پرویز حفیظ
22 دسمبر 2021
۱۶؍دسمبر
کو بنگلہ دیش نے اپنی آزادی کی پچاسویں سالگرہ اور ہندوستان نے وجے دوس کی گولڈن
جوبلی منائی اورپاکستان میں سوگواری کا ماحول رہا کیونکہ پچاس سال قبل اس دن
پاکستان کا مشرقی بازو کٹ کر الگ ہونے کے سبب ملک دولخت ہو گیا تھا۔ پاکستان کے
ٹوٹنے کے متعدد سیاسی،معاشرتی، اقتصادی، لسانی، ثقافتی اور تہذیبی اسباب ہیں جن کے
متعلق پچھلے پچاس برسوں میں محققین، فوجی جنرلوں، سیاسی لیڈروں اور صحافیوں نے بے
شمارکتابیں اور مقالے لکھے ہیں اور ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
عمران خان۔ تصویر: آئی این
این
------
پاکستان کے ٹوٹنے کے یہ
تمام اسباب اپنی اپنی جگہ درست ہوسکتے ہیں۔ تاہم میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان
سب کی جڑ نظام حکومت کی صرف ایک بنیادی خرابی تھی۔اگر مجھ سے پاکستان کے اس قومی
سانحے کی ایک سب سے اہم وجہ دریافت کی جائے تو میرا جواب ہوگا: جمہوریت کا فقدان۔
ہندوستان اور پاکستان ایک ہی وقت آزاد ہوئے لیکن ہندوستان کی خوش قسمتی یہ تھی کہ
ا سے ایسے سیاسی قائدین ملے جنہوں نے اسے ایک ایسا سیکولر جمہوری ملک بنایا جس میں
آئین اور قانون کی حکمرانی اور پارلیمانی نظام حکومت ہو۔ پنڈت نہرو اور ان کے
رفقاء نے ہندوستان میں جمہوریت کے پودے کو اتنی لگن، جانفشانی اور دیانت داری سے
سینچا اور پروان چڑھایا کہ وہ بہت جلد ایک تناور درخت بن گیا۔ لیکن بدقسمتی سے
پاکستان کے قیام کے سال بھر بعد ہی قائد اعظم جناح کے انتقال اور اس کے تھوڑ ے
عرصے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل نے نوزائیدہ ملک کی سیاست میں طلاطم اور
عدم استحکام پیدا کردیا۔ اس کے بعد سے پاکستان مسلسل سیاسی دلدل میں دھنستا چلا
گیا۔ نو برسوں تک ملک کا آئین نہیں بن پایا اور ۱۹۵۶ءمیں بنے پہلے آئین کو
فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان نے دو سال بعد ہی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ عمران خان سے
پہلے پاکستان نے۲۲؍
وزیر اعظم دیکھے لیکن ان میں سے ایک کو بھی پانچ سالہ مدت مکمل کرنے کا موقع نہیں
مل پایا۔کوئی تیرہ ماہ تک وزیر اعظم کی گدی پر رہا تو کوئی تیرہ دن تک۔ وزیر اعظم
کی کرسی کو میوزیکل چیئرکے کھیل میں تبدیل کرنا جمہوریت اور آئین کا مذاق نہیں تو
پھر اور کیا تھا؟
پہلے صاف ستھرے عام
انتخابات قیام پاکستان کے ۲۳؍
برس بعد ہوئے۔دراصل پاکستان کے قائدین یہ طے نہیں کرسکے کہ نیاملک خالص اسلامی
اسٹیٹ بنے گا یا سیکولر جمہوری ریاست۔ اس پر افتاد یہ آن پڑی کہ فوج نے امورحکومت
میں پوری طرح مداخلت شروع کردی۔ پچھلے ۷۴؍برسوں
میں ۳۱؍برسوں
تک ملٹری پاکستان پر براہ راست حکومت کرتی رہی۔
پاکستان شاید دنیا کا واحد
ملک تھا جہاں بنگالیوں کو جن کی آبادی ۵۶؍
فی صد تھی اور جو اکثریت میں تھے ہرقدم پر پنجابی اقلیت کی نا انصافیوں اور حق
تلفیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان کی تحریک جس پارٹی(مسلم لیگ) نے شروع کی تھی وہ
۱۹۰۶ء میں ڈھاکہ میں بنی تھی
اور ۱۹۴۰ء
میں لاہور کے تاریخی اجلاس میں ایک علاحدہ مسلم ریاست (جسے پاکستان کا نام دیا
گیا) کی قرارداد بھی ایک بنگالی فضل الحق نے پیش کی تھی۔ بنگالیوں نے پاکستان کے
قیام کیلئے سب سے زیادہ قربانیاں بھی دی تھیں۔ لیکن پاکستان کی سیاسی قیادت، فوجی
افسران،نوکر شاہی اور ملک کی اشرافیہ نے ہمیشہ ان کو کمتر سمجھا اور ان کی تضحیک
کی۔ بنگالیوں کی عددی برتری کو تسلیم کرنے
سے بار بار انکار کیا گیا۔ پاکستان میں سیاسی اور عسکری قوتوں کے ذریعہ جمہوریت کو
پنپنے نہ دینے کی اہم وجہ یہی تھی کہ انہیں یہ ڈر تھا کہ اس طرح طاقت کا توازن
بنگالیوں کے حق میں ہوگا کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں۔
عوامی لیگ نے پاکستان سے
علیحدگی کی مانگ نہیں کی تھی۔ شیخ مجیب الرحمٰن صوبائی خود مختاری، بنگلہ زبان اور
کلچر کے احترام، اقتصادی معاملوں میں مساویانہ حصہ داری، بالغ رائے دہی، دیانت
دارانہ انتخابات اورپارلیمانی طرز حکومت کا مطالبہ کررہے تھے۔ وہ بنگالیوں کو بھی
برابری کے حقوق دیئے جانے پر اصرارکررہے تھے۔
لیکن انہیں غدار قرار دیاگیا اور ایوب خان نے مجیب کے چھ نکاتی پروگرام کی
تحریک کو کچلنے کیلئے اگرتلہ سازش کیس میں انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔ یہ اور
بات ہے کہ خصوصی ٹرائبیونل نے انہیں بے گناہ قرار دے کر رہا کردیا۔
دسمبر ۱۹۷۰ءمیں ملک کے پہلے عام
انتخابات تو کروائے گئے تاہم ان کے نتائج کو قبول نہیں کیا گیا۔ ۳۰۰؍
نشستوں والی قومی اسمبلی (پارلیمنٹ)میں مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو ۱۶۰؍اور
ذولفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کو اس کی آدھی یعنی ۸۱؍
سیٹیں ملیں۔ واضح اکثریت حاصل کرنے کے باوجود مجیب کو اقتدار نہیں سونپا گیا۔
حالانکہ صدر یحییٰ خان نے انہیں’’ پاکستان کامستقبل کا وزیر اعظم ‘‘ کہہ کر مخاطب
کیا اور تین مارچ ۱۹۷۲ء
کے دن ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد کا اعلان کردیا۔ لیکن بھٹو کی اس
دھمکی سے کہ اگر منتخب اراکین پارلیمنٹ ڈھاکہ گئے تو وہ ان کی ٹانگیں تڑوا دیں گے
صدر ڈر گئے۔ بھٹو نے ’’ اِدھر تم اُدھر ہم‘‘ کی انوکھی تجویز بھی پیش کی تاکہ
الیکشن ہارنے کے باوجود انہیں اقتدار میں برابر کا حصہ مل جائے۔ بیک وقت دو وزیر
اعظم کا شوشہ بھی چھوڑا گیا۔ قصہ مختصر یہ کہ جمہوری طریقے سے واضح اکثریت والی
پارٹی کے سربراہ شیخ مجیب کو اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے تمام غیر جمہوری
ہتھکنڈے اپنائے گئے۔
بھٹو کی جارحیت، فوجی
آمریت اور مغربی پاکستان کی اشرافیہ کے نسلی تعصبات کی وجہ سے مجیب کو وزیر اعظم
نہیں بننے دیا گیا۔ یحییٰ خان نے مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کے بجائے ۲۵؍
اور ۲۶؍
مارچ کی درمیانی رات میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کاحکم دے دیا۔ آرڈر ملتے
ہی جنرل ٹکا خان نے بنگالیوں کی نسل کشی شروع کر دی۔ اس کے بعد بنگالیوں نے بغاوت
کا اعلان کردیا۔ ظلم دونوں جانب سے ہوا۔ اگر فوج بنگالیوں کو تہ تیغ کررہی تھی تو
مکتی باہنی کے قاتل ٹولے اردو بولنے والے شہریوں کے خون سے ہولی کھیل رہے
تھے۔ دونوں جانب لاکھوں جانیں تلف ہوگئیں
اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے۔ ایک کروڑ لوگ جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے
رفیوجی بن کر ہندوستان میں پناہ گزیں ہوگئے۔۱۶؍
دسمبر ۱۹۷۱ء
کی سہ پہر میں ڈھاکہ کے ریس کورس اسٹیڈٖیم میں پاکستانی لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے
نیازی نے ہندوستانی جنرل جگجیت سنگھ ارورہ اور مکتی باہنی کے عہدے داروں کے سامنے
ہتھیار ڈال دیئے۔ ۹۳۰۰۰؍
پاکستانی فوجی جنگی قیدی بناکر ہندوستان لائے گئے۔ اس واقعہ کو پچھلے ہفتے پچاس
سال ہوگئے۔ پاکستان میں ہر سال اس موقع پر یہ بحث شروع ہوجاتی ہے کہ پاکستان کے
ٹوٹنے کے کیا اسباب تھے۔میری ناقص رائے میں اگر بانیان پاکستان نے ہندوستان کی
تقلید کرتے ہوئے پارلیمانی جمہوریت کو خلوص نیتی سے اپنا لیا ہوتا توشاید پاکستان
نہیں ٹوٹتا۔
22 دسمبر 2021 ، بشکریہ: انقلاب
، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism