ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
5 جولائی 2024
مدارس مسلم معاشرے کی وہ
تعلیمی و تربیتی درسگاہیں ہیں جہاں سے بہترین ذہن نکلنے چاہئیں ،کیونکہ یہاں علوم
کائنات سے آگاہی کا عمل فطری تقاضوں کے مطابق اپنا وجود رکھتا ہے۔ علمیت، لیاقت،
فہم و ادراک، فضیلت و فراغت کی منزل آتے آتے یہ سب کچھ ایک شخصیت میں سما جانا
چاہیے ایسی توقع کی جاتی ہے۔ مدارس کے تعلق سےدرپیش مسائل کےرو برو ہونے کی فوری
ضرورت ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم دین پر لکھتے تو بہت رہے، وعظ و نصیحت میں بھی
کسر نہ کی، تنظیموں اور اداروں کا پورے ملک میں جال بھی پھیلا لیا، تحریکوں کی بھی
کمی نہ رہی مگر برادران وطن کو اپنا عقیدہ، اس کی باریکیاں،’’ متنازعہ
عبارتیں‘‘اور ان سے پیدا ہونے والی منطقوں، مستحکم دلیلوں اور اعتراضات کا معقول
جواب دینے میں کسر کھا گئے۔ مذہب اور دین میں کیا فرق ہے یہ واضح کسی بھی سطح پر
نہیں ہے؟ جب دین کومحض مذہب سمجھ کر سمجھا جائیگا تومسائل یقینا ً کھڑے ہونگے !
ایک ہندو اکثریتی ریاست اور سیکولراسٹیٹ میںکتنا اور کن احتیاط کے ساتھ دین قابل
عمل ہے۔ اس پر بھی ایک حکمت عملی ضروری ہے۔مذہب کو عام طور پر کچھ رسومات کی
ادائیگی کے پس منظر میں دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ زندگی کے معاملات سے عملاً اس
کاراست طور پر کوئی لینا دینا نہیں! مسلک یا ان کے آپسی ٹکراؤ سے بھی سیاسی نظام
کو کوئی مسئلہ نہیں! دین ان مفروضوں و ناقص تشریحات و سمجھ سے بالاتر ہے ۔یہ ایک
مکمل ضابطۂ حیات ہے جس کی تعلیم اور دسترس سے کوئی شعبۂ حیات فارغ نہیں! یہ
عبادات و معاملات کا ایک ایسا مرکب ہے جس میں زندگی رب العالمین کی منشا اور رسول
اللہ ؐکی سیرت کے مطابق اپنا اسلامی وجود رکھتی ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن
المنکر کا ایک ایسا نا قابل تردید خاکہ جس کی مکمل پابندی و پاسبانی ہمارا فرض عین ہے۔ اس پہلو کی منطق برادران وطن
کی سمجھ میں نہیں آتی! تنازعات کی زمین یہاں ہے،ان کے تمام خدشات، الزامات،
اعتراضات و ہنگامہ آرائی کی ساری زمین بھی یہاں ہی ہے۔ اس کے ساتھ فتح مبین، قیام
خلافت، کافر و مشرک کے ساتھ معاملات، ان سے جنگ اور قتال کے واضح قرآنی فرمودات،
جہاد فی سبیل اللہ، تمام عالم میں سبز ہلالی پرچم، آپ کی ہر جگہ بلندی اور بقیہ
سب اس کے آگے سر نگوں جیسی عام غیر مسلم سمجھ و مزاج بحث و تکرار کا قومی و عالمی
موضوع بن گئے ہیں۔اس سب میں مدارس اسلامیہ کے تعلیمی نصاب، تدریسی و تربیتی عمل کو
دیکھا اور سمجھا جا رہا ہے۔ یہ وہ چیلنجز ہیں جن سے آج مدارس کے نظم و نظام کو
سامنا ہے دورحاضر کے تناظر میں ان چیلنجز کو تسلیم کرتے ہوئے کسی جامع اور قابل
عمل اسکیم کے ساتھ جب تک سامنے نہیں آیا جائے گا
صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی جائے گی ۔تاریخی تناظر میں تعلیم گاہ کی خشت ِ
اول مسجد نبوی میں بنے ہوئے چبوترے پر رکھی گئی تھی، جسے ہم ’’صفہ ‘‘ کے نام سے
جانتے ہیں۔ وہاں بھی علم کی جامعیت کا تصور پیش کیا گیاتھا۔ اصحاب صفہ نہ صرف
قرآن حفظ کرتے اور اللہ کے رسول ؐکے ارشادات کو سن کر اپنے سینوں میں محفوظ کرتے
تھے بلکہ لکھنا پڑھنا بھی سیکھتے اور فنونِ حرب کی بھی مشق کرتے۔ عالم اسلام میں
مامون رشید کے عہد میں ’’بیت الحکمہ‘‘ قائم ہوئی اس دور کے تمام مروّجہ علوم کی
کتابوں کا دیگر زبانوں سے عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔اس دور میں خلافت اسلامی کی
حدود میں مدارس کا قیام شروع ہوا تو ان میں علوم کی تقسیم کو روا نہ رکھا گیا۔ ان
میں داخلہ لینے والے طلبہ تمام علوم حاصل کرتے تھے اور بعد میں ذوق کے مطابق کسی
فن میں اختصاص کرتے تھے۔ایک اندازے کے مطابق مسلم آبادی کا محض چند فیصد بچے ہی
دینی مدارس میں پڑھ رہے ہیں۔ ان ہی کے فارغین معاشرے کو مساجد کے لئے ائمہ، علماء،
حفاظ، قاری، مفسر، محدث، مفتی، قاضی، دینی مدارس، ادارے، تحریکیں اور انکے قائم
کرنے اور چلانے والے منتظمین دیتے ہیں ۔مسلم معاشرے کی نبض پر جتنی نفسیاتی پکڑ اس
طبقے کو ہے کسی دیگر کو نہیں!
دور حاضر: عام تشہیر
غلیظہ یہ ہے کہ یہاں کافروں کے خلاف جہاد اور قتل و غار ت گری پڑھائی اور سکھائی
جاتی ہے، یہاں دہشت گرد تیار کئے جا رہے ہیں ،انتہا پسندی پروان چڑھائی جا رہی ہے،
معاشرے کو بانٹنے کا کام ہو رہا ہے، طالبان اور طالبانی ذہنیت و نفسیات یہیں کی دین
ہے ۔گویا دینی مدارس نہ ہوئے دہشت گردی، ملک دشمن سرگرمیوں اور مذہبی منافرت
پھیلانے کے مراکز بن گئے۔ معاذ اللہ!
یہ سب ایک مخصوص سوچ ہےجس
پر آج کوئی صفائی، تاریخ کے مثبت حوالہ جات، جنگ آزادی میں علماء کی شرکت، تقسیم
ہند کی ان کی مخالفت، کثرت میں وحدت کے ماضی میں داعی و مبلغ کا کردار اب جیسے کھو
بیٹھے ہوں؟ صفائی دینے یا کسی احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی قطعاً ضرورت بھی
نہیں۔ چیلنج جب آئے تو وہ کچھ اقدامات کا طالب ہوتا ہے۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں!
شخصیت سازی کا اس عمل میں بڑا کردار ہے۔
عصری تقاضے : تمام مدارس
کے بنیادی ذمہ داران رضاکارانہ طور پر ایک ایسا قومی طریقۂ کار وضع کرلیں جو
ریاستی، ضلعی، تحصیل اور دیہات تک اپنی گرفت رکھے۔ فی الوقت محدودسطح پر ایسا کچھ
موجود بھی ہے مگر آج کی صورتحال مرکزیت کا مطالبہ کررہی ہے۔ سرکاری مدرسہ بورڈ کا
قیام اور ان کی وجہ سے مدارس کا سارا نظام
ہی عدالتوں کے پیچ و خم کی زد میں آچکا ہے!
یہ نظام اس بات کو یقینی
بنائے کہ تمام معاملات کا ریکارڈ ہو، آڈٹ کے لائق ہو، مالیات کے ذرائع دلیل اور
دستا ویزی تقاضوں کے ساتھ رکھے جائیں، کھاتوں کو جاری طریقہ کار کے تحت بنایا
جائے، سالانہ ان کی آڈٹ کرائیں اور اس کو
شائع کریں۔
طلباء و اساتذہ کا پورا
ریکارڈ رکھا جائے۔ تقرری، ترقی، ادائیگی، معطلی اور مدت ملازمت، رٹائرمنٹ
اورمتعلقہ واجبات کی ادائیگی کا ضابطۂ اخلاق بنائیے ۔اب یہاں کسی کوتاہی کے آپ
متحمل نہیں ہو سکتے۔مدارس کی سند کا بھی کوئی طریقہ کار قائم کریں۔دوسرے دینی و
عصری تعلیم کی تقسیم انگریز کی سازش کا نتیجہ تھی جس کی گرفت میں آج درس نظامی
اور اسکا نصاب ہے ۔کچھ جگہوں پر عصری تقاضوں کا انضمام دکھائی دے رہا ہے جو خوش
آئند ہے مگر تمام دینی مدارس کو انڈین اوپن اسکول کے تعلیمی نظام سے جوڑنے کی
ضرورت ہے اور دینی نصاب کے ساتھ سی بی ایس سی کا طریقۂ تعلیم و تدریس کو بھی اپنے
تعلیمی نصاب کا حصہ بنانا لازم ہو گیا ہے تاکہ مدارس سے فارغین کی خاصی تعداد فطری
طور پر اعلیٰ تعلیم کی طرف منتقل ہو جائے۔اس کے علاوہ مدارس کے فارغین کو ابتدائی
طب، فلسفہ، نفسیات، تاریخ ،آئین ہند کی بنیادی تعلیم، حقوق انسانی، جمہوریت، قومی
سیاسی ڈھانچہ، بنیادی قومی ادارے برائے تعلیم، صحت عامہ، فلاح عامہ کا ایک کلیہ
تشکیل دیں اور اس کو نصاب کا حصہ بنائیں تاکہ عالم دین جب معاشرے میں مسند، ممبر و
مصلے پر آئے تو وہ روایتی وحدت کی بجائے بھر پور شخصیت کا مالک ہو!
مدارس اپنے اطراف کے غریب،
نادار، مفلس، یتیم اور بے سہارا حلقوں کو بنا کسی تفریق کے اپنائیں اور انکی کفالت
کا راست حصہ بنیں جس میں مذہب کی قید نہ ہو، تاکہ معاشرے میں انکی شبیہ انسان
دوستی کی بنے۔مدارس میں بااثر غیر مسلم حلقوں کو مدعو کریں جو سب سے بڑا نقاد ہے
اس کو پہلے بلائیں اور دکھائیں کہ آپ کیا کرشمہ کر رہے ہیں ۔ مدارس کاروبار اور
دھندہ نہ بنیں اس پر بھی روک لگے۔ دینی تعلیم مستند نظام کے ماتحت رہے!
وہ حساس اصطلاحات اور
مضامین جن کو لیکر ایک پورا محاذ کھڑا ہو گیا ہے اس حوالے سے بالخصوص جہاد اور
قتال سے متعلق آیات کے تعلق سے ایک خصوصی کورس نصاب میں شامل کریں۔ سیاق سباق
مستحکم دلیل و منطق کے ساتھ اسے نہ صرف پڑھائیں بلکہ اس کے اطلاق و نفاذ کی شرائط،
کیفیات، حدود و قیود، اختیار و اقتدار ان تمام حوالہ جات سے متعلق پوری معلومات
عام کی جائیں اب ایسے فارغین کی شدید ضرورت ہے!
تمام مذاہب کی بنیادی
تعلیم اور قدر مشترک مواد پر مبنی ایک کلیہ بھی نصاب کا حصہ بنے ایسا بین المذاہب
مفاہمت کے لئے اب لازمی قرار پا گیا ہے!
حب الوطنی کا دینی پہلو
بھی نصاب کا حصہ بنے، وطن کی ترقی، خوشحالی، آئین کی بالا دستی، قانو ن کی
عملداری، سرحدوں کی نگہبانی، جنگ و امن میں اسلام کا قومی نظریہ یہ سب بھی اب عام
ہو!
آخر میں اتنا ہی کہوں گا
کہ یہ سب قابل عمل ہے۔ تاخیر میں پیچیدگیاں ہیں جبکہ بر وقت اصلاح میں چو طرفہ
خیر! آج آپ کےے ہمدردوں کو اپنے ہاتھوں میں یہ سب چاہیے، تب جا کر کوئی آپ کے
ساتھ کھڑا ہو پائیگا ۔ سیاست اور انتخابی عمل سے جتنا دور رہیں گے، کتنے فتنوں سے
بچے رہیں گے !
آخر میں مدارس کے نظام
کو عوام و خواص کے درمیان اتنا کھول دیں کہ حق اور حقیقت دونوں سامنے آ جائیں۔
5 جولائی 2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism