نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر
21 جون،2024
یوروپ اور امریکہ نے اپنی
دیرینہ رواداری اور سیکولر اور جمہوری روایات کے تحت دنیا بھر سے مہاجرین کو نہ صرف
پناہ دی ہے بلکہ انہیں سماجی، معاشی اور مذہبی حقوق بھی دئیے ہیں۔ ان ممالک کی اسی
روادارانہ پالیسی کی بدولت دنیا بھر سے مسلمان بہتر زندگی اور مستقبل کی تلاش میں یوروپ
اور امریکہ کے مختلف ممالک میں آکر بس گئے۔ ان ممالک نے اسلامی ممالک میں سیاسی ، فوجی
اور معاشی بحران اور خانہ جنگی کے دور میں بھی ان ممالک کے تباہ حال مسلمانوں کو پناہ
دی۔ بنگلہ دیش کی 1971ء کی خانہ جنگی ہو یا افغانستان میں غیر ملکی تسلط کے نتیجے میں
بیدا ہونے والا بحران ہو ، افریقی ممالک میں ہونے والی خانہ جنگی ہو یا پھر 2014ء میں
شروع ہونے والی مشرق وسطی کی خانہ جنگی ، ہر دور میں یوروپی ممالک نے مسلم ممالک کے
تباہ حال مسلمانوں کو پناہ دی ہے۔یوروپی ممالک کی اسی فراخدلی اور جمہوری روایات کا
نتیجہ ہے کہ آج امریکہ اور یوروپ میں مسلمانوں کی آبادی مقامی آبادی کا 3 سے 4 فی صد
ہے۔ امریکہ کے میشی گن صوبے کا, شہر ہیم ٹرمک جو کبھی یہودی اکثریت والا شہر تھا اب
ایک مسلم اکثرہت شہر بن چکا ہے جہاں کا مئیرمسلمان ہے اور جہاں لاؤڈاسپیکر پر اذان
دینے کا حق مسلمانوں کو مل چکا ہے۔
لیکن امریکہ اور یوروپ کی
اس رواداری اور فراخ دلی کا مسلم انتہا پسند تنظیموں نے اپنے انتہا پسند اور تکفیری
نظریات کی اشاعت کے لئے غلط استعمال کرنا شروع کیا۔ ان تنظیموں نے یوروپ اور امریکہ
کی مساجد میں اپنے مسلک اور مکتب کے ائمہ اور واعظین کی تقرری شروع کردی جو وہاں بھی
اسی طرح کے نظریات اور عقائد کی اشاعت کرنے لگے جو وہ اپنے ملک میں کرتے تھے اور جن
کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے ہی وہ یوروپ میں پناہ گزیں ہوئے تھے۔آج پاکستان کے لاکھوں
مسلمان جرمنی ، اٹلی ، فرانس ، برطانیہ اور نیدرلینڈ میں جاکر بسناچاہتے ہیں کیونکہ
وہ پاکستان میں مسلکی تشدد ، دہشت گردی اور مذہبی تنگ نظری سے پیدا شدہ معاشی اور سماجی
بحران سے زندہ نکل جانا چاہتے ہیں۔ یہی حال افریقہ اور مشرق وسطی کے مسلمانوں کا ہے
جہاں مذہبی شدت پسندی اور تکفیری نظریات کی وجہ سے ایک عرصے سے خانہ جنگی جیسی صورت
حال ہے۔
یوروپی ممالک میں گزشتہ دس
برسوں میں انتہا پسند اسلامی تنظیموں سے وابستہ ائمہ اور واعظین نے وہاں کے مسلمانوں
میں انتہا پسندی کو فروغ دیا ہے اور اب وہ اتنے بے خوف ہو گئے ہیں کہ وہ اپنے گود لئے
ہوئے ملک کی حکومت اور وہاں کے غیر مسلم عوام کے خلاف قابل اعتراض بیانات دینے لگے
ہیں۔ ان بیانات سے مقامی عیسائیوں میں اضطراب اور عدم تحفظ کا احساس شدید ہونے لگا
ہے اور انہیں یہ خدشہ ہے کہ مہاجر مسلمانوں کی انتہا پسندی اور عدم رواداری ان کے کلچر
اور ان کے جمہوری اقدار کو ختم کردیگی ۔ لہذا، مقامی عوام نے اب اس انتہا پسندی کے
خلاف کھل۔کر آواز بلند کرنی شروع کردی ہے اور حکومتوں نے بھی مسلم مہاجرین
کی انتہا پسندی اور مذہبی تنگ نظری سے نپٹنے کے لئے سخت اقدامات کرنے شروع کردئیے ہیں۔
مسلمان ان ممالک میں تین یا چار فی صد کی آبادی میں ہونے کے باوجود وہاں شرعی حکومت
اور خلافت کے قیام کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ گزشتہ 28 اپریل کو جرمنی کے شہرہیم برگ
میں انتہا پسند مسلمانوں کی ایک تنظیم نے ایک ریلی نکالی جس میں کھل کر جرمنی میں خلافت
کے قیام کا مطالبہ کیا گیا۔ اس ریلی نے مقامی جرمن عوام میں شدید ردعمل پیدا کیا اور
ایک ہفتے کے بعد مقامی کرد کمیونٹی کی قیادت میں اس ریلی کے خلاف ایک جوابی ریلی منعقد
کی گئی جس میں 800 افراد نے حصہ لیا۔
فرانس میں بھی انتہا پسند
ائمہ اور مبلغین اسی طرح کے انتہا پسندانہ خیالات کا کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے وہاں
مسلمانوں کی ایک منفی امیج تیار ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے اسلاموفوبیا کو فروغ ہوا
ہے۔ گزشتہ فروری میں فرانس کے ایک مسجد کے امام محجوب محجوبی کو فرانس کی پولیس نے
گرفتار کیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں فرانس کے قومی
پرچم کوشیطانی کہا تھا۔ اس پوسٹ کی اشاعت کے فوراً بعد امام محجوبی کو گرفتار کرلیا
گیا اور انہیں بارہ گھنٹے کے اندر انکے وطن تیونس ڈیپورٹ کردیا گیا۔واضح ہو کہ امام
محجوبی 38 برسوں سے فرانس میں مقیم تھے اور ایک خوش حال زندگی گزاررہے تھے۔
برطانیہ میں بھی انتہا پسند
مسلمانوں کے خلاف عوامی ردعمل اب کھل کر آنے لگا ہے۔ ان کے تکفیری اور انتہا پسبدانہ
نظریات سے برطانیہ کے عیسائیوں میں بھی عدم تحفظ کا احساس بڑھنےلگا ہے اور برطانیہ
کے دائیں بازو کے کارکنوں کو اکثریتی فرقے کو برطانوی مسلمانوں کے خلاف ورغلانے کا
موقع مل گیا ہے۔ چند روز قبل برطانیہ کے دائیں بازو کے کارکن ٹامی روبنسن کی قیادت
میں لندن میں مسلم انتہا پسندی کے خلاف ایک ریلی ہوئی جس میں یہ نعرہ لگایا گیا کہ
" ہمیں ہمارا ملک واپس دو " اور " یہ لندن ہے لندنستان نہیں۔
"۔ برطانیہ میں بڑھتی ہوئی مسلم انتہا پسندی کا ہی فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیراعظم
رشی سونک نے عین الکشن سے قبل غیر قانونی مہاجرین کو غیر محفوظ افریقی ملک روانڈا میں
بسانے کے لئے ایک بل پاس کروایا ہے جس کے تحت برطانیہ کے لاکھوں غیر قانونی مہاجرین
کو جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے روانڈا بھیج دیا جائے گا۔ روانڈا ایک عیسائی اکثریت
والا ملک ہے جہاں کے ریڈیو روانڈا نے وہاں کے اکثریری ہوتو قبائلی فرقے کو توتسی قبیلے
کے خلاف بھڑکاکر1994ء میں ان کا بدترین قتل عام کروایا تھا۔ ایسے ملک میں لاکھوں مہاجر
مسلمانوں کو ریڈیو روانڈا یا میڈیا کے زہریلے پروپیگنڈا کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
آج برطانیہ کے مسلمان انتہا پسند مولویوں اور واعظوں کی انتہا پسندی اور تکفیری سوچ
کی وجہ سے اس مقام پر پہنچے ہیں۔ رشی سونک نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ انتہا پسند
مولوی اور واعظین یہاں زہر پھیلاتے ہیں اور اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو ان کے
خلاف سخت قوانین بنائینگے۔ ان قوانین میں برطانیہ کو برابھلا کہنے والوں کے خلاف بھی
سخت قانونی کارروائی کی تجویز ہوگی۔ یہ انتہا پسند مولوی برطانیہ ، امریکہ اور فرانس
وغیرہ کو دشمن ملک قرار دیتے ہیں اور تمام عیسائیوں کو مسلمانوں کا دشمن بنا کر پیش
کرتے ہیں جبکہ ان ممالک کی حکومتیں انہیں مساجد تعمیر کرنے کی اجازت اور ان کے انتظام
و انصرام کے لئے لاکھوں ڈالر فنڈ بھی دیتی ہیں۔
لہذا، یوروپی ممالک میں مہاجرین
کی بڑھتی ہوئی تعداد سے پیدا شدہ سماجی اور معاشی مسائل کی وجہ سے ویاں کی حکومتیں
مہاجرین کی آمد کو روکنے کے لئے سخت اقدامات اٹھا رہی ہیں جو بین الاقوامی قوانین کے
مطابق غیر قانونی ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہیں۔لیکن اس مسئلے کو مزید
بگاڑنے کے لئے وہاں جاکر بسنے والے انتہا پسند ائمہ اور واعظین بھی ذمہ دار ہیں۔ اس
لئے جرمنی کے کرد رہنما ایرتان توپراک نے بجا طور پر کہا کہ مسلمانوں اور اسلا م کو
انہی انتہا پسند مسلمانوں نے زیادہ نقصانپہنچایا ہے۔
--------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism