غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
21 اگست، 2017
اسلامی تصوف میں توبہ کو سالکانِ راہ حق کا سب سے پہلا مقام مانا جاتا ہے، جیسے طہارت کو ان لوگوں کا پہلا قدم قرار دیا گیا ہے جو اللہ تعالی کی عبادت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں[ i ] ۔ اس کی مثال زمین کے ایک ٹکڑے کی ہے جو کہ بنیاد رکھنے کے لئے ضروری ہے؛ اس لئے کہ جس شخص کے پاس زمین کا کوئی حصہ نہ ہو وہ کسی بھی عمارت کی بنیاد نہیں رکھ سکتا۔ اسی طرح جو شخص اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کرتا اور اللہ کی بخشش طلب نہیں کرتا ہے وہ اسلامی تصوف کے میدان میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ [ ii]
اللہ تعالی فرماتا ہے، "اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے"( ترجمہ کنز الایمان 66:8)
مفتی نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں، "خالص توبہ وہ ہے جس کے اثر سے انسان تمام برے اعمال کے ارتکاب کو ترک کر دے اور نیک اعمال کا عادی بن جائے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقی معنوں میں توبہ کا لفظی معنی پچھلے گناہوں پر نادم ہونا اور مستقبل میں گناہوں سے بچنے کا ایک مضبوط عہد کرنا ہے۔ توبہ کی مختلف قسمیں ہیں: کفر و الحاد سے توبہ، ظلم و عدوان سے توبہ، انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے توبہ، وغیرہ۔ ‘‘توبۃ نصوحا’’ کا مطلب یہ ہے کہ توبہ کرنے کے بعد انسان کسی بھی گناہ کا ارتکاب نہ کرے ، جس طرح دودھ تھن سے باہر نکل جانے کے بعد کبھی دوبارہ اس میں داخل نہیں ہوتا۔ [ iii]
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، "اللہ کو اس نوجوان سے زیادہ محبوب کچھ بھی نہیں ہے جو توبہ کرتا ہے"۔ [ 4]
پیارے نبی ﷺ نے فرمایا، "جو اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے وہ ایسا ہے گویا کہ اس نے کسی گناہ کا ارتکاب ہی نہیں کیا ہے۔ جب اللہ کسی شخص سے محبت کرتا ہے تو اسے گناہ ضرر نہیں پہونچائے گا۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے قرآن کریم کی یہ آیت (2:222) تلاوت کی۔ "بیشک اللہ پسند کرتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے سھتروں کو (ترجمہ: کنز الایمان)" [ v]۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید فرمایا: "اللہ کی قسم اللہ اپنے بندے کی توبہ سے اس سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا ہم اس وقت خوش ہوں جب بے آب و گیاہ صحرا میں ہمارا گم شدہ اونٹ مل جائے۔" [vi]
شیخ ابو الحسن شاذلی کی عربی کتاب ‘‘المفاخر العلیہ فی المآثر الشاذلیہ’’ سے مندرجہ ذیل ترجمہ میں گناہوں سے توبہ کرنے اور اس سے مغفرت طلب کرنے (استغفار) کی وضاحت ہوتی ہے ۔
" توبہ کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم یہ ہے کہ انسان کو اللہ سے ڈرے اور ہمیشہ اس بات کو ذہن میں رکھے کہ خدا اسے سزا دینے کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ دوسری قسم یہ ہے کہ انسان کو اللہ سے ڈرنا چاہئے کیونکہ وہ اس کے بالکل قریب ہے۔ لغت میں ' توبہ' کا معنیٰ 'گناہوں سے باز آنا اور گناہوں سے یہ باز آنا دو قسموں کا ہے؛ سب سے پہلی قسم عام لوگوں کا گناہوں سے باز آنا اور دوسری قسم خاص لوگوں (صوفیاء اور نیک بندوں) کا گناہوں سے باز آنا ہے۔
عام لوگوں کی 'توبہ' کی بھی تین قسمیں ہیں۔ سب سے پہلی قسم کفر سے باز آنے اور ایمان اور اسلام قبول کرلینے کے بعد کافروں کی توبہ، اس لئے کہ اپنی شان عبودیت کے ساتھ اپنے نفس کو پہچاننا اور ذات خدا وند قدوس کو اس کی تمام صفات (ربوبیت) کے ساتھ تسلیم کرنا ایک بندے کے اوپر لازم و ضروری ہے۔ جو شخص اللہ تعالی کے ایک بندے کی حیثیت سے اپنے فرائض سے غفلت برتتا ہے، دنیا کا کاروبار اسے آخرت کے بارے میں فکر مند ہونے سے محروم کردیتا ہے۔ ایسا شخص شیطان کا ساتھی بن جاتا ہے۔
دوسری قسم کی 'توبہ' گنہگار مسلمان [ فاسقین ] کی ہے جو بڑے گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں یا کوئی جرم انجام دیتے ہیں۔ اس قسم کی توبہ کے لئے چھ شرائط ہیں: اول، پچھلے گناہوں پر شرمندگی محسوس کرنا اور یہ انسان کو مستقبل میں اعلی مقام حاصل کرنے کی ترغیب دیتاہے؛ دوم، حال میں گناہوں کو ترک کرنے اور دوبارہ ان گناہوں کے ارتکاب نہ کرنے کا مکمل عزم کرنا؛ سوم، ان ساز و سامان کو انہیں واپس کر دینا جن سے اس نے توبہ کرنے سے پہلے لیا تھا۔ چہارم، اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا کرنا جو اس نے ترک کر دیا ہے۔ پنجم، اپنے قلب و باطن کو عبادات میں اسی طرح مشغول کرنا جس طرح وہ توبہ سے قبل گناہوں میں ڈوبا ہوا تھا، ششم، رات کے آخری پہر میں اللہ کے حضور گریہ و زاری کرنا تاکہ وہ پچھلے گناہوں کو معاف کردے۔
تیسری قسم کی 'توبہ' عام مسلمانوں کی توبہ ہے۔ یہ ان معمولی گناہوں سے ' توبہ ' ہے جو انسان غلطی، غفلت یا جہالت کی بنیاد پر انجام دیتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے، "وہ توبہ جس کا قبول کرنا اللہ نے اپنے فضل سے لازم کرلیا ہے وہ انہیں کی ہے جو نادانی سے برائی کر بیٹھیں پھر تھوڑی دیر میں توبہ کرلیں ایسوں پر اللہ اپنی رحمت سے رجوع کرتا ہے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔ "(ترجمہ : کنز الایمان 4:17)۔ اور یہ مقام عام مسلمانوں اور خاص طور پر ان گنہگار مسلمانوں کے لئے ہے جو'عالم ارواح' میں تیسرے قطار میں تھے (جب اللہ نے اس زمین اور آسمان کی تخلیق سے پہلے تمام روحوں کو پیدا کیا تھا)۔
دوسری قسم کی 'توبہ' مخصوص لوگوں (صوفیاء اور عرفاء) کی توبہ ہے۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں: اول، خاص لوگ (عام صوفیاء اورعرفاء) کی توبہ، دوم، اخص الخاص کی توبہ۔ پہلی قسم کی توبہ اللہ سے خود کو ان خیالات اور خطرات سے محفوظ رکھنے کے لئے استعداد طلب کرنا ہے جو انہیں دنیاوی معاملات میں پیش آتے ہیں۔ یہ اللہ کے عام ولیوں اور خاص مسلمانوں کا مقام ہے جو 'عالم رواح' میں دوسری قطار میں تھے۔ اخص الخاص کی 'توبہ' دل کو پوری طرح سے خدا کی یاد میں مشغول رکھ کر اور دنیا کے تمام معاملات سے برطرف ہو جانا ہے۔ یہ اللہ کے ان خاص ولیوں کا مقام ہے جو 'عالم رواح' میں سب سے پہلی قطار میں تھے اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی ایک حدیث میں اس مقام کا تذکرہ کیا ہےکہ: "بیشک جب میں اپنے قلب پر ہلکا سا بھی حجاب محسوس کرتا ہوں تو میں اللہ کی بار گاہ میں ستر مرتبہ 'استغفار' کرتا ہوں، "(صحیح مسلم، مشکوٰۃ باب الاستغفار، نمبر 2324۔ (VII)
