New Age Islam
Fri Feb 14 2025, 04:25 PM

Urdu Section ( 22 Sept 2021, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Refutation of ISIS That Justifies Terrorism in 21st Century: Did the ‘Sword Verse’ 9:5 Really Abrogate Verses of Peace and Forbearance? Part -5 دہشت گردی کا جواز پیش کرنے والے داعش کی تردید: کیا آیت السیف 9:5 نے واقعی امن و رواداری والی آیتوں کو منسوخ کر دیا ہے؟ حصہ -5

غلام غوث صدیقی، نیو ایج اسلام

30 نومبر 2019

جب ’داعش‘ کے دہشت گرد عسکریت پسندوں نے سن 2014 میں عراقی علاقے پر نام نہاد ولایت نینوا میں قبضہ کرلیا تو انہوں نے یزیدیوں کے خلاف اپنے دہشت گردانہ اقدام کا جواز "آیت السیف" کے ذریعہ پیش کیا۔ انہوں نے یزیدیوں کی آبادی کو "عراق اور شام کے علاقوں میں موجود ایک کافر اقلیت" قرار دیا اور یہ کہا کہ قیامت کے دن مسلمانوں سے پوچھا جائے گا کہ "یزیدی اب تک موجود" کیوں ہیں اور انہوں نے مشرکین کے بارے میں "1400 سال قبل نازل ہونے والی آیت السیف" پر عمل کیوں نہیں کیا (دابق میگزین، شمارہ 4، ستمبر-اکتوبر 2014، صفحہ 13)۔ اس کے بعد اس میگزین میں آیت "مشرکوں کو مارو جہاں پا ؤ" (9:5) کا حوالہ دیا اور اپنے پیروکاروں کو یزیدیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا اس لیے کہ وہ بھی "مشرکین میں سے ہیں"۔

داعش اور دیگر جہادی نظریہ سازوں کے مطابق آیت 9:5 نے امن، رواداری اور ہر قسم کے امن معاہدوں والی قرآنی آیات کو مستقل طور پر منسوخ کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ یہ مانتے ہیں کہ مشرکین سمیت "یزیدیوں" اور "صوفی مسلمانوں" کو قتل کر دیا جانا چاہئے، بصورت دیگر قیامت کے دن وہ خدا کے سامنے اس کے لئے جوابدہ ہوں گے۔

پچھلے چار حصوں میں ہم نے متعدد فقہی زاویوں سے آیت 9:5 کی معقول تشریح اور اس کے سیاق و سباق کا تجزیہ کیا۔ اس حصے میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کس طرح جہادیوں نے نسخ کے تصور کا غلط استعمال کیا ہے اور جب وہ یہ کہتے ہیں کہ آیت 9:5 نے امن و رواداری والی آیات کو منسوخ کردیا ہے تو اس میں غلط کیا ہے۔

فقہائے متقدمین اور متاخرین کے مابین لفظ ’’نسخ‘‘ کی اصطلاحی تعریف میں کافی اختلاف رہا ہے۔ اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اقوال صحابہ و تابعین کی روشنی میں یہ تحقیق پیش کی ہے کہ انہوں نے 'نسخ' کا انطباق بعد میں ظاہر ہونے والے ان اصولین کے مقابلے میں کہیں زیادہ وسیع معنوں میں کیا ہے جن کی تعریف بعد کے فقہائے نے اختیار کیا۔

فقہائے متقدمین کے مطابق نسخ کا معنی مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر کسی آیت کے حکم کے بعض اجزاء کا کسی دوسری آیت کے حکم سے ساقط ہونا ہے۔

·         یہ بتانے کے لئے کہ منسوخ آیت پر عمل کرنے کا وقت ختم ہوچکا ہے

·         غیر متبادر سے متبادرکی طرف کلام کا رخ موڑنے کے لئے

·         عام حکم کی تخصیص کی نشاندہی کرنے کے لئے جہاں کسی آیت میں باہم تضاد نہیں ہوتا بلکہ کسی آیت کے عام حکم کے سلسلے میں وضاحت پیش کر دی جاتی ہے۔

·         یہ واضح کرنے کے لئے کہ منصوص اور متشابہ میں کون سی چیز فرق کرتی ہے

·         کفار عرب یا سابقہ شریعت کی مستقل طور پر تنسیخ ظاہر کرنے کے لئے

·         کسی حکم کا سبب یا علت کے خاتمے کو ظاہر کرنے کے لئے

·         ایسی مؤثر علت حکم کی عدم موجودگی میں عارضی نسخ ظاہر کرنے کے لئے جس کی وجہ سے وہ حکم نازل ہوا تھا

مختصر یہ کہ شاہ ولی اللہ کے مطابق فقہائے متقدمین نسخ کا لفظ ایک وسیع ترین معنیٰ میں استمعال کیا کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ متقدمین مفسرین نے منسوخ آیتوں کی تعداد پانچ سو ذکر کی ہے۔

اس کے برعکس، فقہائے متاخرین نے نسخ کی اس وسیع تر تعریف کو مسترد کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ منسوخ آیات کی تعداد بہت کم رہ گئی۔

قاضی ابوبکر ابن عربی، الاتقان میں علامہ جلال الدین سیوطی اور الفوز الکبیر میں شاہ ولی اللہ دہلوی کی پیش کردہ تحقیق سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ منسوخ آیات کی تعداد میں اتنا بڑا فرق محض لفظ 'نسخ' کے اصولی استعمال کا نتیجہ تھا کیوں کہ بعد کے فقہائے متاخرین نے اصولیین کی وضع کردہ نسخ کی ایک انتہائی محدود تعریف کو اپنایا۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کی وضع کردہ لفظ ’’نسخ‘‘ کی اس اصولی اور محدود تعریف کا ہی نتیجہ تھا کہ انہوں نے آخرکار منسوخ آیات کی تعداد صرف پانچ متعین کی۔

تاہم شاہ ولی اللہ دہلوی کے اصولی تجزیہ کے مطابق کچھ کلاسیکی علماء ایسے بھی ہوئے جن کا خیال یہ تھا کہ اگر اسی تجزیہ کو مزید گہرائی سے دیکھا جائے تو قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت نہیں بچے گی جسے منسوخ قرار دیا جاسکے۔ مثال کے طور پر ابو مسلم الاصفہانی (متوفی934 / 1527) کا تو یہاں تک ماننا تھا کہ نسخ کا جو تصور مرکزی دھارے کے کلاسیکی علماء و فقہائے نے پیش کیا ہے وہ پایا ہی نہیں جاتا اور جو احکام بظاہر متضاد معلوم ہوتے ہیں ان کا تصفیہ کیا جاسکتا ہے۔ اصفہانی کے اس نظریہ کو دوسرے کلاسیکی علماء نے مسترد کردیا، مثال کے طور پر علامہ آلوسی کہتے ہیں "تمام شرائع سے تعلق رکھنے والے افراد نے متفقہ طور پر نسخ کے جواز کو تسلیم کیا۔ تاہم، اساویہ فرقے کے استثناء کے ساتھ صرف یہودیوں نے اس کا انکار کیا اور ابو مسلم الاصفہانی نے صرف اس کے وقوع کا انکار کیا ہے کیونکہ ان کا یہ کہنا ہے کہ عقل اسے ممکن تسلیم کرتی ہے لیکن یہ کبھی واقع نہیں ہوا ہے۔ "(روح المعانی) امام قرطبی فرماتے ہیں، "نسخ کے سوال کو سمجھنا ضروری ہے کیوں کہ اس کے بڑے فوائد ہیں جس کا انکار کوئی بھی عالم نہیں کرسکتا بلکہ صرف جاہل اور بے علم لوگ ہی نسخ سے انکار کرسکتے ہیں"۔

جیسا کہ ہم پہلے ہی بیان کر چکے ہیں کہ یہ تمام اختلافات محض لفظ ’نسخ‘ ‘کے اصولی طور پر استعمال کا نتیجہ تھے، تاہم، اس سے فقہائے متقدمین یا متاخرین میں سے کسی کی مذمت کرنے کا کوئی جواز نہیں پیدا ہوتا ہے۔ اور جہاں تک جہادی نظریہ سازوں کی بات ہے تو وہ نسخ کی صحیح اور وسیع ترین تفہیم کا احاطہ کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کا استعمال فقہائے متقدمین نے جامع طور پر اور ان اصولیین نے جس کا محدود استعمال کیا جن کی پیروی جدید فقہائے نے کی۔ جہادی نظریہ سازوں کی یہ ناکامی ان کی قرآنی آیات خصوصا جنگ اور امن والی آیات کی تفسیر و تاویل میں بہت بڑی بدعنوانی کا باعث بنی۔

تفصیلات کے بغیر یہاں نسخ کے اس ابتدائی تجزیہ کے بعد اب ہم امن اور جنگ سے متعلق آیات کو سمجھنے کے لئے نسخ کے ایک اہم معنی پر توجہ کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ فقہائے متقدمین نے ایک جامع اور عمومی معنیٰ میں لفظ نسخ کا استعمال کیا ہے جس میں کچھ خاص شرائط، دفعات یا استثناء کے ساتھ کسی حکم کی مستقل تنسیخ اور عارضی تنسیخ بھی شامل ہے۔ فقہائے متقدمین کی اصطلاح میں جنگ اور امن سے متعلق آیات کے ساتھ "نسخ" کے استعمال کا مطلب مستقل نسخ نہیں بلکہ عارضی نسخ یا سیاق و سباق کا معاملہ ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نسخ کے ان کے عمومی استعمال کے مطابق جنگ سے متعلق آیات کا اطلاق جنگ کے اوقات میں ہوتا ہے اور امن سے متعلق آیات کا اطلاق امن کے وقت یا امن معاہدوں کی شرط پر ہوتا ہے۔

ان اصولیین کے مطابق جن کی تقلید جدید فقہائے نے کی نسخ صرف وہی نسخ ہے جسے کسی بھی طرح سے حکم ماقبل کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس تعریف کے ساتھ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جنگ اور امن سے متعلق آیات کے مابین تخصیص اور سیاق و سباق کا اطلاق آسانی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے، لہٰذا فقہائے متاخرین کے مطابق ان آیات کو ناسخ یا منسوخ نہیں قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم، اگر ایسی درجہ بندی کی جائے تو یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم فقہائے متقدمین کی وضع کردہ نسخ کی عمومی تعریف اختیار کریں لیکن اس صورت میں بھی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنگ اور امن والی آیات کے تعلق سے ان کا مطلب ضرور 'عارضی نسخ' اور سیاق و سباق کا معاملہ ہوگا۔

اب اگر فقہائے متقدمین اور فقہائے متاخرین کے مابین اس مسئلے میں کوئی فرق ہے تو یہ صرف نسخ کے اصولی استعمال کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا، دونوں جہتوں سے جہادیوں کے پاس امن کی اس موجودہ صورتحال میں جنگ سے متعلق آیات کا اطلاق کرنے کی کوئی سبیل نہیں ہے جس پر دنیا کے تقریبا تمام ممالک کا باہمی اتفاق و اتحاد ہے۔

اب ہم جنگ اور امن سے متعلق آیات کے نسخ کے موضوع پر کچھ کلاسیکی علماء کی عبارتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

فقہائے متقدمین کی تحریروں کے حوالے سے ابن کثیر لکھتے ہیں، ‘‘اس آیت 9:5 کو آیت سیف کہا جاتا ہے جس کے بارے میں ضحاک بن مزاحم کہتے ہیں: ‘‘اس آیت نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان امن کے تمام معاہدوں کو منسوخ کر دیا ہے’’۔ العوفی نے کہا کہ ابن عباس نے آیت 9:5 کی تفسیر یہ کی ہے کہ جب سے سورہ بقرہ نازل ہوئی ہے تب سے مشرکین کے پاس امن اور حفاظت کا کوئی معاہدہ اور کوئی وعدہ باقی نہ رہا’’ (تفسیر ابن کثیر۔ جلد 2۔ صفحہ 573)

 ابن کثیر نے یہ بھی کہا؛

ثم اختلف المفسرون في آية السيف هذه ، فقال الضحاك والسدي : هي منسوخة بقوله تعالى : ( فإما منا بعد وإما فداء ) [ محمد : 4 ] وقال قتادة بالعكس ۔

‘‘لہذا آیات سیف 9:5 پر مفسرین نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا ہے۔ ضحاک اور سدی نے کہا کہ، ‘‘یہ آیت قرآن کی اس آیت سے منسوخ ہے، ‘‘پھر اس کے بعد چاہے احسان کرکے چھوڑ دو چاہے فدیہ لے لو’’(47:4)۔ تاہم قتادہ نے ضحاک کے خلاف قول کیا۔

مذکورہ بالا حوالوں میں ابن کثیر نے ضحاک بن مزاحم کا حوالہ دیا ہے جو تابعی تھے (ان مسلمانوں کی دوسری نسل جنہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعلیمات ایک واسطے سے حاصل کی تھی) لیکن ان کی روایت کو امام ذھبی کی تحقیق کے مطابق یحییٰ بن سعید اور یحیی القطان سمیت مفسرین اور محدثین کی ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے۔ دیگر روایات کے مطابق ضحاک ایک ممتاز مفسر اور فقیہ تھے۔ (ملاحظہ ہو امام ذہبی کی سیر اعلام النبلا)۔ ضحاک کے جس حوالے کو ابن کثیر نے لیا ہے اسے مستند سمجھ لیا جائے تب بھی اس سے یہ واضح نہیں ہوتا ہے کہ اس سے ضحاک کی مراد مستقبل میں کئے جانے والے تمام امن معاہدو کی مستقل طور پر منسوخی ہے۔ چونکہ ضحاک کا شمار فقہائے متقدمین میں ہوتا ہے جنہوں نے عارضی اور مستقل دونوں قسموں کی تنسیخ کے لئے عمومی معنی میں اصطلاحِ "نسخ" کا استعمال کیا ہے۔ لہذا مندرجہ بالاعبارت قمیں ضحاک اور ابن عباس دونوں کے حوالوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نسخ سے ان کی مراد عارضی طور پر امن و رواداری کی منسوخی تھی کیونکہ وہ صورتحال جنگ کی تھی۔ یہ نتیجہ اس وجہ سے بھی زیادہ معقول معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کے حالات ختم ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کے بعد اور خلفاء راشدین کے زمانے میں بھی امن کے بہت سارے دوسرے معاہدے کئے گئے تھے۔

کلاسیکی فقہائے متاخرین کے مطابق جنہوں نے لفظ ''نسخ'' کی ایک انتہائی محدود تعریف ہے، جنگ سے متعلق آیات نے امن و رواداری والی آیات کو منسوخ نہیں کیا ہے۔ امام جلال الدین سیوطی اور زرکشی وغیرہ نے علوم قرآن پر اپنے عمدہ فن پاروں میں اس نظریہ کو ثابت کیا ہے۔

امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب ‘‘الاتقان فی علوم القرآن’’ میں جسے علوم القرآن میں ایک عظیم شاہکار تسلیم کیا جا تا ہے، یہ واضح کیا ہے کہ چند فقہاء کی رائے کے خلاف یہ آیت 9:5 نسخ کا نہیں بلکہ سیاق و سباق کا موضوع ہے۔ چند مخصوص حالات میں صبر اور عفو و در گزر والی آیت پر عمل کیا جاتا ہے جبکہ بعض مخصوص حالات میں جنگ ضروری ہو جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ قرآن کی کوئی بھی آیت کسی دوسری آیت سے مکمل طور پر منسوخ نہیں ہوئی بلکہ ہر آیت کا ایک مخصوص سیاق و سباق اور محل انطباق ہے۔ چونکہ امام سیوطی نے فقہائے متقدمین کے بر خلاف نسخ کی ایک محدود تعریف اختیار کی ہے اسی لئے وہ سیاق و سباق اور عارضی تنسیخ کے لئے لفظ ‘نسخ’ کا استعمال نہیں کرتے۔ خلاصہ یہ کہ یہ نظریہ فقہائے متقدمین سے مختلف نہیں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ فقہائے متقدمین نے "سیاق و سباق یا عارضی منسوخی کے معاملہ کو لفظ "نسخ" کے عام معنی میں شامل کر لیا تھا۔

امام سیوطی نے علامہ مکی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ‘‘فقہاء کا ایک طبقہ یہ مانتا ہے کہ آیت ‘‘انہیں معاف کردو اور ان سے درگزرو بیشک احسان والے الله کو محبوب ہیں’’، محکم اور غیر منسوخ ہے اس لئے کہ اس قسم کا آسمانی حکم سیاق و سباق اور محل انطباق کا موضوع ہے’’ (الاتقان فی علوم القرآن، جلد  ، صفحہ 71-70)۔ ہم نے ماسبق میں یہ دیکھا کہ فقہائے متقدمین نے بھی سیاق و سباق اور محل انطباق کا معاملہ بیان کیا ہے مگر ’نسخ‘ کے عمومی معنیٰ میں۔

بالکل اسی نظریہ کی تائید ایک عظیم فقیہ اور اصولی امام زرکشی نے بھی علوم قرآنیہ میں اپنی ایک مایہ ناز تصنیف ‘‘البرہان فی علوم القرآن’’ میں کی ہے۔ متعدد مفسرین کا حوالہ پیش کرتے ہوئے امام زرکشی ان الفاظ میں نسخ کا معنی بیان کرتے ہیں:

الثالث: ما أمر به لسبب ثم يزول السبب، كالأمر حين الضعف والقلة بالصبر بالمغفرة للذين يرجون لقاء الله ونحوه من عدم إيجاب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر والجهاد ونحوها، ثم نسخه إيجاب ذالك۔ وهذا ليس بنسخ في الحقيقة، وإنما هو نسء، كما قال تعالى (أو ننسئها) فالمنسأ هو الأمر بالقتال، إلى أن يقوى المسلمون، وفي حال الضعف يكون الحكم وجوب الصبر على الأذى۔

وبهذا التحقيق تبين ضعف ما لهج به كثير من المفسرين في الآيات الآمرة بالتخفيف أنها منسوخة بآية السيف، وليست كذالك بل هي من المنسأ، بمعنى أن كل أمر ورد يجب امتثاله في وقت ما لعلة توجب ذالك الحكم، ثم ينتقل بانتقال تلك العلة إلى حكم آخر، وليس بنسخ، إنما النسخ الإزالة حتى لا يجوز امتثاله أبدا۔ وإلى هذا أشار الشافعي في "الرسالة" إلى النهي عن ادخار لحوم الأضاحي من أجل الرأفة، ثم ورد الإذن فيه فلم يجعله منسوخا، بل من باب زوال الحكم لزوال علته، حتى لو فجأ أهل ناحية جماعة مضرورون تعلق بأهلها النهى۔۔۔۔۔ويعود هذان الحكمان – أعنى المسالمة عند الضعف والمسايقة عند القوة- بعود سببهما، وليس حكم المسايقة ناسخا لحكم المسالمة، بل كل منهما يجب امتثاله في وقته" (البرهان في علوم القرآن للزركشي ج 2، النوع الرابع والثلاثون، ص 42، مكتبة دار التراث، القاهرة)

امام زرکشی کے مندرجہ بالا عربی اقتباس کا معنی یہ ہے کہ کئی مفسرین کو یہ مغالطہ ہوا کہ آیت السیف نے صبر اور عفو و درگزر والی آیتوں کو منسوخ کر دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ "نسخ" کسی قانونی حکم کے اس طرح مکمل خاتمہ کا تقاضا کرتا ہے کہ پھر دوبارہ کبھی اسے نافذ نہ کیا جائے۔ جبکہ اس طرح کی آیات کا یہ معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ ان میں سے ہر آیت کا ایک خاص معنی ہے جو کہ ایک مخصوص سیاق و سباق کے ساتھ خاص ہے۔ حالات کے بدلنے پر مختلف آیات کا نفاذ لازم ہو جاتا ہے۔ نسخ کا صحیح معنی یہ ہے کہ کوئی حکم ہمیشہ کے لئے ختم نہیں کیا گیا ہے۔ امام زرکشی نے اپنے دلائل کو پختہ کرنے کے لئے امام شافعی کے "الرسالہ" سے بھی ایک مثال پیش کیا ہے جسے محولہ بالا کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے۔

یہاں امام زرکشی یہ بیان کرتے ہیں کہ امن اور جنگ سے متعلق آیتوں کو ان کے مناسب سیاق و سباق میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے، لہٰذا ان میں سے کسی کو ناسخ یا کسی کو منسوخ نہیں کہا جا سکتا۔

علوم قرآنیہ کے مندرجہ بالا دو عظیم اماموں کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ آیت 9:5 نے کسی بھی صورت میں امن و عفو و درگزر والی آیتوں کو منسوخ نہیں کیا ہے بلکہ ہر آیت کو اس کے مناسب سیاق و سباق میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔

آیت 9:5 کا حکم سیاق و سباق اور تخصیص و تعین کا معاملہ ہے نہ کہ 'نسخ' کا جیسا کہ فقہائے متاخرین نے بیان کیا ہے۔ اس قول کی حمایت امام بیضاوی، علامہ الوسی، امام ابوبکر جصاص اور بے شمار دیگر اصولین نے بھی کی ہے۔

البیضاوی (متوفی 685 ھ) اپنی کتاب "انوار التنزیل و اسرار التاویل کی جلد 3، صفحہ 71، 9:5- عربی)" میں جو کہ کلاسیکی تفسیر کی کتاب ہے اور برصغیر ہند کے مدرسوں میں شامل نصاب بھی ہے، اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں "فاقتلوا المشرکین (ای) الناکثین" جس کا مطلب یہ ہے کہ آیت 9:5 میں بیان کردہ مشرکین سے مراد نکاثین یعنی مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کر کے امن معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے ہیں۔

آلوسی (متوفی 1270ھ) اپنی کتاب "روح المعانی" (جلد 10، صفحہ 50، - 9:5، عربی) میں جو کہ تفسیر کی ایک دیگر کلاسیکی کتاب ہے لکھتے ہیں،

على هذا فالمراد بالمشركين في قوله سبحانه: (فاقتلوا المشركين) الناكثون

ترجمہ: لہٰذا، اللہ عز و جل کے قول "مشرکوں کو مارو" میں مشرکین سے مراد ناکثین یعنی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کر کے امن معاہدوں کی خلاف ورزی کی تھی۔

ایک کلاسیکی اصولی ابو بکر الجصاص (المتوفی 370 ھ) لکھتے ہیں،

"صار قوله تعالى: {فَاقْتُلُوا المُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ} خاصّاً في مشركي العرب دون غيرهم"

ترجمہ: "آیت (مشرکوں کو قتل کرو جہاں کہیں پاؤ) میں خاص طور پر عرب کے مشرکین مراد ہیں اور اس کا اطلاق کسی اور پر نہیں ہوتا" (احکام القرآن للجصاص، جلد 5، صفحہ 270)

امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں،

"قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیت 9:5 پر اپنی تفسیر میں امام ابن حاتم نے حضرت ابن عباس (رضي اللہ تعالی عنہما جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے) سے یہ روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:‘‘اس آیت میں مذکور مشرکین سے مراد قریش کے وہ مشرکین ہیں جن کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے [صلح] کا معاہدہ کیا تھا (در منثور،جلد۔3، صفحہ 666- اردو)

وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ، "امام ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو شیخ (رضی اللہ تعالی عنہم) نے حضرت محمد بن عباد بن جعفر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا "یہ مشرکین بنو خذیمہ بن عامر کے ہیں جو بنی بکر بن کنعانہ سے تعلق رکھتے ہیں،"(در منثور، جلد 3۔ صفحہ 666- اردو)

مذکورہ بالا گفتگو سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جنگ سے متعلق آیتوں نے بشمول 9:5 کے امن، تحمل اور رواداری والی آیات کو مستقل طور پر منسوخ نہیں کیا ہے۔ امن اور جنگ میں سے ہر ایک کی آیتوں کا ایک خاص سیاق و سباق اور محل انطباق ہے۔ فقہائے متقدمین کے مطابق نسخ کی اصطلاح سیاق و سباق، تخصیص اور عارضی منسوخی کے کے لئے بھی استعمال کی جاتی تھی۔ اس کے برعکس، فقہائے متاخرین نے سیاق و سباق اور تخصیص و تعین کے لئے لفظ ‘نسخ’ کا استعمال نہیں کیا اور اسی وجہ سے انہوں نے کہا کہ جنگ والی آیتیں امن و رواداری والی آیتوں سے منسوخ نہیں ہیں۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا یہ فرق کوئی بنیادی نہیں بلکہ محض اصطلاحی نوعیت کا ہے۔ لہذا، داعش، طالبان، بوکو حرام اور جیشِ محمد وغیرہ جیسے جدید جہادی نظریہ ساز اپنے اس دعویٰ کے جواز میں کسی صورت کوئی ٹھوس دلیل نہیں قائم کر سکتے کہ آیت 9:5 نے مستقل طور پر امن و پرامن بقائے باہمی والی آیتوں کو منسوخ کردیا ہے۔ مزید یہ کہ موجودہ 21 ویں صدی وہ دور ہے کہ جہاں ہم سبھی مسلمان اور غیر مسلم باہمی طور پر پرامن طریقے سے جینے اور اپنے اپنے قوانین کی پاسداری کرنے پر اتفاق قائم کر چکے ہیں۔ لہذا، جہادی نظریہ سازوں کو امن کے خاتمے کے نام پر ہمارے کسی بھی سادہ لوح مسلم بھائی کی منفی ذہن سازی کی کوشش ترک کر دینا چاہئے۔

English Article: Refutation of ISIS That Justifies Terrorism in 21st Century: Did the ‘Sword Verse’ 9:5 Really Abrogate Verses of Peace and Forbearance? Part -5

Refutation of ISIS That Uses the Verse, ‘Kill the Mushrikin Wherever You Find Them’ To Justify Terrorism in 21st Century: Linguistic Analysis of the Word ‘Mushrikin’ Part-1 قرآنی آیت ۹:۵ اور داعش کا رد : لفظ مشرکین کا لغوی تجزیہ

Refutation of ISIS: Mushrikin In Quranic Verse 9:5? - Part 2 داعش کی تردید: آیت 9:5 میں مشرکین سے مراد کون ہیں؟

Refutation of ISIS-the Quranic verse 9:5 –Part 3 آیت 9:5 سے متعلق ظاہر اور نص کے اصول سے داعش کا رد جسے 21 ویں صدی میں تشدد کے جواز میں پیش کیا جاتا ہے

Refutation of ISIS in the Context and Structure of the Quranic Verse ‘Kill the Mushrikin wherever you Find them’ (9:5) - Part 4 آیت ’مشرکین کو مارو جہاں پاو‘ (9:5) کے سیاق و سباق کی روشنی میں داعش کا رد - حصہ 4

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/refutation-isis-justifies-terrorism-part-5/d/125412

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..