شکیل شمسی
15ستمبر،2017
ہم سب جانتے ہین کہ ۱۹۴۷ عیسوی سے قبل تک پورا بر صغیر ایک ہی تھا۔ کراچی، ڈاکہ اور رنگون سب برطانوی ہندستان کا حصہ تھا۔ ہر ہندستانی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جا کر آباد ہونے کی پوری آزادی تھی، مگر برطانوی صکومت ختم ہوئی تو پاکستان اور برما الگ ملک بن گئے اور پھر ۱۹۷۱ عیسوی میں پاکستان تقسیم ہوا تو بنگلہ دیش کے نام سے ایک الگ ملک دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا اور وہ تمام بنگالی جن کے آباواجداد غیر منقسم ہندستان سے ہجرت کر کے وہاں آباد ہوئے تھے اچانک بنگلہ دیشی بنا دئے گئے۔ مقامی طور پر بنگالیوں کو روہنگیا کہا جاتا تھا کیونکہ جس علاقے میں وہ صدیوں سے آباد تھے اس کو رخائنگا اور روشنگا کہا جاتا تھا جو بعد میں روہنگیا ہو گیا۔ اس علاقے میں آباد ہونے والے بیشتر لوگوں کو یہاں پہنچانے میں ۱۸ ویں صدی میں پرتگالیوں نے اور انیسوی صدی میں انگریزوں نے بڑا اہم رول ادا کیا۔
غربت اور افلاس کے شکار بنگالیوں کو وہ کام کاج دینے کے لئےپانی کے جہازوں سے یہاں لاتے تھے اور پھر ان کو بندھوا مزدور بنا لیتے تھے۔ ان لوگوں کی واپسی کے سارے راستے مسدود ہو چکے تھے اس لئے یہ ہمیشہ کے لئے وہاں آباد ہو گئے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ارکان کے علاقے میں مسلمان اس سے پہلے آباد نہیں تھے۔ اس علاقے میں مسلم تاجروں اور مبلغوں کے آنے کا سلسلہ ساتویں صدی میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ چونکہ بحر عرب سے خلیج بنگال میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلی بندرگاہ میانمار کی ہی پڑتی تھی اس لئے عربوں کے تجارتی قافلے اور مبلغین کے کارواں اسی بندرگاہ پر اتر کر خشکی کے راستوں سے آگے کا سفر طئے کرتے تھے، لیکن خاص بات یہ ہے کہ اس طرف سے کسی بھی عربی یا عجمی مسلم حکمراں یا سلطان نے لشکر کشی نہیں کی۔ شمال مشرقی ریاستوں میں مسلمان کے داخل ہونے کے سلسلے میں جو باتیں تحریر کی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ برما کے ساحلوں پر اتر کر بہت سے مسلمان ہندستان میں آباد ہوئے۔
ان سب واقعات میں اہم ترین یہ ہے کہ ۱۵ ویں صدی میں بنگال کے سلطان جلال الدین (جنہوں نے ہندو مذہب ترک کر کے اسلام قبول کیا تھا) نے رخائنگا کے راجہ نرمیت ہیلہ کے خلاف ہونے والی بغاوت کو کچلنے کے لئے اپنے یہاں سے ایک مضبوط مسلم فوج بھیجی اور راجہ کا تخت و تاج بچایا۔ اس لئے رخائنگا کی حکومت ہمیشہ مسلمانوں کی ممنون اور متشکر رہی۔ ارکان کی عیاست رخائنگا کے راجہ نے مسلمانوں کے اس احسان کا بدلہ یوں چکایا کہ اپنی ریاست کا وزیر دفاع برہان الدین اور اشرف خان کو وزیر اعظم سید موسیٰ کو بنایا۔ اس کے نتیجے میں اگلے دو سال تک اراکان کو ایک مسلم ریاست سمجھا جانے لگا جبکہ وہ ہندو مسلم اتحاد کی ایک شاندار علامت تھی۔
ارکان کے ہندو راجہ کی کابینہ مسلمانوں پر مشتمل تھی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ برما کے بہت سے بدھسٹوں نے اسلام قبول کر لیا جس کی وجہ سے وہاں کے بودھ رہنما کافی پریشان رہے، مگر ان کے درمیان کبھی جنگ و جدال کی نوبت نہیں آئی، حالانکہ ۱۹۴۲ عیسوی میں دوسری جنگ عظیم کے موقع پر اس علاقے میں برطانیہ اور جاپان نوازوں کے درمیان کافی زبردست فسادات ہوئے جن کو فرقہ وارانہ تصادم کہا گیا لیکن وہ ایک سیاسی لڑائی تھی، دوسری جنگ عظیم کے بعد دونوں فرقوں کے درمیان رشتے استوار ہو گئے یہاں تک کہ رخائین کے علاقے سے مسلم سیاستدانوں کو برمی پارلیمنٹ میں نمائندگی بھی ملنے لگی۔ اصل مسئلہ انیسویں صدی کے اواخر میں اس وقت شروع ہوا جب ۱۹۶۲ میں برما کے فوجی جنرل نے ون نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے کچھ برس بعد رخائین میں آباد لاکھوں مسلمانوںکی شہریت ختم کر دی ، ان کے حقوق سلب کر لئے، سرکاری نوکریوں میںان کی بھرتی کی ممانعت ہو گئی اور سرکاری اسکولوں میں ان کے بچوں کا داخلہ بند ہو گیا۔ جب انھوں نے احتجاج کیا تو ان پر مظالم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
پہلی بار ۱۹۷۸ عیسوی میں مسلمانوں کا خون بہایا گیا، پھر ۱۹۹۱ء ،۱۹۹۲ء، ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۶ء میں ان پر یلغار ہوئی۔ اس کے بعد تنگ آمد بجنگ آمد کی مثل سچی ثابت ہوئی اور مقامی مسلمانوں نے مسلح مزاحمت شروع کر دی ، لیکن انھوں نے دہشت گردی اختیار نہیں کی اور برما کے شہریوں کو نشانہ بنانے کے بجائے فوجیوں پر حملے کرنا شروع کر دئے، روہنگیا مسلمانوں پر حالیہ عتاب کا سبب یہ ہے کہ مسلح مسلمانوں نے برمی فوج کے ۹۰ سپاہیوں کو ۲۵/ اگست کو ایک حملے میں مار دیا تھا، اب مدافعتی گروہوں کے حملوں کا انتقام برما کی فوج نہتے شہریوںکا خون بہا کر لے رہی ہے۔
15ستمبر،2017 بشکریہ:انقلاب نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/rohingya-muslims-/d/112527
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism