قسط ثانی
مسلم سر زمین پر قبضہ
بحالی کی وجوبیت
نیو
ایج اسلام خصوصی نمائندہ
19 دسمبر 2020
بیسویں صدی میں
دنیا کو نازیت ، فاشیت اور اشتراکیت
جیسے تین استبدادی انقلابی تحریکوں کا سامنا رہا ، دنیا
کو اب اسی طرح کی چوتھی استبدادی
تحریک کا خطرہ لاحق ہے، اس استبدادی تحریک کو جہادپسندی ، سلفی عسکریت پسندی ، اسلامو
فاشسٹ یا صرف جہادی جیسے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ انسداد
جہادیت کے لئے متعدد پروجیکٹس سرگرم عمل ہیں جو جہادی بیانیے کو ناکام بنانے میں لگے ہیں۔
اس طرح کے بیشتر منصوبے نئے طریقہ
کار پر مبنی ہیں، حالانکہ اس طرح کے منصوبوں کو مزید موثر بنانے کے لئے
اسلام کے روایتی اور کلاسیکی طریقہ کار کوبھی اختیا ر کرنا چاہئے تھا، کیونکہ مرکزی دھارے کے مسلمان روایتی
اسلام پر فورا اعتماد کرنا شروع کردیتے ہیں۔ تاہم ، ہمیں صرف جہادیوں کے چیلنج کا سامنا نہیں ہے بلکہ ہم اسلامو فوبیا کے شکار لوگوں سے بھی جوجھ رہے
ہیں ، جیسا کہ ہم نے پہلی قسط میں اس بات
پر بحث کی کہ کیسے
اسلامو فوبیا کے شکار لوگوںکا یہ
دعوی بالکل درست نہیں کہ جہادیت ہی روایتی اسلام کا ترجمان ہے۔
پہلی قسط میں ہم نے
بطور خاص مسئلہ حاکمیت پر بحث کرتے ہوئے اسلاموفوبیا کے شکار لوگوں کے دعوے کا رد کیا تھا ۔ اب ہم جہادیوں کے ایک دوسرے تصور یعنی
مسلم سرزمین کی آزادی یا مسلم سر
زمین پر قبضہ بحالی کے مسئلہ پر بحث
کریں گے اور دیکھیں گے کہ اس مسئلہ
پر کلاسیکی علما کی کیا رائے ہے ۔ کلاسیکی علما اور جہادیوں
کی رایوں کے تقابلی مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں کے بیچ کافی تضاد پایا جاتاہے اور اس طرح اسلاموفوبیا کے شکار لوگوں کے دعووں کی تردید بھی ہوجاتی ہے۔
نام نہاد اسلامی سرزمین کی آزادی یا اس پر قبضہ بحالی
تمام جہادیوں کامشترکہ مقصد ہے
۔ ان کے خیال میں وہ ساری زمین جسے فتح یا تبلیغ کے ذریعہ اسلامی بنا لیا گیا تھا
مسلم سرزمین تھی اور ہمیشہ رہے گی۔
مثال کے طور پرپاکستان کے حافظ محمد سعید کی سربراہی میں کام کر رہی
تنظیم لشکر طیبہ جو جماعۃ الدعوہ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، نے
اپنے کتابچہ "ہم جہاد کیوں کر رہے ہیں "میں اپنے ایجنڈے کی تائید میں ۸ وجوہات گنوائے ہیں جن میں سے ایک وجہ ہندوستان کے تمام حصوں پر اسلامی حکومت کی بحالی بھی ہے۔پرچہ میں
لکھا ہے کہ :
اندلس (سپین )میں آٹھ سوسال مسلمانوں کی حکومت کے بعد
ان کا آخری آدمی بھی وہاں سے ختم کردیا گیا اورعیسائی مکمل قابض ہوگئے ۔اسے واپس
لینا ہماری ذمہ داری ہے ۔
پورا ہندوستان بشمول کشمیر ‘حید ر آباد آسام نیپال ‘
برما ‘ بہار اور جونا گڑھ ‘ مسلمانوں کی
سلطنت تھا۔ترک جہا د کی وجہ سے غیروں کے قبضے میں چلا گیا ۔
فلسطین پریہودی قابض ہیں مسلمانوں کا قبلہ اول بیت
المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے ان کے علاوہ بیسوں ملک مثلا بلغاریہ ‘ ہنگری قبرص، سسلی
حبشہ روسی ترکستان اورچینی ترکستان ‘ کاشعر کی حد تک پھیلے ہوئے ممالک مسلمانوں کے
قبضے میںتھے انہیں کفار کے قبضے سے چھڑانا ہم پر فرض ہے۔ ‘
پیرس سے90 کلومیڑ دور تک کا فرانسیسی علاقہ اور سویٹزرلینڈکے
جنگلات وپہاڑ بھی مسلمان مجاہدوں کے مسکن تھے آ ج وہا ں کفار کاقبضہ ہے ۔ (حوالہ " ہم جہاد کیوں کرہے ہیں ؟")
ڈنمارک
کے ایک
اخبار میں چھپے کارٹون کے معاملے پر یورپی باشندوں کو دھمکی
دیتے ہوئےحماس کے رہنما خالد مشعل نے الجزیرہ
پر ٹیلی کاسٹ اپنے خطبہ میں
کہا کہ "کل ، ہماری قوم دنیا کے تخت
پر بیٹھے گی۔ یہکوئی ، خیالی پلاو نہیں ، بلکہ ایک حقیقت
ہے۔ کل ہم دنیا کی رہنمائی کریں گے ، انشاء اللہ۔"
حماس کے چارٹر (منشور)کی شق نمبر ۱۱
میں لکھا ہے
أن أرض فلسطين أرض وقف إسلامي على أجيال المسلمين إلى يوم
القيامة، لا يصح التفريط بها أوبجزء منها أوالتنازل عنها أو عن جزء منها،ولا تملك
ذلك دولة عربية أو كل الدول العربية،ولا يملك ذلك ملك أو رئيس، أو كل الملوك
والرؤساءولا تملك ذلك منظمة أو كل المنظمات سواء كانت فلسطينية أو عربية، لأن
فلسطين أرض وقف إسلامي على أجيال المسلمين إلى يوم القيامة،ومن يملك النيابة الحقة
عن الأجيال الإسلامية إلى يوم القيامة؟هذا حكمها في الشريعة الإسلامية،ومثلها في
ذلك مثل كل أرض فتحها المسلمون عنوة، حيث وقفها المسلمون زمن الفتح على أجيال
المسلمين إلى يوم القيامة
ترجمہ:
"فلسطین ایک اسلامی وقف ہے۔ قیامت تک آنے والی مسلم نسلوں کے لئے مخصوص ہے۔ کلی یا جزئی طور پر اسے برباد
یااس سے دست بردار نہیں ہوا جا سکتا ہے۔ اس کی ملکیت پر کسی کا حق حاصل نہیں ہے۔
نہ کسی ایک عرب ملک کا ،اور نہ تمام عرب ممالک کا ، نہ کسی ایک بادشاہ یا صدر کا ،نہ ہی تمام بادشاہوں
اور صدور کا ، نہ
کسی ایک تنظیم کا اور نہ ہی مجموعی طور پر تمام تنظیموں کا، چاہے وہ تنظیم فلسطینی ہو یا عربی۔
کیونکہ فلسطین قیامت تک کی آئندہ مسلم نسلوں کے لئے ایک اسلامی وقف ہے۔ ایسی صورت میں کون قیامت تک آنے والی تمام مسلم نسلوں کی نیابت کا دعوی کر سکتا ہے ۔ اسلامی شریعت میں اس کا یہی حکم ہے اور اس طرح کی زمینوں کا بھی جس کو مسلمانوں نے فتح کیا ، کیونکہ (اسلامی) فتوحات کے دوران
ہی اسے مسلمانوں نے قیامت تک کی آئندہ مسلم نسلوں کے لئے وقف کر دیا تھا"
حماس کے چارٹر میں مزید لکھا ہے کہ فلسطین سے متعلق
کوئی بھی پہل جو اسلامی شریعت
کے خلاف ہو باطل ہے ۔
(حماس چارٹر ، شق نمبر ۱۱
، اسرائیل فلسطین تنازعہ سے متعلق روٹلیج
ہینڈ بک کے صفحہ نمبر ۴۰۲ سے منقول )
حماس اور القاعدہ کے مشترکہ نظریہ کو سمجھنے کے لئے عبداللہ یوسف عزام کیابتدائی جہاد ی تحریر
بھی ضرور پڑھنی چاہئے ۔ عبداللہ
یوسف عزام کو بابائے عالمی جہاد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن
اور الظواہری کے
سابق گرو بھی تھے ۔
"معاہدے میں کسی بھی ایسی شرط کو شامل کرنا جائز نہیں ہے جس سے
مسلمانوں کی مٹھی بھر زمین بھی
کفار کے ہاتھ لگ جائے۔کیونکہ اسلام کی سرزمین پر تو کسی کی ملکیت نہیں ہے، لہذا اس سے متعلق کوئی بھی کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کر سکتا ہے۔ "
مسلم سرزمین سے متعلق مذکورہ بالا سارے جہادی بیانات سے یہ نتیجہ
اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جہادیوں کے نزدیک
