ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
16 فروری،2024
میرے مضامین کا رخ بدلی
ہوئی سیاسی زمین، سمٹتی سیکولر سیاست، سنگھ پریوار، مسلمانان ہند میں بڑھتے
اختلافات ان سے متعلق ابھرتے سیاسی، ثقافتی ومعاشرتی چیلنجز اور تدارک سے رہا
ہے۔اس کوشش کو محور و بنیادی مقصدملت میں موجودفکری جمود ودقیانوسیت کے مضمرات ان
سے پہنچنے والے وسیع تر نقصانات اور ان دیر پا خمیازوں سے تھا جو اس کی ترقی کے
عمل وسفر، عزت نفس کی مجروحیت،باوقار زندگی اور پرامن بقائے باہم جیسے اہم امور
میں حائل او رمعنی ہورہے ہیں۔ اب کچھ گفتگو ان عوامل کی کی جائے جن کو زیر بحث
لائے بغیر یہ کوشش شاہد اپنے منطقی انجام تک پہنچنے میں کسی بیجا تاخیر کا شکار نہ ہوجائے۔
آج مسلمانان ہند کے ذہن
وقلب اور نفسیات میں جو ایک ابال و اچھال کی سی کیفیت ہے اس سے اگر صرف نظر کیا
گیا یا اس کے تدارک کی کوشش سے دانستہ روگردانی کی گئی تو یہ ملک وملت دونوں کے
ساتھ نا انصافی ہوگی۔ یہ برملا قبول کرنا ہوگاکہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے! قومی نفسیات
میں وائرس داخل ہوگیا ہے، عارضہ بڑھ رہاہے اور قلوب میں اضطراب جس طرز او رنہج پر
اضافہ پارہا ہے اس پر اندرون ملت سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کی فوری ضرورت ہے۔دوسری
بات اپنی علمی وعقلی صلاحیت کا استعمال فریق ثانی میں کیڑے نکالنے کی بجائے اس کو
بیجا تنقید وتنقیص کا نشانہ بنانے، اس پر الزامات کی بارش کرنے اور سازش کے مفروضے
قائم کرنے میں نہیں! تیسرے ملک میں جمہوری نظام مستحکم بنیادوں پر قائم ہے۔ ہرشخص
کو ہر نظریے وحلقے سے جڑنے اور اس کے فروغ کے لئے کام کرنے کی آزادی ہے۔ بھلے ہی
وہ دوسرے کے لئے پسند یدہ ہویا ناگوار! چوتھے ہمارے معاشرے میں گلی گلی فتویٰ سازی
کاچلن ہوگیا ہے، سب ایک دوسرے کو ملت فروشی وضمیر فروشی کے تمغوں سے نوازرہے
ہیں۔اس روش کو فوری طور پر ترک کرنا ہوگا۔ ہر دور میں ابوجہل، یزید، میرجعفر ومیر
صادق رہے ہیں، اس میں نیاکیاہے؟ چوتھے اب اپنی نجی صفوں کی درستگی کا وقت ہے،
اتحاد کا شور مچانا بندکیجئے اورخاموش اشتراک عمل پر توجہ دیجئے۔ ہم کرتے کم ہیں،
شور بہت مچادیتے ہیں۔ اخبار میں خبرالگ جائے اور تصویر چھپ جائے اس کند ذہنی سے
باہر آنا ہوگا،طبیعت میں کشادگی،فکر میں لچک اور عمل میں مطابقت کو اختیار کرنا
پڑے گا۔ ششم مشتعل کرنے والی دھمکیاں جن پر عمل در آمد کے ہم متحمل نہیں اور نہ ہی
ان کی کوئی ضرورت و افادیت ہے، فی الفور بندکریں۔ ہر وقت اور ہر صورتحال کو جب ہم
دین او ربقائے دین وملت کے لئے موت وحیات کا سوال بنادیں گے تو فرقہ واریت پر لگام
لگنے کی بجائے وہ فروغ پائے گی۔
ایک حقیقت جس کو جب تک
نفسیات میں قبولیت حاصل نہیں ہوگی تب تک عمل اور رد عمل دونوں کی سمت درست ہوہی
نہیں سکتی۔ ہندوستان ایک ہندو اکثریتی قومی وحدت ہے۔نظام کوئی بھی ہو اکثریت کی
رائے بیشتر امور میں مقدم رہتی ہے۔اقلیت کی وہ تمام آراء جو اکثریت کی نفسیات
وترجیحات سے مماثل ہوتی ہیں یا ان کے حصول میں معاون ہوتی ہیں، قابل ستائش رہتی
ہیں۔جو ان سے متصادم ہوتی ہیں ان کا بروقت تدارک نہ ہونے کی صورت میں بات سیدھے
تصادم کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ایسے میں اقلیتی فرقے کو ایک ایسی متوازن حکمت
عملی درکار ہوتی ہے جس میں اجتماعی مفاد ہو،اکثریت سے ٹکراؤ یا تصادم کی زمین نہ
ہو، انتہا پسند قوتوں کو اپنی زمین بڑھانے کا موقع نہ ملے۔ پارسی، یہودی، بودھ،
جین او رمسلمان ہند میں بوہرہ برادری اسی پالیسی پر عمل کررہی ہے۔ ان کے ساتھ
اکثریت کا نہ کوئی جھگڑا ہے اور نہ ہی کسی قسم کاٹکراؤ یہ نکتہ قابل غور ہے!
