New Age Islam
Thu May 15 2025, 12:10 PM

Urdu Section ( 3 Jul 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Relevance of Tablighi Jama'at اکیسویوں صدی میں تبلیغی جماعت کی معنویت

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

3 جولائی 2023

بیسویں صدی میں ہندوستان کے ایک مسلم اکثریتی ضلع میوات سے ایک مذہبی اور اصلاحی تحریک شروع ہوئی تھی جس کا نام تبلیغی جماعت رکھا گیا تھا۔ اس کے بانی مولانا الیاس کاندھلوی تھے۔ وہ میوات کے مسلمانوں میں اسلام سے ناواقفیت اور غیر اسلامی رسوم و عقائد کے متعلق بہت فکر مند تھے۔ لہذا انہوں نے 1926ء میں تبلیغی جماعت کی شروعات کی۔۔اس جماعت نے رفتہ رفتہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں بھی مقبولیت حاصل کی اور چند دہائیوں میں اس جماعت کا نیٹورک نہ صرف پورے ہندوستان میں پھیل گیا بلکہ بیرون ملک بھی تبلیغی جماعت کا حلقہ تیار ہوگیا۔

تبلیغی جماعت دراصل ایک اصلاحی تحریک تھی جس کا مقصد میوات کےمسلمانوں میں دین کی بنیادی باتوں کی اشاعت اور غیر اسلامی عقائد کا,خاتمہ تھا۔ تبلیغی جماعت مسلمانوں کو نماز کا پابند بنانے پر زیادہ زور دیتی تھی اور سچائی، رزق حلال ، سادہ زندگی اوردوسرے مسلمانوں تک دین کی بنیادی تعلیمات پہنچانے پر زور دیتی تھی۔اس طرح ہر وہ شخص جو اس جماعت سے جڑتا تھا وہ خود بھی اسلام۔کے بنیادی فرائض پر عمل۔کرتا تھا اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتا تھا۔

لیکن تبلیغی جماعت نے خود کو مسلمانوں کی زبانی اصلاح کے کام تک۔محدود رکھا۔ اور منظم اسلامی تعلیم کی اشاعت کو اپنے دائرہ کار سے باہر رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس جماعت سے مسلمانوں میں کوئی تعلیمی تحریک شروع نہیں ہو سکی۔ جبکہ یہ تحریک میوات سے شروع ہوئی تھی جہاں مسلمان تعلیمی طور پر پسماندہ تھے اور اس تعلیمی پسماندگی کے نتیجے میں ان میں بیروزگاری اور غریبی بہت زیادہ تھی۔ آج 97 برس بعد بھی میوات کی تعلیمی اور معاشی صورت حال۔میں کچھ زیادہ بہتری نہیں آئی ہے۔ اگر تبلیغی جماعت نے مسلمانوں میں مذہبی اصلاح کی تحریک چلانے کے ساتھ ساتھ میوات میں تعلیمی تحریک بھی چلائی ہوتی تو اس علاقے کی صورت آج بہت بدلی ہوئی ہوتی۔ آج بھی اس علاقے میں جہاں 80 فی صد آبادی مسلمانوں کی ہے مسلمانوں میں خواندگی کی شرح دس فی صد ہے۔ خواتین میں یہ شرح دس فی صد سے بھی کم ہے۔ تبلیغی جماعت نے دوسری اسلامی تنظیموں کی طرح ہی مسلمانوں کو جدید تعلیم سے دور رکھا اور خصوصا لڑکیوں کو جدید تعلیم۔دلانے کی مخالفت کی۔ تبلیغی جماعت سے وابستہ علماء نے مسلمانوں میں جدید تعلیم۔کی مخالفت کی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ اس خطے میں تبلیغی جماعت کے اثرورسوخ کی وجہ سے میوات میں اکیسویں صدی کے اوائل تک جدید تعلیم کے ادارے نہیں تھے کیونکہ تبلیغی جماعت کے نزدیک جدید طرز کے اسکول بدکاری اور لادینیت کے مراکز تھے۔ چونکہ میوات تبلیغی جماعت کا مرکز تھا اس لئے یہاں مسلمانوں کو جدید تعلیم سے دور رکھنے کی سب سے زیادہ کوشش کی گئی۔ اس کا بتیجہ یہ ہوا کہ آزادی کے بعد بھی جہاں ملک کے دوسرے علاقے خصوصا دلی اور علی گڑھ کے مسلمانوں نے تعلیم۔کے شعبے میں قابل ذکر ترقی کی میوات کے مسلمان تعلیم۔اور ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے۔ جبکہ یہ علاقہ دلی سے زیادہ دور نہیں تھا۔