سابقہ مسلم مفتوحہ علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنا اور اسے اسلامی سر زمین کے
حوالے کرنا مسلمانوں پر فرض ہے، اور کوئی
بھی معاہدہ جس سے مسلمانوں کی مٹھی بھر
زمین بھی کفار کے قبضہ میں چلا جائے پوری
طرح باطل ہے اور اسے کالعدم قرار دیا جائے گا ۔
جہادی نظریے کے برعکس ، روایتی اور کلاسیکی اسلامی فقہا نے
دوسروں کی خودمختاری کو ماننے اور اپنی خودمختاری
کو دوسروں سے منوانے کے لئے معاہدوں کو
جائز مانا ہے۔ اسلام کی
روایتی تعبیرکے حساب سے، شریعت میں غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ کرنے کی
اجازت دی گئی ہے۔ جیسے کہ قرآن کی مندرجہ
ذیل آیت
كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ
عَهْدٌ عِندَ ٱللَّهِ وَعِندَ رَسُولِهِۦٓ إِلَّا ٱلَّذِينَ عَـٰهَدتُّمْ عِندَ ٱلْمَسْجِدِٱلْحَرَامِ
ۖ فَمَا ٱسْتَقَـٰمُوا۟ لَكُمْ فَٱسْتَقِيمُوا۟ لَهُمْ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلْمُتَّقِينَ
ترجمہ : اور بھلا
مشرکوں کے لئے اللہ کے یہاں اور اس کے رسولﷺ کے یہاں کوئی عہد کیوں کر ہوسکتا ہے، سوائے ان لوگوں کے
جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا ہے۔ سو جب تک وہ تمہارے ساتھ عہد پر قائم رہیں تم ان کے ساتھ
قائم رہو۔ بیشک اللہ پرہیزگاروں کو پسند فرماتا ہے۔ (سورہ التوبہ آیت نمبر ۷)
اس آیت میں کسی بھی ایسے غیر مسلم کے ساتھ صلح کے معاہدوں کی اجازت دی
گئی ہے جو معاہدے کے شرائط
پر عمل کرے۔ اس قرآنی حکم کی تائید
میں سنت نبوی بھی موجود ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے کئی معاہدے کئے، مثال کے طور پر
قبیلہ اوس اور خزرج کے مابین صلح
کا معاہدہ کیا تھا ، جس کو مدینہ کے
یہودیوں نے بھی تسلیم کیا ور اس طرح میثاق مدینہ وجود میں آیا۔ اسی طرح صلح
حدیبیہ کا معاملہ بھی ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں
اور مشرکین مکہ کے بیچ ایک عارضی امن قائم ہوا تھا۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا "
بازنطینی تم لوگوں (مسلمانوں) کے ساتھ امن قائم کریں گے"۔
قرآن و حدیث کی
بنیاد پر کلاسیکی مسلم
فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ دشمن کے ساتھ امن کا معاہدہ کرناجائز ہے اگر اس
سے مسلمانوں کا فائدہ ہو رہا ہو، اور اس کے شرائط پر عمل کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ اس مسئلہ پر فقہاء کی اتفاق رائے جو کہ
اجماع کی شکل اختیار کر چکا ہے اور خلفائے راشدین کے عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ معاہدہ
کرنا اسلامی شریعت کا لازمی جزو ہے۔
تمام کلاسیکی مسلم فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر ایک
بار معاہدہ طے ہو جائے تو اس کے شرائط و ضوابط کو تسلیم کرنا ضروری ہو جاتا ہے ،
کیوں کہ قرآن کا حکم ہے کہ"معاہدہ کرنے کے بعد اسےنہ
توڑا جائے"۔ فقہا کے مطابق مسلمانوں کی طرف سے معاہدہ کر لینے کے بعد اس کے شرائط اور
ضوابط کا احترام مسلمحکمرانوں پراس وقت تک
