مذہبی بالادستی کا احساس عقل و دماغ پر حاوی ہو جاتاہے، تو پھر انسان صرف توہین مذہب سے متعلق قوانین کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ بنیادی طور پر معاشرے کے اندر موجود اعتدال یا اختلاف کی ہر آواز کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ صرف نوپور شرما کو ہی دھمکیاں نہیں دی جا رہی ہیں بلکہ سعد جیسے نوجوان مسلمان بھی خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔

 نوپور شرما کو لے کر بہت شور مچایا گیا لیکن سعد انصاری کے معاملے پر ہم نے مکمل خاموشی اختیار کر لی۔ کہاں ہیں ان مسلم صحافیوں اور سوشل میڈیا انفلوئنسروں کی آوازیں جو ہمیشہ مسلمانوں کی مظلومیت کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں؟ وہ سعد انصاری پر دھمکیوں اور دھونس کے بارے میں کیوں نہیں لکھتے؟ لیکن، ان سے اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مسلمانوں کو توہین رسالت کی سیاست سے لاتعلق ہونے کی تعلیم دینے کے بجائے، وہ اسے زور وشور کے ساتھ ہوا دے رہے تھے۔ مسلمانوں کے پاس مسلمانوں کے بارے میں لکھنے کے لیے صرف ایک ہی موضوع ہے اور وہ ہے مسلمانوں کی مظلومیت۔ اب قوم مسلم کے دیگر مسائل ہوا ہو چکے ہیں۔

 اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ ہندو لبرل کہاں ہیں جو نوپور شرما کے معاملے میں مسلم اعتدال پسندوں کو معاشرے کے درد کو سمجھنے کا درس دے رہے تھے۔ سعد کے ساتھ جو ہوا وہ اس کی مذمت کیوں نہیں کر رہے؟ اب ان کے قلم کیوں خاموش ہیں؟ ہم جانتے ہیں کیوں. ان کے قلم صرف اس وقت چلتے ہیں جب مظلوم مسلمان اور ظالم ہندو ہوں۔ سعد جیسے لوگوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ان کے بیانیے کے مطابق نہیں ہوتے اس لیے ایسی کہانیوں کو آسانی سے پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ عدم برداشت کبھی بھی یک طرفہ نہیں ہوتی۔ اگر ہمیں اکثریتی برادری کی عدم برداشت کو ختم کرنا ہے، تو ہمیں اپنے اندر کی عدم برداشت کو بھی ختم کرنے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔

کئی دہائی قبل، حامد دلوائی نے کافی جرات سے کام لیا کہ انہوں نے یہ محسوس کیا اور لکھا کہ کس طرح عدم برداشت کی دونوں شکلیں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کا ایک ساتھ مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ اعتدال پسند مسلمانوں نے ہمیشہ یہ تعلق قائم رکھا ہے۔ بہتر ہوگا کہ لبرل ہندو ہمیں یہ نہ بتائیں کہ کیا کرنا ہے اور کون سا سیاسی موقف اختیار کرنا ہے۔ وہ ہمیں لیکچر نہیں دے سکتے کہ موجودہ سیاسی تناظر میں مسلمانوں کے درد کو کیسے سمجھا جائے۔ بحیثیت مسلمان، ہم ہر دن اس درد کو محسوس کرتے ہیں اور اس کا تجربہ کرتے ہیں۔ لیکن اس سے ہم اندھے نہیں ہو جاتے کہ اسلام کے تحفظ کے نام پر ہمارے معاشرے میں کیا ہو رہا ہے ہم اسے دیکھ بھی نہ سکیں۔

 مجھے ترس آتا ہے ان لوگوں پر جنہوں نے سعد کو کلمہ پڑھنے پر مجبور کیا۔ اگر اس سے ان کا مقصد اس مسلم نوجوان کے اندر دوبارہ ایمان پیدا کرنا تھا تو وہ ناکام ہو چکے ہیں۔ کیونکہ ایمان کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جسے باہر کسی کے اوپر تھوپا جا سکے۔ ہاں، اس کا الٹا ہوسکتا ہے۔ سعد کبھی بھی اسلام پر اپنا عقیدہ نہیں رکھ سکے گا کیونکہ اس نے اس مذہب کے پیروکار کی غنڈہ گردی دیکھ لی ہے۔

 English Article: The Loneliness of Saad Ansari: He Must Be Saluted For His Courage to Stand Up Against the Fanatics Who Mock Islam In The Name Of Blasphemy

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/saad-ansari-fanatics-blasphemy/d/127310

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..