اکیسویں صدک کے آغاز میں میوات کے چند مسلم نوجوانوں نے دلی اور علی گڑھ سے تعلیم۔حاصل۔کرکے میوات میں جدید مدرسے اور اسکول قائم۔کئے تو یہاں کے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری آئی اور انہوں نے اپنے بچوں کو ان جدید مدرسوں اور اسکولوں میں بھیجنا شروع کیا۔ انہیں دلی اور علی گڑھ کے گریجویٹ نوجوانوں کی کوششوں سے میوات کے مسلمانوں میں تعلیمی ترقی کی لہر شروع ہوئی جبکہ آج بھی کچھ تبلیغی جماعت کے علماء ان اسکولوں کو مسلمانوں کے لئے سم قاتل۔سمجھتے ہیں۔

تبلیغی جماعت کی زبانی اصلاحی تحریک کی پالیسی سے ملک کے دیگر علاقوں کے مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال۔پر زیادہ کچھ فرق نہیں پڑا۔ زبانی اصلاح کی پالیسی سماجی ذمہ داریوں سے فرار کا خوب صورت راستہ تھی۔ اسلامی تعلیم۔کے لئے بھی مدرسوں کا قیام اس جماعت کی پالیسی۔میں شامل نہیں تھا۔چونکہ اس تنظیم۔کا زیادہ تر زور اپنے شہر سے دور دوسرے شہروں اور علاقوں میں اصلاح کی تحریک چلانے پر ہوتا تھا اس لئے اس سے وابستہ افراد اپنے شہر یا محلے میں تعلیم۔کی اشاعت کے بارے میں نہیں سوچتے تھے۔ان کے محلے میں مدرسے اور جدید اسکول۔ان کے ہی شہر کے وہ لوگ قائم۔کرتے تھے جو تبلیغی جماعت سے وابستہ نہیں ہوتے تھے۔آج میوات میں بھی جدید اسکول۔اور کالج وہ لوگ چلارہے ہیں جو تبلیغی جماعت کے نظریات سے وابستہ نہیں ہیں۔

اکیسویں صدی کا دور ذرائع ابلاغ کا دور ہے اور تعلیم کا تصور بہت ترقی کرگیا ہے۔ آج دینی تعلیم یا دنیاوی تعلیم۔کے لئے دور جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ موبائیل۔اور انٹرنیٹ نے پیغامات کی ترسیل بہت آسان کردی ہے۔آن لائین تعلیم۔کا نظام بھی سرکاری منظوری حاصل۔کرچکا ہے۔ ایسے میں سو سال پہلے اختیار کی گئی پالیسی یا حکمت عملی اس دور کے لحاظ سے تو درست اور مؤثر ہوسکتی تھی آج بھی وہی حکمت عملی اختیار کی جائے ضروری نہیں بلکہ آنے والے کچھ عرصے میں یہ دقیانوسی اور کم۔مؤثر ثابت ہو جائیگی۔ تبلیغی جماعت نے نہ صرف یہ کہ منظم تعلیمی تحریک نہیں چلائی بلکہ جدید طرز تعلیم۔کی راہ میں رکاوٹ بھی بنی۔

سعودی عرب نےگزشتہ سال تبلیغی جماعت پر پابندی لگادی ہے۔سعودی عرب کے اس اقدام کی کچھ حلقوں نے تنقید کی اور اسے اسلام۔مخالف قوتوں کی سازش سے تعبیر کیا۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور اطلاغ و مواصلات کے ذرائع میں ترقی کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب کی حکومت نے اس جماعت کی سرگرمیوں کو غیر موزوں سمجھا ہو۔ تبلیغی جماعت اپنے نظریات اور طرز فکر کے لحاظ سے مسلمانوں کے درجنوں فرقوں میں سے ایک فرقے کی ہی صورت اخریار کرچکی ہے ۔ لہذا، مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی میں اس نے کوئی قابل قدر دور ادا نہیں کیا ہے۔ بدلتے ہوئے سیاسی سماجی اور سائنسی تناظر میں تبلیغی جماعت کو اپنی معنویت برقرار رکھنے کے لئے اپنی پالیسی اور طریقہء کار میں نمایاں تبدیلی لانی ہوگی۔

---------------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/relevance-tablighi-jamaat/d/130119

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..