فرض ہے جب تک نہ دشمن کی طرف سے اچانک حملے کا اندیشہ ہو یا پھر دشمن اس معاہدہ کو
توڑ دے۔
جہاں تک معاہدے کی مدت کا تعلق ہے تمام کلاسیکی مسلم فقہا نے صلح حدیبیہ کو بعد کے تمام
معاہدوں کے لئے ایک ماڈل مانا ہے۔ معاہدوں
کی مدت کے حوالے سے ان کا آپس میں اختلاف
ضرور ہے۔ اسلام کی روایتی تفہیم کے مطالعہ سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ جب
دارالاسلام اور دارالحرب کے مابین عام تعلقات جنگ کی حالت کی ہو تی تو امن کے حالات
صرف امن معاہدوں سے ہی پیدا ہوسکتے تھے۔ متقدمیں فقہاء کے مطابق معاہدے کی ممکنہ مدت دس سال سے زیادہ نہیں
ہوتی ۔ تاہم ، ضروری نہیں ہے کہ مسلم ریاستوں کا عمل بھی اس مدت کے اصول کے مطابق
رہا ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد کے فقہاء
(متاخرین) نے امن معاہدوں سے متعلق دس سال
کی تخصیص پر بات کرنا چھوڑ دیا تھا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے غیر مسلموں
کے ساتھ متعدد مستقل امن معاہدے کیے تھے لیکن پھر بھی قرآن و حدیث سے واضح طور پر مدت
کی تعیین کا پتہ نہیں چلتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے امن معاہدوں کے متعلق بات
کرنا چھوڑ دیا تھا بلکہ مستقل امن کی حالت کو قائم کرنے کی بھی ترغیب دی ہے اس شرط کے ساتھ کہ دشمن امن معاہدوں کی
پابندی کرتا رہے۔
مسلک شافعی کے مشہور عالم امام نووی لکھتے ہیں
اس (صلح حدیبیہ) میں،
اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ کرنے کی اجازت ہے
اگر ایسا کرنے سے مسلمانوں کا فائدہ ہو۔
ضرورت کے وقت معاہدہ کرنے کے مسئلہ پر تو اجماع ہے۔ ہماری رائے میں اس کی مدت دس سال سے
تجاوز نہیں کرنی چاہئے، لیکن ایسی بھی مضبوط رائے موجود ہے کہ مدت کی حد بندی کے
بغیر بھی معاہدہ کرنے کی اجازت ہے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ اس میں وقت کی کوئی
قید نہیں ہے اوراس بات کی اجازت ہے کہ حکمران اپنی رائے کے مطابق معاہدہ قلیل یا طویل مدت تک کے لئے کرے " (امام نووی ، المنہاج فی شرح مسلم)
قرطبہ کے کلاسیکی مفسر اور
فقہ مالکی کے بڑے عالم ابو عبد
اللہ القرطبی مندرجہ ذیل آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں
وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ
عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (سورہ الانفال، آیت نمبر ۶۱)
ترجمہ : اور اگر وہ صلح و آشتی کے لئے جھکیں تو آپ بھی
اس کی طرف مائل ہو جائیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں بے شک وہی خوب سننے اور جاننے
والا ہے۔
امام القرطبیکا ماننا ہے کہ مختلف مدت اور مختلف حالات
میں صلح کے معاہدے جائز ہیں۔ لکھتے ہیں:
ابن حبیب نے امام مالک رحمۃاللہ علیہ سے بیان کیا ہے کہ"مشرکین
کے ساتھ صلح کرنا جائز ہے، ایک سال کے لئے
، دو سال کے لئے ، تین سال کے لئے اور یا
غیر معینہ مدت کے لئے۔ ایسا جب ہو سکتا ہے جب حاکم وقت اس میں مصلحت اور بہتری
دیکھے۔ جب ضرورت ہو تو مسلمانوں کی جائداد دے کر بھی صلح کرنا جائز ہے، جیسا کہ
اللہ کے رسول ﷺ نے کیا تھا۔
جہاں تک سابقہ مسلم
