New Age Islam
Fri Oct 11 2024, 11:04 PM

Urdu Section ( 20 Jan 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Revisiting Salman Rushdie’s Satanic Verses سلمان رشدی کی کتاب شیطانی آیات کا از سر نو مطالعہ

 

راشد سمناکے ، نیو ایج اسلام

28 نومبر 2017

مرور زمانہ کے ساتھ انسان کی زندگی میں پیش آنے والے مختلف واقعات کے متعلق انسان کے نقطہ نظر میں اس وقت تبدیلی پیدا ہوتی ہے جب انسان کو ایسی کچھ منطقی اور بنیادی بیانات اور متعلقہ معلومات سے آگہی ہوتی ہے جن سے ان واقعات پر ایک مختلف یا کوئی نیا نقطہ نظر قائم ہوتا ہے۔

سن اَسّی کے اواخر میں رشدی کی کتاب شیطانی آیات کا 'مغموم اور متعصب ذہن' کے ساتھ مطالعہ کرنے میں کتاب کے ایک انتہائی اہم پہلو ہر توجہ نہیں دی گئی۔ حال ہی میں اس کتاب کو دوبارہ پڑھنے اور ایک اردو کتاب کے درج ذیل بیان کا مطالعہ کرنے کے بعد میں اسے سمجھنے میں کامیاب ہو سکا جس کے نتیجے میں کتاب شیطانی آیات کی ایک تازہ تفہیم کا دروازہ میرے ذہن میں کشادہ ہوا۔

صفحہ 28 کے ان اقتباسات نے میرے اندر یہ تبدیلی پیدا کی: "اگر سلمان رشدی اس باطل 'حدیث غیر متلو’پر مبنی ایک فکشن تحریر کرنے کا مجرم ہے جسے سلمان نے شیطانی آیات کا نام دیا ہے تو کیا اس نے در حقیقت اس گستاخانہ حدیث کی مذمت نہیں کی ہے۔ جس کی بنیاد پر اس کے اوپر موت کا فتوی جاری کیا گیا تھا؛ شاید اس لیے کہ اس نے صحیح بخاری کی ایک حدیث کو شیطانی آیات کہا تھا؟ "

اس اردو کتاب کی تفصیلات حسب ذیل ہیں جس سے مندرجہ بالااقتباس نقل کیا گیا ہے:-

'حجت صرف قرآن ہے'۔ (اس کی تائید صوت الحق کے ایڈیٹر حسین امیر فرہاد مرحوم نے کی ہے)۔ موصول از پوسٹ باکس خیر محمد بوہیو، ماتحت نوشیر اور فیروز، سندھ۔ کتاب کے مصنف عزیز اللہ بوہیو ہیں۔

میں نے مندرجہ بالا نقطہ نظر سے شیطانی آیات کا مطالعہ کیا، اس کی شہ سرخی سے یہ بات واضح ہے کہ رشدی نے "صحیح" بخاری ، مسلم اور دیگر نام نہاد "شریف" اور جعلی دستاویزات کی مذمت کی ہے جس میں جزیرہ عرب میں مبعوث کئے جانے والے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہتان ، الزام تراشی اور کردار کشی کی گئی ہے، جنہیں حدیث کی ان ضخیم کتابوں پر ایمان رکھنے والے اپنا مقدس نبی مانتے ہیں! متعدد مواقع پر سلمان نے یہ کہا ہے کہ یہ تمام کہانیاں کتب حدیث سے ماخوذ ہیں اور اسی بات نے "اسلامی علماء" کی ایک جماعت کو مطمئن کیا ہے!

لہذا سلمان نے انہیں شیطانی قرار دیکر خود کو ایک مثالی ، حساس اور 'اچھا مسلمان' ثابت کیا ہے!

یہی معاملہ برصغیر غیر منقسم ہندوستان کے ایک شاعر اور فلسفی محمد اقبال کا بھی ہے ، ابھی ایک صدی بھی نہیں گزری ہے کہ جب اس نے اسی طرح کی ایک حساس شاعرانہ شکایت خدا کو خطاب کرتے ہوئے تحریر کیا تھا، جس نے مذہبی جماعتوں کی سنجیدگی کو مجروح کیا اس لئے کہ کوئی بھی ان کے بغیر خدا تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ انہوں نے اس وقت کے مسلمانوں کی افسوسناک صورت حال کو بیان کیا ہے۔ جس نے مسلم دنیا کے اندر ایسی افراتفری پیدا کر دی کہ ان کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کر دیا گیا۔ اس نے اقبال کو خدا کی طرف سے شاعر کے الفاظ میں ایک جواب لکھنے پر مجبور کر دیا۔ لہٰذا، کسی طور پر علماء نے خدا سے بات کرنے کے لئے ان کی جسارت کو تسلیم کیا۔

کیا مذہبی جماعتوں کو خاموش کرنے کے لئے مناسب ہوگا کہ وہ بھی شیطانی آیات کے تنازعات پر ردعمل میں اسی طرح کا ایک جواب بھی تحریر کریں؟

لیکن جب انہیں توہین آمیز اور افترا پرور الزامات کو قدیم ساسانی وسطی ایشیائی ائمہ اور آج بھی علماء اپنے مساجد کے منبروں سے بیان کرتے ہیں تو پوری بےشرمی کے ساتھ انہیں نبی ﷺ کے "اعمال اور اقوال"، قرار دیا جاتا ہے جنہیں عزیز اللہ کی زبان میں ' یزدیگاری' راویوں نے بیان کیا ہے۔ انہیں کسی کے اندر توہین قرار دینے کی جرأت نہیں ہوتی ، جس جرم کے لئے حساس مسلمان کو موت کی سزا دی جاتی ہے۔

سلمان رشدی کے اس پیچیدہ فکشن شیطانی آیات کو ایک ہی مطالعہ میں سمجھنا ایک غیر جانبدار انسان کے لئے بھی آسان نہیں ہے۔ تاہم اس میں بددیانتی کے ساتھ گڑھی ہوئی حدیثوں کے حوالہ جات کو واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ لہٰذا، جن لوگوں کے لئے یہ حدیثیں "مقدس، شریف اور صحیح" ہیں، ان کے لئے یہ تشویش ، اذیت اور گستاخی کا سبب ہے۔

شاید اسی وجہ سے ایران کے ایک سپریم روحانی رہنما خمینی نے اس کتاب کے مصنف پر موت کا فتوی جاری کیا ہے۔ اس وقت اس فتویٰ نے سلمان رشدی کے خلاف چند لوگوں کو متاثر کیا تھا اس لئے کہ وہ مسلمانوں کی ایک برادری کے اندر اختلاف و انتشار کا سبب بن رہے تھے۔ جیسا کہ امام خمینی کو ایک ترقی پسند لیڈر سمجھا جاتا تھا، اگرچہ وہ ایک مذہبی رہنما ہیں؛ دوسری انقلاب میں شاہ کو بے دخل کرنے کے ان کے اقدام کو ترقی پسند قیادت سمجھا گیا تھا اور ایک مذہبی رہنما کے طور پر ان کی شناخت کو پس پشت ڈالنے کے لئے صرف یہی بات کافی تھی۔

پہلا ایرانی انقلاب ایران کے وزیراعظم ڈاکٹر محمد مصدق کے ذریعہ شاہ کو روم بھیجے جانے کے صرف چند سال قبل ہی شروع ہوا تھا۔ خاص طور پر دنیا کی جمہوریت کے محافظ نے اپنی سی آئی اے کے ذریعہ ایرانی عوام پر شہنشاہ کی مطلق بادشاہت کو دوبارہ مسلط کر دیا!

لیکن ایک چیتے کی طرح ایک مذہبی رہنماکبھی بھی اپنی شناخت تبدیل نہیں کرتا۔ قرآن مجید کے ایک عالم ہونے کے ناطے انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ صرف خدا کوہی فتویٰ صادر کرنے کا حق حاصل ہے یہاں تک کہ رسول کو بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے- 4:127۔ اس وجہ سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ فتوی جاری کرنے والا ایک انسان خود کو خدا سمجھ رہا ہے۔ مزید یہ کہ ایران کے سپریم مذہبی ادارے نے یہ کہا کہ چونکہ اس فتویٰ کو جاری کرنے والے مفتی انتقال کر چکے ہیں اسی لئے اس کو مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے۔

صرف خدا کے کلام میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی جیسا کہ قرآن مجید کا فرمان ہے 33:62۔ لہذا، وہ خود کو شاید خدا سے کم نہیں سمجھتے۔ ظاہر ہے کہ موت کی سزا آج تک قائم ہے۔

برطانوی حکومت نے اکثر اپنے مستقل دوست امریکہ کے ساتھ مل کر سازش میں اگرچہ مسلمانوں کے قومی مفادات کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں رکھتی ہے ، جیسا کہ ایرانی انقلاب اور نام نہاد عرب بہاریہ میں اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ، لیکن  اس کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رشدی جیسے کچھ معاملات میں اس نے اپنے مسلم شہری سلمان کے معاملے میں انہیں 24/7 تحفظ فراہم کر کے ایک اچھا کردار ادا کیا ہے، اس لئے کہ اس فتویٰ کے خلاف انہیں اس کی سخت ضرورت تھی۔

اور محمد اقبال کی طرح انہوں نے سلمان رشدی کو ان کی قابلیت پر انہیں اعزاز دیا۔ فکر و نظر کی صلاحیت رکھنے والے مسلم ملک کو اس عمل کے لئے شکر گزار ہونا چاہئے۔ یہ دونوں جوانمرد اپنے کاموں کے ذریعہ محمد ﷺ کے ناموس کی حفاظت کر رہے تھے۔

اگرچہ اقبال نے چند الفاظ میں مسلمانوں سے خدا کے مطالبہ کو پیش کیا ہے:

کی محمد سے وفا تونے تو ہم ےتیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہےکیا لوح و قلم تیرے ہیں

اب یہ سر سلمان کی ذمہ داری ہے کہ ایک حساس مسلم کے طور پر وہ بھی ایسا ہی کچھ لکھیں، اور ایک بہتر مسلمان کے طور پر اپنی قابلیت کو ثابت کریں۔

مسلمانوں کی دماغی حالت ایسی ہے کہ ان کے یزگاری اماموں کے بیانات نے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا! بارہ سو سالوں پر پھیلی ہوئی قرآن کریم کی غیر مستند اور متعصب تعبیر و تفسیر نے مسلم قوم کو ان کی خواہشات کا غلام بنا دیا ہے ، لہٰذا، جو کوئی بھی ان کی جہالت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے وہ آسانی کے ساتھ اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔

انتہا پسند سوچ کی ایک شاندار مثال کی طرف اشارہ کرنے کے لئے میں عزيز اللہ کا شکر گزار ہوں کہ جس نے قارئین کے طرز فکر و نظر میں ایک بڑی تبدیلی پیدا کی ہے اور انہیں مذہبی تاریکی سے اوپر اٹھ کر سوچنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

شیطانی آیات پر غور کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لئے امام خمینی کا بھی شکریہ ادا کیا جانا چاہئے ، جس کی وجہ سے سلمان رشدی کو پوری دنیا میں شہرت عامہ حاصل ہوئی ،جس کے بغیر ان کا کوئی ذکر بھی نہیں ہوتا، بہادری اور مالداری تو دور کی بات ہے۔

متنوع اور مختلف خیالات کے اظہار کو فروغ دینے اور ایک فورم فراہم کرنے کے لئے نیو ایج اسلام کا بھی شکریہ ادا کرنا ضروری ہے۔ جو کہ 'تقریر کی آزادی' کے باب میں ایک نئی جہت کا آغاز ہے جسے مسلم دنیا کو اب پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔

URL for English article:https://newageislam.com/the-war-within-islam/revisiting-salman-rushdie’s-satanic-verses/d/113380

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/revisiting-salman-rushdies-satanic-verses/d/113994

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..