حضرت ذوالنون مصری کہتے ہیں، "توبہ کی دو قسمیں ہیں؛ اول، رجوع کی توبہ [توبۃ الانابت] دوم شرم و ندامت کی توبہ [توبۃ الاستحیاء]۔ اول الذکر توبہ عذاب الٰہی کے خوف سے ہے۔ جبکہ مؤخر الذکر توبہ اللہ کی رحمت و مہربانی پر شرم و حیاء سے ہے۔ جبکہ شرمنددگی والی توبہ کا محرک حسن الٰہی کا مشاہدہ ہے۔ جو لوگ شرمندگی محسوس کرتے ہیں وہ مخمور ہیں اور جو لوگ خوف محسوس کرتے ہیں سنجیدہ مزاج ہیں۔ [ viii]
پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ، "احساس ندامت توبہ کا عمل ہے "۔ یہ قول تین ایسی چیزوں پر مشتمل ہے جن کا تعلق توبہ کے ساتھ ہے، یعنی (1) نافرمانی پر احساس ندامت کا اظہار، (2) گناہ کو فوری طور پر ترک کرنا، اور (3) دوبارہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عہد کرنا۔ [ ix]
توبہ کے تین مقامات ہیں 1) عذاب الٰہی کے خوف سے توبہ ، 2) انابت، انعام الہی کی خواہش سے توبہ اور 3) اوبہ ، احکامات الٰہیہ کی پاسداری کے لئے توبہ۔ توبہ عام مؤمنوں کا مقام ہے اور اس کا مطلب بڑے بڑے [کبیرہ]گناہوں پر احساس ندامت کا اظہار کرنا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے، "اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے"(ترجمہ: کنز الایمان 66:8)۔ اور انابت، اللہ کے خاص بندوں یعنی اولیاء اور مقربین کا مقام ہے، جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: " اور پاس لائی جائے گی جنت پرہیزگاروں کے کہ ان سے دور نہ ہوگی، یہ ہے وہ جس کا تم وعدہ دیے جاتے ہو ہر رجوع لانے والے نگہداشت والے کے لیے، جو رحمن سے بے دیکھے ڈرتا ہے اور رجوع کرتا ہوا دل لایا" (33-50:31)۔ خوف اور احترام پر مشتمل خوف " خشیت" کہا جاتا ہے اور اسے حاصل کرنا اللہ تعالی کا زبردست فضل ہے۔ خوف جاں گزیں کرنے کے کسی بھی ذرائع کے بغیر صرف انبیاء علیہم السلام کی آواز پر اللہ تعالی سے خوف۔ اس آیت میں عربی الفاظ "قلب منیب" کا ذکر ہے جس سے مراد ایسا ندامت بھرا دل ہے جو "مصیبت اور آزمائش کے دور میں مکمل طور پر صابر اور خوشحالی کے دور میں مکمل طور پر شاکر ہو اور ہمیشہ ہر حال میں اللہ کی عبادت کرتا ہو۔ عظیم صوفیاء اور عرفاء یہ کہتے ہیں کہ ایک صابر و شاکر دل اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے جو صرف خوش قسمت لوگوں کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ [ X] اوَّاب نبیوں اور رسولوں کا مقام ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے، ‘‘اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا فرمایا، کیا اچھا بندہ بیشک وہ بہت رجوع لانے والا’’ (38:30)۔
توبہ عظیم گناہوں سے اطاعت کی طرف رجوع کرنا ہے۔ انابت معمولی گناہوں سے محبت کی طرف لوٹنا ہے۔ اوبہ اپنے نفس سے اللہ کی طرف واپس لوٹنا ہے۔ [ Xi]
جب کوئی شخص اپنے برے اور ناپسندیدہ کاموں پر غور کرتا ہے تو وہ ان سے نجات طلب کرتا ہے اور اللہ اس کے لئے توبہ کو آسان بنا دیتا ہے اور اسے دوبارہ اطمینان قلب کی خوشی میسر آتی ہے۔ صالحین و صوفیاء اور عرفاء کی رائے کے مطابق، جس شخص نے ایک گناہ سے توبہ کیا اور دوسرے گناہوں کا ارتکاب جاری رکھے وہ اس کے باوجود ایک گناہ سے توبہ پر انعام الٰہیہ حاصل کر سکتا ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اس انعام کی برکت سے دوسرے گناہوں سے بھی بچ جائے گا۔ [ xii]
مختصر یہ ہے کہ توبہ اللہ تعالی کے قریب آنے اور اس کی محبت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ تبدیلیٔ زندگی کا ایک عمل اور پاکیزگی کی اصل حالت پر واپس آنے کا ایک طریقہ ہے۔ توبہ اللہ تعالی کو راضی کرنے کا ذریعہ ہے، ہمارے دل کو پاک کرتی ہے اور ہمیں مشکلات اور آزمائشوں سے دور رکھتی ہے۔ اللہ نے ہمیں قرآن کریم میں توبہ کے بارے میں بار بار یاد دلایا ہے۔ مثال کے طور پر، اللہ تعالی فرماتا ہے، "کیوں نہیں رجوع کرتے اللہ کی طرف اور اس سے بخشش مانگتے، اور اللہ بخشنے والا مہربان۔ "(5:74)۔ "بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔" (2:37)۔ مگر وہ جو توبہ کریں اور سنواریں اور ظاہر کریں تو میں ان کی توبہ قبول فرماؤں گا اور میں ہی ہوں بڑا توبہ قبول فرمانے والا مہربان۔ (2:160)۔
اللہ تعالی ہماری توبہ اور بخشش قبول فرمائے۔
(انگریزی سے ترجمہ)
[۱] حضرت علی بن عثمان الہجویری العروف داتا گنج بخش ، کشف المحجوب (اردو ایڈیشن)، ضیاء الحق پبلکشنس ص۔484،
[II] شیخ ابوالحسن شاذلی: المفاخر العلیہ فی المآثر الشاذلیہ (عربی ایڈیشن)، مکتبہ ازہریہ مصر، صفحہ 152
[iii] سید نعیم الدین مراد آبادی ، خزائن العرفان اور کنز الایمان ، ضیاء الحق پبلکشنز، ص۔ 814
[IV] ابن عساکر الدمشقی الشافعی الاشعری ، کتاب التوبہ ، (عربی)
[وی] امام عبد کریم قشیری ، رسالا قشیریہ، باب توبہ (عربی / الکلیانی اصول الکافی ، حدیث 10 / حضرت علی بن عثمان الہجویری العروف داتا گنج بخش ، کشف المحجوب (اردو ایڈیشن)، ضیاء الحق پبلکشنس ص۔484۔
[VI] صحیح مسلم، کتاب التوبہ
[VII] شیخ ابوالحسن شاذلی: المفاخر العلیہ فی المآثر الشاذلیہ (عربی ایڈیشن)، مکتبہ ازہریہ مصر، صفحہ 152 ذکر خیر
[VIII] حضرت علی بن عثمان الہجویری العروف داتا گنج بخش ، کشف المحجوب (اردو ایڈیشن)، ضیاء الحق پبلکشنس ص۔490۔
[ ix ] ایضاً (485)
[X] مفتی احمد یار خان نعیمی: "تفسیر خزائن العرفان " سورہ 50:33
[XI] حضرت علی بن عثمان الہجویری العروف داتا گنج بخش ، کشف المحجوب (اردو ایڈیشن)، ضیاء الحق پبلکشنس ص۔485۔
[xii] ایضاً۔ ص۔ 486
URL for English article: https://newageislam.com/islam-spiritualism/repentance-sins–-first-station-islamic/d/112272
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism