New Age Islam
Tue Jun 24 2025, 12:48 PM

Urdu Section ( 17 March 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Can Rationalists Fight Religious Bigots ?: Transcript Of A Speech By Ambassador Ashok Sharma In Delhi کیا عقلیت پسند مذہبی تعصبات سے لڑ سکتے ہیں؟: دہلی میں سفیر اشوک شرما کی تقریر کی نقل

 اشوک شرما، نیو ایج اسلام

 11 مارچ 2023

 --------------------------------------

 مذہبی معاشروں میں زیادہ تر لوگوں کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے۔ توہین مذہب اور سماجی بائیکاٹ کی تلوار انہیں خاموش اور خوفزدہ رکھتی ہے۔ اس سماجی دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

 --------------------------------------

 ہمارے معاشرے کے مخصوص طبقے کی طرف سے "گائے کو گلے لگانے کے دن" کا مشورہ اور نئے نویلے 'بابا' باگیشور دھام سرکار کو حاصل ہونے والی وسیع پیمانے پر حمایت سے ہندوستانی معاشرے میں ایک نئے رجحان کا پتہ چلتا ہے۔ اب تو تعلیم یافتہ متوسط طبقے کے نسبتاً عقلیت پسند طبقے نے بھی غیر سائنسی نظریات اور اعمال کا دفاع کرنا شروع کر دیا ہے جو قرون وسطیٰ کے طریقوں کو فروغ دیتے ہیں۔

 1.       عقلی فکر اور سائنسی مزاج کی ترقی کو درپیش حالیہ چیلنج کا تعلق قرون وسطیٰ کے قدیم مذہبی نظریات سے ہے جو توہمات اور غیر سائنسی امور کو پھیلاتے ہیں جن کو عقیدے اور مذہب کے نام پر سماجی و سیاسی جواز حاصل ہے۔ یہ نظریات اور عقائد کتنے ہی مضحکہ خیز اور غیر سائنسی کیوں نہ ہوں، ان کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ لہذا، عقلیت پسندوں کو اپنی حکمت عملی میں کچھ فوری تبدیلیاں کرنا ہوگی۔ اگر وہ انتہا پسند اور بالادستی کے نظریات کے خلاف جنگ جیتنا چاہتے ہیں تو انھیں پائیدار اور مساوی ترقی، ہر ایک کے لیے معقول حد تک اچھی زندگی اور سب کے لیے ترقی کے لیے آزاد ماحول کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

 2. ہمیں اس بات پر بھی فکر مند ہونا چاہئے کہ کیوں زیادہ تر ممالک میں عقلیت پسند آواز نہیں اٹھاتے اور دوسرے فریق کے غیر معقول مطالبات اور طرز عمل کو نرمی سے قبول کر لیتے ہیں۔ عقلیت پسند مذہبی گروہوں یا غیر منطقی نظریات کی پیروی کرنے والوں سے کم پرعزم کیوں ہیں جو ناقابل یقین اور مضحکہ خیز ہوتے ہیں؟ ایک نوجوان گرو باگیشور دھام بابا ہر ہفتے لاکھوں لوگوں کو اپنے پروگراموں میں شامل ہونے پر قائل کر لیتا ہے۔ انگریزی تعلیم یافتہ مغربی پیروکار بڑی تعداد میں سدھ گرو کے پاس جاتے ہیں۔ بھارت میں جب بھی آپ کا کوئی مذہبی اجتماع ہوتا ہے، بشمول آلودہ دریاؤں میں نہانے کے تہوار کے، تو اس میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ کچھ گرو تو دولت کے معاملے میں فوربس کے ارب پتیوں کو بھی ٹکر دے رہے ہیں اور سیاسی رہنماؤں سے زیادہ اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔ دوسری طرف، ہم عقلیت پسندوں کی کسی بھی تقریب میں صرف مٹھی بھر عقلیت پسندوں کو پاتے ہیں۔

 3. ہو سکتا ہے، عقلیت پسند قدرے زیادہ عقلی ہوں اور اپنے خیالات کو پھیلانا اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا غیر معقول اور غیر ضروری سمجھتے ہوں۔ درحقیقت، منطقی طور پر، عقلی سوچ کو مزید سہارا دینے کی ضرورت ہے، اور اس کی وجہ یہ مشاہدہ کہ صرف سائنسی مزاج ہی ان انتہا پسند نظریات اور مذہبی جنونیت کا مقابلہ کر سکتا ہے جو آج کے دور کے سب سے خطرناک وجودی خطرات بن چکے ہیں۔

 4. لگتا ہے کہ عقلیت پسند کم پرعزم ہیں۔ وہ سماجی دباؤ کی وجہ سے کھل کر سامنے نہیں آتے۔ بلاشبہ، وہ مذہب اور نظریہ تبدیل کرنا نہیں چاہتے۔ وہ اپنے نظریات کی اشاعت کے لیے رقم بھی نہیں دینا چاہتے۔ ہندو بعض اوقات اپنی زندگی کی کمائی مندروں یا گرووں کو پیش کرتے ہیں۔ بہت سے مسلمان زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اپنی زندگی کی بچت حج پر خرچ کرتے ہیں۔ بہت سے متقی عیسائی مرد اور عورتیں اپنی پوری زندگی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیغام کو پھیلانے اور انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ لیکن عقلیت پسند کانفرنسوں میں شرکت کے لیے بھی تیار نہیں۔ انٹرنیٹ پر کئی مطالعات گردش کر رہی ہیں کہ برطانیہ میں ملحد کم سے کم فی کس صدقہ خیرات کرتے ہیں جبکہ مسلمان اس کام میں سرفہرست ہیں۔

 5. لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر مذہب یا عقیدے کی طرف جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر بچپن میں برین واش ہو جانے اور سماجی دباؤ کی وجہ سے مذہب اختیار کرتے ہیں۔ مذہب اور خدا بھی ڈپریشن کی دوا کے طور پر کام کرتے ہیں، وہ سماجی بندھن فراہم کرتے ہیں، شناخت فراہم کرتے ہیں، یہ ایک جھوٹی امید کہ خدا جلد ہی انہیں ان کے مشکل دور سے نکال لے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ صرف یہی زندگی زندگی نہیں ہے - اس سے آگے بہت کچھ ہے؛ اور اگر آپ مر جاتے ہیں یا اس زندگی میں تکلیف اٹھاتے ہیں تو سب کچھ ختم نہیں ہو جاتا۔ مذہب کے مبلغ اور اولیاء کچھ امید دیتے ہیں اور موت کے بعد کسی اچھی چیز کا وعدہ بھی کرتے ہیں - جنت، بہشت یا مختلف قسم کی جنت۔ وہ اپنے پیروکاروں کو سکون اور طمانیت فراہم کرتے ہیں جس سے انہیں محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ ختم نہیں ہو گا۔ ان کے مرنے کے بعد سب کچھ ختم نہیں ہو گا، بلکہ موت کے بعد انہیں بہتر سودا مل سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہ معلوم ہو کہ یہ سب جھوٹے وعدے یا خواب ہیں، تب بھی وہ مایوس افراد کو مزید محنت کرنے یا کچھ حاصل کرنے کی ترغیب دیتے ہی رہیں گے۔ ایک مکمل عقلیت پسند شخص ہو سکتا ہے کہ پر عزم نہ ہو اور اسے اس بات کی فکر نہ ہو کہ اس کے مرنے کے بعد لوگ کیا کہیں گے یا یہاں تک کہ اس کے مرنے کے بعد اس دنیا کا کیا ہو گا کیونکہ وہ اسے دیکھنے یا محسوس کرنے کے لیے یہاں موجود ہی نہیں ہو گا۔

6.       عقلیت پسند مفکرین کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈپریشن کا کوئی عملی حل نہ ہونا ہے۔ ڈپریشن پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ مختلف قسم کے ڈپریشن اور دماغی بیماریوں سے لوگوں کا سائنسی طریقے سے علاج کرنے کے لیے سائیکاٹرسٹ کو مزید فنڈ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ڈپریشن پر بہت کم تحقیق کی گئی ہے، مذہب ہی اب بھی اس کی سب سے آسان دوا ہے۔ مزید یہ کہ زندگی کے مقصد پر سائنسی اور عقلی لحاظ سے بحث ہونی چاہیے۔ انسان کی زندگی کے مقصد کی تلاش میں عقلی انداز اختیار کرنا ہوگا۔ عقلیت پسندوں کو ڈپریشن سے لڑنے کے ذرائع تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ ایک اجتماعی کے طور پر بھی۔ ایک دن ہم ناپید ہو سکتے ہیں۔ کسی دوسرے سیارے پر جائیں یا کسی اور نوع میں تبدیل ہو جائیں۔ افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک فرد، معاشرے یا انسانی نسلوں کے وجود کی مدت تک کے لیے ایک بہتر ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ اب تک عقلیت پسند اس طرح کی ضرورتوں کا متبادل پیدا نہیں کر سکے ہیں۔ عقلیت پسندوں کے پاس سوشل سپورٹ گروپ بھی نہیں ہیں۔ بے شک، اس سلسلے میں کوئی بھی جبر غیر معقول ہے۔ میں کسی منظم عقلیت پسند جماعت کے قیام کی وکالت نہیں کر رہا ہوں بلکہ اپنی مدد آپ کرنے والی جماعتوں کی تشکیل کی وکالت کر رہا ہوں جو مشکل کے وقت میں اور سکون کے لیے اخلاقی مدد فراہم کر سکیں۔

7.       خدا ہمارا دشمن نہیں ہے، بلکہ منظم مذہب ہے۔ منظم مذاہب جدید انسانی تہذیب کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ کچھ فرقے تو اس قدر بالادست ہیں کہ وہ باقی سب کو فنا یا تباہ کر دینا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ عقلیت پسندی کا مطلب الحاد نہیں ہے۔ تمام ملحد عقلیت پسند نہیں ہیں۔ مارکسسٹ-لیننسٹ، کمیونسٹ، نسل پرست اور فاشسٹ بھی ملحد ہوسکتے ہیں، لیکن عقلیت پسند نہیں۔ درحقیقت، کسی خاص نظریے کا پابند کوئی بھی شخص عقلیت پسند نہیں ہو سکتا۔ ایک عقلیت پسند کو آزاد سوچ کا حامل بھی ہونا چاہیے۔ دوسری طرف، ہمیں بہت سے اچھے لوگ ایسے بھی مل سکتے ہیں جو کسی نہ کسی خدا یا ایک اعلیٰ طاقت پر یقین رکھتے ہیں (یا، اپنی ذاتی زندگی میں مذہبی بھی ہو سکتے ہیں) لیکن اپنی سوچ اور عمل میں بڑی حد تک عقلیت پسند ہیں۔ ہم ان کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ وہ بھی ہمارا دائرہ کار ہے۔

8.      میں خدا پر یقین سے چشم پوشی نہیں کر رہا ہوں لیکن ان تمام لوگوں کی مذمت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتا جو کسی نام نہاد آفاقی 'طاقت' پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم ایسے شکی مزاج لوگوں سے زیادہ مقبولیت اور حمایت حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمیں خدا کے بغیر زندگی، نظریات کے بغیر زندگی اور منظم مذاہب سے بالاتر زندگی کے لیے مزید سہارا تلاش کرنا ہوگی۔ یہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور بہت سے معاشروں نے یہ کر کے دکھایا بھی ہے۔ انسان واحد ذات ہے جس نے تہذیب، ثقافت اور مذہب کو تخلیق کیا۔ کیا یہ کائنات ہمارے لیے بنائی گئی ہے؟ کیا اس کائنات کے وجود کا مقصد ہم ہیں؟ یقینی طور پر نہیں۔ لیکن مذاہب نے خدا اور مقدس کتابیں تخلیق کی ہیں تاکہ اس طرح کے تمام سوالات کا آسان اور واضح زبان میں جواب دیا جا سکے۔ انہوں نے یہ بھرم پیدا کیا ہے کہ ہم ایک خاص مخلوق ہیں، خود تخلیق کائنات کا مقصد، اور اس کائنات کے مالک ہیں۔ کچھ مذہبی مبلغین یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ آپ صرف ہمارے راستے پر چل کر برتر بن جاتے ہیں۔ لوگ ان پر یقین کرتے ہیں کیونکہ وہ دوسروں سے برتر بننا چاہتے ہیں۔ وہ خاص اور چنا ہوا بننا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے ان کے اور ان کے عقائد کے تابع ہوں۔ عقلیت پسندوں کو ان کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ہمارے پاس ان تمام سوالات کے جوابات نہیں ہیں جو دوسرے لوگ اٹھا سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے پاس ان میں سے بہت سے سوالات کے جوابات کبھی نہ ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ ہم ہزاروں سالوں سے پھیلی ہوئی پریوں کی کہانیوں پر یقین کرتے رہیں۔

9.   ہزاروں سال پہلے لکھی گئی کتابیں آج بے معنی ہیں۔ یہ ان لوگوں نے لکھی ہیں جنہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ زمین چپٹی ہے یا گول۔ کوئی بھی قانون اور طرز عمل جن میں لوگوں کا کوئی دخل نہ ہو (یا جنہیں انسان تبدیل نہیں کر سکتا) نہ صرف یہ کہ وہ فرسودہ ہیں بلکہ احمقانہ اور غیر انسانی بھی۔ ہزاروں سال پہلے بنائے گئے قوانین اور معمولات کو مسترد کرنے یا مکمل طور پر انہیں ازسرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے، بہت سے معاشرے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کتابوں میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے وہ آنے والے وقتوں تک کے لیے آفاقی اور حتمی ہے۔ مذہبی معاشروں میں زیادہ تر لوگوں کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ توہین مذہب اور سماجی بائیکاٹ کی تلوار انہیں خاموش اور خوفزدہ رکھتی ہے۔ اس سماجی دہشت گردی کی مخالفت کرنا ہوگی۔ اس معاملے میں، کوئی بھی نظریہ جو جبر و اکراہ کا باعث بنتا ہے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ہم انسان بنا کر پیدا کیے گئے ہیں روبوٹ بنا کر نہیں۔ ایک حقیقی عقلیت پسند کے لیے، یہاں تک کہ قومی ریاست اور قوم پرستی کا تصور بھی غیر معقول لگتا ہے۔ لیکن، انسانی تہذیب کے اس مرحلے پر، ایسا لگتا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

10.     مذاہب سے لڑنے کے طریقہ کار پر اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ مذہبی تنظیموں اور فرقوں کی غنڈہ گردی اور مافیا پر تنقید کرنے والوں کے تحفظ کو کیسے یقینی بنایا جائے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں ہر روز ملحدوں اور لا ادریہ لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ کچھ ممالک میں توہین مذہب کے قوانین کے تحت خود ریاست کی طرف سے ایسا کیا جاتا ہے، جب کہ کئی جگہوں پر اس طرح کے قتل کی سماجی پذیرائی اور حمایت بڑھ رہی ہے۔ اگر اکثریت اپنی آواز کو فعال طور پر اٹھائے تو اس طرح کے قتل عام نہیں ہو سکتے۔

11. ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کی اکثریت کو عقلی پسند لٹریچر اور افکار تک رسائی ہی حاصل نہیں ہے۔ انہیں آگاہ کرنے کے لیے بنیادی سطح پر عقلی تعلیم کے ذریعے مزید اشاعتیں اور ٹھوس کوششیں ضروری ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں آسان زبان میں مزید ویب سائٹیں اور جرائد شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ عقلیت پسندانہ ایجنڈے والے ٹی وی چینل شروع کرنے ہوں گے۔ عقلیت پسندانہ مباحثوں کے لیے مزید یوٹیوب چینل بنانے اور پھیلانے کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوری ممالک میں عقلیت پسندوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلانا اور انہیں اپنے طور پر ووٹ بینک بننا ضروری ہے۔

12.    آخری لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ، عقلیت پسندوں کو ایک دوسرے سے سیکھنے کے لیے بین الاقوامی اتحاد ہونا چاہیے۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک نے اپنے شہریوں کی سائنسی اور عقلی سوچ کے لحاظ سے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان ممالک میں مذاہب کا اثر بہت کم ہے۔ یہ ممالک خوشی کا اشاریہ سب سے زیادہ ہے اور یہاں کی جمہوریت اور مساوات اعلیٰ درجے کی ہے۔ دوسری طرف بہت سے ترقی پذیر ممالک الٹی سمت میں جا رہے ہیں۔ ان کے حکمران طبقے جمہوریتوں کو پامال کرنے کے لیے مذاہب کو استعمال کر رہے ہیں اور اپنے قوانین میں قرون وسطیٰ کے مذہبی تصورات کو متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

English Article: Can Rationalists Fight Religious Bigots ?: Transcript Of A Speech By Ambassador Ashok Sharma In Delhi

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/rationalists-religious-bigots/d/129339

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..