مفتوحہ سر زمین کا تعلق ہے ،
جس میں مسلم اب اقلیت میں رہ رے
ہیں کلاسیکی اصول یہ ہے کہاگر مسلمانوں کو
نماز روزہ اور اذانجیسے حقوق
حاصل ہوں تو انہیں معاہدہ میں طے
شدہ شرائط و ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے
امن کے ساتھ رہنا چاہئے۔
حنفی
، شافعی، مالکی اور حنبلی مذاہب
کی فقہی کتابوں کی گہری تفہیم سے پتہ چلتا ہے کہ جس ملک میں مسلمانوں کو نماز روزہ
اور اذان جیسی اسلامی عبادات پر عمل
کی اگر کھلی آزادی ہو تو اس ملک
کو بجا طور پر دارالاسلام کہا جائےگا اگر
چہ وہ
ملک غیر مسلم اکثریت والی ہی کیوں نہ ہو ۔ مثال کے طور پر اس مسئلے پر شافعی مسلک کے موقف
کی بنیاد ایک حدیث ہے جس میں کہا گیا ہے
کہ جہاد بالقتال اس علاقے میں نہیں کرنا چاہئے جہاں اذان کی آواز سنائی دے ، کیونکہ اسلامی
عبادات پر عمل کرنے کی کھلی آزادی سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ وہ علاقہ اسلام اور مسلمانوں کا دشمن نہیں ہے۔اس تعلق سے امام بخاری اور امام مسلم نے ایک حدیث
بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ و سلم جب کسی قوم کے پاس رات کو پہنچ
جاتے تو صبح ہونے سے پہلے اس پر حملہ نہیں کرتے تھے۔ اگر اذن کی آواز سنتے
تو حملہ ملتوی کر دیتے ، اور اگر نہ سنتے
تو ان پر صبح ہونے کے فورا بعد حملہ کر تے۔
(صحیح بخاری)
امام
نووی نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ
یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ اذان کی وجہ سے
اس علاقے کے لوگوں پر حملہ کرنا ممنوع ہو جاتا ہے
اور اس سے ان لوگوں کے مسلمان ہونے کا
بھی ثبوت ملتا ہے۔
"اگر کوئی مسلمان
وہاں (غیر مسلم اکثریت ممالک میں
) رہتے ہوئے اس حالت میں ہے کہ وہ اپنے اسلام کا کھلم کھلا اعلان کر سکے تو اس کے لئے بہتر ہے کہ
وہ ایسا کرتا رہے، کیونکہ یہ کسی ملک کے
دارالاسلام ہونے کے لئے کافی ہے۔ "
اگر ہم ان ممالک کے قوانین پر غور کریں
جو جہادی بیانات کا حصہ
بنتے رہتے ہیں مثال کے طور پر
ہندوستان ، تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ملکوں میں قانونا مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل
ہے۔ مزید یہ کہ مسلم شہریوں نے آئینی
حقوق کے مطابق پر امن زندگی گزارنے
کا معاہدہ بھی کیا ہوا ہے۔ اس
لئے مسلمانوں کو جب تک آئینی حقوق حاصل ہیں جو انہیں مذہبی آزادی اور سلامتی فراہم کرتا
ہے تب تک ان پر سابقہ مسلم مفتوحہ
علاقوں پر دوبارہ قبضہ بحال کرنا لازم
نہیں ہے۔ اگر ان پر کوئی غیر مسلم کبھی بھی ظلم کرتا ہے تو وہ عدالت عظمیٰ جائیں یاچاہیں تو برداشت کر جائیں خوف کا اظہار نہ کریں بلکہ شریفوں جیسا برتاو کریں۔
مذکورہ بالا بحث
سے پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ جہادی بیانیے اور اسلام کی روایتی تشریحات میں کافی تضاد پایا جاتا ہے، اس لئے
اسلاموفوبیا کے شکار لوگوں کو یہ دعوی کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں کہ جہادی
نظریہ کی بنیاد اسلام کی روایتییا کلاسیکی تشریح ہے۔
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism