کمال
مصطفیٰ ازہری
(مضمون برائے نیو ایج اسلام )
6 مئی 2021
کمال
مصطفیٰ ازہری
(مضمون برائے نیو ایج اسلام )
6 مئی 2021
بسم
الله الرحمن الرحيم
شبہ_نمبر
۳: قرآن
مجید میں جگہ جگہ جہاد کی بات کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام جنگ و قتال کو
بہت زیادہ پسند کرتا ہے۔
ازالہ
شبہ سابقہ کے لئے اولا جہاد کے معنی و مفہوم کا واضح ہونا ضروری ہے۔
جہاد
کا معنی : الجُهد ، وسعت و طاقت اور الجَھْد : پوری کوشش و غایت کے آتے ہیں , اس سے
اللہ رب العزت کا فرمان عالیشان ہے :
(أَهَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ
جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۚ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ
فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ ) کیا یہی ہیں جنہوں
نے اللہ کی قسم کھائی تھی اپنے حلف میں پوری کوشش سے (سورہ مائدہ آیت ۵۳)
اور
حدیث میں ہے : " أعوذ بالله من جَھْد البلاء " ( لسان العرب : 134/4 )
جنگ
وقتال کو جہاد اسلئے کہا گیا کیوں کہ اس میں جان و مال سے کوشش ہوتی ہے اور پھر عرفا
اس پر جنگ کا اطلاق ہونے لگا۔
قرآن
پاک اور احادیث مقدسہ میں کلمہ جہاد وارد ہوا ہے لیکن ہر مرتبہ وہ جنگی مفہوم مراد
نہیں ہے جو دشمنوں سے جنگ پر سمجھا جاتا ہے بلکہ اکثر و بیشتر دوسرے معانی مراد ہیں۔
اس بات کو ذہن نشیں کر لیں کہ پورے قرآن پاک میں 141 مرتبہ جہاد کا ذکر فرمایا گیا
ہے جس میں صرف 10 جگہ جنگی مفہوم ہے۔
اور
جہاد کا معنی یہ بھی ہیں : " بذل الجهد لنيل مرغوب فيه أو دفع مرغوب عنه
" یعنی ‘‘ہمت کو پسندیدہ چیز کے حصول اور نا پسندیدہ کو دور کرنے کے لئے لگانا’’
( بيان للناس ، جامعة الأزهر ، 276/1)
یعنی
بھلائ حاصل کرنا یا برائ کو دور کرنا یا نفع کا تحقق کرنا اور نقصان کو روکنا اور وہ
کسی بھی ذریعہ کسی بھی میدان میں ہو سکتا ہے اور یہ چیز امن و جنگ دونوں میں برابر
ہے اس کے لئے جنگ اور ہتھیار کا اٹھانا ضروری نہیں۔
قرآن
و سنت میں جہاد کے معانی
قرآن
کریم اور احادیث مقدسہ میں جہاد کے متعدد معنی بیان ہوئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل
ہیں :
𝟏. جہادِ دعوت و تبلیغ بدلیل و برہان
تبلیغ
کے ذریعہ جہاد کرنا جس میں اپنے دلائل سے مد مقابل پر حجت قائم کی جائے۔
مکی
سورتوں (جو سورتیں زمانہ ہجرت سے قبل نازل ہوئیں [ الإتقان ، 37/1] ) ان میں سے اللہ
پاک کا فرمان :
{ فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ
جِهَادًا كَبِيرًا } [الفرقان : 25]
ترجمہ : تو کافروں کا کہا نہ مان اور اس قرآن سے ان پر جہاد کر بڑا جہاد۔
امام
قرطبی { فلا تطع الكافرين } کے تحت فرماتے ہیں : یعنی ان کی اطاعت نہ کر اس میں جو
وہ اپنے معبودوں کی عبادت کی طرف بلاتے ہیں اور { و جاهدهم به } حضرت ابن عباس رضي
الله عنه فرماتے ہیں : بالقرآن (یعنی ان پر قرآن سے جہاد کر) [تفسیر القرطبی :
57/13]
مدنی
سورتیں ( جو زمانہ ہجرت کے بعد نازل ہوئیں ) میں سے اللہ پاک کا فرمان : { يَا أَيُّهَا
النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ
ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
} ترجمہ : اے غیب کی خبریں دینے والے (نبی)
جہاد فرماؤ کافروں اور منافقوں پر اور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور
کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی۔ (سورہ توبہ ، آیت ۷۳)
اس آیت
کریمہ کے ذیل میں امام نسفی لکھتے ہیں : کافروں پر تلواروں اور منافقوں پر حجت قائم
کرنے سے جہاد کرو۔ [ تفسیر النسفی : 99/2]
یہ سورہ
توبہ کی آیت ہے اور سورہ توبہ بالاتفاق مدنی سورت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے کبھی منافقین پر تلوار اٹھانے کا حکم نہیں دیا ان سے زبانی دلائل سے جہاد فرمایا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہمیں کافروں کے ساتھ تلوار سے اور منافقوں
کےساتھ زبان سے جہاد کا حکم دیا گیا. [ تفسیر القرطبی : 204/8]
۲۔ نفس و شیطان سے جہاد
نفس
کو شہوتوں اور لذتوں سے روکنے میں کوشش کو لگا دینا، خلاف شریعت امور سے بچانا اور اللہ کی اطاعت میں
لگا دینا بھی جہاد ہے۔
رب قدیر
فرماتا ہے : { وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ } ترجمہ : ‘‘اور
اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا حق ہے’’ (سورہ الحج ، آیت ۷۸)
امام
قرطبی تحریر فرماتے ہیں : یہ اللہ پاک کے تمام حکم بجا لانے اور جن امور سے روکا ان سے رک جانے کی طرف اشارہ
ہے یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالی کی اطاعت میں لگاؤ اور خواہشات نفس سے بچاؤ اور اور
جہاد کرو شیطان سے اس کے وسوسے پھیرنے میں اور ظالموں سے ظلم کے دفع کرنے میں اور کافروں
سے ان کے کفر کی تردید میں۔ [ تفسیر القرطبی
: 99/12]
۳۔ والدین کی خدمت
اسی
طرح والدین کی اطاعت و خدمت کو بھی جہاد سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔
حضرت
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے حدیث پاک مروی ہے : جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه
وسلم فأستذنه في الجهاد، فقال : " أحي والداك ؟"، قال : نعم، قال :
" ففيهما فجاهد ". [صحيح البخارى : 3004 ، صحيح مسلم : 2549]
ایک
شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں جہاد کی اجازت لینے کے لئے حاضر
ہوئے, تو آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے دریافت فرمایا : کیا تمہارے والدین زندہ ہیں،
جواب ہاں میں دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : تو انہیں کی خدمت کر "۔
۴۔ حج
جہاد
کا لفظ حج کے لئے بھی ارشاد فرمایا گیا.
ام المؤمنین
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتی ہیں : استأذنت النبي ﷺ في الجهاد،
فقال " جهادكنَّ الحج ". [صحيح البخارى : 2875]
حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے جہاد کی اجازت چاہی
تو آپ نے فرمایا تم عورتوں کا جہاد حج ہے۔
اور
اسکے علاوہ بھی جہاد کا کثیر اطلاق غیر جنگ پر ہوا ہے مثلا اطاعت الہی ، صبر و تحمل
، مجاهدہ وغیرہ اور ہر ایک کی مثالیں قرآن و سنت میں بکثرت موجود ہیں۔
قارئین
حضرات !
مذکورہ
نصوص سے یہ امر متیقن ہو گیا کہ جہاد کا اطلاق صرف اسلام کے مقابل آنے والے کفار و
مشرکین پر ہی نہیں بلکہ دیگر امور پر بھی بکثرت ہوا ہے اسلئے شبہ واردہ بلا
تردد خود مسترد ہو جاتا ہے۔
اگر
کوئی غیر مسلم نظام اسلام کا امعان نظر سے بدون حسد و عناد بقصد تلاشِ حق بشرطِ انصافِ
نظر مع سلامتی ذہن و شمولیتِ توفیقِ الہی جائزہ لے تو قبول حق میں بلا تاخیر جام ایمان
نوش کر کے مذہب اسلام میں داخل ہو جائے گا۔
( جاری)
Other Parts of
the Articles:
Rebuttal of Wasim Rizvi on Doubts Concerning Verses of Jihad in Quran:
Does Islam force Non-Muslims to Accept Islam? Part 1 ردِ وسیم نام نہاد در شبہاتِ آیاتِ جہاد: مذہب اسلام غیر
مسلموں پر داخل اسلام ہونے کے لئے بلا وجہ جبر و اکراہ کرتا ہے ؟
Removing Doubts Concerning Verses of Jihad in
Quran: Is Jizya in Islam an act of oppression? Part 2 ازالہ شبہات در آیاتِ جہاد: کیا
اسلام کا جِزیہ لینا ذمیوں پر ظلم و ستم ہے ؟
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/removing-doubts-concerning-verses-jihad-part-3/d/124788
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism