ترکی، پاکستان اور ازبکستان
نے اپنی سرحدیں سیل کر دی ہیں۔
1. امریکہ،
کینیڈا اور برطانیہ نے افغان مہاجرین کو اپنی سرحدوں میں داخل ہونے کی اجازت دی ہے۔
2. امریکی
حکومت نے افغان مہاجرین کے لیے 500 ملین ڈالر کو منظوری دی ہے۔
3. یورپ
کی غیرسرکاری تنظیموں نے یورپی شہریوں سے کہا ہے کہ وہ افغان مہاجرین کی مدد کے لیے
سامنے آئیں۔
4. مسلم
ملکوں نے افغان مہاجرین یا اندرونی طور پر بے گھر افراد کو مالی امداد کی پیشکش نہیں
کی ہے
5. طالبان
نے بے گھر افغانیوں کے لیے کوئی ہمدردی یا تشویش ظاہر نہیں کی ہے۔
---------------
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
19 اگست 2021
An
Afghan national at a gathering to urge the international community to help
Afghan refugees, in New Delhi on August 18 [Anushree Fadnavis/Reuters]
------
افغانستان میں طالبان کے کرسیء
اقتدار پر بیٹھتے ہی سیاسی عدم استحکام کا بڑا نتیجہ افغانوں کی بڑے پیمانے پر نقل
مکانی تھی۔ تقریبا 400،000 افراد داخلی طور
پر بے گھر ہو چکے ہیں اور لاکھوں افغانی طالبان کی ظالم حکومت کے خوف سے افغانستان
سے بھاگ رہے ہیں جیسا کہ وہ ان کے سابقہ دور حکومت میں دیکھ چکے ہیں۔ افغانوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی انسانی بحران
کا باعث بنی ہے۔ اس بحران میں خواتین اور بچے سب سے زیادہ کمزور طبقہ ہیں اور وہی سب
سے زیادہ اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ بہت سے افغانوں
نے ترکی بھاگنے کی کوشش کی ہے جبکہ بہت سے لوگ پاکستان کے چمن میں فرینڈ شپ گیٹ کے
ذریعے پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ سرحدی ایران کی طرف بھی بھاگ کر
گئے ہیں جہاں پہلے سے ہی لاکھوں افغان بطور مہاجر رہتے ہیں۔ بہت سے افغان جنگلات اور
پہاڑی علاقوں کے ذریعے سرحدی ممالک میں داخل ہوئے ہیں کیونکہ حکومتیں انہیں داخل ہونے
کی اجازت نہیں دے رہی ہیں۔
اس انسانی بحران کا سب سے
بدنما پہلو یہ ہے کہ بیشتر مسلم ممالک نے بے گھر افغانیوں کو اپنے علاقے میں داخل ہونے
سے روک دیا ہے اور یہ دلیل دی ہے کہ ایسا کرنے سے ان پر پناہ گزینوں کا بوجھ زیادہ
ہو جائے گا۔ اس کی وجہ سے ان تارکین وطن کو استحصال اور مصائب و آلام کا خطرہ زیادہ
ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر مسلم ممالک کے خود
ساختہ رہنما ترکی نے اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان سے نقل مکانی کرنے والوں کو اپنی
زمین میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گا کیونکہ اس نے پہلے ہی شام سے آنے والے 4 ملین
مہاجرین اور افغانستان کے 1،20،000 مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔ اس نے اپنی سرحدیں سیل کر دی ہیں اور پناہ گزینوں
کی آمد کو روکنے کے لیے ایک دیوار بنا دی ہے۔
تاہم، اس سے ایسے اسمگلروں کو موقع ملا ہے جو افغان مہاجرین سےغیر قانونی طور
پر انہیں ترکی لے جانے کے لیے فی کس 1000 ڈالر لیتے ہیں۔ ترکی نے ملک میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والے
تقریبا 1500 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
People
arriving from Afghanistan cross the fence at the Friendship Gate crossing
point, in the Pakistan-Afghanistan border town of Chaman, Pakistan [Abdul
Khaliq Achakzai/Reuters]
-----
پاکستان کہ جس کی سرحدیں افغانستان
کے ساتھ ملی ہوئی ہیں اور جو افغانستان کے سیاسی معاملات میں بہت زیادہ سیاسی مداخلت
کرتا ہے اس نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ افغانستان سے مزید مہاجرین کو داخل ہونے
کی اجازت نہیں دے گا۔ پاکستان کے وزیر اعظم
عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان پہلے سے ہی لاکھوں غیر رجسٹرڈ مہاجرین کے علاوہ افغانستان
سے 1.4 ملین رجسٹرڈ مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ مہاجرین کی مزید آمد سے ملک کے لیے معاشی، سماجی
اور سیاسی مسائل پیدا ہو جائیں گے۔
ایک اور مسلم ملک ازبکستان جو افغانستان
کی سرحدوں سے لگا ہوا ہے اس نے بھی اپنی سرحدیں سیل کر دی ہیں اور واضح کر دیا ہے کہ
وہ غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گا۔ کم از کم 158 افغانیوں کو غیر قانونی طور پر ملک
میں داخل ہونے پر حراست میں لے لیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ 446 افغان فوجی جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر اور 585 فوجی غیر قانونی
طور پر ازبکستان میں داخل ہوئے تھے جنہیں ترمیز میں اترنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
صرف ایران جوکہ ایک شیعہ اکثریتی
ملک ہے اس نے اپنی سرحدیں کھلی رکھی ہیں حالانکہ وہ پہلے ہی دس لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین
کی میزبانی کر رہا ہے۔ یو این ایچ سی آر نے
افغان مہاجرین کے حوالے سے ایران کے جامع اور انسانیت نواز رویے کی تعریف کی ہے۔ واضح رہے کہ ایران نے افغان شہریوں کو اپنے قومی
صحت اور تعلیم کے نظام میں شامل کر لیا ہے۔
یو این ایچ سی آر نے امید ظاہر کی ہے کہ ایران افغان مہاجرین کی مہمان نوازی
اور ان کے تحفظ کو جاری رکھے گا۔
دوسری طرف یورپی ممالک نے افغان
مہاجرین کے لیے سب سے زیادہ فکر اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے جیسا کہ انہوں نے شام کے
مسلم مہاجرین کے لیے اپنی فکر اور ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔ چونکہ کسی بھی مسلم ملک نے افغانستان میں طالبان
کے اقتدار میں آنے سے پیدا ہونے والے پناہ گزینوں کے بحران کو حل کرنے کے لیے کوئی
مخلصانہ، مالی یا سفارتی اقدام نہیں اٹھایا ہے، یورپی ممالک اور غیر سرکاری تنظیموں
نے ان کے لیے سچی فکر ظاہر کی ہے۔ امریکی صدر
جو بائیڈن نے خصوصی امیگریشن ویزے کے درخواست گزاروں سمیت افغانستان کی صورت حال کے
سے پیدا ہونے والے پناہ گزینوں، تنازعات کا شکار اور دیگر افراد کی غیر متوقع اور فوری
ضروریات کے لیے 500 ملین ڈالر کی اضافی امداد دی ہے۔
As
thousands of people attempt to flee Afghanistan with the Taliban in control,
some people here in the Valley are looking to help. (WHSV)
------
مزید یہ کہ 46 سینیٹروں نے
"انسانی پیرول کیٹیگری" کا مطالبہ کیا ہے تاکہ افغان انسانی حقوق کے کارکنوں
اور عوامی شخصیات کو فوری طور پر امریکہ منتقل ہونے دیا جائے۔
امریکہ 30 ہزار افغانیوں کو
اپنے علاقے میں منتقل کرنے میں مدد کرے گا اور ان میں سے کچھ کو ٹیکساس کے ایل پاسو
کے فورٹ بلیس میں عارضی طور پر رکھا جائے گا۔
سیو دی چلڈرن اور پرو اسیل
جیسی غیر سرکاری تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ یورپی ممالک کو بے گھر افغانیوں کو اپنے
ملکوں میں جگہ دینا چاہیے اور یورپ میں ان کے لیے مزید آبادکاری کے مقامات تعمیر کیے
جائیں۔
ایک ایسے وقت میں کہ جب افغان شہریوں
کو اسلامی ممالک کی مدد کی ضرورت ہے انہوں نے ان پر اپنے دروازے بند کر دیے ہیں اور
دوسری طرف مغربی ممالک نے ان کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں اور ان کی مدد کی یقین
دہانی کرائی ہے۔ کل ایک پریس بیان میں برطانیہ
کے وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ برطانیہ آئندہ سالوں میں 20،000 افغانیوں، خاص طور
پر خواتین، بچیوں اور مذہبی اقلیتوں کو اپنی زمین پر جگہ دے گا۔ شام کے بحران کے متاثرین کے لیے بھی برطانیہ نے
ایسا ہی کیا تھا۔
Travelers
enter in Pakistan through a border crossing point in Chaman, Pakistan, Monday,
Aug. 16, 2021. A special flight of Pakistan’s national airline PIA has arrived
in Islamabad carrying 329 passengers from Kabul, and another carrying 170
people will arrive later today. A spokesman for the airline said Saturday that
the airline will operate three flights tomorrow to transport Pakistanis and
other nationalities looking to leave Kabul. (AP Photo/Jafar Khan)
-----
کینیڈا نے بھی 20،000 پناہ
گزینوں کو قبول کرنے پر اپنی رضامندی ظاہر کی ہے جبکہ مسلم ملک تاجکستان نے کہا ہے
کہ وہ ایک لاکھ افغانیوں کو پناہ دے گا۔
اسلامی ممالک کے پاس موجودہ
بحران سے متاثر ہونے والے افغانوں کے لیے کوئی اسکیم نہیں ہے۔ ان کے پاس بحران سے بے گھر ہونے والوں اور غریب
افغانوں کی مدد کے لیے کوئی مالی منصوبہ نہیں ہے۔ امریکہ 2000 افغان پناہ گزینوں کو
لینے کے لئے قطر کو رضامند کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
اس وقت افغان سخت مشکل اور آزمائش
کے دور سے گزر رہے ہیں۔ انہیں کھانے اور طبی
سہولیات کی ضرورت ہے۔ طالبان جو اسلامی شریعت
پر عمل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور شریعت پر مبنی حکومت قائم کرنے کے عزم کا اظہار
کرتے ہیں انہیں ان بے گھر افغانوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔ انہوں نے اب تک افغانوں سے کوئی اپیل نہیں کی ہے
کہ وہ اپنا ملک نہ چھوڑیں۔ اگرچہ انہوں نے
کہا ہے کہ وہ کسی بھی گروہ کے خلاف تشدد نہیں کریں گے لیکن اس سے لوگوں میں اور خاص
طور پر ہزارہ اور ازبک جیسی اقلیتی برادریوں کے درمیان کوئی اعتماد پیدا نہیں ہوا ہے۔
طالبان کا عوام سے ملک نہ چھوڑنے کی اپیل میں کوئی بڑا بیان اب تک نہیں آیا ہے۔ لہذا، ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ طالبان
اقلیتوں، خواتین اور تعلیم کے حوالے سے کیا پالیسی اپنائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ محفوظ اور پرامن زندگی کی امید
میں یورپی ممالک کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ دریں
اثنا مسلم ممالک عام افغان عوام کی مشکلات اور مصائب پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
-------------
English Article: While European Countries Have Offered Asylum to Afghan Refugees, Muslim Countries Have Shut Their Doors on Them
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism