New Age Islam
Mon May 19 2025, 11:22 PM

Urdu Section ( 23 Jan 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Frank Interview of RSS Chief Mohan Bhagwat to Panchjanya and Organiser پنج جنیہ اور منتظم کو آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا انٹرویو: 1,000 سالہ جنگ، ہندوؤں کی فطری جارحیت، مسلم بالادستی، ایل جی بی ٹی کیو، وغیرہ

 اشوک شرما، نیو ایج اسلام

 21 جنوری 2023

 یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں مسلم حکمرانوں کی کئی صدیوں کی حکمرانی کے باوجود یہ مسلم اکثریتی ملک نہیں بن سکا۔ اس حقیقت کو موہن بھاگوت نے نظر انداز کر دیا ہے۔

 -----

آر ایس ایس کے سربراہ شری موہن بھاگوت

--------

 آر ایس ایس کے سربراہ شری موہن بھاگوت کا پنج جنیہ اور منتظم کو دیا گیا انٹرویو میڈیا میں بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا ہے۔ انہیں نے اپنے جوابات میں بڑی صاف گوئی سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنے کچھ نظریات کا پس منظر بھی لوگوں کے درمیان رکھا ہے۔

 سب سے پہلے جاری اس "1000 سالہ جنگ" کی بات جو انہوں نے اس انٹرویو میں کی ہے۔ اس میں وہ تمام ہجرتیں شامل نہیں ہیں جو ہندوستانی تاریخ میں دائمی طور پر بیان کی گئی ہیں اور آر ایس ایس نے اب تک ان کی تردید نہیں کی ہے۔ اسکندر کے حملے کا ذکر انہوں نے کیا ہے حالانکہ بہت کم یونانی ہندوستان میں ٹھہرے ہوں گے۔ اس کے علاوہ، بہت سے مورخین ہیں جن کا قیاس ہے کہ چتپاون برہمن (جن کا آر ایس ایس میں غلبہ ہے) بھی غیر ملکی نژاد ہو سکتے ہیں (شاید بنی اسرائیل کی طرح یہودی یا پرانے فلسطین کے علاقے سے تعلق رکھنے والے)۔ پھر ہونوں، کشانوں، باختریوں، سیتھیوں (ساکا یا شک) کی آمد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ برصغیر شمالی ہند کے کچھ حصوں پر ان کی بھی حکومت رہی ہے۔

 ہندوستان میں اسلام بہت جلد عرب تاجروں کے ذریعے پہنچا۔ کیرالہ، لکشدیپ اور جنوبی ہندوستان کے کچھ دوسرے حصوں میں سب سے پہلے اسلام کے پھیلاؤ کو دیکھا گیا۔ مالابار میں، میپلس اسلام قبول کرنے والی پہلی کمیونٹی ہو سکتی ہے۔ یہ سب 7ویں صدی میں ہی ہوا اور اس وقت تک کسی مسلمان حکمران نے برصغیر پاک و ہند پر کوئی حملہ نہیں کیا تھا۔ چیرامن پیرومل کے افسانے کے مطابق، پہلی ہندوستانی مسجد 624 عیسوی میں کیرالہ کے کوڈنگلور میں چیرا خاندان کے آخری حکمران نے تعمیر کی تھی، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اسلام قبول کیا تھا۔ آٹھویں صدی عیسوی کے دوران، بصرہ کے ایک مبلغ، ملک دینار نے جنوبی ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ کی۔ اسی طرح آٹھویں صدی کے آس پاس گجرات اور کونکن کے ساحل پر عرب اور فارسی مسلمانوں کے آباد ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ جس نے برہمن سندھی حکمران راجہ داہر کو شکست دے کر ہندوستان میں پہلی مسلم حکومت قائم کی، انہوں نے ہی ہندوستان میں سیاسی اسلام کا قیام کیا۔ بعد ازاں، غزنی کے محمود نے 11ویں صدی کے آغاز میں اپنی تیز گھڑ سوار فوج اور زبردست طاقت کے ساتھ ہندوستان کے شمال مغربی حصوں پر قبضہ کر لیا۔ تاہم، پہلی بڑی مسلم سلطنت (دہلی سلطنت) 13ویں صدی کے اوائل میں غوریوں (غوریدوں) اور ان کے غلاموں نے قائم کی تھی۔

 جب شری بھاگوت 1,000 سال پرانی جنگ کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو وہ اشارہ کرتے ہیں کہ یہ جنگ ہندوستان کے کچھ حصوں میں اسلامی حکومت کے شروع ہونے سے پہلے ہی شروع ہو چکی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے مطابق یہ جنگ محمود غزنوی کے حملوں کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی جس نے سومناتھ مندر کو تباہ کیا اور لوٹا تھا۔ اس نے ہندو نفسیات پر ایک مستقل داغ دے دیا ہے۔ ہم ہندوستان میں اسلام کے پھیلاؤ کے لیے استعمال کیے گئے ذرائع اور مقامی آبادی کے اسلام قبول کرنے کی بنیادی وجوہات کے بارے میں بحث نہیں کریں گے کیونکہ لوگوں کے پاس اس کی مختلف آراء اور مختلف توجیہات ہوں گی۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں مسلم حکمرانوں کی اتنی صدیوں کی حکمرانی کے باوجود ہندوستان مسلم اکثریتی ملک نہیں بن سکا۔ اس حقیقت کو موہن بھاگوت نے نظر انداز کر دیا ہے۔

 جہاں تک زبردستی یا کسی اور ذرائع سے تبدیلئ مذہب کا تعلق ہے، تو موہن بھاگوت یہ بھول رہے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب ہندوستان میں لوگوں نے بدھ مت کو قبول کر لیا تھا اور بعد میں پھر وہ زمانہ بھی آیا کہ یہاں ہندو مذہب کو اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں نے قبول کیا کہ ہندوستان سے بدھ مت تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ کیا ہم پشیامتر شنگ کی حرکتوں کو نظر انداز کر سکتے ہیں جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ اس نے بے شمار بدھ بھکشوؤں کو قتل کیا ہے؟ ہندوستان سے بدھ مت کے معدوم ہونے پر گہرے مطالعہ اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ کیا یہ بھی کوئی داشلی جنگ تھی؟ اس کے علاوہ، دیگر قدیم ہندوستانی مذاہب یا عقائد کا کیا ہوا جن میں شرمانک روایات جیسے اجیوکائیں شامل ہیں؟ چارواکوں یا لوکائیتوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا گیا؟ اب بھی بھارت میں بہت سے قبائل کے اپنے اپنے مذاہب ہیں اور ہندو مذہب میں اپنی شمولیت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ بہت سے دلت اور مول نواسی مفکرین کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کی طرف سے پوجے والے مختلف دیوتاؤں نے مقامی قبائلی رہنماؤں کو قتل کر دیا تھا جنہیں رکشاس (شیطان) کہا جاتا تھا۔ بہت سے دلت/آدیواسی مفکرین کا دعویٰ ہے کہ وہ ہندوستان کے اصل باشندے ہیں جنہیں باہر سے آنے والے آریوں نے غلام بنایا تھا۔ ذات پات کے نظام کو بھی انہوں نے اپنے اس عمل کے ذریعے واضح کیا ہے۔

 ہندوستانی معاشرے کے اندر ہزاروں سالوں سے ایک بڑی جنگ جاری ہے۔ جو لوگ منوسمرتی کی تعریف کرتے ہیں یا اس کا دفاع کرتے ہیں وہ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ شودروں کے ساتھ ہمیشہ سوتیلا سلوک کیا جاتا تھا۔ انہیں دوسروں کی طرح بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں تھے۔ کیا ہمارے آر ایس ایس کے دوست یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ذات پات کا نظام استعماری طاقتوں یا اسلامی حکومتوی کی پیداوار تھی؟ کیا غیر ملکی حملہ آوروں کے ہندوستان میں آنے سے پہلے ان کے ساتھ مساوی سلوک کیا جاتا تھا؟ اگر ایسا ہے تو پھر منو کی منوسمرتی اور چانکیہ کے ارتھ شاستر میں ان کے لیے الگ الگ اصول کیوں ہیں؟ منوسمرتی انٹرنیٹ پر آسانی سے دستیاب ہے اور شودروں کی اس میں کسی کیسی توہین کی گئی ہے کوئی معلوم کرنا چاہتا ہو تو اسے پڑھ سکتا ہے۔ ان کے ساتھ دوسرے درجے کے انسانوں جیسا سلوک کیا گیا جسے ان کے دھرم شاستروں نے جائز رکھا۔ آر ایس ایس کے تمام سربراہوں نے ذات پات کے تعصبات اور مظالم پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جو اب بھی وسیع پیمانے پر رائج ہیں۔

 کیوں صرف غیر ہندی نژاد مذاہب میں تبدیلی کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے؟ سکھ مذہب میں تبدیلی چند صدیاں پہلے ہی پیش آئی تھی۔ کیا یہ بھی اس جنگ کا حصہ تھا؟ دراصل ہندوتوا کے بڑے ایجنڈے میں سکھوں کو شامل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ہندو مذہب سے اب زیادہ تر لوگ بدھ مت میں جا رہے ہیں۔ سنگھ پریوار ایسی تبدیلیوں پر نسبتاً خاموش رہا ہے۔ تاہم، دہلی میں اے اے پی کے وزیر راجندر پال گوتم کے واقعہ کے بعد، بدھ مت میں تبدیلی بھی لوگوں کی نظروں میں آ گئی ہے۔ جیسا کہ دلت جدید دور میں اونچی ذات کے جبر و ستم کی وجہ سے بدھ مت اور عیسائیت کو اپنا رہے ہیں، آر ایس ایس اس حقیقت کو کیوں نظر انداز کرتی ہے کہ ہندوستان کے ذات پات کے نظام کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے۔

 اسلام اور عیسائیت باہر سے ہندوستان میں آئے تو ہندوستان سے بدھ مت بھی اپنے ملک سے باہر اس حد تک اپنے پاؤں پسارے کہ مشرق کے کئی ممالک بدھ مت کے دامن میں آ گئے۔ ان میں سے کئی ممالک میں بدھ مت کے ماننے والوں کی خاصی تعداد ہے۔ کیا ان ممالک میں بدھ مت کو بھی کسی مذموم منصوبے کا حصہ سمجھا جانا چاہئے، خاص طور پر جب ہندوستان سرکاری طور پر اس وراثت پر فخر محسوس کرتا ہے اور اسے ہندوستان کی نرم طاقت کے طور پر پیش کرتا ہے؟

 زیادہ تر ممالک اپنی سماجی اور مذہبی زندگیوں میں ایک نئی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ غیر مذہبی اور ملحد آبادی کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے ممالک ہیں جہاں کی اکثریتی آبادی کسی مذہب یا خدا کو نہیں مانتی۔ ہندوستان میں بھی ایسی آبادی کا فیصد تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کیا سنگھ پریوار انہیں بھگوان اور مذہب پر یقین کرنے پر مجبور کرے گا؟ کیا کچھ اسلامی ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی توہین رسالت کے قوانین ہوں گے جو مرتدوں کو سزا دیں گے؟

 بہرصورت، ہندوستان میں مذہب کی تبدیلیوں کا تناسب بہت کم ہے اور اس کی بے جا تشہیر غیر ضروری ہے۔ امکان ہے کہ ہندوستان میں اپنے اپنے مذاہب کو چھوڑنے اور عقلی پسند یا ملحد بننے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملے۔

 ایل جی بی ٹی کیو پر شری موہن بھاگوت کے تبصرے ایک خوش آئند پیش رفت ہیں۔ اگرچہ بڑے محتاط انداز میں، لیکن انہوں نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ ایسے لوگوں کو عام زندگی گزارنے کا حق ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ آئی پی سی کی دفعہ 377 (ایک وکٹورین وراثت) کو کسی بھی منتخب حکومت نے کبھی بھی منسوخ نہیں کیا اور کارکنوں کی مسلسل کوششوں کی وجہ سے آزادی کے 71 سال بعد سپریم کورٹ کو اسے ختم کرنا پڑا۔

 بھارت کے اندر آبادی میں اضافے کا مسئلہ ہماری پسماندگی اور غربت کی بنیادی وجہ ہے۔ وسائل محدود اور توقعات زیادہ ہیں۔ تاہم آر ایس ایس نے ہمیشہ اسے فرقہ وارانہ مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہ سچ ہے کہ کچھ قوموں میں شرح پیدائش زیادہ ہے اور وہ خاندانی منصوبہ بندی پر دوسروں کی طرح بھرپور طریقے سے عمل نہیں کرتے ہیں۔ اس میں تمام مذہبی فرقوں کے کچھ نہ کچھ حصے شامل ہیں۔ کچھ کی ثقافتی وجوہات ہیں جبکہ کچھ مذہبی بنیادوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ غربت اور تعلیمی پسماندگی سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ہمیشہ کچھ مذہبی جنونی ہوتے رہیں گے جو خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف تبلیغ کریں گے۔ بہتر تعلیمی سطح ہونے کے باوجود خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف بولتے ہوئے کچھ کیتھولک لوگ بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ مسلمان تعلیم اور معاشی بہبود کے پیمانوں پر کھڑے نہیں اترتے ہیں اور اس طرح کے غیر سائنسی دلائل کا شکار ہوتے ہیں۔ ہندوؤں کے غریب طبقے مثلاً دلت، او بی سی اور قبائل میں اسی طرح کی وجوہات کی بنا پر شرح پیدائش زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ اس لیے اس کا حل ان لوگوں کی معاشی اور تعلیمی ترقی کے ساتھ ساتھ عقلی سوچ اور سائنسی مزاج کی ترقی میں مضمر ہے۔ جناب ایس وائی قریشی، سابق چیف الیکشن کمشنر نے ایک کتاب ’دی پاپولیشن متھ‘ لکھی ہے جس میں اس مسئلے پر تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ بنگلہ دیش اور ایران جیسے اسلامی ممالک نے بغیر کسی تعزیری اقدامات کے کم شرح پیدائش حاصل کی ہے۔ درحقیقت ایران میں کم شرح پیدائش ایک مسئلہ بن چکی ہے۔ دراندازی کی وجہ سے آبادی کا عدم توازن کی بات اب بے اثر ہے۔ بنگلہ دیش کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ تاہم، حالیہ برسوں میں، وہ اقتصادی ترقی، برآمدات اور انسانی ترقی کے اشاریوں میں ہندوستان سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کی فی کس آمدنی پہلے ہی ہندوستان سے بڑھ چکی ہے۔

 شری بھاگوت کہتے ہیں کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوستان تقسیم ہوا۔ سینکڑوں سال کی اسلامی جارحیتیں بھی ہندوستان کو تقسیم نہ کر سکیں۔ یہ متحد (اکھنڈ) رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ نیشن اسٹیٹ کا تصور بہت تازہ ہے۔ ہندوستان ایک برصغیر تھا نہ کہ ایک قومی ریاست۔ ہندوستان کے مختلف حصوں پر مختلف ادوار میں مختلف بادشاہوں نے حکومت کی۔ اس برصغیر میں کئی ثقافتیں، کئی زبانیں اور بہت سی مذہبی روایات تھیں۔ تاہم، اس کے کچھ مذہبی معمولات، فلسفے اور عقائد مشترک تھے جو کئی صدیوں کے دوران مختلف نسلی گروہوں کے درمیان تعامل کے نتیجے میں پیدا ہوئے تھے۔ مختلف خطوں میں ان کی زبانیں، ثقافتیں، کھانے پینے کی عادات و اطوار، لباس، دیوتاؤں اور مذہبی رسومات بھی زندہ  رکھی گئیں۔ جس ہندوستان کو آج ہم جانتے ہیں، اس پر شاذ و نادر ہی کسی مرکزی اتھارٹی کی حکومت تھی۔ یہاں تک کہ اگر کبھی ایسا ہوتا تب بھی بہت سے حصے رہ جاتے تھے یا وہاں کے مقامی راجا/بادشاہ کبھی کبھار فاتح سمراٹ کی اطاعت قبول کر لیتے تھے۔ اگر اکھنڈ بھارت ایک قوم تھی تو پورے یورپ یا پورے عرب کو بھی ایک قوم ہونا چاہیے تھا۔ تحریک آزادی کے دوران ہی جدید ہندوستانی قومیت کے تصور نے جنم لیا۔ ورنہ اس برصغیر میں بہت سی چھوٹی چھوٹی سلطنتیں ایک دوسرے سے ہی لڑتی رہ جاتیں۔

 جہاں تک مسلمانوں کی جارحیت اور ان کے بالادستی کے نقطہ نظر کا تعلق ہے، تو ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ تمام مسلمان حکمران نہیں تھے۔ حکمران طبقہ بہت چھوٹا تھا۔ زیادہ تر مسلمان غریب کسان، مزدور اور کاریگر تھے۔ مسلمان بادشاہوں/سلطانوں کے دور میں مسلم حکمرانوں کی طرف سے کی گئی ناانصافیوں کا ذمہ دار مسلمانوں کے اس طبقے کو ٹھہرانا بالکل درست نہیں۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ہندو حکمران اپنی رعایا کے لیے مسلم حکمرانوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ مہربان تھے۔ دونوں نے اپنے زیر تسلط غریب لوگوں پر ٹیکس لگایا اور پیسہ عیش و عشرت اور جنگوں پر خرچ کیا۔ یہ سوچنا بے وقوفی ہے کہ کچھ مسلم رہنما یہ دعویٰ کریں گے کہ چونکہ ہم نے اس ملک پر حکومت کی ہے اور ہمیں اپنی کھوئی ہوئی شان کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت، زیادہ تر ہندوستانی مسلمان اور ان کے رہنما اسی طرح کے دیگر پسماندہ گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ہندوستانی معاشرے کے دیگر پسماندہ طبقات کے ساتھ ایک مشترکہ محاذ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 ساتھ ہی ساتھ کوئی اس بات سے انکار بھی نہیں کر سکتا کہ بہت سے اسلام پسندوں کا نظریہ برتری کا ہے۔ کوئی بھی اسلامی ملک غیر مسلموں کو مساوی حقوق نہیں دیتا۔ انڈونیشیا کو تکثیریت کی مثال کے طور پر پیش کیا گیا لیکن اسلامائزیشن کے عمل میں تیزی آئی ہے اور انڈونیشیا کی پارلیمنٹ نے دسمبر 2022 میں ایک نیا ضابطہ فوجداری منظور کیا ہے، جس سے انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون اور معیارات، خواتین، مذہبی اقلیتوں اور LGBT کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہوتی ہے اور جو آزادی اظہار اور انجمن کے حقوق کو مجروح کرتا ہے۔ اب بڑی تیزی کے ساتھ قوانین شریعت کے مطابق بنائے جا رہے ہیں۔ ملیشیا میں صرف مسلمان ہی ملائی (بھومی پترا) ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم ملائیشیائی بھی خود کو مسلمان کہنے پر مجبور ہیں (کیونکہ تمام ملائیشیائی کو مسلمان ہونا چاہیے اور وہ اپنا مذہب بدل نہیں سکتے) اور اس طرح ملیشیا کو مسلم اکثریتی ملک بنایا گیا۔ عرب ممالک، ایران، افریقہ کے بہت سے مسلم اکثریتی ممالک اور پاکستان وغیرہ کی مذہبی جنونیت پہلے سے مشہور ہے۔ یہاں تک کہ وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ کے وہ ممالک جو سوویت کے زیر اثر سیکولر ہوچکے تھے، وہاں بھی اب اسلام کا احیاء دیکھا جا رہا ہے۔ عام طور پر یہی مانا جاتا ہے کہ مسلمان جب اقلیت میں ہوتے ہیں تو سیکولرازم اور جمہوریت چاہتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ اکثریت میں آتے ہیں اسلامی ملک کا اعلان کر دیتے ہیں اور اقلیتوں کے حقوق چھین لیتے ہیں۔ غیر مسلم ممالک میں مسلم اکثریتی علاقوں میں ہمیشہ علیحدگی کی تحریکیں پائی جاتی ہیں اور وہ اپنا ایک مسلم اکثریتی ملک بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ روس اور چین نے بھی ایسی حرکتیں دیکھی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال فیلیپن کی ہے جہاں ایک مسلم اکثریتی جزیرے منڈاناؤ کو 2025 تک خود مختاری دی جانی ہے تاکہ اس کی اپنی ایک مسلم حکومت ہو۔ بہت سے مسلمان بھی الحاق سے انکار کرتے ہیں اور وہ ان ممالک کی روایات اور ثقافت کا احترام نہیں کرتے جو انہیں پناہ دیتے ہیں۔ یورپ کی طرف ہجرت کرنے والے بہت سے مسلمان مہاجرین مقامی ثقافتوں کو قبول نہیں کرتے اور ان لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں جنہوں نے انہیں پناہ دی تھی۔ شام، افغانستان اور عراق وغیرہ کے کچھ پناہ گزین یورپ میں مقامی خواتین پر مناسب لباس نہ پہننے کی وجہ سے حملہ کرتے پائے گئے ہیں۔ عمومی نظریہ یہی ہے کہ ہمارے ملک میں آئیں تو ہماری روایات کے مطابق زندگی گزاریں۔ جب ہم آپ کے ملک میں آتے ہیں، تو براہ کرم ہماری روایات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے اپنے آپ کو بدلیں اور کسی ایسے کام سے گریز کریں جو ہمارے نزدیک غلط ہے۔ یہ ایک بالادست نظریہ ہے اور اسلامی ماہرین کو اس پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔

 شام/عراق کے بحران کے دوران، کسی بھی عرب ملک نے پناہ گزینوں کو قبول نہیں کیا حالانکہ وہ دوسرے ممالک سے افرادی قوت درآمد کرتے ہیں۔ لاکھوں پناہ گزینوں کو یورپی ممالک اور کینیڈا وغیرہ نے قبول کیا جنہوں نے انہیں بسنے کے لیے مالی امداد بھی دی۔ سعودی عرب نے کیا کیا؟ سعودیوں نے مساجد اور مدارس کی تعمیر کے لیے اپنی رقم جمع کر رکھی ہے۔ سعودیوں نے صرف یورپ میں 200 سے زائد مساجد تعمیر کرنے کا وعدہ کیا۔ ان ممالک کے سماجی بہبود کے نظام کی بدولت یورپی سپر مارکیٹوں میں پناہ گزین خواتین کو برقعوں اور حجابوں میں کئی بچوں کے ساتھ اور اشیائے خوردونوش سے بھری شاپنگ کارٹس اٹھائے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم وہ اب بھی اپنی گفتگو میں یورپی ثقافت کو حقارت کے ساتھ تنقید کا نشانہ بناتے پائے جاتے ہیں۔ یہ یقینی طور پر اسلامو فوبیا کو جنم دیتا ہے۔ مسلم عصری مفکرین کو  کچھ کرنا چاہیے تاکہ ان کے نظریات میں اعتدال اور عقلیت پسندی پیدا ہو۔

 ہندوتوا نظریہ جس کا شری موہن بھاگوت نے دفاع کیا ہے اسے نہ صرف بی جے پی کے ووٹروں میں بلکہ ان لوگوں میں بھی وسیع پیمانے پر حمایت حاصل ہے جو بی جے پی کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ سنگھ پریوار ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے کے درمیان ظلم و ستم کی ذہنیت پیدا کرنے میں کامیاب رہا ہے جو صرف نام نہاد اعلیٰ ذاتوں تک محدود نہیں ہے۔ بہت سی او بی سی اور کچھ دلت ذاتیں بھی اپنی نئی شناخت کا جشن منا رہی ہیں جیسا کہ مذہبی تقریبات اور رسومات میں ان کی بڑھتی ہوئی شرکت سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا شکار ہندوستانی آئین کے بنیادی فرائض میں شامل عقلی سوچ اور سائنسی مزاج کی نشوونما ہے۔ یہاں پڑوسی ممالک سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ 1980 کی دہائی کے آخر تک، پاکستان کی فی کس آمدنی ہندوستان سے زیادہ تھی، اس کی کرنسی مضبوط تھی، اپنی آبادی کے لیے سامان اور حفظان صحت کی بھی بہتر دستیابی تھی۔ تاہم، بعد کے سالوں میں سیاست میں مذہب پر زیادہ زور دینے کی وجہ سے معاشرے پر طالبان ذہنیت غالب ہوئی جس کا حاصل یہ ہوا کہ پاکستان اب جنوبی ایشیا میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ دوسری طرف، بنگلہ دیش شیخ حسینہ واجد کی نسبتاً سیکولر حکومت کے تحت اعلیٰ فی کس آمدنی، روزگار میں اضافہ، خواتین کو بااختیار بنانے، بڑھتی ہوئی برآمدات اور انسانی ترقی کے اعلیٰ اشاریے حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اکثریتی طبقہ کو اپنا مذہب چھوڑ دینا چاہیے یا اپنی شناخت کھو دینی چاہیے۔ وہ قابل فخر ہندو رہ سکتے ہیں۔ لیکن، شناخت پر غیر ضروری توجہ اور خیالی جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات انہیں کہیں نہیں لے جائیں گے۔ 1,000 سال تک جاری رہنے والی جنگ کا خیال ایک رجعت پسندانہ خیال ہے کیونکہ یہ ہماری توجہ اصل مسائل سے ہٹاتا ہے اور ہمیں "غیر ملکی جارحیت، غیر ملکی اثر و رسوخ اور غیر ملکی سازشوں" کے خام تصورات میں مصروف رکھنا چاہتا ہے۔ تمام برادریوں کو بہتر حکمرانی، ملازمتوں، سماجی تحفظ اور بہتر زندگی کے مطالبے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔ یہ سائنسی مزاج، عقلیت پسندی اور سیکولرازم سے ہی ممکن ہے۔

 English Article: The Frank Interview of RSS Chief Mohan Bhagwat to Panchjanya and Organiser: 1,000-Year War, Consequent Natural Aggression Of Hindus, Muslim Supremacism, LGBTQ, Et Al

URL:  https://www.newageislam.com/urdu-section/rss-bhagwat-panchjanya-hindus-muslim-supremacism/d/128945

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..