ایک دیگر پہلو ہمارے
مکالمے و مباحثے میں ملک، وطن،قومی ترقی، مسائل و معاملات،سفارتکاری وخارجہ پالیسی
کو کتنی زمین حاصل ہے اس پر بھی غور و فکر ہوناچاہئے۔عالمی مسلم مسائل میں ہمارے
یہاں جو دلچسپی ومزاج باہر نکل کر آتاہے وہ قومی میں کہاں گم رہتا ہے؟ ایک المیہ
جس سے انکار ممکن نہیں وہ یہ ہے کہ حکمراں طبقے کی مخالفت یا اظہار رائے کو جو
آزادی غیر مسلم دنیا میں حاصل ہے اس کا شائبہ بھی مسلم ممالک و معاشروں میں نہیں!
مبلغین اسلام کو اگر ملک بدر کیا جاتاہے تو انہیں پناہ یورپ او رامریکہ میں ملتی
ہے۔ آیت اللہ خمینی فرانس، فتح اللہ گلین اور جاوید احمد غامدی امریکہ جیسے ملکو ں
میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ چند نام بطور نظیر یہاں ذکر میں لا رہا ہوں۔ مانا کہ
ہر معاشرہ اپنے اندر ایک محدود سخت گیر متشدد طبقہ رکھتاہے، جو اپنی روش کسی صورت
تبدیل نہیں کرتا، مگر اکثریت معتدل مزاج ہوتی ہے۔ یہاں زمین کبھی خراب نہ ہو اس
غفلت سے بے خبری خودساختہ ظلم ہے!
ایسا کیا ہے کہ ہم او
رہماری بستیاں نہ صرف ہندوستان میں بلکہ تمام عالم میں چار فٹ کی الگ دیوار کی طرح
ہیں۔ دوسرے معاشروں کے ساتھ کیوں رفاقت کامعاملہ نہیں، ہر وقت کفرو کافرپر فتح،
دنیا پرحکومت، انتہا پسند مسلم شخصیات، تنظیموں اور تحریکوں کے ساتھ ہمدردی یہ سب
کیا ہے اور اس کے مضمرات او راثرات کے بارے میں کبھی فکر کی جائیگی یا نہیں؟
آج دنیا میں ہر چوتھا شخص
مسلمان ہے، ہندوستان میں ہرچھٹا ہندوستانی مسلمان ہے۔عملاً ہم دنیا اور اپنے وطن
میں آج کہا ں کھڑے ہیں؟ آج سیکورٹی چیک میں ہمیں جس نظر او رمزاج کا سامنا ہے! نام
معلوم ہوتے ہی سامنے والے کے چہرے کے تاثرات کیوں بدل جاتے ہیں؟ عالم گیرشہرت
یافتہ مسلم شخصیات بھی اس سے مستثنیٰ نہیں! روہنگیا،بوسنیا، یمن،عراق، شام، لیبیا،
افغانستان اور اب غزہ (فلسطین) میں جس مزاج کی حیوانیت، انسانیت سوزی او رجان سوزی
ہورہی ہے اس پر 57 مسلم ممالک کی بے بسی او رعالمی ضمیر کی ظاہری تنقید مگر عملاً
حمایت کیا کسی غور وفکر کو دعوت دیتی ہے یا نہیں؟ ہر وقت دین کی بات مگر عملاً
دنیا حاوی!
تضادات کا یہ عالم ہے کہ
اسلام جو ایک فلاحی معاشرہ قائم کرنا چاہتاہے او رجس کا قیام عمائدین ملت کا
بنیادی فریضہ ہے ملک گیر وعالم گیر فعال تنظیموں وتحریکوں، سوشل میڈیا اور ڈجیٹل
سہولتوں کی موجودگی کے باوجود زوال شکست اور جگ ہنسائی ہی آپ کے حصے میں کیوں آرہی
ہے؟
مسلم معاشرے میں معذرت کے
ساتھ خرد برد، ذخیرہ اندوزی، حرام حلال سے بے پروائی، سود خوری،ملاوٹ، جرائم جیسے
زنا، بے حیائی، فحاشی، بے ایمانی، وعدہ خلافی، عہد شکنی،جہیز وطلاق اب عام ہیں۔
عبادات او ر معاملات دو الگ وحدتیں قرار پاچکی ہیں، جب کہ عبادات کا ماحصل تو
معاملات ہیں مگر زمین کچھ او رہی بتارہی ہے؟
نفس انسانی کے فطرت
انسانی سے تعلق سے مراد وہ سب کچھ ہے جس کو میں نے آپ کے گوش گزار کیاہے۔ پہلے نفس
کو سمجھئے تاکہ دوسری بات سمجھ میں آسکے، نفس کا تعلق براہ راست ضمیر سے ہے۔ ضمیر
حق، حقیقت و حقانیت سے قریب تر ہوتاہے۔ خوف خدا اور احترام دین کہیں نہ کہیں اس کو
آگاہ او رمتنبہ بھی کرتا رہتا ہے۔مگر اس سب کے ساتھ جو بشری فطرت او راس میں
آزادانہ انتخاب کا اختیار اسے حاصل ہے فطرت کو وہاں دخل حاصل ہے۔ ایک طرف دنیا اور
اس کی پرکشش کیفیت جس میں پیسہ او ردولت کسی بھی قیمت پر کمانا اور حاصل کرنا اور
دوسری طرف رزق حلال اور تقاضہ آخرت!
آج مساجد میں زیبائش کی
کمی نہیں، بلند وبالا مینار، فرش پر قالین، دیواروں پر اسپلٹ اے سی، عالیشان غسل
خانے، مگر خضوع و خشوع، تقویٰ ندارد۔نتیجہ دعائیں بہت لمبی،مگر سنوائی غائب! ہر
چیز رسم میں ڈھل چکی! حج اور عمرہ اب اللہ کی رضا کے لئے کم، دنیاوی نمائش کے لئے
زیادہ ہورہاہے۔ کس طرح ہم اپنے اداروں کو چلارہے ہیں، وقف کا ہم نے کیا حال کردیا ہے۔ اس سب میں بھی بہت سارے سبق پڑھنے کی ضرورت
ہے۔
خوش آئند پہلو یہ ہے کہ
ابھی سب کچھ خراب نہیں ہوا ہے! مسلمان یونیورسٹی،میڈیکل، انجینئر نگ،فارمیسی اور
دیگر کالج وتعلیمی ادارے، اسکول، جدید خطوط پر مدارس وفلاحی ادارے بنارہے
ہیں،ماشاء اللہ بیداری آئی ہے، ملی تشخص کا احساس بڑھا ہے، کچھ خود احتسابی کاذہن
بھی بنتا نظرآرہا ہے۔تبدیلی میں وقت لگتاہے۔ اس کو وقت دیا جانا چاہئے، اس حوالے
سے برداشت اورتحمل کا دامن مضبوط رہنا چاہئے۔ انفرادی، اجتماعی و ادارہ جاتی
رجحانات اور رویوں کی سمت پر توجہ رکھیں، ذہن کو کھلا اورقلب میں اطمینان رکھیں۔
مثبت اور تعمیر ی پہل زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب برپا کرنے کی متحمل ہوتی ہے۔
بالغ نظری، میانہ روی اور مخاصمت سے کنارہ کشی بنجر زمین کو سرسبز وشاداب بنا سکتی
ہے۔
”ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“
16 فروری،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism